Jasarat News:
2025-01-18@12:53:37 GMT

پاک افغان رابطے بحال

اشاعت کی تاریخ: 11th, January 2025 GMT

پاک افغان رابطے بحال

افغانستان چونکہ ایک لینڈ لاک ملک ہے اور بیرونی دنیا سے تجارت کے لیے وہ اپنے دو پڑوسی ممالک پاکستان اور ایران پر انحصار کرتا ہے اس لیے اسے اپنی تمام برآمدات اور خاص کر درآمدات کے لیے پاکستان کی بندگاہوں پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔ افغانستان کو اپنی اسی مجبوری کی وجہ سے پاکستان کے ساتھ پہلے 1965 اور بعد ازاں 2010 میں افغان ٹرانزٹ ٹریڈ ایگریمنٹ کرنا پڑا تھا جس کے تحت پاکستان افغانستان کو زمینی راستوں سے نہ صرف اپنی بندرگاہوں تک رسائی دینے کا پابند ہے بلکہ ان معاہدوں کی رو سے اسے بین الاقوامی ضمانتوں کے تحت کئی مراعات بھی حاصل ہیں۔ یادر ہے کہ ان معاہدوں کے تحت افغانستان پاکستان کے ساتھ زیادہ تر تجارت تو طور خم اور چمن کے راستوں سے کرتا ہے لیکن کچھ عرصے سے پاک افغان باہمی تجارت میں کچھ رکاوٹیںحائل ہیں جس کی وجہ سے دونوں جانب کی تجارت زبوں حالی کی طرف گامزن ہے اور دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی اور تناؤ کی صورت حال ہے۔ افغانستان میں جب سے طالبان کی عبوری حکومت آئی ہے تو عام تاثر یہی تھا کہ پاکستان اور تخت کابل میں پھر سے نئی قربتیں بڑھیں گی لیکن اس بار ایسا نہیں ہوا پاکستان اور افغانستان کے درمیان کافی حد تک دوریاں بڑھ گئی ہیں۔ لیکن گزشتہ ہفتے پاکستان اور افغانستان کے درمیان طویل تعطل کے بعد مذاکراتی عمل دوبارہ بحال ہو گیا ہے پہلے مرحلے میں حال ہی میں تعینات کیے جانے والے نمائندہ خصوصی برائے افغان امور محمد صادق کابل گئے جہاں وہ افغان وزیر خارجہ امیر محمد متقی اور افغان وزیر داخلہ ملا سراج الدین حقانی سے ملاقات کی ان ملاقاتوں میں ہمسایہ ملک کے درمیان مسائل کو مشترکہ کوششوں کے ذریعے حل کرنے کے علاوہ سیاسی، اقتصادی، تجارتی اور ٹرانزٹ کے شعبوں میں موجودہ مشترکات کا بہتر استعمال کرنے کے عزم کا اظہار کیا گیا۔ اس موقع پر نمائندہ خصوصی محمد صادق خان نے کہا کہ وزیر خارجہ امیر خان متقی سے ملاقات میں وسیع پیمانے پر بات چیت ہوئی، جس میں دو طرفہ تعاون کو مزید مضبوط بنانے کے ساتھ ساتھ خطے میں امن اور ترقی کے لیے مل کر کام کرنے پر اتفاق کیا۔
دوسری طرف افغانستان کی وزارت خارجہ کی جانب سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا کہ افغان وزیر خارجہ نے ملاقات میں کہا کہ افغانستان کی حکومت پاکستان کے ساتھ مثبت تعلقات کے لیے پر عزم ہے اور ہم دونوں ممالک کے درمیان سیاسی، اقتصادی، تجارتی اور ٹرانزٹ شعبوں میں مشترکات کا بہتر استعمال کر سکتے ہیں۔ اس سے قبل محمد صادق خان نے وزیر داخلہ خلیفہ سراج الدین حقانی سے بھی ملاقات کی جس میں فریقین نے تعلقات کی بہتری اور موجودہ مسائل کے حل کے لیے اہم موضوعات پر تبادلہ خیال کیا۔ یہ دونوں ممالک کے اعلیٰ حکام کے درمیان ایک طویل عرصے کے بعد رابطہ ہے۔ محمد صادق خان نے خلیل الرحمان حقانی کی موت پر گہرے دکھ کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کہ ہم افغانستان اور پاکستان کے درمیان موجودہ مسائل کو مشترکہ کوششوں کے ذریعے حل کرنے کے لیے پر عزم ہیں، تا کہ دونوں ممالک کے درمیان اقتصادی اور سول تعلقات کو مضبوط بنایا جا سکے۔ وزیر داخلہ خلیفہ سراج الدین حقانی نے تاکید کی کہ موجودہ وقت اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ امن وامان اور سیاسی مسائل کے حل کے لیے مشترکہ کوششیں تیز کی جائیں، تا کہ دونوں قوموں کے درمیان تعلقات خراب ہونے سے محفوظ رہیں اور خطے کے استحکام اور ترقی کا ضامن ہوں۔

