سعودیہ پروازوںکی بر وقت روانگی کے حوالے سے متاثر کن شرح کے ساتھ دنیا میںپہلے نمبر پر رہی

کراچی(کامرس رپورٹر)سعودی عرب کی قومی فضائی کمپنی سعودیہ نے ایک اور سنگ میل حاصل کرلیا ہے ،ایوی ایشن انڈسٹری کی معتبر اور آذاد سائٹ سیریم کی ایک رپورٹ کے مطابق سعودیہ پروازوںکی بر وقت روانگی کے حوالے سے 88.82فیصد کی متاثر کن شرح کے ساتھ دنیا میںپہلے نمبر پر رہی ہے۔پروازوںکی بروقت آمد کی کارکردگی میںسعودیہ محض0.

35فیصد شرح کی کمی کے مارجن سے دوسرے نمبر پرر ہی اور پروازوںکی بر وقت آمد کی شرح86.35فیصد رہی۔سعودیہ نے سال2024میںچار بر اعظموںمیں 100سے زائد مقامات پر مشتمل نیٹ ورک پر کامیابی کے ساتھ192,560پروازیں چلائیں۔یہ کامیابی خاص طور پر پاکستان کے مسافروں کیلئے اہمیت کی حامل ہے، جو سعودیہ کے لیے ایک اہم مارکیٹ ہے۔سعودیہ ایئر لائن پاکستان کے بڑے شہروں بشمول کراچی، لاہور، اسلام آباد اور ملتان کو سعودی عرب سے ملانے والی باقاعدہ پروازیں آپریٹ کرتی ہے۔ یہ کنکشنز پاکستانی مسافروں، خاص طور پر حج اور عمرہ کرنے والے زائرین کے ساتھ ساتھ کاروباری اور تفریحی مقاصد کے لیے سفر کرنے والوں کے لیے بہت اہم ہیں۔

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: کے ساتھ

پڑھیں:

