چینی کہاوت ہے گھرمیں لگی آگ دورکے پانی سے نہیں بجھائی جا سکتی ۔مگر طالبان حکومت ہمسایہ ممالک کومسائل میں الجھا کرمستحکم ہونے کے چکرمیں ہے وہ اپنی سرحدوں سے دورآباد ممالک کا اعتماد حاصل کرنے اور اقتدار کو ذریعہ آمدن بنانا چاہتی ہے جس سے خطے میں انتشار وافراتفری بڑھنے کا اندیشہ ہے پاکستان سے سرحدی مسائل کوہوادینااکثر افغان حکومتوں کا مشغلہ رہا ہے حالانکہ دونوں ممالک کے عوام میں بہت قربت ہے مذہبی کے ساتھ کاروباری روابط ہیںمشترکہ ثقافت ہے رشتہ داریاں ہیں دونوں ممالک کی آبادی کا ایک دوسرے کی طرف آنا جانالگا رہتاہے جسے باوجود کوشش ختم نہیں کیا جا سکتا لیکن سچ یہ ہے کہ افغان عوام کا ساتھ دینے کی پاداش میں پاکستان نے ہمیشہ نقصان اُٹھایا ہے نہ صرف روس کی مخالفت کا سامنا کیابلکہ امریکی ناراضی کی وجہ بھی افغانستان ہے لاکھوں افغانوں کی عشروںسے مہمان نوازی کے باوجودطالبان کاحالیہ رویہ ناقابلِ فہم ہے بھارت جس نے ہر حملہ آور کا ساتھ دیا اورکابل کی کٹھ پتلی حکومتوں کی سرپرستی کی وہ آج طالبان کا بااعتماد اور قریبی دوست ہے مزیدیہ کہ اِس اعتماد و دوستی کومزید مضبوط اور مستحکم بنانے کے لیے طا لبان حکومت کوشاں ہے۔
روس نے افغانستان پر حملہ کیا تو بھارت نے روس کاساتھ دیا امریکی اور نیٹو افواج مشترکہ طورپر حملہ آور ہوئیں تو بھی ہرممکن مددکی حامد کرزئی سے لیکر اشرف غنی جیسی کٹھ پتلیوں کو حقیقی قیادت کہتارہاجبکہ پاکستان نے ہمیشہ غیر ملکی افواج کی مخالفت کی جس کی پاداش میں ڈرون حملوں کا نشانہ بنتا رہا۔ تمام تر نقصانات کے باوجود پاکستان کااصولی موقف رہا کہ افغان عوام کو اپنی حکومت کے انتخاب کا حق دیاجائے غیر ملکی افواج کے انخلا کے دوران تعاون کی وجہ بھی یہ تھی کہ افغانستان کی آزادی وخود مختاری بحال ہولیکن آج جب افغان حکومتی منظر نامہ دیکھتے ہیں تو بھارت زیادہ قریب اورپاکستان دورہوتانظرآتاہے حالانکہ 2021 میںغیر ملکی افواج کے انخلا سے توقع تھی کہ پاکستان میں دہشت گردی کا سلسلہ ختم ہوگا اور دونوں برادرممالک ترقی و خوشحالی کی طرف مشترکہ سفرشروع کریں گے لیکن ایسا کچھ نہیں ہو سکابلکہ آج بھی افغان سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال ہو رہی ہے مزید ستم ظریفی یہ کہ افغان حکومت پاکستان مخالف عناصر کی مہمان نواز اور اپنے اقتدار کو آمدن کا ذریعہ بنانے کی روش پرگامزن ہے۔