پاکستان اور افغانستان صرف پڑوسی ملک نہیں بلکہ ان کے درمیان مذہب، ثقافت اور زبان کے رشتے بہت گہرے اور رشتہ داریاں بھی ہیں، جنہیں ختم نہیں کیا جاسکتا۔ اپریل 1948ء میں جب قائد اعظم محمد علی جناح نے طورخم کا دورہ کیا تو آپؒ سرحدی زنجیر پار کر کے دوسری جانب گئے، افغان بارڈر گارڈ سے ہاتھ ملایا اور فرمایا ’’واہگہ دو قوموں کو تقسیم کرتی ہوئی سرحد ہے اور طورخم ایک قوم کے دو ممالک کو جوڑنے والی سرحد ہے‘‘۔ باوجود اس کے کہ افغانستان کی بھارت نواز حکومتوں نے پاکستان میں مداخلت سے گریز نہیں کیا، لیکن پاکستان نے کبھی افغان سرحد پر فوج نہیں لگائی، اس وقت تک کہ جب افغانستان میں امریکا کے آجانے کے بعد امریکیوں نے وہاں بھارت کی مدد سے دہشت گردوں کی نرسریاں کھولیں اور پاکستان پر دہشت گردی کی جنگ مسلط کردی۔ پاک افغان تعلقات کی پون صدی کو دیکھا جائے تو طالبان حکومت کا پہلا دور وہ واحد وقت ہے جب پاکستان کو افغانستان سے بھی کوئی شکایت نہیں ہوئی۔ پاکستان کی توقع یہی تھی کہ 70 کی دہائی سے اب تک لاکھوں افغانوں کی میزبانی، ہزاروں شہریوں کی جانب سے افغان مجاہدین سے عملی تعاون اور افغان مجاہدین سے تعلق کے جرم میں ریاست پاکستان کو پہنچنے والے بھاری نقصانات کا خیال رکھتے ہوئے طالبان کی دوسری حکومت بھی ملا عمر کی حکومت کی طرح ہی اچھے تعلقات رکھے گی، مگر بد قسمتی سے ایسا ممکن نہیں ہو سکا۔ امریکا اور بھارت کے افغان سرزمین پر قائم کردہ دہشت گردی کے اڈے ابھی تک کام کر رہے ہیں، جہاں سے آنے والے دہشت گردوں کے جتھے پاکستان میں خونریزی کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔

المیہ یہ ہے کہ امریکا کے نکل جانے کے باوجود بعض عناصر ایسے ہیں جو دونوں ممالک کے درمیان امن نہیں ہونے دے رہے، یہ دونوں ممالک کے مشترکہ دشمنوں کے ہاتھوں میں کھیلتے ہوئے خونریزی کو جاری رکھنا چاہتے ہیں۔ ہم کئی بار لکھ چکے ہیں کہ دونوں ملکوں کی حکومت اور عوام کسی صورت ایک دوسرے کے دشمن نہیں لیکن دونوں ملکوں کے دشمن عناصر سازشوں کے ذریعہ سے تعلقات کو خراب کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ مسئلے کا حل باہمی لڑائی، ناراضی یا کشمکش اور الزام تراشی نہیں بلکہ رابطوں کی بحالی، بات چیت میں اضافہ، ایک دوسرے کے مسائل کو سمجھنے اور مل کر مشترکہ دشمن کے خلاف جدو جہد میں پنہاں ہے۔ طویل عرصے کے بے معنی تعطل کے بعد اب رابطوں کی بحالی خوش آئند ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ان رابطوں کو مستحکم ہونا چاہیے، دونوں حکومتوں کو چاہیے کہ کھلے دل کے ساتھ ایک دوسرے کی بات سنیں اور مل کر دہشت گردی سمیت تمام مسائل سے نمٹنے کی حکمت عملی بنائیں، یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ دونوں ملک ایک چمن کی مانند ہیں، امن کی بہار آئے گی تو دونوں جانب ترقی کے پھول کھلیں گے۔ کسی جانب آگ لگے گی تو دوسرا بھی لاز ماً متاثر ہوگا، دونوں کا نفع و نقصان قدرت نے اکٹھا رکھ دیا ہے، بہتر یہی ہے کہ مل بیٹھ کر مسائل کو حل کریں اور مشترکہ مواقع سے فائدہ اٹھائیں۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: دونوں ممالک کے درمیان ان کے درمیان پاکستان اور پاکستان کے اور افغان مسائل کو کہ دونوں نے والے ہے اور کے لیے کے بعد

