سکھر،اسپتالوں میں غیرمعیاری سرجیکل سامان کے استعمال کا انکشاف
اشاعت کی تاریخ: 11th, January 2025 GMT
سکھر (نمائندہ جسارت) سکھر سول اسپتال اور ریجن کے دیگر سرکاری اسپتالوں میں آپریشن کے دوران استعمال ہونے والے سرجیکل سامان کے غیر معیاری ہونے کا انکشاف ہوا ہے۔ یہ سرجیکل سامان جو روڈ حادثوں،مختلف حادثات میں زخمی ہونے والے مریضوں، پتے کے آپریشن، گردے، اور گائنی کے مریضوں کے آپریشنز کے لیے آپریشن تھیٹر میں استعمال کیا جا رہا ہے، ناقص معیار کی وجہ سے مریضوں کے زخم خراب ہونے کا سبب بن رہا ہے، جس کے باعث مریض شدید اذیت کا شکار ہو رہے ہیں۔مریضوں کے اہل خانہ کا کہنا ہے کہ آپریشن کے بعد زخموں میں پیچیدگیاں پیدا ہو رہی ہیں اور انفیکشن کے کیسز میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ڈاکٹروں کے مطابق ناقص سرجیکل آلات زخموں کو خراب کر دیتے ہیں، جس سے نہ صرف مریض کی صحت کو مزید خطرہ لاحق ہوتا ہے بلکہ علاج کا دورانیہ بھی طویل ہو جاتا ہے۔مریضوں اور ان کے لواحقین کا کہنا ہے کہ محکمہ صحت اس سنگین مسئلے پر خاموش ہے اور تاحال کسی قسم کا نوٹس نہیں لیا گیا۔ ذرائع کے مطابق اسپتال انتظامیہ اور محکمہ صحت کو کئی بار شکایات موصول ہو چکی ہیں، لیکن غیر معیاری سامان فراہم کرنے والے ٹھیکیداروں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔ریجن کے دیگر اسپتالوں میں بھی یہی صورتحال دیکھنے میں آ رہی ہے، جن میں لاڑکانہ، شکارپور، گھوٹکی، خیرپور، اور کشمور کے سرکاری اسپتال شامل ہیں۔
.ذریعہ: Jasarat News
پڑھیں:
بڑے پیمانے پر ٹیکس چوری، 59 لاکھ ریٹرنز میں سے 26 لاکھ کی قابل ٹیکس آمدن صفر ہونے کا انکشاف
بڑے پیمانے پر ٹیکس چوری، 59 لاکھ ریٹرنز میں سے 26 لاکھ کی قابل ٹیکس آمدن صفر ہونے کا انکشاف WhatsAppFacebookTwitter 0 29 January, 2025 سب نیوز
اسلام آباد(آئی پی ایس )مجموعی طور پر59لاکھ موصول شدہ ٹیکس ریٹرنز میں سے 43.3 فیصد نِل فائلرز کے ساتھ پاکستان بھر میں صرف 3651 ٹیکس فائلرز ایسے ہیں جن کی قابل ٹیکس آمدنی 10کروڑروپے سے تجاوز کرتی ہے۔سرکاری اعداد و شمار سے انکشاف ہوا کہ زیادہ مالیت والے افراد کی تعداد زیادہ نہیں تھی، کیونکہ صرف چند ہزار افراد ایسے تھے جن کی قابل ٹیکس آمدنی موجودہ مالی سال کے دوران جمع کرائے گئے تازہ ترین انکم ٹیکس ریٹرنز میں 100 ملین روپے سے زیادہ تھی۔
چیئرمین ایف بی آر راشد محمود لنگڑیال نے حال ہی میں قومی اسمبلی کی ذیلی کمیٹی کے سامنے بیان دیا کہ صرف 12 افراد ایسے ہیں جنہوں نے اپنے جمع کرائے گئے ٹیکس ریٹرنز میں 10 ارب روپے کی دولت ظاہر کی ہے۔یہ اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ یا تو بڑے پیمانے پر ٹیکس چوری ہو رہی ہے یا ملک میں زیادہ دولت رکھنے والے افراد کی تعداد بہت کم ہے۔
موجودہ مالی سال 2024-25 کے دوران ٹیکس فائلرز کی کل تعداد 5.9 ملین ہے، جس میں 5.8ملین انفرادی ٹیکس فائلرز، 104269 ایسوسی ایشن آف پرسنز (اے او پیز ) اور 87900 کمپنیاں شامل ہیں۔ٹیکس سال 2023 میں فائلرز کی تعداد 6.8 ملین تھی، جبکہ ٹیکس سال 2022 میں یہ تعداد 6.3 ملین رہی، جو کہ ممکنہ فائلرز کی تخمینی تعداد 15 ملین کے مقابلے میں کافی کم ہے۔
ملک بھر میں کم از کم 300000 صنعتی بجلی کے کنکشن موجود ہیں، لیکن ایف بی آر کو صرف 87000کمپنیوں کی جانب سے انکم ٹیکس ریٹرنز موصول ہوئے ہیں۔ کل موصول ہونے والے 5.9 ملین انکم ٹیکس ریٹرنز میں سے 2.6 ملین افراد نے موجودہ مالی سال کے دوران صفر قابل ٹیکس آمدنی ظاہر کی ہے۔
ان بڑے اعداد و شمار کو مدنظر رکھتے ہوئے، ایف بی آر اس نتیجے پر پہنچا ہے کہ نان فائلرز کی کیٹیگری کو ختم کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے بجائے، وہ ایک نئی کیٹیگری متعارف کروا رہے ہیں جو “اہل” یا “نااہل” کے طور پر طے کرے گی کہ کون بڑی ٹرانزیکشنز کرنے کا حق رکھتا ہے، جیسے 10 ملین روپے مالیت کی جائیداد خریدنا یا نئی گاڑیاں خریدنا۔ ایف بی آر کے موصول شدہ ریٹرنز کا تفصیلی تجزیہ ظاہر کرتا ہے کہ 2.2 ملین فائلرز نے صفر کے برابر قابل ٹیکس آمدنی ظاہر کی ہے۔