یہ تو روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ اسرائیل کے بعد امریکہ سے امداد لینے والا دنیاکا سب سے بڑا ملک افغانستان ہے یہ امداد سالانہ دوارب ڈالر سے تجاوز کر چکی ہے قابلِ غور پہلو یہ کہ جس امریکہ کو ملک سے نکالنے کے لیے طالبان کی قیادت میں افغانوں نے طویل جدوجہد کی اور جانی و مالی نقصانات اُٹھائے اُسی امریکہ سے اُلفت کا رشتہ کیوں ہے نیز آج بھی کابل میں سی آئی اے کا محفوظ اور متحرک ٹھکانہ کیوں موجودہے؟ ایک ہی وجہ سمجھ آتی ہے کہ طالبان سے ہمسایہ ممالک کے خلاف کام کرنے کے معاملات طے کرنے کے عوض ادائیگی جاری ہے اور یہ کہ خطے کے خلاف کام کرنے کے حوالے سے طالبان اور امریکہ ایک ہیں علاوہ ازیں حامدکرزئی اوراشرف غنی کی طرح طالبان قیادت بھی دولت حاصل کرنے کے چکرمیں ہے اور دولت کے لیے کاروباری، مشترکہ ثقافتی اقدار ،لسانی اور قریبی رشتے داریاں تو ایک طرف مذہبی رشتے تک قربان کرنے پرآمادہ ہے مگر دولت کی ہوس کے نتیجے میں افغانستان خطے میں دہشت گردی کا بڑا مرکز بن سکتاہے جس کے سدِباب کے لیے مشترکہ کوششیں ناگزیرہیں ۔
طالبان قیادت پاکستان کے تحفظات پربات کرنے کو تیار نہیں البتہ سکیورٹی کے حوالے سے بھارت کو لاحق خدشات دور کرنے کی تگ ودومیں ہے بھارت سے روابط بڑھانے کی طالبان کاوشیں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں جس کی وجہ یہ ہے کہ بھارت خطے کی ایک بڑی معاشی طاقت ہے اوراُس کا اعتمادحاصل کرنے کے عوض فوائد نظرآتے ہیں فضائی و زمینی حملوں کے دوران امریکی اور نیٹو افواج افغانستان میں جوتباہی کرگئی ہیں اُس کی بحالی کے لیے امدادکی وصولی کے لیے طالبان کی نظریں بھارت پر ہیں دولت کے حصول کے لیے وہ پاکستان کی قربانیاں اور برسوں کے احسانات بھلانے پر بھی تیار ہیں بھارت کو بخوبی معلوم ہے کہ طالبان دولت حاصل کرنے کے لیے ہر رشتہ قربان کر سکتے ہیں اِس لیے وہ کرایہ پر خدمات حاصل کرناچاہتا ہے دولت کی ہوس اورکرایہ پر خدمات کے مطلب نے دونوں کو قریب کردیاہے بھارت کے سیکرٹری خارجہ وکرم مشری اور قائم مقام افغان وزیرِ خارجہ مولوی امیر خان متقی کی ملاقات میں دونوں ایک دوسرے کی ضروریات جاننے کے ساتھ مشترکہ مقاصد کاتعین کر چکے طالبان نے دوستی کا پیغام دیاتوبھارت نے افغانستان میں ترقیاتی سرگرمیوں میں شامل ہونے کی یقین دہانی کرادی صحت اور تعمیر نومیں مالی مددکا وعدہ کیا کرکٹ کے شعبے میں تعاون کو فروغ دینے کے ساتھ چاہ بہار بندرگاہ سے باہمی تجارتی سرگرمیوں کو فروغ دینے پر دونوں کی رضامندی معنی خیزہے سفارتی حلقوں کے لیے حیران کُن پہلو یہ ہے کہ وہ افغانستان جس کے تمام ہمسائے اِس وجہ سے بے اطمینانی وبے چینی کا شکار ہےں کیونکہ غیرملکی افواج کے انخلا کے باوجودافغانستان میں امن قائم نہیں ہوسکا نیزیہ ملک دہشت گردی کا مرکز بنتا جا رہا ہے اِن حالات میں بھارتی سرمایہ کاری کے وعدے و آمادگی سمجھ سے بالاتر ہیں۔
