Express News:
2025-04-16@10:15:19 GMT

کراچی میں فراہمی آب کے دعوے، نقش برآب ثابت

اشاعت کی تاریخ: 11th, January 2025 GMT

سندھ حکومت نے کراچی واٹرکارپوریشن میں کرپشن کے خلاف تحقیقات شروع کر دی ہے، جس کا آغاز سی ای او کو نہ صرف کام سے روک کرکیا گیا ہے بلکہ سی ای او کے مرکزی دفتر میں داخل ہونے پر بھی پابندی لگا دی ہے۔

سی ای او کے خلاف یہ اقدام زیر زمین پانی نکالنے کے لائسنس کے نام پر کروڑوں روپے کے گھپلے سامنے آنے پر اٹھایا گیا ہے جب کہ کراچی واٹر کارپوریشن میں پہلے سے موجود ٹینکر مافیا کی کرپشن روکنے اور شہر میں پانی کی مصنوعی قلت پیدا کرکے شہریوں کو پریشان کرنے، پانی کی چوری میں ملوث کسی افسر کے خلاف کوئی کارروائی عمل میں نہیں آئی اور ادارے کے سی ای او کرپشن کے الزام کا نشانہ بنے ہیں۔

سندھ حکومت نے زیر زمین پانی کے لائسنسوں کے اجرا میں بے ضابطگیوں اور پانی چوری کرنے کے خلاف بڑے پیمانے پر انکوائری کا بھی حکم دیا ہے۔

واضح رہے کہ کراچی واٹر کارپوریشن کے چیئرمین بلدیہ عظمیٰ کراچی کے بااختیار میئر ہیں جن کا تعلق پیپلز پارٹی سے ہے جب کہ اس سے قبل ایم کیو ایم کے کسی میئر کو بااختیار نہیں بنایا گیا تھا اور بااختیار میئر اور چیئرمین واٹر کارپوریشن کے باوجود موسم سرما میں بھی شہریوں کو پانی نہیں مل رہا۔ کراچی واٹر کارپوریشن جو پہلے کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ تھا اور سٹی حکومت کے خاتمے کے بعد سے سندھ کی حکومت کے ماتحت ادارہ ہے جس میں میئر کراچی کی کوئی اہمیت پہلے نہیں تھی۔

سٹی حکومت کے نظام میں سٹی ناظم ہی کراچی واٹر بورڈ کے سربراہ تھے اور ایک یوسی ناظم کو بھی واٹر بورڈ میں اہم ذمے داری دی جاتی تھی اور فراہمی آب کی اتنی شکایات ماضی میں کبھی نہیں رہیں۔

سندھ حکومت کے کنٹرول میں آنے اور سٹی حکومت کے نظام کے خاتمے کے بعد دیگر بلدیاتی اداروں پر بھی سندھ حکومت کا مکمل کنٹرول قائم ہوا تھا اور سندھ حکومت نے اپنے خاص افراد کو ان اداروں کا سربراہ بنایا جس کے بعد ہر ادارے میں کرپشن کو فروغ حاصل ہوا جس میں ایس بی سی اے کو سب سے کرپٹ ادارہ تصور کیا جاتا ہے اور کراچی میں ترقی کے نام پر کے ڈی اے، ایم ڈی اے، ایل ڈی اے کو ذمے داریاں دی گئی تھیں اور بلدیہ عظمیٰ، ڈی ایم سیز اور ٹاؤنز اور یوسیز کو بھی صفائی کرانے کے اختیارات سے محروم کرکے کراچی میں صفائی کرانے کی ذمے داری ایک نئے سرکاری ادارے سالڈ ویسٹ مینجمنٹ بورڈ کو دی گئی تھی جب کہ سیوریج کے پانی کی نکاسی اور گٹروں کے ڈھکنوں کی تنصیب کے ڈبلیو ایس بی کے پاس رہی مگر شہر میں فراہمی ونکاسی آب اور کھلے گٹروں کی جو صورت حال ہے اتنی بری صورتحال ماضی میں کبھی نہیں رہی۔ کے ڈبلیو ایس بی کو کراچی واٹر کارپوریشن کا نام دیا گیا جس کے پاس زیر زمین پانی استعمال کرنے کے لیے لائسنس جاری کرنے کا بھی اختیار ہے جس میں گھپلوں کی بھرمار کی وجہ سے بدعنوانیاں ثابت ہونے پر 70 لائسنس منسوخ کیے جا چکے ہیں۔

کراچی میں بلک کنکشنز میں بھی بڑے پیمانے پر بے ضابطگیوں کی شکایات منظر عام پر آچکی ہیں اور کراچی کو پانی فراہم کرنے والے اس ادارے نے بورڈ سے واٹر کارپوریشن بننے کے بعد شہر میں فراہمی آب کا بوسیدہ نظام بہتر بنانے پر کوئی توجہ نہیں دی بلکہ دو سال سے واٹر بلوں میں ہر سال بیس فیصد رقم بڑھانے کی پالیسی اختیار کر رکھی ہے۔ ادارہ ہر سال پانی کے نرخ بڑھا کر اپنی آمدنی ضرور بڑھا رہا ہے مگر شہر میں فراہمی آب کی صورت حال روز بروز بد سے بدتر ہوتی جا رہی ہے۔

