Nai Baat:
2025-01-18@18:18:11 GMT

اقتدار آمدن کا ذریعہ

اشاعت کی تاریخ: 11th, January 2025 GMT

اقتدار آمدن کا ذریعہ

چینی کہاوت ہے گھرمیں لگی آگ دورکے پانی سے نہیں بجھائی جا سکتی ۔مگر طالبان حکومت ہمسایہ ممالک کومسائل میں الجھا کرمستحکم ہونے کے چکرمیں ہے وہ اپنی سرحدوں سے دورآباد ممالک کا اعتماد حاصل کرنے اور اقتدار کو ذریعہ آمدن بنانا چاہتی ہے جس سے خطے میں انتشار وافراتفری بڑھنے کا اندیشہ ہے پاکستان سے سرحدی مسائل کوہوادینااکثر افغان حکومتوں کا مشغلہ رہا ہے حالانکہ دونوں ممالک کے عوام میں بہت قربت ہے مذہبی کے ساتھ کاروباری روابط ہیںمشترکہ ثقافت ہے رشتہ داریاں ہیں دونوں ممالک کی آبادی کا ایک دوسرے کی طرف آنا جانالگا رہتاہے جسے باوجود کوشش ختم نہیں کیا جا سکتا لیکن سچ یہ ہے کہ افغان عوام کا ساتھ دینے کی پاداش میں پاکستان نے ہمیشہ نقصان اُٹھایا ہے نہ صرف روس کی مخالفت کا سامنا کیابلکہ امریکی ناراضی کی وجہ بھی افغانستان ہے لاکھوں افغانوں کی عشروںسے مہمان نوازی کے باوجودطالبان کاحالیہ رویہ ناقابلِ فہم ہے بھارت جس نے ہر حملہ آور کا ساتھ دیا اورکابل کی کٹھ پتلی حکومتوں کی سرپرستی کی وہ آج طالبان کا بااعتماد اور قریبی دوست ہے مزیدیہ کہ اِس اعتماد و دوستی کومزید مضبوط اور مستحکم بنانے کے لیے طا لبان حکومت کوشاں ہے۔
روس نے افغانستان پر حملہ کیا تو بھارت نے روس کاساتھ دیا امریکی اور نیٹو افواج مشترکہ طورپر حملہ آور ہوئیں تو بھی ہرممکن مددکی حامد کرزئی سے لیکر اشرف غنی جیسی کٹھ پتلیوں کو حقیقی قیادت کہتارہاجبکہ پاکستان نے ہمیشہ غیر ملکی افواج کی مخالفت کی جس کی پاداش میں ڈرون حملوں کا نشانہ بنتا رہا۔ تمام تر نقصانات کے باوجود پاکستان کااصولی موقف رہا کہ افغان عوام کو اپنی حکومت کے انتخاب کا حق دیاجائے غیر ملکی افواج کے انخلا کے دوران تعاون کی وجہ بھی یہ تھی کہ افغانستان کی آزادی وخود مختاری بحال ہولیکن آج جب افغان حکومتی منظر نامہ دیکھتے ہیں تو بھارت زیادہ قریب اورپاکستان دورہوتانظرآتاہے حالانکہ 2021 میںغیر ملکی افواج کے انخلا سے توقع تھی کہ پاکستان میں دہشت گردی کا سلسلہ ختم ہوگا اور دونوں برادرممالک ترقی و خوشحالی کی طرف مشترکہ سفرشروع کریں گے لیکن ایسا کچھ نہیں ہو سکابلکہ آج بھی افغان سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال ہو رہی ہے مزید ستم ظریفی یہ کہ افغان حکومت پاکستان مخالف عناصر کی مہمان نواز اور اپنے اقتدار کو آمدن کا ذریعہ بنانے کی روش پرگامزن ہے۔
یہ تو روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ اسرائیل کے بعد امریکہ سے امداد لینے والا دنیاکا سب سے بڑا ملک افغانستان ہے یہ امداد سالانہ دوارب ڈالر سے تجاوز کر چکی ہے قابلِ غور پہلو یہ کہ جس امریکہ کو ملک سے نکالنے کے لیے طالبان کی قیادت میں افغانوں نے طویل جدوجہد کی اور جانی و مالی نقصانات اُٹھائے اُسی امریکہ سے اُلفت کا رشتہ کیوں ہے نیز آج بھی کابل میں سی آئی اے کا محفوظ اور متحرک ٹھکانہ کیوں موجودہے؟ ایک ہی وجہ سمجھ آتی ہے کہ طالبان سے ہمسایہ ممالک کے خلاف کام کرنے کے معاملات طے کرنے کے عوض ادائیگی جاری ہے اور یہ کہ خطے کے خلاف کام کرنے کے حوالے سے طالبان اور امریکہ ایک ہیں علاوہ ازیں حامدکرزئی اوراشرف غنی کی طرح طالبان قیادت بھی دولت حاصل کرنے کے چکرمیں ہے اور دولت کے لیے کاروباری، مشترکہ ثقافتی اقدار ،لسانی اور قریبی رشتے داریاں تو ایک طرف مذہبی رشتے تک قربان کرنے پرآمادہ ہے مگر دولت کی ہوس کے نتیجے میں افغانستان خطے میں دہشت گردی کا بڑا مرکز بن سکتاہے جس کے سدِباب کے لیے مشترکہ کوششیں ناگزیرہیں ۔