مریم نواز کی بھول

وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف نے اس رائے کا اظہار کیا ہے کہ کارکردگی اور بیانیہ دو الگ الگ چیزیں ہیں، بیانیہ وہ بناتے ہیں جن کے پاس کارکردگی دکھانے کی صلاحیت نہیں ہوتی۔ معروف اور تجربہ کار سیاسی گھرانے سے تعلق رکھنے والی خاتون وزیر اعلیٰ کی اس بات کا حقیقت سے کتنا تعلق ہے؟ اس حوالے سے ایک بڑی مثال چودھری پرویز الٰہی کی ہے جو حکومت میں ہوں یا اپوزیشن میں ہر خاص و عام کے لیے دستیاب رہتے ہیں۔ جنرل مشرف کے دور میں انہوں نے بطور وزیر اعلیٰ پنجاب ریکارڈ ترقیاتی کام کرائے، سیاسی میدان میں بھی پوری طرح سے سرگرم رہے لیکن 2008 ء کے انتخابات میں کھیل سے باہر ہو گئے پھر اقتدار میں شراکت کے لیے پیپلز پارٹی سے اتحاد کرنا پڑا۔ کیونکہ مخالفین کے برعکس ان کے پاس کوئی بیانیہ نہیں تھا یا یوں کہہ لیں کہ مخالفین کے بیانیے کا توڑ نہیں کر سکے۔ نواز شریف نے سیاست کا آغاز جنرل ضیاالحق کے مارشل لا میں کیا۔ وزیر خزانہ بنے پھر 1985ء کے غیر جماعتی انتخابات میں وزیر اعلیٰ پنجاب بن کر بہت زیادہ ترقیاتی کام کرائے، پارٹی سیاست پر بھرپور محنت کی اور عوام کے ساتھ بھی گھل مل کر رہے۔ 1988ء کے انتخابات میں جب پیپلز پارٹی کی حمایت میں عوامی لہر چل رہی تھی تو نواز شریف نے مخالف قوتوں کی نمائندگی کرتے ہوئے بیانیہ بنایا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ نہ صرف مسلم لیگ کے صدر بن گئے بلکہ 1990 ء کے انتخابات جیت کر وزیر اعظم بھی بن گئے۔ ایسی پالیسیاں اختیار کیں جس سے پختہ انفراسٹرکچر بنا جو پاکستان کو اقتصادی طور پر آگے بڑھانے لگا۔ موٹر ویز سمیت سب سے زیادہ ترقیاتی کام کرائے لیکن اس دوران ایک بھرپور سیاسی بیانیہ بھی اپنائے رکھا۔ 1993ء میں اسٹیبلشمنٹ کے گاڈ فادر صدر غلام اسحاق خان کے ہاتھوں اپنی حکومت کی برطرفی کے بعد ’’ڈکٹیشن نہیں لوں گا‘‘ کا بیانیہ اختیار کر کے ناقابل تسخیر عوامی رہنما بن گئے۔ اسی بیانیے کی بنیاد پر دوسری مرتبہ وزیر اعظم بنے انہیں ہٹانے کے لیے جنرل مشرف کو مارشل لا لگانا پڑا۔ 2013 ء میں تیسری بار وزیر اعظم بنے تو یہ بھی بیانیے اور کارکردگی کا مشترکہ پھل تھا۔ پی ٹی آئی کے بانی عمران خان نے تو آج تک جو کمالات دکھائے اور جو کچھ کیا وہ محض بیانیے کا کھیل ہی ہے ورنہ ان کی کارکردگی تو ملک و قوم کے لیے کئی حوالوں سے تباہ کن ثابت ہوئی۔ آگے جانے سے پہلے تھوڑا پیچھے جھانکیں تو ذوالفقار علی بھٹو جو بلاشبہ بڑے اور ہر دلعزیز لیڈروں میں سے ایک تھے کی ساری مقبولیت جنرل ایوب مخالف بیانیے کی مرہون منت تھی۔ آج جب کے عالمی حالات، انفارمیشن ٹیکنالوجی کے پھیلاؤ اور ہماری اسٹیبلشمنٹ کی سوچی سمجھی پالیسیوں کے نتیجہ میں ماحول ایسا بن چکا ہے کہ بیانیہ ہر چیز پر حاوی ہو جاتا ہے تو اس سے انکار ممکن نہیں۔ زیادہ سے زیادہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ کارکردگی اور بیانیہ لازم و ملزوم ہیں۔ پی ٹی آئی 2013 ء سے، کے پی کے میں حکومت کر رہی ہے۔ صوبے کے حالات ہر لحاظ سے مخدوش ہیں لیکن 2024 ء میں بھی یہ بیانیہ ہی ہے کہ جس نے پی ٹی آئی کو تقریباً کلین سویپ کرا دیا۔ مریم نواز جس محنت اور لگن کے ساتھ مختلف عوامی، فلاحی اور ترقیاتی منصوبوں پر عمل درآمد کرا رہی ہیں وہ کسی کی آنکھ سے اوجھل نہیں۔ پنجاب میں اہم عہدوں پر تقرریاں اور تبادلے میرٹ پر ہو رہے ہیں۔ سوال مگر یہ ہے کہ کیا اس کارکردگی سے ان کی یا مسلم لیگ ن کی پرانی ساکھ بحال ہو رہی ہے تو اس کا ایک ہی جواب ہے، نہیں۔ مسلم لیگ ن سیاسی اور تنظیمی طور پر کہیں نظر نہیں آ رہی۔ پنجاب میں ارکان اسمبلی ہی نہیں وزرا بھی گلے شکوے کرتے پائے جا رہے ہیں۔ صرف سرکاری تقریبات کے دوران شرکا کے ساتھ گھل مل کر سلفیاں بنانے کو عوامی سیاست نہیں کہا جا سکتا۔ پارٹی متحرک نہ ہو تو محلے کی سطح کے عہدیدار بھی لوگوں سے منہ چھپا کر بیٹھ جاتے ہیں۔ لاہور کا ایک بزنس مین جو چند ماہ پہلے تک ن لیگ میں شمولیت کے لیے تیاری کر رہا تھا اب کہتے پایا گیا ہے کہ ن لیگ کا حال ق لیگ سے بھی خراب ہو رہا ہے۔ ق لیگ کے دور میں چودھری پرویز الٰہی نہ صرف وزرا، ارکان اسمبلی بلکہ پارٹی کے عام عہدیدروں اور کارکنوں کو نہ صرف وقت دیتے تھے بلکہ ان کے کام ترجیحی بنیادوں پر کرتے تھے۔ اس سب کے بعد بھی بیانیہ نہ ہونے کے سبب انہیں اپنی سیاست بچانے کے لیے پی ٹی آئی میں جانا پڑا۔ وزیر اعظم شہباز شریف مزاجاً غیر سیاسی ہیں مگر مریم نواز کے بارے میں تاثر تھا کہ وہ کراؤڈ پلر ہونے کے ساتھ ساتھ پارٹی سیاست کو آگے بڑھائیں گی۔ بھر پور سیاست اور بیانیہ کے بغیر اچھی سے اچھی کارکردگی بھی ایسے ہی ہے جیسے کوئی بیورو کریٹ شاندار پرفارمنس پیش کر کے ریٹائر ہو کر منظر سے غائب ہو جائے۔ بیانیہ کے حوالے سے مریم نواز کی اپنی سوچ جو بھی ہو یہ طے ہے کہ حالات کی نزاکت کو مد نظر رکھ کر بیانئے کی طے شدہ لائن اختیار کیے بغیر سیاسی شطرنج کے کھیل میں شریک رہا ہی نہیں جا سکتا۔ مریم نواز نے بیانیہ اور کارکردگی کو متضاد عمل کسی وقتی سیاسی ضرورت کے تحت کہا ہے تو اور بات لیکن اگر وہ حقیقتاً ایسا سمجھتی ہیں تو یہ ان کی بھول ہے۔

متعلقہ مضامین

  • ناقابل اعتبار
  • ٹنڈوجام،سندھ زرعی یونیورسٹی میں دوروزہ عالمی خواتین کانفرنس کے اختتام پر مہمانوں کا وائس چانسلر ڈاکٹرالطاف سیال کے ساتھ گروپ
  • میرپورخاص ریجن میں شاندار اسٹیم مقابلوں کا انعقاد
  • گدون ٹیکسٹائل ملز نے کپاس کی کم پیداوار کے باوجود مضبوط کارکردگی دکھائی. ویلتھ پاک
  • مریم نواز کی بھول
  • مہنگائی میں نمایاں کمی، چینی مالیاتی منڈیوں تک رسائی، ہانگ کانگ سٹاک لسٹنگز کیلئے تیار: وزیر خزانہ
  • حکومت سعودیہ سمیت کسی ملک سے ادھار تیل نہیں لے رہی‘مصدق ملک
  • الخدمت فاؤنڈیشن بنو قابل پروگرام: نمایاں کارکردگی پر طلبہ و طالبات میں لیپ ٹاپ تقسیم
  • سونے کی قیمت میں 2,900 روپے کا اضافہ، قومی درآمدات میں نمایاں تیزی
  • چاول کی برآمدات میں 33.68 فیصد اضافہ، زرمبادلہ میں نمایاں بہتری