دہلی حکومت کو افغانوں کی سرشت کا پتہ ہے کہ یہ تمام رشتوں پر دولت کو مقدم رکھتے ہیںدولت جہاں سے اور جس بھاﺅ ملے حاصل کرناہی اُن کامقصدِ حیات ہے شاید اسی لیے ہر افغان حکومت کو دولت کی چکا چوندسے متاثر اور نرم کرلیتی ہے خراب گندم اور مُضر صحت کووڈویکسین سمیت دیگرادویات کی فراہمی کے بعد اب سردیوں کے کپڑے بھیجے جارہے ہیں طالبان سے سفارتی تعلقات نہ ہونے کے باوجود سرمایہ کاری کا عندیہ ظاہر کرتا ہے کہ خطے کو غیر مستحکم کرنے کے لیے کوئی بڑی ہلچل شروع ہونے والی ہے۔
امریکہ ہر صورت چین کومعاشی اور سیاسی حوالے سے غیرمستحکم کرنا چاہتا ہے بھارت کی بھی یہی خواہش ہے پاکستان جو چین کا قریبی اور بااعتماد ہمسایہ ہے ایرانی جھکاﺅ بھی چین کی طرف ہے اِس تناظرمیں امریکہ اور بھارت کی طالبان سے دلچسپی خالی ازعلت نہیں ہو سکتی اب یہ چین اور پاکستان کے شہ دماغوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ حرکات کے مقاصد کو سمجھیں اور خطے کو غیر مستحکم کرنے کی سازشوں کو ناکام بنائیں اِس کے لیے حالات زیادہ پیچیدہ نہیں خطے کے کئی ممالک کاباآسانی تعاون حاصل کیا جا سکتا ہے پاکستان کی طرح ایران نے بھی غیر قانونی مقیم افغانوں کو نکالنے کا اعلان کر دیا ہے ایسٹ ترکستان موومنٹ کی سرگرمیاں چین کے لیے پریشان کُن ہےں جس کاٹھکانہ افغانستان ہے وسطی ایشیائی ریاستیں بھی طالبان سے مطمئن نہیں اگر امریکہ اور بھارت کے افغان طالبان سے تعاون کا پردہ چاک کیا جائے اور ٹی ٹی پی پرغیرمعمولی بھارتی نوازشات کے حوالے سے پاکستان دیگر ہمسایہ ممالک کو قائل کرنے میں کامیاب ہو جائے تو نہ صرف خطہ غیر مستحکم ہونے سے بچ سکتاہے بلکہ طالبان کو کرایہ پر خدمات فراہم کرنے سے روکناممکن ہے طالبان کی سرگرمیاں تو پہلے ہی غیر دوستانہ ،مکارانہ اور مفادپرستانہ تھی یہ عالمی نوازشات اُنھیں کرایہ پر لے کر بارودبنا سکتی ہیں طالبان کے وزیرِدفاع ملا یعقوب کی بھارت میں قیام کے دوران تربیت کوئی رازنہیں ضرورت اِس امر کی ہے کہ اقتدارکو آمدن کا ذریعہ بنانے سے طالبان کو روکنے کے لیے پاکستان جامع حکمتِ عملی کے ساتھ ہمہ گیر کوششیں کرے۔
ذریعہ: Nai Baat
کلیدی لفظ: افغان حکومت طالبان سے حوالے سے ہے بھارت کہ افغان کے ساتھ کرنے کے کے لیے
پڑھیں:
بھارت مقبوضہ کشمیر کی صورتحال پر دنیا کو گمراہ کرنے کی کوشش کر رہا ہے، حریت کانفرنس
ترجمان نے کہا کہ کشمیر بھارت کا حصہ نہیں ہے بلکہ اس پر 1947ء سے جبری قبضہ ہے اور اقوام متحدہ کی قراردادیں جن میں استصواب رائے کے ذریعے اس کے حل پر زور دیا گیا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ غیرقانونی طور پر بھارت کے زیر قبضہ جموں و کشمیر میں کل جماعتی حریت کانفرنس نے کہا ہے کہ بی جے پی کی زیر قیادت بھارتی حکومت علاقے کی زمینی صورتحال کے بارے میں عالمی برادری کو گمراہ کرنے کے لئے ایک کے بعد ایک مذموم کوشش کر رہی ہے۔ ذرائع کے مطابق کل جماعتی حریت کانفرنس کے ترجمان ایڈووکیٹ عبدالرشید منہاس نے سرینگر سے جاری ایک بیان میں کہا کہ بھارت اپنی ریاستی دہشت گردی، سیاسی ناانصافیوں اور انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کو چھپانے کے لیے کبھی پاکستان اور کبھی حریت قیادت کو مقبوضہ علاقے میں بگڑتی ہوئی صورتحال کا ذمہ دار ٹھہراتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کشمیریوں کو ہراساں کرنے کے لئے مقبوضہ جموں و کشمیر میں محاصرے اور تلاشی کی کارروائیوں اور گھروں پر چھاپوں کے دوران بے گناہ کشمیریوں کی بلاجواز گرفتاریوں میں اضافہ ہوا ہے۔ ترجمان نے کہا کہ کشمیریوں کو دبانے کے لئے آرمڈ فورسز اسپیشل پاورز ایکٹ، پبلک سیفٹی ایکٹ اور غیرقانونی سرگرمیوں کی روک تھام جیسے کالے قوانین کا استعمال کیا جا رہا ہے کیونکہ 5 اگست 2019ء کے بعد مقبوضہ علاقے میں بھارتی مظالم نے نیا ریکارڈ قائم کیا ہے۔
ترجمان نے کہا کہ کشمیر بھارت کا حصہ نہیں ہے بلکہ اس پر 1947ء سے جبری قبضہ ہے اور اقوام متحدہ کی قراردادیں جن میں استصواب رائے کے ذریعے اس کے حل پر زور دیا گیا ہے، اس کی متنازعہ حیثیت کی گواہی دیتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کشمیر کے بارے میں بھارتی وزیر داخلہ امیت شاہ اور دہلی کے لیفٹننٹ گورنر منوج سنہا کے اشتعال انگیز بیانات خطے کے امن کے لیے خطرہ ہیں۔ حریت ترجمان نے ان بیانات کو بوکھلاہٹ قرار دیتے ہوئے کہا کہ بھارتی رہنمائوں کا کیس کمزور ہے، کشمیریوں کے جذبہ آزادی، مضبوط موقف اور صبر و استقامت نے بھارتی رہنمائوں کو بوکھلا دیا ہے جو اب دھمکیوں پر اتر آئے ہیں۔ انہوں نے بھارتی حکومت سے جیلوں میں نظربند تمام سیاسی قیدیوں کو رہا کرنے کا مطالبہ کیا جن میں کل جماعتی حریت کانفرنس کے چیئرمین مسرت عالم بٹ، شبیر احمد شاہ، محمد یاسین ملک، آسیہ اندرابی، نعیم احمد خان، ناہیدہ نسرین، فہمیدہ صوفی، ایاز اکبر، پیر سیف اللہ، معراج الدین کلوال، شاہد الاسلام، فاروق احمد ڈار، ڈاکٹر محمد قاسم فکتو، مشتاق الاسلام، ڈاکٹر حمید فیاض، بلال صدیقی، ایڈوکیٹ میاں عبدالقیوم، ایڈوکیٹ محمد اشرف بٹ، مولوی بشیر عرفانی، محمد رفیق گنائی، عبدالاحد پرہ، ڈاکٹر محمد شفیع شریعتی، غلام قادر بٹ، محمد یوسف فلاحی، امیر حمزہ، سید شاہد یوسف، سید شکیل یوسف، نور محمد فیاض، حیات احمد بٹ، شوکت حکیم، ظفر اکبر بٹ، ظہور احمد بٹ، عمر عادل ڈار، عبدالاحد پرہ، سلیم نناجی، محمد یاسین بٹ، فیاض حسین جعفری، عادل سراج زرگر، دائود زرگر اور انسانی حقوق کے کارکن خرم پرویز، محمد احسن اونتو اور صحافی عرفان مجید شامل ہیں۔