طالبان قیادت پاکستان کے تحفظات پربات کرنے کو تیار نہیں البتہ سکیورٹی کے حوالے سے بھارت کو لاحق خدشات دور کرنے کی تگ ودومیں ہے بھارت سے روابط بڑھانے کی طالبان کاوشیں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں جس کی وجہ یہ ہے کہ بھارت خطے کی ایک بڑی معاشی طاقت ہے اوراُس کا اعتمادحاصل کرنے کے عوض فوائد نظرآتے ہیں فضائی و زمینی حملوں کے دوران امریکی اور نیٹو افواج افغانستان میں جوتباہی کرگئی ہیں اُس کی بحالی کے لیے امدادکی وصولی کے لیے طالبان کی نظریں بھارت پر ہیں دولت کے حصول کے لیے وہ پاکستان کی قربانیاں اور برسوں کے احسانات بھلانے پر بھی تیار ہیں بھارت کو بخوبی معلوم ہے کہ طالبان دولت حاصل کرنے کے لیے ہر رشتہ قربان کر سکتے ہیں اِس لیے وہ کرایہ پر خدمات حاصل کرناچاہتا ہے دولت کی ہوس اورکرایہ پر خدمات کے مطلب نے دونوں کو قریب کردیاہے بھارت کے سیکرٹری خارجہ وکرم مشری اور قائم مقام افغان وزیرِ خارجہ مولوی امیر خان متقی کی ملاقات میں دونوں ایک دوسرے کی ضروریات جاننے کے ساتھ مشترکہ مقاصد کاتعین کر چکے طالبان نے دوستی کا پیغام دیاتوبھارت نے افغانستان میں ترقیاتی سرگرمیوں میں شامل ہونے کی یقین دہانی کرادی صحت اور تعمیر نومیں مالی مددکا وعدہ کیا کرکٹ کے شعبے میں تعاون کو فروغ دینے کے ساتھ چاہ بہار بندرگاہ سے باہمی تجارتی سرگرمیوں کو فروغ دینے پر دونوں کی رضامندی معنی خیزہے سفارتی حلقوں کے لیے حیران کُن پہلو یہ ہے کہ وہ افغانستان جس کے تمام ہمسائے اِس وجہ سے بے اطمینانی وبے چینی کا شکار ہےں کیونکہ غیرملکی افواج کے انخلا کے باوجودافغانستان میں امن قائم نہیں ہوسکا نیزیہ ملک دہشت گردی کا مرکز بنتا جا رہا ہے اِن حالات میں بھارتی سرمایہ کاری کے وعدے و آمادگی سمجھ سے بالاتر ہیں۔
دہلی حکومت کو افغانوں کی سرشت کا پتہ ہے کہ یہ تمام رشتوں پر دولت کو مقدم رکھتے ہیںدولت جہاں سے اور جس بھاﺅ ملے حاصل کرناہی اُن کامقصدِ حیات ہے شاید اسی لیے ہر افغان حکومت کو دولت کی چکا چوندسے متاثر اور نرم کرلیتی ہے خراب گندم اور مُضر صحت کووڈویکسین سمیت دیگرادویات کی فراہمی کے بعد اب سردیوں کے کپڑے بھیجے جارہے ہیں طالبان سے سفارتی تعلقات نہ ہونے کے باوجود سرمایہ کاری کا عندیہ ظاہر کرتا ہے کہ خطے کو غیر مستحکم کرنے کے لیے کوئی بڑی ہلچل شروع ہونے والی ہے۔
امریکہ ہر صورت چین کومعاشی اور سیاسی حوالے سے غیرمستحکم کرنا چاہتا ہے بھارت کی بھی یہی خواہش ہے پاکستان جو چین کا قریبی اور بااعتماد ہمسایہ ہے ایرانی جھکاﺅ بھی چین کی طرف ہے اِس تناظرمیں امریکہ اور بھارت کی طالبان سے دلچسپی خالی ازعلت نہیں ہو سکتی اب یہ چین اور پاکستان کے شہ دماغوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ حرکات کے مقاصد کو سمجھیں اور خطے کو غیر مستحکم کرنے کی سازشوں کو ناکام بنائیں اِس کے لیے حالات زیادہ پیچیدہ نہیں خطے کے کئی ممالک کاباآسانی تعاون حاصل کیا جا سکتا ہے پاکستان کی طرح ایران نے بھی غیر قانونی مقیم افغانوں کو نکالنے کا اعلان کر دیا ہے ایسٹ ترکستان موومنٹ کی سرگرمیاں چین کے لیے پریشان کُن ہےں جس کاٹھکانہ افغانستان ہے وسطی ایشیائی ریاستیں بھی طالبان سے مطمئن نہیں اگر امریکہ اور بھارت کے افغان طالبان سے تعاون کا پردہ چاک کیا جائے اور ٹی ٹی پی پرغیرمعمولی بھارتی نوازشات کے حوالے سے پاکستان دیگر ہمسایہ ممالک کو قائل کرنے میں کامیاب ہو جائے تو نہ صرف خطہ غیر مستحکم ہونے سے بچ سکتاہے بلکہ طالبان کو کرایہ پر خدمات فراہم کرنے سے روکناممکن ہے طالبان کی سرگرمیاں تو پہلے ہی غیر دوستانہ ،مکارانہ اور مفادپرستانہ تھی یہ عالمی نوازشات اُنھیں کرایہ پر لے کر بارودبنا سکتی ہیں طالبان کے وزیرِدفاع ملا یعقوب کی بھارت میں قیام کے دوران تربیت کوئی رازنہیں ضرورت اِس امر کی ہے کہ اقتدارکو آمدن کا ذریعہ بنانے سے طالبان کو روکنے کے لیے پاکستان جامع حکمتِ عملی کے ساتھ ہمہ گیر کوششیں کرے۔

