Jasarat News:
2025-01-18@13:12:29 GMT

بے وقوف! یہ معیشت ہے

اشاعت کی تاریخ: 11th, January 2025 GMT

بے وقوف! یہ معیشت ہے


تمام تجزیوں کا ایک تجزیہ اس کے سوا کچھ نہیں کہ عوام کی اکثریت عمران خان کی رہائی چاہتی ہے۔ لوگ عمران خان کے عاشق ہیں اور عشق کا پہلا اصول ہی یہ ہے کہ عشق حق پر ہوتا ہے۔ عمران خان کی حکومت غالب کے عشق کی طرح تھی۔ غالب جس پر مرتے اسے مار رکھتے تھے۔ عمران خان نے بھی پونے چار برس میں ملک کو مار کر رکھ دیا تھا، دنیا میں پاکستان کے دیوالیہ ہونے کی باتیں کی جارہی تھیں۔ لوگ پھر بھی ان کی واپسی چاہتے ہیں۔ اس میں عمران خان کا دوش کم ہی ہے، روایتی عشاق کی طرح ہمارے عاشق بھی یہی چاہتے ہیں کہ محبوب انہیں قتل کردے، ایک بار پھر۔

ایک انٹرویو میں کسی سے پوچھا گیا ’’اپنے لباس کے بارے میں بتائیے‘‘ جواب آیا ’’پہن لیتا ہوں‘‘ عمران خان اور حکومت کے درمیان مذاکرات آغاز ہوئے تو ہمیں بڑی حیرت ہوئی کہ عمران خان مذاکرات بھی کرلیتے ہیں۔ گھوڑے کا اندازہ اس کی لات، عورت کا اندازہ اس کی بات اور سیاست دان کا اندازہ مذاکرات سے لگایا جاتا ہے۔ مذاکرات، مفا ہمت اور مصلحت جیسے سیاسی تقاضوں سے عمران خان دور دور ہی رہتے ہیں۔ عمران خان نے ایک مرتبہ کہا تھا کہ وہ سیاست دان بننا نہیں چاہتے۔ لگتا ہے اللہ نے ان کی دعا قبول کر لی تھی۔ اپنے مخالفین سے ہاتھ ملانا تو درکنار وہ آنکھ اٹھا کر دیکھنا بھی پسند نہیں کرتے۔ مخالفین کی بے عزتی اور توہین بھی وہ اسی لیے رج کے کرتے ہیں کہ بعد میں کون سا ان سے معافی مانگنا اور مذاکرات کرنے ہیں۔

عمران خان نے حکومت سے مذاکرات پر آمادگی ظا ہر کی تو ہمیں بڑی حیرت ہوئی کہ تحریک انصاف کی قیادت انہیں کیسے منہ لگائے گی جنہیں ان کے بانی روز اوّل سے چور اور ڈاکو کہا کرتے تھے۔ ہم بھول گئے تھے کہ اپنی بات سے پھر جانے یا یوٹرن کی وجہ سے عمران خان ہمیشہ ’’غیر متوقع unpredictable‘‘ رہے ہیں۔ پتا ہی نہیں چلتا کہ عمران خان اپنا کون سا ہاتھ کون سی جیب میں ڈالیں اور جیب سے کیا نکلے۔ یہ الگ بات کہ عمران خان کم ہی اپنا ہاتھ اپنی جیب میں ڈالتے ہیں۔ ماضی میں ان کا ہاتھ اکثر جہانگیر ترین کی جیب سے نکلتا تھا۔

