ہشت گردوں کی بیخ کنی کا عزم صمیم
اشاعت کی تاریخ: 11th, January 2025 GMT
د
بی بی سی نیوز کے مطابق مسلح افراد نے پاکستان اٹامک انرجی کمیشن کے 17ملازمین کو اغوا کر لیا ہے۔ تحریک طالبان پاکستان نے اغوا کنندگان کے محکمانہ سرکاری شناختی کارڈز کی تصاویر بھی جاری کر دی ہیں۔ فتنہ الخوارج نے لکی مروت کے علاقے قبول خیل میں ملازمین کو اغوا کیا جن میں سے 8کو تاحال بازیاب بھی کرا لیا گیا ہے۔ ذرائع کے مطابق دہشت گردوں نے ملازمین کو اغوا کرنے کے بعد مقامی ٹھیکیدار کی گاڑی کو آگ لگا دی۔
ٹی ٹی پی نے اب پاکستان اٹامک انرجی کمیشن کے ملازمین کو نشانے پر رکھ لیا ہے۔ اٹک اور راولپنڈی میں بھی اغوا کے واقعات رونما ہو چکے ہیں۔ اطلاعات ہیں کہ فتنہ الخوارج اب پنجاب میں اپنی مذموم کارروائیاں کرنے کی منصوبہ سازی کر رہا ہے۔ اس بارے میں کسی کو شک نہیں ہونا چاہئے کہ پاکستان ایک عرصے سے حالت جنگ میں ہے۔ صوبہ کے پی ہو یا بلوچستان، دونوں صوبوں میں اندرونی اور بیرونی دشمن کے ساتھ ریاست پاکستان کی جنگ جاری ہے۔ یہ جنگ پاکستان کی سلامتی اور بقا کی جنگ ہے یہ سادہ سی دہشت گردی کے معاملات نہیں ہیں۔ اس دہشت گردی کے پیچھے، ہمارا دشمن بھارت اور دیگر ممالک کی خفیہ ایجنسیاں بھی شامل ہیں جو ایسے لوگوں کو فکری و نظری، اسلحہ اور مالی امداد فراہم کرتی ہیں جو پاکستان سے علیحدگی کے لئے لڑ رہے ہیں، انہیں بھارت کے ساتھ ساتھ افغانستان کے کچھ گروہوں کی حمایت بھی حاصل ہے۔ ڈیورنڈر لائن کا مسئلہ تو ایک مسلمہ حقیقت ہے۔ افغان حکمران اسے مانتے ہی نہیں ہیں۔ وہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان سرحدی تقسیم کو غیر منصفانہ قرار دیتے ہیں لیکن کابل میں طالبان کی حکومت قائم ہو جانے کے بعد یہ معاملہ شاید کسی نہ کسی حد تک دب گیا ہے، ختم نہیں ہوا ہے۔
پاکستان میں، علیحدگی کی تحریک اور فتنہ الخوارج کچھ گڈ مڈ ہو چکے ہیں ہم یہ بھی دیکھ چکے ہیں کہ صوفی محمد کی سوات میں اسلامی ریاست قائم کرنے کی کاوشیں کیا رنگ لائی تھیں۔ ہم نے دسمبر 1979ءمیں جب اشتراکی افواج کے افغانستان پر قبضے کے بعد مجاہدین افغانستان کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا تو ہم اشتراکی فوج کے خلاف جنگ کا حصہ بن گئے پھر اس جنگ میں امریکہ اور اقوام مغرب بھی شامل ہو گئیں لیکن ہم فرنٹ لائن ریاست کے طور پر فعال اور موثر کردار ادا کرتے رہے۔ اس کے ہمیں بہت سے فائدے بھی حاصل ہوئے۔ اسی افغان جنگ کے دوران پاکستان مغربی دنیا کی آنکھ کا تارا بنا رہا۔ ڈالر یہاں پانی کی طرح بہہ رہے تھے۔ پوپ جان پال نے افغان جنگ کو شیطان کیخلاف جہاد قرار دیا جس کے باعث مغرب کا مذہبی طبقہ بھی یکسوئی کے ساتھ اس جنگ میں شریک ہوا۔ یہاں تفصیلات لکھنے کا وقت نہیں ہے کہ یہ لوگ کس طرح جہاد میں شریک ہوئے صرف اتنا جان لینا کافی ہے کہ افغانستان کے دشوار گزار پہاڑوں اور وادیوں میں جہاں انسان کا پہنچنا محال تھا وہاں مغرب کے نوجوان ڈاکٹر (خواتین و حضرات) افغانوں کی مدد کے لئے پہنچتے تھے بہرحال یہ مغرب کی اسی پالیسی کا نتیجہ تھا کہ عالمی سطح پر پاکستان کو پذیرائی ملتی تھی۔ بھارت کا سفارتی مقام ٹھپ ہو گیا تھا۔ پاکستان نے اسی دور میں نہ صرف اپنی دفاعی قوت بڑھائی بلکہ ایٹمی پروگرام بھی مکمل کر لیا۔ ہم نے اپنی سرحدیں افغان مہاجرین کے لئے کھول دی تھیں۔ مجاہدین کو محاذ جنگ پر گولی اور روٹی پہنچانے کا فریضہ بھی سرانجام دیتے تھے۔ افغان عوام کی جدوجہد آزادی کامیاب ہوئی، افغان مجاہدین جیت گئے، روسی افواج واپس لوٹ گئیں۔ افغانستان خانہ جنگی کا شکار ہو گیا۔ ہم نے افغانستان کی داخلی سیاست میں حصہ لینا شروع کر دیا۔ اسی دور میں جنرل حمید گل کی زیرقیادت کابل میں مجاہدین کی حکومت قائم کرنے کے لئے آپریشن جلال آباد کیا گیا جو بری طرح ناکام ہوا۔ ڈاکٹر نجیب اللہ کی حکومت نہیں گرائی جا سکی۔ پاکستان کی خاصی بدنامی ہوئی۔ ہم پھر بھی کبھی حکمت یار کی کبھی استاد ربانی کی اور کبھی مجددی کی حکومت بنانے اور گرانے میں ملوث ہو گئے۔ جنرل ضیاءالحق تو 17اگست 1988ءمیں منظر سے ہٹا دیئے گئے تھے، سی ون تھرٹی کے حادثے میں افغان جنگ لڑنے والی ہماری قیادت ختم کر دی گئی۔ جنرل حمید گل کے علاوہ بڑے جرنیل اس حادثے میں شہید ہو گئے تھے۔
خانہ جنگی کے بعد طالبان ابھرے اور 2001میں 9/11کے سانحے کے بعد یہاں امریکی اتحادی افواج آ گئیں۔ ہم نے امریکی اتحادی بننے کا فیصلہ کیا اور اپنی افغان پالیسی کو 180درجے پر تبدیل کر لیا۔ حد یہ ہے کہ ہم نے اسلام آباد میں افغان سفیر ملا ضعیف کو پکڑ کر امریکیوں کے حوالے کرنے میں بھی شرم محسوس نہیں کی۔ ہم نے طالبان حکومت کو باضابطہ طور پر تسلیم کر رکھا تھا انہوں نے عالمی قواعد و ضوابط کے مطابق اسلام آباد میں سفارتخانہ قائم کیا تھا اور ان کے سفیر کی حیثیت مسلمہ تھی لیکن ہم نے ایک امریکی ٹیلیفون پر اپنی دس سالہ افغان پالیسی پر خط تنسیخ پھیر کر سفیر کو امریکیوں کے حوالے کر دیا پھر 20سال تک ہم امریکی حلیف بنے رہے لیکن درپردہ امریکیوں کے خلاف لڑنے والے طالبان کے ساتھ بھی تعلق قائم رکھے رہے۔ ہماری پالیسی دوغلی تھی۔ ہماری زمین، ہماری فضا طالبان کے خلاف امریکیوں کے زیر استعمال تھی لیکن ہم نے طالبان لیڈروں کو، ان کے خاندانوں کو اپنے ہاں پناہ بھی دے رکھی تھی۔ ہماری ایسی ہی پالیسیوں کے باعث، دہشت گردی کے خلاف لڑی جانے والی جنگ افغان بارڈر سے سلپ ہو کر ہمارے بندوبستی علاقوں تک ہی نہیں پھیلی بلکہ کراچی کے ساحلوں تک پھیل گئی۔ امریکی یہ جنگ ہار کر کئی سال پہلے افغانستان سے رخصت ہو چکے ہیں ان کی اعلان کردہ جنگ ختم ہو چکی ہے لیکن یہ جنگ ہمارے کھاتے میں چڑھ چکی ہے۔ پاکستان کے خلاف لڑنے والے گروہوں کے ہاتھ امریکی فوج کا چھوڑا ہوا جدید اسلحہ ان کے ہاتھ آ چکا ہے، ان کی حملہ آور ہونے کی صلاحیت کئی گنا بڑھ چکی ہے۔ ہمارا خیال تھا کہ طالبان کی کابل میں حکومت قائم ہونے کے بعد ہماری شمال مغربی سرحدیں محفوظ ہو جائیں گی۔ 14اگست 2021ءکو جب امریکی یہاں سے بھاگے اور طالبان کابل پر قابض ہو گئے تو ہم نے جشن فتح منایا تھا لیکن ہماری امیدیں بر نہ آ سکیں۔ افغانستان ہمارے خلاف لڑنے والے گروہوں کی محفوظ پناہ گاہ بن چکا ہے ایک فرق ضرور ہے پہلے امریکہ بھارت اور افغان حکومت ایسے گروہوں کی حوصلہ افزائی کرتا تھا انہیں امداد دیتا تھا کہ وہ ہم پر حملہ آور ہوں لیکن اب دہشت گردوں کو ایسی سہولیات حاصل نہیں ہیں۔ امریکی افواج کے انخلا کے بعد عمران حکومت نے کچھ ایسی غلطیاں کیں جن کے ہولناک نتائج نکلے۔ دہشت گردوں کو پاکستان میں دوبارہ قدم جمانے کے مواقع ملے اور اب وہ زیادہ قوت کے ساتھ پاکستان پر حملہ آور ہیں۔ پاکستان کی مسلح افواج اور دیگر ریاستی و مملکتی ادارے ان کے سامنے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کر کھڑے ہیں ان کا قلع قمع کرنے کا عزم صمیم اور قربانیاں دینے کا محکم ارادہ اس بات کا ثبوت ہے کہ اس دفعہ اس ناسور کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا جائے گا۔ ان شاءاللہ۔
ذریعہ: Nai Baat
کلیدی لفظ: امریکیوں کے پاکستان کی کی حکومت کے ساتھ کے خلاف لیکن ہم کے بعد کے لئے
پڑھیں:
دہشت گردوں کی 10 نسلیں بھی بلوچستان اور پاکستان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتیں، آرمی چیف
اسلام آباد(نیوز ڈیسک)چیف آف آرمی اسٹاف جنرل عاصم منیر نے کہا ہے کہ پاکستان کے دشمنوں کا یہ خیال ہے کہ مٹھی بھر دہشت گرد پاکستان کی تقدیر کا فیصلہ کر سکتے ہیں جبکہ دہشت گردوں کی 10 نسلیں بھی بلوچستان اور پاکستان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتیں۔
چیف آف آرمی اسٹاف جنرل سید عاصم منیر نے پہلے اوورسیز پاکستانیز کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ میں آج بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے جذبات دیکھ کر بہت متاثر ہوا ہوں اور میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ آپ کے لیے ہمارے جذبات اس سے بھی زیادہ مضبوط ہیں۔