.

ذریعہ: Nai Baat

کلیدی لفظ: افغان حکومت طالبان سے حوالے سے ہے بھارت کہ افغان کے ساتھ کرنے کے کے لیے

پڑھیں:

پاکستان اور بنگلہ دیش، آ ملے ہیں سینہ چاکان چمن سے سینہ چاک

اقبال نے اپنے الہامی کلام میں ایک خبر دی تھی:

آ ملیں گے سینہ چاکان چمن سے سینہ چاک

یہ واقعہ ہو گزرا ہے اور اب ہم کہہ سکتے ہیں کہ آ ملے ہیں سینہ چاکان چمن سے سینہ چاک۔ یہ واقعہ اُسی خطے میں پیش آیا ہے جس نے انگڑائی لی تو برصغیر کو اپنی منزل ملی یعنی برطانوی استعمار سے آزادی کے لیے تحریکیں چلیں۔ اس کے بعد مسلمانوں کے تشخص کی حفاظت کے لیے آل انڈیا مسلم لیگ وجود میں آئی جس نے مسلم بر صغیر کو اس کی منزل سے ہم کنار کیا۔ دنیا اس خطے کو بنگال کے نام سے یاد کرتی ہے۔ ہمارے بزرگ قبلہ الطاف حسن قریشی نے اسی خطے کو ’ٹوٹا ہوا تارا‘ قرار دیا تھا اور اس کا ماجرا بیان کرنے کے لیے اسی نام سے ایک ضخیم کتاب بھی لکھی۔

