ٹنڈوجام (نمائندہ جسارت) نائب امیر جماعت اسلامی عثمان شاہ مولانا ثنا اللہ نے کہا ہے کہ انسان کی زندگی کا مقصد صرف اللہ کا نظام زمین پر نافذ کرنا ہے، قرآن وسنت سے دوری کی وجہ سے ہم مسائل اور مشکلات کا شکار ہیں۔ یہ بات انہوں نے مدرسہ ریاض العلوم عثمان شاہ میں جمعیت طلبہ عربیہ کی شب بیداری کے پروگرام سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔ انہوں نے کہا کہ مدرسے میں تعلیم حاصل کرنے والے طالب علم کے کندھوں پر بہت بڑی ذمے داری ہوتی ہے، وہ قرآن وسنت کے پیغام کو سمجھ کر اسے لوگوں تک پہنچائیں اور انہیں بتائیں کہ آج ہم جن مسائل سے دوچار ہیں، اس کی سب سے بڑی وجہ قرآن و سنت کی تعلیمات سے دوری ہے، اس کی وجہ سے ہماری نئی نسل بے راہ روی کا شکار اور ہم مسائل و مشکلات سے دوچار ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں رات کو اُ ٹھ کر اپنے رب کے حضور توبہ استغفار کرنا چاہیے، انسانوں کے بجائے اللہ ہی سے مدد طلب کرنا چاہیے، تربیت گاہ سے جمعیت طلبہ عربیہ حیدرآباد کے امین عبدالمنعم نے خطاب کرتے ہوئے کہا جمعیت طلبہ عر بیہ مدراس کے طلبہ کی سب سے بڑی تنظیم ہے، یہ تنظیم طلبہ کو دینی اور دنیوی دونوں تعلیم سے آراستہ کر رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ جمعیت فرقہ واریت عصبیات اور لسانیت سے پاک تنظیم ہے، وہ اپنے طلبہ کے کردار کی تعمیر قرآن وسنت کے مطابق کر رہی ہے۔ تربیت گاہ سے منتظم عربیہ عثمان شاہ، رضوان احمد اور بزم قرآن ضلع حیدرآباد کے ناظم محمد اقبال نے بھی خطاب کیا۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: انہوں نے

پڑھیں:

نیو ورلڈ آرڈر کی تشکیل میں ایران روس تعاون

اسلام ٹائمز: انہی حقائق کی روشنی میں یوں دکھائی دیتا ہے کہ مغربی ایشیا کے بنیادی مسائل کا حل مغربی اداروں کی مداخلت سے نہیں بلکہ برکس اور شنگھائی تعاون تنظیم جیسی تنظیموں کے بنیادی کردار سے میسر ہو سکے گا۔ اس کی وجہ بھی واضح ہے۔ ان تنظیموں کے رکن ممالک نے ہمیشہ سے علاقائی مسائل اور مشکلات کے بارے میں زیادہ متوازن پالیسی اختیار کی ہے جبکہ امریکہ اور اس کے اتحادی ہمیشہ یکہ تازیوں میں مصروف رہے ہیں اور طاقت اور جنگ کے بل بوتے پر اپنا تسلط بڑھانے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔ تہران، ماسکو اور بیجنگ نے بارہا اعلان کیا ہے کہ نیٹو جیسے فوجی اتحاد یورایشیا سمیت مختلف خطوں کی سیکورٹی فراہم کرنے میں ناکام رہے ہیں اور اسی وجہ سے برکس اور شنگھائی تعاون کی تنظیم جیسی علاقائی اور عالمی تنظیموں کو علاقائی مسائل کے حل میں زیادہ احساس ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ تحریر: کامران مرادی
 
دنیا انتہائی اسٹریٹجک اور بنیادی تبدیلیوں سے گزر رہی ہے۔ بین الاقوامی تعلقات عامہ پر حکمفرما موجودہ آرڈر اور عالمی سیاست تبدیل ہو رہے ہیں اور ان تبدیلیوں کا نتیجہ مغربی ممالک کے اثرورسوخ میں کمی کی صورت میں ظاہر ہو رہا ہے جس کے باعث دنیا کے دیگر جنوبی ممالک جیسے ایران، روس، چین، انڈیا وغیرہ کے سامنے میدان کھلتا جا رہا ہے اور وہ بھی علاقائی اور عالمی سطح پر اپنے اثرورسوخ میں اضافہ کرنے میں مصروف ہیں۔ ان تبدیلیوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایک نیا ملٹی پولر عالمی نظام ابھر کر سامنے آ رہا ہے جس میں عالمی سطح پر طاقت کا توازن زیادہ ممالک میں تقسیم ہو جائے گا اور مشرقی ممالک بھی مستقبل کے ورلڈ آرڈر کی تشکیل میں اہم اور قابل توجہ کردار ادا کر پائیں گے۔ ورلڈ آرڈر میں اس تبدیلی کا اثر تقریباً تمام ممالک اور علاقائی اور عالمی تنظیموں اور اداروں پر پڑ رہا ہے۔
 