پڑھیں:

چین اور موناکو کے درمیان باہمی سیاسی اعتماد کو مسلسل فروغ ملا ہے، چینی صدر

بیجنگ : چینی صدر شی جن پھنگ اور موناکو کے شہزادہ البرٹ دوم نے دونوں ممالک کے درمیان سفارتی تعلقات کے قیام کی 30 ویں سالگرہ کے موقع پر تہنیتی پیغامات کا تبادلہ کیا۔ جمعرات کے روزشی جن پھنگ نے کہا کہ چین اور موناکو کے درمیان سفارتی تعلقات کے قیام کے گزشتہ 30 سالوں میں فریقین کے درمیان باہمی سیاسی اعتماد اور روایتی دوستی کو مسلسل فروغ ملا ہے اور تعاون کے وافر ثمرات برآمد ہوئے ہیں۔ چین موناکو تعلقات مختلف پیمانے، مختلف تاریخ، ثقافت نیز مختلف سماجی نظاموں کےحامل ممالک کے درمیان دوستانہ میل جول اور مشترکہ ترقی کی مثال بن چکے ہیں۔شی جن پھنگ کا کہنا تھا کہ وہ چین موناکو تعلقات کی ترقی کو بہت اہمیت دیتے ہیں اور پرنس البرٹ دوم کے ساتھ مل کر سفارتی تعلقات کے قیام کی 30 ویں سالگرہ کے موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے چین موناکو تعلقات میں نئی پیش رفت کو فروغ دینے کے لئے تیار ہیں۔ البرٹ دوم نے کہا کہ موناکو چین کے ساتھ اپنے تعلقات کی ترقی کو بہت اہمیت دیتا ہے۔وہ صدر شی کے ساتھ مل کر باہمی اعتماد کو گہرا کرنے، تعاون کو وسعت دینے اور دونوں ممالک کےتعلقات میں مزید زیادہ نتائج کے حصول کو فروغ دینے کے لئے تیار ہیں تاکہ دونوں ممالک کے عوام کو بہتر فوائد پہنچائے جائیں ۔

متعلقہ مضامین

  • چینی صدر اور ڈونلڈ ٹرمپ کے مابین اسرائیل فلسطین تنازعہ پر تبادلہ خیال
  • چین اور ویتنام دوستانہ پڑوسی اور اسٹریٹجک ہم نصیب معاشرہ ہے، چینی صدر
  • اسلام آباد کانفرنس کا نشانہ امارات اسلامیہ افغانستان تھی،تنظیم اسلامی
  • پاکستان اور ویسٹ انڈیز کے درمیان پہلا ٹیسٹ میچ آج ملتان میں ہوگا
  • روس ہمارے ریجن میں لیڈر بن سکےگا؟
  • چین اور موناکو کے درمیان باہمی سیاسی اعتماد کو مسلسل فروغ ملا ہے، چینی صدر
  • پاکستان، ویسٹ انڈیز ٹیسٹ سیریز ٹرافی کی رونمائی، دونوں کپتان جیت کے لیے پرجوش
  • علی امین گنڈاپور نے ’طاقتور حلقوں‘ سے بیک ڈور رابطوں کی تصدیق کر دی
  • پاک بنگلہ دیش بڑھتے تعلقات خطے میں امن کے لیے کتنے اہم ہیں؟
  • کالعدم تنظیم ٹی ٹی پی پاکستان کے خلاف امریکی اسلحہ استعمال کر رہی ہے، یورو ایشیئن ٹائمز