یہ بھی پڑھیں: غامدی صاحب کا جرم

الطاف حسن قریشی صاحب کی یہ کتاب اس آشوب کا بیان ہے جس کی وجہ سے مسلم بر صغیر کا یہ چکمتا ہوا تارا منزل سے بھٹکا یا اس پر کچھ ایسی افتاد پڑی جس نے سینہ چاکان چمن میں رنجشیں پیدا کیں اور وہ ایک دوسرے سے دور ہوئے۔ اب صورت حال مختلف دکھائی دیتی ہے۔ کچھ اسی قسم کی امید کا اظہار فیض صاحب نے بھی کیا تھا:

گر آج تجھ سے جدا ہیں تو کل بہم ہوں گے

یہ رات بھر کی جدائی تو کوئی بات نہیں

ایسا لگتا ہے کہ گزشتہ نصف صدی بس رات بھر ہی کی جدائی تھی۔ ’مغرور حسینہ‘ (شیخ حسینہ واجد) کے جبر اور ظلم کی رات ٹلی ہے تو مسلم بر صغیر کے یہ بچھڑے ہوئے تارے ایک بار پھر ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے کھڑے ہیں اور چیلنج کر رہے ہیں:

جسے ہو غرور آئے کرے شکار مجھے

بنگلہ دیش کی مسلح افواج کے پرنسپل اسٹاف افسرلیفٹیننٹ جنرل ایس ایم قمرالحسن کا دورہ پاکستان یہی خبر دیتا ہے۔ نصف صدی پہلے کا جھگڑا کیا تھا؟ یہ بھارت تھا جس نے 1965 کی جنگ کو ہمارے خلاف دو دھاری تلوار کی طرح استعمال کیا۔ مغربی پاکستان پر جارحیت کی لیکن مشرقی پاکستان کو نہایت مکاری کے ساتھ یہ تاثر دیا کہ اس کا اصل ہم درد تو ہے ہی وہی یعنی جنگ کے زمانے میں مغربی پاکستان نے آپ کو تنہا چھوڑ دیا تو ہم نے آپ پر کوئی آنچ نہیں آنے دی۔ اس پروپیگنڈے نے بڑا غضب ڈھایا۔ وہ لوگ طاقت پکڑ گئے جو مسلم بنگال کی نظریاتی شناخت کو نقصان پہنچانا چاہتے تھے۔ اس حقیقت میں تو کوئی کلام نہیں ہے کہ مسلم بنگال اپنی علاقائی اور لسانی شناخت کے بارے میں ہمیشہ حساس رہا ہے لیکن اسے اپنی نظریاتی شناخت بھی اتنی ہی عزیز تھی۔ اگر اسے اپنی نظریاتی شناخت عزیز نہ ہوتی تو انگریزی استعمار سے آزادی کے لیے غلامی کے زمانے میں وہاں سے پے درپے نظریاتی تحریکیں پھوٹتیں اور نہ آل انڈیا مسلم لیگ ہی وجود میں آتی۔ خیر قسمت میں جو لکھا تھا، وہ ہوا یعنی ہونی ہو گزری۔ اب جدائی کے اس وقفے کے بعد جنرل قمرالحسن نے پرانے مغربی پاکستان کی سرزمین پر کھڑے ہو کر وہی بات کہی ہے جسے بھارت نے نہایت مکاری کے ساتھ بنائے فساد بنا دیا تھا۔ جنرل قمرالحسن کا دورہ پاکستان اس تخریب کے بعد تعمیر کی ایک صورت ہے۔

