Jasarat News:
2025-04-15@09:52:13 GMT

من موہن سنگھ: بے توقیری یا روایات کی خلاف ورزی؟

اشاعت کی تاریخ: 11th, January 2025 GMT

من موہن سنگھ: بے توقیری یا روایات کی خلاف ورزی؟

ڈاکٹر من موہن سنگھ، بھارت کے سابق وزیر اعظم، ایک ایسی شخصیت تھے جنہیں ان کی دیانت داری، علمی قابلیت، اور ملک کے لیے بے شمار خدمات کے باعث ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ وہ بھارت کے پہلے سکھ وزیر اعظم تھے، جنہوں نے 2004 سے 2014 تک دس سالہ اقتدار کے دوران ملک کو اقتصادی ترقی کی نئی بلندیوں تک پہنچایا۔ ان کی وفات کے بعد ان کے جسد خاکی کو نگم بودھ گھاٹ لے جایا گیا، جہاں ان کی آخری رسوم ادا کی گئیں۔ تاہم، ان کی آخری رسوم راج گھاٹ پر منعقد نہ کرنے کے فیصلے نے ایک نئی بحث کو جنم دیا ہے۔ اپوزیشن رہنما راہول گاندھی نے اس فیصلے کو ڈاکٹر من موہن سنگھ کی بے توقیری قرار دیا ہے، جس پر مختلف سیاسی، سماجی، اور عوامی حلقوں میں بحث جاری ہے۔ ڈاکٹر من موہن سنگھ ایک ماہر اقتصادیات تھے، جنہوں نے 1991 کے اقتصادی اصلاحات کے معمار کے طور پر بھارت کی معیشت کو نئی راہ پر گامزن کیا۔ وزیر اعظم کے طور پر انہوں نے عالمی سطح پر بھارت کے وقار میں اضافہ کیا اور داخلی طور پر مختلف ترقیاتی منصوبے متعارف کروائے۔ ان کی سادگی، شرافت، اور سیاسی استحکام کے لیے کام کرنے کا جذبہ انہیں بھارت کی سیاست میں ایک منفرد مقام دیتا ہے۔

راج گھاٹ قومی علامت اور اہمیت کا وہ تاریخی مقام ہے جہاں مہاتما گاندھی کی آخری رسوم ادا کی گئیں۔ یہ جگہ بھارت کے عظیم رہنماؤں کو خراجِ عقیدت پیش کرنے کے لیے مخصوص ہے۔ جواہر لعل نہرو، اندرا گاندھی، راجیو گاندھی، اور دیگر اہم شخصیات کی آخری رسوم بھی یہیں منعقد کی گئیں۔ یہ مقام نہ صرف ایک علامتی حیثیت رکھتا ہے بلکہ بھارت کی قومی یکجہتی اور عظیم رہنماؤں کی خدمات کی یادگار کے طور پر جانا جاتا ہے۔

نگم بودھ گھاٹ دہلی کا ایک روایتی شمشان گھاٹ ہے، جہاں عام طور پر آخری رسوم ادا کی جاتی ہیں۔ اگرچہ یہ مقام دہلی کے عوام کے لیے عام حیثیت رکھتا ہے، لیکن اسے قومی سطح پر راج گھاٹ جیسی علامتی حیثیت حاصل نہیں ہے۔ یہاں سخت حفاظتی انتظامات کے باوجود عوام کو شرکت کی عام اجازت ہوتی ہے، جو اسے راج گھاٹ سے مختلف بناتی ہے۔

راج گھاٹ ایک ایسا مقام ہے جو بھارت کے عظیم رہنماؤں کو قومی سطح پر عزت اور مقام فراہم کرتا ہے۔ اس کے برعکس، نگم بودھ گھاٹ ایک عام شمشان گھاٹ ہے، جو عام شہریوں کی آخری رسوم کے لیے استعمال ہوتا ہے۔

راج گھاٹ کی علامتی حیثیت اسے قومی وقار کی جگہ بناتی ہے، جب کہ نگم بودھ گھاٹ ایسی کوئی علامتی اہمیت نہیں رکھتا۔ راج گھاٹ کو بھارت کے آزادی کے رہنماؤں اور قومی ہیروز کی قربانیوں سے جوڑا جاتا ہے۔ نگم بودھ گھاٹ محض ایک شمشان گھاٹ ہے جس کا کوئی خاص تاریخی یا قومی پس منظر نہیں۔ راج گھاٹ پر آخری رسوم میں سخت پروٹوکول کے تحت عوام کی محدود رسائی ہوتی ہے، جب کہ نگم بودھ گھاٹ میں عوام کی شمولیت نسبتاً زیادہ ہوتی ہے۔ راج گھاٹ پر کسی شخصیت کی آخری رسوم کا انعقاد اس کی قومی سطح پر عزت کا اظہار ہوتا ہے، جب کہ نگم بودھ گھاٹ کو زیادہ تر نجی اور ذاتی تقریبات کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔

ڈاکٹر من موہن سنگھ کی آخری رسوم نگم بودھ گھاٹ پر منعقد کرنے کا فیصلہ کئی سوالات کو جنم دیتا ہے۔ کیا سکھوں سے تعصب ہے یا یہ محض ایک انتظامی فیصلہ تھا، یا اس کے پیچھے سیاسی تعصب کارفرما تھا؟ راہول گاندھی نے اس فیصلے کو ڈاکٹر من موہن سنگھ کی بے توقیری قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ایک سابق وزیر اعظم کی خدمات کو نظر انداز کرنا اور انہیں قومی وقار کے مطابق عزت نہ دینا بھارت کی روایات کی خلاف ورزی ہے۔ حکومت نے اس فیصلے کو انتظامی چیلنجز اور موجودہ حالات کے تناظر میں لیا گیا فیصلہ قرار دیا۔ ان کا مؤقف تھا کہ راج گھاٹ پر انتظامات ممکن نہیں تھے، اس لیے نگم بودھ گھاٹ کو منتخب کیا گیا۔ عوامی حلقوں میں اس فیصلے پر شدید ردعمل دیکھنے کو ملا۔ سوشل میڈیا پر لوگوں نے ڈاکٹر من موہن سنگھ کی خدمات کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے حکومت کے اس اقدام کو تنقید کا نشانہ بنایا۔

ڈاکٹر من موہن سنگھ کی آخری رسوم کا معاملہ صرف ایک شخصیت کی آخری رسوم کا نہیں، بلکہ اس کا تعلق بھارت کی سیاست، اخلاقیات، اور قومی وقار سے بھی ہے۔ اگر قومی رہنماؤں کو ان کے مقام کے مطابق عزت نہ دی جائے، تو یہ بھارت کی جمہوریت کے لیے ایک خطرناک رجحان ہو سکتا ہے۔ اس واقعے نے بھارت کی سیاست میں موجود تعصبات کو بے نقاب کیا ہے۔ کیا سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کے رہنماؤں کو قومی مفاد کے بجائے جماعتی تعصب کی نظر سے دیکھتی ہیں؟ حکومت کی اخلاقی ذمے داری ہے کہ وہ تمام قومی رہنماؤں کو مساوی عزت دے، چاہے وہ کسی بھی جماعت سے تعلق رکھتے ہوں۔ راج گھاٹ جیسی روایات کا تحفظ قومی یکجہتی کے لیے ضروری ہے۔ اگر ان روایات کو توڑا جائے، تو اس سے بھارت کے سماجی اور سیاسی تانے بانے کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ ڈاکٹر من موہن سنگھ کی آخری رسوم کا معاملہ ایک علامتی تنازع ہے، جو بھارت کی سیاست اور سماج میں موجود گہرے مسائل کی نشاندہی کرتا ہے۔ یہ وقت ہے کہ بھارت اپنی روایات اور اقدار کو دوبارہ زندہ کرے اور اپنے عظیم رہنماؤں کو ان کے شایان شان مقام دے۔ راج گھاٹ اور نگم بودھ گھاٹ کے فرق کو سمجھتے ہوئے، قومی رہنماؤں کو ان کی خدمات کے مطابق عزت دینا بھارت کی جمہوری اقدار کے لیے ناگزیر ہے۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: کی ا خری رسوم کا بھارت کی سیاست عظیم رہنماو ں رہنماو ں کو اس فیصلے کی خدمات بھارت کے کے لیے

پڑھیں:

بھارت، وقف ترمیمی بل کے خلاف بطور احتجاج بازوئوں پر سیاہ پٹیاں باندھنے پر مسلمانوں کے خلاف مقدمات درج

