حکومت اور عمران خان کی مذاکراتی ٹیمیں اپنا ہنر آزما رہی ہیں۔ ایک کی زمامِ کار مقتدرہ کے ہاتھ میں ہے تو دوسری کی عمران خان کے پیچھے، جو نیت پیش امام کی وہی نیت ہماری، کی محتاج ہے۔ حکومتی ٹیم کو عمران خان کی ٹیم کی زبانی کلامی باتوں پر اعتبار، نہیں وہ تحریراً مذاکرات کے مطالبات طلب کررہی ہے تو عمران خان کے ساتھی تقریر میں مدعا بیان کررہے ہیں دونوں یوں ناک اونچی رکھنے کے لیے وقت گزارنے والے ہتھکنڈوں میں مصروف ہیں۔ عمران خان کی ٹیم کو 20 جنوری کا انتظار ہے جب ٹرمپ امریکا کا حکمران بن کر جلوہ افروز ہوں گے اسی امریکا کی خوشنودی کی خاطر عمران خان کی تحریک انصاف نے غزہ کانفرنس میں یہ کہہ کر انکار کیا تھا کہ ہم حکومت کے ساتھ نہیں بیٹھ سکتے ہماری کمر میں چُک پڑ جائے گی اور اب اسی حکومت کی ٹیم سے مذاکرات کے لیے حاضر ہیں۔ بس سمجھ لیں ’صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں‘ کا گورکھ دھندہ ہے۔ ریاست مدینہ کے دعویدار عمران خان، قرآن کے اس فرمان کو یاد فرمالیں ’’مومن مسلمانوں کو چھوڑ کر کافروں کو اپنا دوست اور مددگار نہ بنائیں جو ایسا کرے گا اس کا اللہ سے کوئی تعلق نہ ہوگا‘‘۔ (آل عمران) دراصل عمران خان اپنے ماضی سے دامن نہیں چھڑا رہے ہیں کہ جب انہوں نے کرکٹ کے دلدادہ نوجوانوں میں ورلڈ کپ جیت کر مقبولیت حاصل کی۔ پھر حکیم محمد سعید اور ڈاکٹر اسرار احمد کی زبانی عالم کفر نے ان کو ہتھیانے اور پاکستان کا حکمران بنانے کا پروگرام بنالیا۔
سیاست کا کھیل دولت کا ہے سو گولڈ اسمتھ کی بیٹی سے شادی کرادی گئی اور شوق اقتدار جاگا تو امریکا کے یار پرویر مشرف کی گود میں لا بٹھایا۔ مگر مروجہ انتخابی طریقہ کار میں وہ فٹ نہ بیٹھ سکے۔ پرویز مشرف مسلم لیگ ن اور پی پی پی کی اقتداری الٹ پلٹ سے تنگ تھے مگر عمران خان بھی اناڑی سیاست دان تھے سو ان کو سمجھایا گیا کہ ان دو پارٹیوں کی مخالفت کرو، اور فٹ بال کا گیم کرکٹ کے کھلاڑیوں سے ہرگز نہیں جیتا جاسکتا۔ فٹ بال بنے بغیر اقتدار خیال است ومحال است سو یہ فٹ بال بن گئے تا کہ مقتدرہ کی کک سے گول میں داخل ہو کر حکمران بن جائیں۔ اور اقتدار کی ہوس ان کو بشریٰ نامی بی بی کی چوکھٹ پر لے گئی اور پھر چشم فلک نے دیکھا کہ اس بشریٰ بی بی کے کہنے پر عمران خان ایک مزار کی چوکھٹ پر سجدہ ریز ہوگئے اور ربّ کی بارگاہ سے دور ہو کر شرک کا ارتکاب کر بیٹھے۔ اقتداری فٹ بال کے مقتدرہ نے ایک کک کے ذریعے عمران خان کو اقتدار کے گول میں لا پھینکا۔ مقتدرہ تیسری سیاسی قوت کے اجرا کے شوق میں تیسری دنیا بسا بیٹھی اور وہ کچھ حاصل نہ کرسکے جو مدعا تھا تو پھر اُن ہی گاجروں کا حلوہ مولانا فضل الرحمن کی امامت میں تیار کیا اور پھر جس نے اقتدار عمران کو دلایا، انہوں نے جیل کی راہ دکھادی اور جعلی انتخابی عمل کے حکمران بنادیے، کیا ہوگا اب عمران خان کاجنہوں نے اقتدار کی خاطر غیر اللہ کو سجدہ کرکے اسلامی غیرت کا قلاوہ اتار پھینکا۔