چیف آف آرمی اسٹاف جنرل سید عاصم منیر کے ساتھ جنرل قمرالحسن کی ملاقات کے بعد جو مشترکہ بیان جاری ہوا ہے، وہ بہت معنی خیز ہے۔ اس بیان میں دوطرفہ شراکت داری کو کسی بھی بیرونی مداخلت سے محفوظ رکھنے کا عزم ظاہر کیا گیا ہے۔ برصغیر کی ان 2 مسلم طاقتوں کی طرف سے آنے والا یہ بیان ایک مہا بیانیے کی حیثیت رکھتا ہے اور واضح کرتا ہے کہ یہ خطہ کن طاقتوں کی وجہ سے غیر محفوظ ہے لہٰذا انھیں ان طاقتوں سے تحفظ کے لیے ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرنا ہے۔

مزید پڑھیے: وسائل کے بغیر جنگ جیتنے کی حکمت عملی

یہ بیان تاریخ کے ان دھاروں کی اصلاح بھی کرتا ہے جنہیں گزشتہ نصف صدی تک الٹا بہانے کی کوشش کی گئی۔ مسلم بنگال کو اپنی  علاقائی شناخت تو مل گئی لیکن اس بہانے اس کے مفادات پر نہایت کاری ضرب لگائی گئی۔ شیخ مجیب الرحمٰن بھارت کے ’احسانات‘ کے بوجھ تلے اتنا دبے ہوئے تھے کہ وہ بنگالی عوام کے مفادات کے تحفظ سے بھی لا تعلق ہوتے چلے گئے۔ بھارت نے اپنے نام نہاد احسانات کا منھ مانگا معاوضہ وصول کیا جس کے نتیجے میں بنگلہ دیش کے عوام کا معاشی استحصال ہونے لگا۔ شیخ مجیب الرحمٰن کے بعد حسینہ واجد کے جابرانہ عہد میں بھی یہی روش برقرار رہی۔ بھارت نے نہ صرف بنگلہ دیش کے عوام کا اقتصادی اور کاروباری استحصال کیا بلکہ وہ اس کی سالمیت کے بھی درپے ہو گیا۔ پانی کے ذخائر پر قبضہ جمانے کی کوشش کی اور بنگلہ دیش کے ساتھ سرحدی تنازعات کو ہوا دی۔ عوام اس ضمن میں حسینہ واجد کی بے حمیتی کب تک برداشت کرتے بالآخر انہوں نے اسے اکھاڑ پھینکا اور آج بنگلہ دیش کے چیف آف اسٹاف پاکستان میں آ کر دفاع کے ضمن میں باہمی شراکت داری میں کسی تیسرے فریق کی مداخلت کے خلاف مزاحمت کا عزم ظاہر کر رہے ہیں۔ گویا تاریخ کا دھارا واپس اپنی جگہ پر آ رہا ہے۔

پاکستان اور بنگلہ دیش دیش 2 بچھڑے ہوئے بھائی اور فطری حلیف تو ہیں ہی، اس خطے کے مفادات کے تحفظ کو بھی یقینی بناتے ہیں۔ خطے کے تعلق سے یہ ایسا موضوع ہے جس سے ان عوامل پر روشنی پڑتی ہے جن کے پیش نظر سارک کے نام سے ایک علاقائی اتحاد وجود میں آیا۔

مزید پڑھیں: رچرڈ گرینل پریشان کیوں ہیں؟

پاکستان کے دولخت ہو جانے کے بعد بھارت کے حوصلے بڑھ چکے تھے اور وہ خطے میں ایک ایسی طاقت کے طور پر ابھرا جس سے جنوبی کی مختلف اقوام اور ممالک کو خطرہ لاحق ہو گیا۔ یہ محض اتفاق نہیں تھا کہ اس خطرے کو پاکستان اور بنگلہ دیش نے ہی محسوس کیا اور اس سے تحفظ کے لیے عملی اقدامات کیے۔ سارک کا قیام اسی لیے عمل میں آیا تا کہ بھارت طاقت کے نشے میں چور ہو کر علاقائی سلامتی کے لیے خطرہ نہ بن جائے۔ تاریخ نے اس علاقائی تنظیم کے قیام کا کریڈٹ بنگلہ دیش کے جنرل ضیا الرحمٰن اور پاکستان کے جنرل ضیا الحق کو دیا۔