سٹی مجسٹریٹ وکاس کشیپ نے مسلمانوں کو نوٹس جاری کرتے ہوئے انہیں 16 اپریل کوپیش ہونے اور دو لاکھ روپے تک کے بانڈز جمع کرانے کی ہدایت کی ہے۔ اسلام ٹائمز۔ بھارتی ریاست اترپردیش میں وقف ترمیمی بل کے خلاف علامتی احتجاج کے طور پر جمعة الوداع اور نماز عید کے دوران بازوئوں پر سیاہ پٹیاں باندھنے پر 300 سے زائد مسلمانوں کے خلاف مقدمات درج کر کے انہیں مجسٹریٹ کے سامنے پیش ہونے اور دو لاکھ روپے کے بانڈز جمع کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ ذرائع کے مطابق اتر پردیش کے ضلع مظفر نگر میں پولیس حکام نے ان مقدمات کے اندراج اور جاری کردہ نوٹسز کو قانونی قرار دیا ہے۔ مظفر نگر کے ایس ایس پی ابھیشیک سنگھ نے کہا جو نوٹس جاری کیے گئے وہ قانونی ہیں۔ سٹی مجسٹریٹ وکاس کشیپ نے مسلمانوں کو نوٹس جاری کرتے ہوئے انہیں 16 اپریل کو پیش ہونے اور دو لاکھ روپے تک کے بانڈز جمع کرانے کی ہدایت کی ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق مقامی لوگوں اور سول سوسائٹی گروپس سمیت ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ آزادی اظہار پر قدغن کے مترادف ہے اور مسلمانوں کوغیر منصفانہ طور پر نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ نوٹس موصول ہونے والے افراد میں سے ایک نے انڈین ایکسپریس کو بتایا کہ وہ ایک وکیل کی تلاش میں ہیں۔انہوں نے کہا ہمیں16 اپریل کو عدالت میں پیش ہونے کیلئے کہا گیا ہے۔ ہم نے وکیل کی تلاش شروع کر دی ہے۔ انہوں نے خدشے کا اظہار کیا کہ اگر مجسٹریٹ نوٹس کو منسوخ بھی کر دیتا ہے تو سب سے بڑا مسئلہ بانڈز کا ہے۔ اگر ضلع میں ایک سال کی مدت میں کچھ بھی ہوتا ہے تو ہمیں اٹھایا جا سکتا ہے۔نوٹس میں الزام لگایا گیا ہے کہ مسلمانوں نے نماز کے بعد دوسروں کو اکسانے اور مشتعل کرنے کی کوشش کی جس سے امن عامہ کو خطرہ لاحق ہو سکتا تھا۔ جنہیں نوٹس دیا گیا ہے انہوں نے انتظامیہ کی کارروائی کو مکمل طور پر غیر منصفانہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ نماز جمعہ کے بعد ایسی کوئی سرگرمی نہیں ہوئی جس سے امن وامان میںخلل پڑتا ہو۔ مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ انتظامیہ نے بغیر کسی ثبوت اور تحقیقات کے یہ کارروائی کی ہے۔ ایسے لوگوں کے خلاف بھی نوٹس جاری کیے گئے جو طویل عرصے سے علاقے میں نہیں رہ رہے ہیں۔ اتر پردیش کے علاقے سیتا پور کی ضلعی انتظامیہ نے بھی وقف ترمیمی قانون کے خلاف بازوئوں پر سیاہ پٹیاں باندھ کر احتجاج کرنے پر تمبور قصبے کے مسلمانوں کے خلاف مقدمات درج کئے ہیں حالانکہ وہاں کوئی احتجاجی مظاہرہ بھی نہیں ہوا۔ نوٹس موصول ہونے والوں نے پولیس کی کارروائی کو غلط قرار دیتے ہوئے کہا کہ پرامن احتجاج ہمارا جمہوری حق ہے، اس بل کے خلاف ملک بھر میں مظاہرے ہو چکے ہیں اور اب بھی ہو رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر ملک کی پارلیمنٹ میں اراکین پارلیمنٹ بازوئوں پر سیاہ پٹیاں باندھ کر بل کی مخالفت کر رہے ہیں تو ہمارا احتجاج غلط کیسے ہو گیا؟

متعلقہ مضامین

  • غزہ میں اسپتال پر حملہ بین الاقوامی انسانی قوانین کی کھلی خلاف ورزی ہے: دفترِ خارجہ
  •  غزہ میں ہسپتال کو نشانہ بنانا عالمی انسانی قوانین کی صریح خلاف ورزی ہے:پاکستان
  • ضم اضلاع کے فنڈز کے پی حکومت کو منتقل نہ کرنا آئین کی خلاف ورزی ہے، بیرسٹر سیف
  • زعفرانی لینڈ مافیا :مندر، مسجد،گرجا اور بودھ وہار کو خطرہ
  • بھارت میں وقف قوانین کے خلاف ملک گیر تحریک
  • ضم اضلاع کے فنڈز کے پی حکومت کو منتقل نہ کرنا آئین اور قانون کی خلاف ورزی ہے، بیرسٹر سیف
  • بھارت میں وقف قانون کے خلاف احتجاج کے دوران تشدد سے 3 افراد ہلاک
  • بھارت، وقف ترمیمی بل کے خلاف بطور احتجاج بازوئوں پر سیاہ پٹیاں باندھنے پر مسلمانوں کے خلاف مقدمات درج
  • مسلمانوں کی زمینوں سے متعلق بل پر بھارت میں شدید احتجاج، 3 افراد ہلاک، 118 گرفتار
  • بھارت, وقف ترمیمی بل کے خلاف جھارکھنڈ میں احتجاجی مظاہرہ