Nai Baat:
2025-04-15@06:41:18 GMT

فیصل آباد کا تھانہ یا مقتل گاہ

اشاعت کی تاریخ: 11th, January 2025 GMT

فیصل آباد کا تھانہ یا مقتل گاہ

میں آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان انور سے بہت مودبانہ ایک سوال پوچھنا چاہتا ہوں،مو¿دبانہ میں نے اس لئے کہا وہ میرے مہربان ہیں،میں نے جب بھی کسی مظلوم کے لئے ان سے گزارش کی ایک بار بھی ایسا نہیں ہوا ا±نہوں نے فوری ایکشن نہ لیا ہو،میں نے اپنے بیشمار کالموں میں ان کے ”سیاسی کردار“ پر بہت تنقید کی،ا±س پر وہ منہ بسور کر نہیں بیٹھ گئے،نہ اپنا رابطہ توڑا،ان کی اس اعلیٰ ظرفی پر مجھے ہمیشہ آصف زرداری یاد آ جاتے ہیں،پچھلی بار وہ جب صدر پاکستان تھے میں ان دنوں نوائے وقت میں لکھتا تھا،میرا ہر دوسرا کالم ان کی کچھ ناقص پالیسیوں اور مبینہ کرپشن کے خلاف ہوتا تھا،اکثر ا±ن کا فون آجاتا،وہ بڑی محبت سے فرماتے ”آپ نے میرے بارے میں اپنی معلومات کے مطابق شاید درست ہی لکھا ہوگا،ہمیں تو صرف آپ کو اپنا دوست بنانا ہے اور اس کے لئے ہم کوشش کرتے رہیں گے“،کبھی کبھی میں سوچتا ہوں ایسی قوت برداشت اور ایسا اعلیٰ ظرف ہمارے دیگر سیاستدانوں،حکمرانوں،سول،فوجی و عدالتی حکمرانوں کا بھی اگر ہوتا آج عدم برداشت کے جس بدترین کلچر نے پورے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے اور اس کے جو تباہ کن اثرات اور نقصانات م±لک کو ہو رہے ہیں ممکن ہے ہم اس سے محفوظ رہتے،میں اپنے مہربان آئی جی عثمان انور سے پوچھنا چاہتا ہوں”تھانوں کی عمارات کی تزئین و آرائش پر کروڑوں اربوں خرچ کرنے کا کیا فائدہ ہوا اگر اندر کا بدصورت ماحول ہی تبدیل نہیں ہوا ؟ پنجاب پولیس کی روایتی بدصورتیاں تو پہلے سے زیادہ بڑھ گئی ہیں،اب اپنی جائز شکایت یا درخواست لے کر تھانے جاتے ہوئے بھی ہزار بار کوئی سوچے گا کہیں یہ نہ ہو وہ تھانے میں بیٹھا ہو حملہ آور آئیں اور اپنے مخالفوں کے ساتھ ساتھ اسے بھی مار کر چلے جائیں،فیصل آباد میں مسلح افراد تھانے میں داخل ہوئے اور حوالات میں بند اپنے مخالف تین سگے بھائیوں و دیگر افراد کو مار کر فرارہوگئے،ارے یہ کوئی معمولی واقعہ ہے جس کے اصل اور بڑے ذمہ داران کے خلاف کوئی بڑا ایکشن ابھی تک سامنے نہیں آیا ؟ کیا پنجاب کے حکمران اتنے بے حس ہیں اتنے بڑے سانحے پر چپ سادھے ہوئے ہیں ؟ بظاہر یہ سانحہ پولیس کی ملی بھگت کے بغیر ممکن نہیں ہوسکتا،اور اس پولیس کی ملی بھگت کے بغیر تو بالکل ہی نہیں ہوسکتا جس کے سربراہ کی شہرت کا مجھ سے زیادہ آئی جی پنجاب کو پتہ ہے،وہ جب لاہور میں تعینات تھا کچھ انچارج انویسٹی گیشنز بتاتے تھے ”صاحب کی منتھلی چار دن لیٹ ہوجائے ا±ن کا پی ایس او کہتا ہے“ابھی تک صاحب کو سلام کرنے کیوں نہیں آئے ؟ “،ایسی ہی باتیں کچھ تھانوں کے انچارج انویسٹی گیشنز ماضی کے ایک اور ڈی آئی جی انویسٹی گیشن لاہور کے بارے میں بھی کرتے ہیں مگر میں اس لئے یقین نہیں کرتا ا±س ڈی آئی جی کے بارے میں عمومی تاثر یہ ہے ا±سے بلال صدیق کمیانہ کی بھرپور سرپرستی میسر ہے اور بلال صدیق کمیانہ کے بارے میں کوئی یہ نہیں کہتا وہ بدیانت ہے،شکرہے اس وقت انویسٹی گیشن لاہور پولیس میں بطور ڈی آئی جی ذیشان اصغر اور بطور ایس ایس پی محمد نوید ایسے پولیس افسران تعینات ہیں جن کی ایمانداری اور اہلیت پر کبھی کوئی انگلی نہیں ا±ٹھی ،جہاں تک