نیٹو، ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن، آئی ایم ایف وغیرہ جیسے عالمی ادارے اور تنظیمیں جو خاص طور پر مغربی ممالک کے زیر تسلط ہیں اس وقت شدید بحرانی حالات سے روبرو ہو چکے ہیں اور ان کی حالت کسی سانحے سے کم نہیں ہے۔ موجودہ حالات میں یہ ادارے اور تنظیمیں زوال کی جانب گامزن ہیں۔ نئی امریکی حکومت نے اپنے یورپی اتحادی ممالک سے متعلق پالیسی تبدیل کر دی ہے جس کے نتیجے میں نیٹو اور یورپی یونین جیسے اداروں کے درمیان اختلافات کھل کر سامنے آ چکے ہیں۔ ان اختلافات کے باعث حتی رکن ممالک بھی ایک دوسرے کو فوجی دھمکیاں دینے میں مصروف ہیں۔ دوسری طرف دنیا کے جنوبی ممالک کی اقتصادی اور فوجی طاقت میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے جس کی وجہ سے عالمی سطح پر مساواتیں بھی تیزی سے بدل رہی ہیں۔ یوں عالمی سطح پر طاقت کا توازن مغرب سے مشرق کی جانب بڑھتا جا رہا ہے۔
 
البتہ یہ ممالک علیحدہ علیحدہ سیاسی سرگرمیاں انجام نہیں دے رہے بلکہ انہوں نے طاقتور اور موثر اتحاد تشکیل دے رکھے ہیں۔ ایک جیوپولیٹیکل اتحاد ایران، روس، چین اور انڈیا نے تشکیل دیا ہے جو مستقبل قریب میں مکمل طور پر مغربی اتحادوں کی جگہ سنبھالنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس تبدیلی کی واضح مثال برکس (BRICS) اور شنگھائی تعاون تنظیم (SCO) جیسی تنظیموں کا پھیلاو ہے جو مغرب کے مالی اور سیکورٹی نیٹ ورکس کا متبادل تصور کی جاتی ہیں۔ مثال کے طور پر برکس میں روس، چین، انڈیا، برازیل اور جنوبی افریقہ جیسے ممالک شامل ہیں۔ یہ تنظیم عالمی سطح پر مالی سرگرمیوں کی انجام دہی کے لیے ایک خودمختار نیٹ ورک بنانے میں مصروف ہے جو موجودہ مغربی نیٹ ورک سویفٹ کی جگہ لے لے گا۔ یوں ڈالر اور مغربی مالی اداروں پر انحصار کم ہو جائے گا۔
 
انہی حقائق کی روشنی میں یوں دکھائی دیتا ہے کہ مغربی ایشیا کے بنیادی مسائل کا حل مغربی اداروں کی مداخلت سے نہیں بلکہ برکس اور شنگھائی تعاون تنظیم جیسی تنظیموں کے بنیادی کردار سے میسر ہو سکے گا۔ اس کی وجہ بھی واضح ہے۔ ان تنظیموں کے رکن ممالک نے ہمیشہ سے علاقائی مسائل اور مشکلات کے بارے میں زیادہ متوازن پالیسی اختیار کی ہے جبکہ امریکہ اور اس کے اتحادی ہمیشہ یکہ تازیوں میں مصروف رہے ہیں اور طاقت اور جنگ کے بل بوتے پر اپنا تسلط بڑھانے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔ تہران، ماسکو اور بیجنگ نے بارہا اعلان کیا ہے کہ نیٹو جیسے فوجی اتحاد یورایشیا سمیت مختلف خطوں کی سیکورٹی فراہم کرنے میں ناکام رہے ہیں اور اسی وجہ سے برکس اور شنگھائی تعاون کی تنظیم جیسی علاقائی اور عالمی تنظیموں کو علاقائی مسائل کے حل میں زیادہ احساس ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔
 