سارک کے قیام کے بعد تنظیم کے تمام ممالک نے سکھ کا سانس لیا اور پاکستان و بنگلہ دیش کی قیادت کو کھلے دل سے تسلیم کیا۔ یہ تنظیم ضرور ترقی کرتی اور اس سے علاقائی خوش حالی کی امید بھی پوری ہوتی لیکن بدقسمتی سے بنگلہ دیش میں حسینہ واجد کو اقتدار مل گیا اور اسی عرصے میں افغانستان کو اس تنظیم کا رکن بنا لیا گیا۔ ان 2 تبدیلیوں نے اس تنظیم کا مستقبل تاریک کر دیا کیوں کہ بنگلہ دیش کی حسینہ واجد اور افغانستان کے اشرف غنی نے اپنی آزادانہ حیثیت پر بھارت کی کاسہ لیسی کو ترجیح دی۔ یوں سارک کی تنظیم مکمل طور پر غیر فعال ہو گئی۔ یہ  بڑی بدقسمتی تھی۔

بھارت اور اس کے کاسہ لیسوں کی ریشہ دوانیوں سے کیسے نجات حاصل کی جائے؟ اس سوال کا جواب آسان نہیں تھا لیکن بنگلہ دیش کے غیرت مند عوام نے حسینہ واجد کی جابرانہ حکومت کا خاتمہ کر کے اس سوال کا جواب فراہم کیا۔ بنگلہ دیش میں آنے والی تبدیلی صرف بنگلہ دیش کے عوام کے لیے ہی سود مند ثابت نہیں ہوئی بلکہ اس نے  خطے کے اتحاد اور تعاون کے خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے کی راہ بھی ہموار کر دی ہے۔

یہ بھی پڑھیے: صدیق الفاروق: جسے ہو غرور آئے کرے شکار مجھے

پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان رشتوں کی بحالی کا ایک فائدہ تو یہ ہے دوسرا فائدہ چین کے روڈ اینڈ بیلٹ انیشی ایٹو کے خلاف منصوبوں کی ناکامی کی صورت میں نکلے گا۔ اس کے علاوہ روہنگیا کے مظلوم مسلمانوں کی مشکلات میں بھی یقیناً کمی واقع ہوگی۔ غرض یہ کہ پاکستان اور بنگلہ دیش کے ٹوٹے ہوئے رشتوں کی بحالی میں خیر ہی خیر ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

ڈاکٹر فاروق عادل

فاروق عادل ادیب کا دل لے کر پیدا ہوئے، صحافت نے روزگار فراہم کیا۔ ان کی گفتگو اور تجزیہ دونوں روایت سے ہٹ کر ہوتے ہیں۔

افغانستان بنگلہ دیش بھارت پاک بنگلہ دیش ری یونین پاک بنگلہ دیش ملاپ پاکستان حسینہ واجد

متعلقہ مضامین

  • اسلام آباد کانفرنس کا نشانہ امارات اسلامیہ افغانستان تھی،تنظیم اسلامی
  • ملالہ نوجوانوں کے لیے مشعلِ راہ ہے
  • کانگریس اور بی جے پی ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں، امانت اللہ خان
  • کراچی سے فتنہ الخوارج تحریک طالبان پاکستان کا انتہائی مطلوب دہشتگرد گرفتار
  • بھارتی آرمی چیف کا درد
  • روس ہمارے ریجن میں لیڈر بن سکےگا؟
  • پاکستان اور بنگلہ دیش، آ ملے ہیں سینہ چاکان چمن سے سینہ چاک
  • بیرسٹر گوہر کے ذریعے تحریک انصاف جو دستک دے رہی تھی وہ اب کام میں آنا شروع ہوگئی ہے ، تجزیہ نگار
  • پاکستان مزید تجربات کا متحمل نہیں ہو سکتا، مسرت چیمہ
  • پاکستان اور بنگلہ دیش