اس وقت تحریک انصاف کا کوئی نظم ہے نہ ڈھانچا، فیصلہ سازی کا کوئی فورم ہے اور نہ جادہ منزل سوائے عمران خان کی رہائی کے۔ مذاکرات کے سلسلے میں بھی پی ٹی آئی کی سات رکنی ٹیم عمران خان سے لا محدود ملاقاتیں چاہتی ہے تاکہ کنفرم کرسکے کہ ابھی تک ٹیم کو پچھلی ہدایات پر ہی عمل کرنا ہے یا بانی نے یوٹرن لے لیا ہے۔ ان ظاہری مذاکرات سے زیادہ اسلام آباد میں پس پردہ مذاکرات کا شور ہے جو سنا ہے بشریٰ بی بی اور اسٹیبلشمنٹ کے مابین جاری ہیں۔ ان مذاکرات میں وہی کچھ ہورہا ہے جو ایسے مذاکرات میں ہوتا ہے۔ آپ پوچھیں گے ایسے مذاکرات میں کیا ہوتا ہے۔ جواب ہے ایسے مذاکرات میں وہی کچھ ہوتا ہے جو ایسے مذاکرات میں ہونا چاہیے۔ دونوں سائیڈ پر اسٹیبلشمنٹ ہی مذاکراتی پارٹی ہوتی ہے۔

عمران خان تحریک انصاف کے قومی ہیرو ہیں تو بشریٰ بی بی قومی ہیروئن۔ مذاکرات میں عمران خان کا دو مطالبات تک سمٹ جانا بشریٰ بی بی کی ایسی ہی ملاقاتوں اور عمران خان پر اثر اندازی کے صفاتی موکلوں کا نتیجہ ہے۔ اب حال یہ ہے کہ پی ٹی آئی کا ماضی دیکھنا ہو تو عمران خان کو اور حال اور مستقبل دیکھنا ہوتو بشریٰ بی بی کی طرف دیکھیں اور سمجھیں۔ پچھلے پندرہ دنوں میں اسٹیبلشمنٹ سے ان کے دو تین مرتبہ رابطے ہوچکے ہیں اس ایک نکتے پر جو عمران خان کی رہائی کے گرد گھومتا ہے۔ اسٹیبلشمنٹ چاہتی ہے کہ پہلے عمران خان سدھریں تب رہائی ہوگی۔ بشریٰ بی بی چاہتی ہیں پہلے رہائی ہو پھر سدھریں گے، انہیں سدھارنا آتا ہے۔ وہ عمران خان کے دل میں اور اسٹیبلشمنٹ کے کاموں میں رہتی ہیں۔

نہ جانے عمران خان کو اور تحریک انصاف کے دیگر زعماء کو ابھی تک یہ زعم کیوں ہے کہ وہ اسٹیبلشمنٹ سے کچھ منواسکتے ہیں۔ خان اور قائدین کو تو چھوڑیے یوتھیے تک اسی خیال میں فاختائیں اڑا رہے ہیں۔ رحم کی درخواستوں کے نتیجے میں، نو مئی کے واقعات میں ملوث تحریک انصاف کے جو قیدی رہا کیے گئے، انہوں نے جیل کے دروازے سے با ہر نکلتے ہی جو بھنگڑے ڈالے، اسٹیبلشمنٹ کے خلاف ’’پاکیزہ اور مصفا‘‘ نعرے لگائے، پھبتیاں کسیں، رہائی کو میرٹ، عمران خان کے زور بازو اور پلڑا بھاری ہونے کا نتیجہ قرار دیا۔ پھر وزیراعلیٰ گنڈا پور نے جس طرح ریاست کے مجرموں کا ہیرو کی طرح استقبال کیا وہ سب اسٹیبلشمنٹ کی برف کی ڈلیوں کو اُبالنے اور آئندہ ایسی درخواستوں اور مجرموں کی رہائی پر پانی پھیرنے کے برابر تھا اور وہ بھی چونے والا۔ تب وزیراطلاعات پنجاب عظمیٰ بخاری کو متحرک کیا گیا جنہوں نے اسٹیبلشمنٹ کے کہنے پر اسٹیبلشمنٹ کے ردعمل اور غصے کو الفاظ دیتے ہوئے کہا کہ اب باقی قیدیوں کو نہیں چھوڑنا۔ جب تک گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ دوبارہ چھپتی ہے تحریک انصاف حماقتوں کے نئے ریکارڈ قائم کرچکی ہوتی ہے۔