انہوں نے کہا کہ آپ صرف پاکستان کے سفیر ہی نہیں بلکہ پاکستان کی وہ روشنی ہیں جو پورے اقوام عالم پر پڑتی ہے، جو لوگ برین ڈرین کا بیانیہ بناتے ہیں، وہ جان لیں کہ یہ برین ڈرین نہیں بلکہ برین گین ہے اور بیرون ملک پاکستانی اس کی عمدہ ترین مثال ہیں۔
سمندر پار پاکستانیز کو مخاطب کرکے ان کا کہنا تھا کہ آپ سب پاکستان کی کہانی اپنی اگلی نسل کو سنائیں گے اور وہ کہانی جس کی بنیاد پر ہمارے آباواجداد نے پاکستان حاصل کیا۔
آرمی چیف نے کہا کہ کیا پاکستان کے دشمنوں کا یہ خیال ہے کہ مٹھی بھر دہشت گرد پاکستان کی تقدیر کا فیصلہ کر سکتے ہیں، دہشت گردوں کی 10 نسلیں بھی بلوچستان اور پاکستان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتیں۔
ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان پاکستان کی تقدیر اور ہمارے ماتھے کا جھومر ہے، جب تک اس ملک کے غیور عوام افواج پاکستان کے ساتھ کھڑے ہیں، آپ کی فوج ہر مشکل سے باآسانی سے نبرد آزما ہو سکتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے پاکستان کو بے بہا وسائل سے نوازا ہے جس پر ہمیں ہر وقت شکر ادا کرنا چاہیے، ہم آج مل کر یہ واضح پیغام دے رہے ہیں کہ “جو پاکستان کی ترقی کے راستے میں حائل ہو گا ہم مل کر اُس رکاوٹ کو ہٹا دیں گے”۔
آرمی چیف نے اوور سیز پاکستانیوں سے مخاطب ہو کر کہا کہ “آپ جس ملک میں بھی ہوں، یاد رکھیں کہ آپ کی میراث ایک اعلیٰ معاشرے، نظریے اور تہذیب سے ہے”، نامساعد حالات کے آگے بطور مسلمان اور پاکستانی نہیں گھبراتے، ہم کبھی بھی مشکلات اور دشواریوں کے سامنے نہ جھکے ہیں اور نہ جھکیں گے۔
انہوں نے کہا کہ جب تک اس ملک کے غیور عوام افوج پاکستان کے ساتھ کھڑے ہیں پاکستان کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا، قوم اپنے شہدا کو نہایت عزت اور وقار کی نظر سے دیکھتی ہے، ان کی قربانی لازوال ہے جس پر کبھی ملال نہ آنے دیں گے۔
آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے کہا کہ ہم پاکستان کو اس مقام پر لے جانا چاہتے ہیں جس کا خواب قائداعظم نے دیکھا تھا اور آپ ہمیشہ اپنا سر فخر سے بلند رکھیں کیونکہ آپ کا تعلق کسی عام ملک سے نہیں بلکہ آپ ایک عظیم اور طاقت ور ملک کے نمائندے ہیں۔
اپنے خطاب میں آرمی چیف کا کہنا تھا کہ کشمیر پاکستان کی شہ رگ تھا، ہے اور ہمیشہ رہے گا، اسی طرح پاکستانیوں کا دل ہمیشہ غزہ کے مسلمانوں کے ساتھ دھڑکتا ہے۔
آرمی چیف نے کہا کہ پاکستان کی ترقی کا سفر جاری ہے، سوال یہ نہیں کہ پاکستان نے کب ترقی کرنی ہے بلکہ اصل سوال یہ ہے کہ پاکستان نے کتنی تیزی سے ترقی کرنی ہے۔
اپنے خطاب کے اختتام پر آرمی چیف اور شرکا نے “پاکستان ہمیشہ زندہ باد” کا نعرہ لگایا۔
مزیدپڑھیں:ایشوریا رائے کی بیٹی کی فلمی دنیا میں انٹری؟ نجومی نے بڑی پیشگوئی کردی