فیصل آباد شہر میں تعینات ڈی آئی جی کا تعلق ہے اس کی بددیانتیوں کے بھی بیشمار واقعات لوگوں نے مجھے شواہد کے ساتھ بتائے،میں نے کسی پر یقین اس لئے نہیں کیا کہ جس ڈی آئی جی کے بارے میں ہمارے بھائی سینئر پولیس افسر طارق عباس قریشی اچھی رائے رکھتے ہوں ا±وپر سے وہ ڈی آئی جی خود کو عامر ذوالفقار جیسے نفیس پولیس افسر کا شاگرد قرار دیتا ہو وہ اس قدر گھٹیا لیول کا بددیانت ہو ہی نہیں سکتا،البتہ جو نااہلی ایک انتہائی اہل و ایماندار پولیس افسر آر پی او ڈاکٹر عابد خان کی ماتحتی میں وہ مسلسل دکھائے چلے جا رہاہے اس پر مجھے حیرت ہوتی ہے،ڈاکٹر عابد خان نے بطور آر پی او فیصل آباد تین چار اضلاع کا نظام دیکھنا ہوتا ہے،ا±ن سے میری گزارش ہے جب تک یہ سی پی او تعینات ہے اپنی زیادہ توجہ فیصل آباد پر دیں ورنہ اپنے ساتھ یہ آپ کی عزت اور ساکھ بھی داو پر لگا دے گا،فیصل آباد میں تھانے میں داخل ہو کر چار افراد کو قتل کرنے کے سانحے پر خصوصی کمیشن بننا چاہئے جس میں کچھ ایسے دیانتدار ریٹائرڈ پولیس افسران کو بھی شامل ہونا چاہئے جنہیں یہ خطرہ نہ ہو انہوں نے اگر میرٹ پر کوئی فیصلہ کیا کوئی ا±ن کی اے سی آر خراب کر دے گا یا آئندہ انہیں کوئی اچھی پوسٹنگ نہیں ملے گی،یہ کمیشن یہ سراغ بھی لگائے کہ اس سانحے سے اپنی ک±تی طبیعت کے مطابق کسی افسر نے کوئی بھاری مالی فائدہ تو نہیں اٹھایا ؟ کیونکہ یہ سانحہ سر ا±ٹھا ا±ٹھا کر بول رہا ہے مالی فائدہ اٹھائے بغیر یہ ممکن نہیں ہو سکتا،تھانوں اور ا±ن میں بیٹھی کرپٹ اور نکمی پولیس سے عوام کا اعتماد مکمل طور پر ا±ٹھ رہا ہے ،نمائشی ڈراموں سے اس اعتماد کو بحال کرنے کی کوئی کوشش کامیاب نہیں ہو رہی،گھٹیا ذہنیت کے حامل پولیس افسران صحافیوں کا منہ بند کرنے کے لئے پہلے کچھ دوستوں سے ا±نہیں سفارشیں اور گزارشیں کراتے ہیں بعد میں کرائم رپورٹروں کو بڑے فخر سے بتاتے ہیں ”میں نے اس کا منہ بند کرا دیاہے“،بندہ پوچھے تم نے کون سا ساری زندگی کے لئے اس کا منہ بند کرا دیاہے ؟،مسلسل منہ بند کرانے کے لئے تم اپنی کارکردگی بہتر کرو،اپنا ایمان زندہ رکھنے کی ہلکی پھلکی کوشش کرو،جس کا ایک طریقہ یہ بھی ہے تماری اوقات سے بڑھ کر کسی پوسٹنگ سے تمہیں کوئی نوازنے لگے تم یہ کہہ کے معذرت کر لو کہ اس عہدے پر میرا حق نہیں بنتا،مجھ سے بہت سینئر اور محنتی افسران موجود ہیں انہیں آزمایا جائے،اور اگر کوئی تمہیں اپنی ٹوئٹ میں سرعام کرپٹ قرار دے ا±سے گول کرنے کے بجائے ا±س پر ایکشن لو،یہاں وزیراعظم کے سفارشی بدلتے دیر نہیں لگتی تم کس کھیت کی مولی ہو ؟ آئی جی صاحب آپ سے گزارش ہے پولیس کو مراعات آپ نے بہت دے دیں،ماتحتوں کا خیال رکھنے کی آخری حد تک آپ چلے گئے،اندھا دھند ترقیاں چاہے کسی خاص مقصد کے لئے ہی دیں ہم آپ کے اس عمل کو بھی سراہتے ہیں،اب کچھ توجہ پولیس کا قبلہ خاص طور پر اپنے پیٹی بند بھائیوں یعنی پی ایس پی کلاس سے تعلق رکھنے والے کچھ بددیانتوں اور نااہلوں کا قبلہ درست کرنے پر بھی دیں،اس کے لئے بسم اللہ فیصل آباد کے تھانے میں ہونے والے سانحے کی صاف شفاف تحقیقات کروا کر کریں،اس کے ذمہ داران کو سزا اگر آپ خود دینے کے مجاز نہیں تو جو دینے کے مجاز ہیں ان سے سفارش کریں،تاکہ تھوڑا بہت بھرم جو پنجاب پولیس کا دیگر صوبوں کی پولیس کے مقابلے میں ابھی تک بہتر ہے وہ قائم رہ سکے۔

.