برنارڈ شا نے ایک بدصورت عورت کو آئینے میں اپنا چہرہ دیکھ کر خوش ہوتے ہوئے دیکھا تو کہا ’’میڈم آپ دنیا کی خوش قسمت ترین عورت ہیں کہ آپ کو اپنے آپ سے عشق ہے اور کرہ ارض پر آپ کا کوئی رقیب نہیں ہے‘‘ عمران خان اپنے آپ پر فریفتہ ہیں اور تحریک انصاف کے عمائدین ان پر، اور اس سرشاری میں وہ اسٹیبلشمنٹ کے خلاف جی بھر کے حماقتوں کا ارتکاب کررہے ہیں اور اسے اپنی کامیابی باور کر رہے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ انہوں نے اب تک اسٹیبلشمنٹ کے خلاف جو بھی قدم اٹھائے ہیں نتیجہ بربادی اور تباہی، پی ٹی آئی کی کمزوری اور اسٹیبلشمنٹ کی طاقت میں اضافے کے علاوہ کچھ نہیں نکلا۔ نو مئی اور 26 نومبر تحریک انصاف کی ایسی کارروائیاں تھیں کہ سلطان راہی مرحوم یاد آگئے جو کیمرے کے بجائے گنڈاسے سے سین شوٹ کرواتے تھے لیکن نتیجہ کیا نکلا سوائے اسٹیبلشمنٹ کو اپنے خلاف کارروائیوں کے مواقع ارزاں کرنے کے۔ اب اسٹیبلشمنٹ ان کے خلاف اتنی متشدد ہوگئی ہے کہ تحریک انصاف کی کھانسی کا علاج بھی ٹی بی کی ادویات سے کرتی ہے۔

سیاست کے پانیوں میں پی ٹی آئی پھول کی پتی پھینک کر حشر کا تلاطم پیدا کرنا چاہتی ہے جسے اسٹیبلشمنٹ چٹکی سے مسل کر فارغ کردیتی ہے۔ عمران خان کا اصل مشن یہ ہے کہ جلداز جلد شہباز حکومت کی چھٹی ہو، نئے الیکشن ہوں، میں پھر وزیراعظم بنوں اور اپنی پسند کا نیا آرمی چیف نامزد کروں۔ اس منزل کے لیے ان کا پہلا قدم اپنی رہائی ہے جس کے لیے وہ کارکنان کی رہائی کی بات سے آغاز کرتے ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ ان کو گراتے گراتے اس مقام پر لے آئی ہے کہ وہ جنہیں چور اور ڈاکو کہتے تھے آج ان سے مذاکرات کررہے ہیں لیکن ان مذاکرات سے کیا وہ اپنے مذکورہ مقاصد حاصل کر پائیں گے؟ ناممکن۔ اسٹیبلشمنٹ معیشت کی بحالی تک کوئی رسک لینے کے لیے تیار نہیں۔ تب تک وہ عمران خان کو بہلا بہلا کر مصروف رکھنا چاہتی ہے۔ حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کا یہ حتمی فیصلہ ہے کہ اگلے تین چار برس تک حالات کو جوں کا توں رکھنا ہے جس میں عمران خان کا کوئی کردار نہیں ہوگا سوائے شور مچانے کے۔ اسٹیبلشمنٹ ان کے شور کی اتنی عادی، ان کے مزاج سے اتنی آشنا اور ان کو کنٹرول کرنے میں اتنی ماہر ہوگئی ہے کہ جب اور جیسا چاہتی ہے ان کو ردعمل دینے پر مجبور کردیتی ہے۔ بل کلنٹن نے 1992 کے الیکشن میں نعرہ لگایا تھا ’’It’s the economy stupid‘‘ کاش ہمارے بے وقوف بھی سمجھ جائیں کہ یہ معیشت ہے جو برباد ہوجائے تو دانے مک جاتے ہیں جیسا کہ عمران خان کے پچھلے دور میں مک گئے تھے۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: ایسے مذاکرات میں اور اسٹیبلشمنٹ تحریک انصاف کے اسٹیبلشمنٹ کے کہ عمران خان عمران خان کا عمران خان کے عمران خان کی ان مذاکرات پی ٹی ا ئی کی رہائی ہوتا ہے کے خلاف کا کوئی ہیں کہ اور اس