دوسرے الفاظ میں یورایشیا اس وقت امن اور استحکام کا گہوارہ بنے گا جب نیٹو وہاں سے نکل جائے گی اور خطے کے ممالک پر مشتمل علاقائی تنظیمیں اس کی جگہ لے لیں گی۔ تہران اور ماسکو نے یورایشیا خطے میں دو اہم کھلاڑی ہونے کے ناطے انرجی، سیکورٹی اور تجارت کے شعبوں میں باہمی اسٹریٹجک تعاون کو فروغ دیا ہے۔ تیل اور گیس، فوجی تعاون، دفاعی ٹیکنالوجیز اور بین الاقوامی راہداریوں جیسے شمال جنوب راہداری میں شراکت سے متعلق طولانی مدت معاہدے انجام پائے ہیں جو اس تعاون کا واضح ثبوت ہیں۔ ایران نے شنگھائی تعاون تنظیم اور برکس میں شامل ہو کر ان اتحادوں کو مضبوط بنانے میں بڑا قدم اٹھایا ہے۔ امریکہ جو ان اتحادوں کے بنیادی کردار سے آگاہ ہو چکا ہے مسلسل ان کے سامنے رکاوٹیں کھڑی کرنے میں مصروف ہے۔ مثال کے طور پر امریکہ نے برکس اور شنگھائی تعاون تنظیم کے رکن ممالک کو بین الاقوامی تقریبات کے لیے ویزا دینے پر پابندی لگا رکھی ہے۔
 
اسی طرح امریکہ نے اپنے اتحادی ممالک پر زور دیا ہے کہ وہ ان تنظیموں کے رکن ممالک کے سربراہان کو سفر کے لیے اپنا آسمان استعمال کرنے کی اجازت نہ دیں۔ اس کی ایک مثال سویٹزرلینڈ میں یوکرین جنگ کے خاتمے کے لیے بین الاقوامی کانفرنس کا انعقاد تھا جس میں روس کو دعوت نہیں دی گئی جبکہ چین نے بھی اس میں شرکت نہیں کی تھی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مغربی ممالک برکس اور شنگھائی تعاون تنظیم کو اپنا دشمن سمجھتے ہیں اور انہیں کمزور بنانے کی کوشش میں مصروف ہیں۔ شنگھائی تعاون تنظیم اور برکس کے رکن ممالک کا اصل مقصد اپنے تشخص، حق خود ارادیت اور سلامتی کی حفاظت کرنا ہے جس کے لیے وہ ایک عالمی پلیٹ فارم پر باہمی تعاون میں مصروف ہیں اور یہ وہی چیز ہے جس کی مغربی تنظیموں میں کمی ہے۔

متعلقہ مضامین

  • کراچی؛ سی ٹی ڈی کی کارروائی، کالعدم تنظیم کا دہشتگرد گرفتار
  • کراچی ، سی ٹی ڈی کی کارروائی ، کالعدم تنظیم کا خطرناک دہشت گرد گرفتار
  • گلگت، جے یو آئی کی صوبائی مجلس عاملہ کا اجلاس
  • حکومت سندھ کی بے حسی؛ گریس مارکس کا نوٹیفکیشن تاخیر کا شکار، طلبہ کا مستقبل داؤ
  • تنخواہیں جمود کا شکار اور مہنگائی تاریخی سطح پر‘ تنخواہ دار طبقے کی مالی مشکلات میں اضافہ ہو ا ہے.سیلریڈ کلاس الائنس
  • اٹلی میں مقیم پاکستانیوں نے ایک ارب ڈالر کا زرِ مبادلہ پاکستان بھیجا ، اٹلی میں پاکستان کے سفیر کا اوورسیز پاکستانیز کنونشن سے خطاب
  • بھارت کی وکلا تنظیم نے وقف ایکٹ کو متعصبانہ قانون قرار دے دیا
  • امت مسلمہ کو حکمرانوں کی پروا کیے بنا اسرائیل کے خلاف اٹھ کھڑا ہونا ہوگا، مولانا فضل الرحمان
  • نیو ورلڈ آرڈر کی تشکیل میں ایران روس تعاون
  • وقف قانون میں 44 خامیاں ہیں حکومت کی منشا وقف املاک پر قبضہ کرنا ہے، مولانا فیصل ولی رحمانی