ذریعہ: Nai Baat

کلیدی لفظ: کے بارے میں پولیس افسر تھانے میں فیصل آباد ڈی آئی جی نہیں ہو کے لئے

پڑھیں:

اسکاٹ لینڈ ویمن کرکٹ ٹیم میں سابق پاکستانی کرکٹر کی نواسی شامل

آئی سی سی ویمنز کرکٹ ورلڈ کپ کوالیفائیر کے لیے پاکستان میں موجود اسکاٹ لینڈ ویمن کرکٹ ٹیم میں پاکستان کے سابق ٹیسٹ کرکٹر، مینجر اور سلیکٹر کرنل ریٹائرڈ نوشاد کی نواسی مریم فیصل بھی شامل ہیں۔

19 سالہ مریم فیصل 1 ون ڈے اور 6 ٹی ٹوئنٹی میچز میں اسکاٹ لینڈ کی نمائندگی کر چکی ہیں۔

لاہور میں نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے مریم فیصل نے بتایا کہ اپنے نانا کی وجہ سے میں اور میرے جڑواں بھائی نے کرکٹ شروع کی، نانا کو میں پیار سے بابا کہتی تھی، انہوں نے مجھے بہت سپورٹ کیا۔

انہوں نے بتایا کہ بابا دبئی میں سری لنکا کے خلاف سیریز میں پاکستان ٹیم کے منیجر تھے، ہم دیکھنے گئے تھے وہاں سے مجھے کرکٹ کا شوق ہوا، ویسے تو مجھے کرکٹ بالکل پسند نہیں تھی، میچ کے دوران میں سو گئی تھی، واپس آئے تو بھائی نے کلب جوائن کیا تو پھر میں نے بھی کرکٹ شروع کر دی۔

مریم فیصل نے بتایا کہ میں انڈر 19 میں فلاپ ہو گئی تو بابا نے حوصلہ افزائی کی پھر اگلا سیزن اچھا کھیلا، بابا نے مجھے اور میرے بھائی کو کبھی زبردستی کرکٹ کھیلنے کے لیے نہیں کہا تھا، وہ چاہتے تھے کہ بس ہم کھیلوں میں آئیں۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان میں آ کر کھیلنا اچھا لگ رہا ہے، یہ ایک مختلف احساس ہے کیونکہ جہاں سے آپ کا تعلق ہو وہاں کھیلنا ایک خواب ہوتا ہے تو میرا یہ خواب پورا ہو رہا ہے۔

مریم فیصل کا کہنا ہے کہ دیسی لڑکیاں کھیل میں نہیں آتیں، شاید فیملی کی وجہ سے یا ان کی خود دلچسپی نہیں ہوتی، میرا خیال ہے کہ دیسی لڑکیوں کو یہ بتانا چاہیے کہ وہ کہیں بھی جا کر کچھ بھی کر سکتی ہیں۔

Post Views: 4

متعلقہ مضامین

  • سابق ایس ایچ او سمیت 15 پولیس اہلکار ملازمتوں سے برطرف، وجہ بھی سامنے آ گئی
  • پی ٹی آئی والے 26 نومبر کی ٹھکائی کے بعد اب اسلام آباد نہیں آئیں گے، طلال چوہدری
  • منشیات فروشوں سے رابطوں پر سابق ایس ایچ او سمیت 15 پولیس اہلکار ملازمتوں سے برطرف
  • اسلام آباد: منشیات فروشوں سے رابطوں پر سابق ایس ایچ او سمیت 15 پولیس اہلکار ملازمتوں سے برطرف
  • فیصل آباد فوٹو جرنلسٹ ایسوسی ایشن پریس کلب (رجسٹرڈ) کی جانب سے ممبران میں یونین کارڈز تقسیم، صدر و سیکرٹری سمیت سینئرز کی بھرپور شرکت
  • ڈی چوک احتجاج، 86 پی ٹی آئی کارکنان کی درخواستِ ضمانت پر فیصلہ محفوظ
  • ایس ایچ او تھانہ سبزی منڈی فواد خالد کی دلیرانہ کاروائی،ریکارڈ یافتہ اشتہاری ہلاک
  • اسکاٹ لینڈ ویمن کرکٹ ٹیم میں سابق پاکستانی کرکٹر کی نواسی شامل
  • شاہراہ فیصل واقعہ، ڈمپر ڈرائیور نے خود کو پولیس کے حوالے کردیا
  • وقف قانون میں 44 خامیاں ہیں حکومت کی منشا وقف املاک پر قبضہ کرنا ہے، مولانا فیصل ولی رحمانی