پڑھیں:

تحریک انصاف حکومت کے جواب سے مطمئن ہوئی تو مذاکرات آگے چلیں گے: عرفان صدیقی

حکومتی کمیٹی کے ترجمان عرفان صدیقی—فائل فوٹو

حکومتی کمیٹی کے ترجمان عرفان صدیقی کا کہنا ہے کہ تحریک انصاف حکومت کے جواب سے مطمئن ہوئی تو مذاکرات آگے چلیں گے۔

پارلیمنٹ ہاؤس پہنچنے پر میڈیا سے غیر رسمی گتفگو کرتے ہوئے عرفان صدیقی نے کہا کہ تحریک انصاف آج اپنے تحریری مطالبات پیش کرے گی۔

انہوں نے کہا کہ تحریری مطالبات تمام اتحادی اپنے پارٹی سربراہ کے سامنے پیش کریں گے، حکومت کی جانب سے بھی تحریک انصاف کو تحریری جواب دیا جائے گا۔

حکومت اور پی ٹی آئی کے درمیان مذاکرات کا تیسرا اجلاس کچھ دیر بعد ہوگا

اس اجلاس کی صدارت اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق کریں گے، اجلاس میں پی ٹی آئی تحریری طور پر اپنے مطالبات پیش کرے گی۔

عرفان صدیقی کا کہنا ہے کہ31 جنوری کی ڈیڈ لائن سے آگے بھی جایا جا سکتا ہے۔

حکومتی کمیٹی کے ترجمان نے کہا کہ 31 جنوری سے قبل تحریک انصاف کو حکومتی کمیٹی جواب دے گی۔

واضح رہے کہ حکومت اور پی ٹی آئی کے درمیان مذاکرات کا تیسرا اجلاس کچھ دیر بعد پارلیمنٹ ہاؤس میں ہو گا۔

اجلاس کی صدارت اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق کریں گے، جس میں پی ٹی آئی تحریری طور پر اپنے مطالبات پیش کرے گی۔

متعلقہ مضامین

  • القادر ٹرسٹ فیصلے کے بعد مذاکرات پر کیا اثر پڑے گا؟
  • حکومت سے مذاکرات کا تیسرا دور ختم،پی ٹی آئی کا 2 انکوائری کمیشن بنانے کا طالبہ
  • حکومت مذاکرات کے نام پر قوم کو بے وقوف بنا رہی ہے، شیخ وقاص اکرم
  • تحریک انصاف نے مذاکرات میں تحریری مطالبات پیش کردیے 
  • حکومت سے مذاکرات: پاکستان تحریک انصاف نے کون سے تحریری مطالبات پیش کیے؟
  • ہمارے مذاکرات کامیاب نہ ہو سکے تو احتجاج اوو سے آگے جائے گا: عمر ایوب
  • تحریک انصاف حکومت کے جواب سے مطمئن ہوئی تو مذاکرات آگے چلیں گے: عرفان صدیقی
  • یہ وقت ضد اور انا کو چھوڑنے کا ہے!
  • حکومت اور اپوزیشن کے درمیان مذاکرات کا تیسرا دور آج ہوگا
  • مذاکرات کا تیسرا دور آج، پی ٹی آئی نے تحریری مطالبات کو حتمی شکل دیدی