مجھے تاریخ کا قصہ یاد آرہا ہے جو اس سے ملتا جلتا ہے کہ بنی اسرائیل میں ایک عبادت گزار شخص غار میں ریاضیت کرتا تھا اس کی نیک نامی روز بروز مقبولیت پارہی تھی اور شیطان تائو کھا رہا تھا۔ شیطان نے اُسے بھٹکانے اور کوڑا دان کا راستہ دکھانے کے لیے ایک خوبرو عورت کو اُس کے پاس بھیجا جس کی گود میں ایک معصوم بچہ، ہاتھ میں شراب کی بوتل اور اپنا خوب صورتی کا ہتھیار تھا۔ وہ اس کے پاس آئی اور کہا کہ تین کاموں میں سے ایک کام کر مجھ سے زنا، بچہ کا قتل یا پھر شراب کا شغل۔ ورنہ میں شو مچا کر تجھے رسوا کروں گی۔ جنسی حراسگی کا الزام لگا کر تیری ساری عزت و توقیر خاک میں ملادوں گی، وہ شخص گھبرا گیا اور شراب کو گلو خلاصی کا آسان راستہ جانا۔ شراب نے مدہوش کیا تو پھر بچہ کا قتل اور عورت سے زنا کا فعل بھی سرزد ہوگیا۔ فاحشہ عورت اپنے مقصد میں کامیاب ٹھیری۔ بات عدالت تک گئی، جرم پر پھانسی کا حکم ہوا، شیطان پھانسی کے مرحلہ میں آموجود ہوا۔ اُس نے بتایا کہ میں نے ہی تجھے اس عورت کے ذریعے پھنسایا اب راہ نجات بھی میں ہی ہوں۔ مجھے سجدہ کر جان بخشی ہوجائے۔ اُس نے آئو دیکھا نہ تائو سجدہ شیطان کو کر ڈالا۔ شیطان نے زور دار قہقہہ لگایا کہ دنیا ہی سے نہیں تو آخرت کی مغفرت سے بھی گیا۔ میں تو دشمن اولاد آدم ہوں۔
عمران خان کا غیراللہ کو سجدہ تباہی کا نکتہ آغاز تھا۔ اور وہ شیطان امریکا کے چنگل میں پھنس گیا اور ربّ کی خوشنودی اور توبہ تائب ہی اس کی بقا دنیا و اُخروی کا راستہ ہے۔ پلٹ آئو صراط مستقیم کی طرف امریکا کیا ہے۔ امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمن کا خوب جملہ ہے امریکا دنیا کا سب سے بڑا طاغوت ہے جو اس کے ساتھ چلے گا وہ اسلام اور پاکستان کے خلاف چلے، عمران خان اس طاغوت کی مذمت کیوں نہیں کرتے یہ سوال اب گردش ایام ہے۔
’’تو جھکا جب غیر کے آگے، نہ من تیرا نہ تن‘‘
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: عمران خان کی
پڑھیں:
’’مجھے پاکستان کرکٹ ٹیم سے لگاؤ نہیں ہے‘‘ شاہد آفریدی نے ایسا کیوں کہا؟
کراچی(نیوز ڈیسک)سابق قومی کپتان شاہد خان آفریدی نے کہا ہے کہ انہیں پاکستان کرکٹ ٹیم سے لگاؤ نہیں ہے جب کہ پی سی بی میں بھی تسلسل نہیں ہے۔
نجی ٹی وی کے مطابق سابق قومی کپتان شاہد آفریدی نے نیشنل ہاکی اسٹیڈیم میں آمد کے بعد میڈیا سے گفتگو میں پاکستان کرکٹ بورڈ اور ٹیم کے حوالے سے تفصیلی گفتگو کی اور کہا کہ انہیں مجھے پاکستان کرکٹ ٹیم سے کوئی لگاؤ نہیں ہے۔ اگر مجھے سے کام لینا ہے تو گراس روٹ لیول پر کام لیا جائے۔
شاہد آفریدی نے کہا کہ پاکستان کرکٹ بورڈ میں تسلسل نہیں ہے۔ محسن نقوی نے پنجاب میں کافی کام کیا اور وہ ڈلیور کر چکے ہیں۔ محسن نقوی کو کہا کہ آپ کے دونوں عہدے بہت بڑے ہیں اور مشورہ دیا کہ صرف چیئرمین پی سی بی کا عہدہ رکھ لیں۔
سابق کپتان کا کہنا تھا کہ آرمی چیف جنرل عاصم منیر سے ملاقات چھپ کر نہیں کی اور نہ ہی اس ملاقات میں کسی کی چغلی کی گئی۔
انہوں نے مزید کہا کہ پی سی بی کو کھلاڑیوں کو ڈومیسٹک سیزن میں لیگ کی اجازت نہیں دینی چاہیے۔ شعیب ملک فٹ ہے تو کھیل رہا ہے، میں اب نہیں کھیل سکتا۔
شاہد آفریدی نے قومی ون ڈے ٹیم کے کپتان محمد رضوان کے حالیہ بیانات کے حوالے سے کہا کہ انہیں میڈیا پر ایسی باتیں نہیں کرنی چاہیں اور جب کپتان بنایا جائے تو کوئی بہانہ نہیں کرنا چاہیے۔ رضوان نے جب جنوبی افریقہ کو شکست دی تو تب کیوں نہیں کیا کہ میرے ہاتھ میں کچھ نہیں ہے۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ ہاکی ہمارا قومی کھیل، لیکن تباہی کا شکار ہے۔ کھیلوں کی وزارت کی توجہ قومی کھیل کی جانب نہیں ہے، لیکن وزیراعظم شہباز شریف کھیلوں سے لگاؤ رکھتے ہیں اور امید ہے کہ وہ ہاکی پر بھی توجہ دیں گے۔
مزیدپڑھیں:پاکستان میں سوزوکی سوئفٹ مہنگی، نئی قیمت نے چکرا دیا