اندرون شہر جہاں واٹر کارپوریشن بنائے جانے سے قبل لائنوں میں کچھ پانی آ ہی جاتا تھا مگر ضرورت کے مطابق پانی نہ ملنے کی وجہ سے لوگ ٹینکر خریدنے پر مجبور تھے، واٹر کارپوریشن کے بعد پانی کی قلت مزید بڑھی تو لوگوں نے اپنے اپنے طور پر زیر زمین پانی حاصل کرنے کے لیے بورنگیں کرانا شروع کیں جو مسلسل مہنگی ہو رہی ہیں کیونکہ زیر زمین پانی کی سطح بورنگوں کے باعث مسلسل نیچے جا رہی ہے۔ کراچی میں جہاں زیر زمین پانی استعمال کے قابل ہے وہاں لوگوں نے بورنگیں کرا کر پانی کی بڑی بوتلوں کی فروخت شروع کر رکھی ہے۔

وہ اپنی دکانوں پر منہ مانگے داموں پانی فروخت کر رہے ہیں اور ان کے کارندے کچھ زیادہ نرخوں پر گھروں پر پانی کی بڑی بوتلیں فراہم کر رہے ہیں۔ پہلے بڑی کمپنیاں زیر زمین پانی نکال کر مختلف ناموں سے مہنگے داموں یہ پانی فروخت کرکے مال کما رہی تھیں اور حکومت کو کچھ نہیں ملتا تھا جس کے بعد سندھ حکومت نے اپنے افسروں کی کمائی بڑھانے کے لیے زیر زمین پانی کا کاروباری طور پر فروخت کے لیے لائسنس کی پابندی لگا دی اور واٹر کارپوریشن جو واٹر لائسنس جاری کرتی اس کو بھی بدعنوانوں نے کمائی کا ذریعہ بنا لیا اور لائسنسوں کے اجرا میں اتنی زیادہ کرپشن بڑھی کہ سندھ حکومت کو لائسنسوں کے اجرا میں کروڑوں کی کرپشن کا نوٹس لینا پڑا۔

تحقیقات میں ستر لائسنس منسوخ کیے گئے اور پہلی بار ادارے کے سی ای او کے خلاف کارروائی عمل میں لانا پڑی۔شہر میں ٹینکر مافیا انتہائی طاقتور اور سیاسی افراد پر مشتمل ہے جو سرکاری پانی چوری کر کے ٹینکروں کے ذریعے منہ مانگے داموں فروخت کر رہی ہے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: زیر زمین پانی سندھ حکومت نے میں فراہمی فراہمی آب کراچی میں حکومت کے سی ای او پانی کی کے خلاف کے بعد کے لیے

پڑھیں:

سندھ حکومت نے پنجاب کی جانب سے ارسا کو لکھے گئے خط کو مسترد کردیا

کراچی:

وزیر آبپاشی سندھ جام خان شورو نے پنجاب حکومت کی جانب سے ارسا کو لکھے گئے خط کو مسترد کردیا۔

ایکسپریس نیوز کے مطابق سندھ حکومت نے پنجاب حکومت کے ارسا کو لکھے گئے خط کو مسترد کرتے ہوئے اس پر ردعمل دیا ہے۔

وزیر آبپاشی نے کہا کہ سندھ پنجاب کی جانب سے ارسا کو لکھے خط کو مسترد کرتا ہے، سندھ کو 1991 کے آبی معاہدہ کے تحت حصے کا پانی دیا جائے۔

جام خان شورو نے کہا کہ سندھ کے کینالز کو رواں ماہ اپریل کے دس دنوں میں 62 فیصد پانی کی قلت برداشت کرنی پڑی، جبکہ 1991 کے پانی معاہدہ کے تحت پنجاب کے کینالوں کو 54 فیصد پانی کی قلت برداشت کرنی پڑی۔ 

وزیر آبپاشی نے کہا کہ آبی معاہدہ 1991 کے تحت تمام صوبوں کو پانی کی کمی برابری کی بنیاد پر برداشت کرنی ہے، سندھ میں اس وقت کپاس اور چاول کی کاشت ہونی چاہیے،ہم صرف  پینے کا پانی دے پا رہے ہیں، جبکہ اس وقت پنجاب میں گندم کی کٹائی کی جارہی ہے۔

متعلقہ مضامین

  • بارود کا ڈھیر
  • حکومت سندھ کا تکراری تونسہ کینال کھولنے پر ارسا سے سخت احتجاج، فوری بند کرنے کا مطالبہ
  • ٹی پی لنک کینال کھولنا سندھ کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہے: جام خان شورو
  • سندھ حکومت کا ارسا کو خط، ٹی پی لنک کینال بند کرنے کا مطالبہ
  • ارسا نے سندھ کو زیادہ پانی دینے کے پنجاب حکومت کے دعوے کو مسترد کردیا
  • حکومت پنجاب کا سندھ کو زیادہ پانی دیے جانے کا الزام، ارسا نے الزامات مسترد کردیے
  • سندھ حکومت نے پنجاب کے ارسا کو لکھے گئے خط کو مسترد کردیا
  • سندھ حکومت نے پنجاب حکومت کے ارسا کو لکھے خط کو مسترد کردیا
  • سندھ حکومت نے پنجاب کی جانب سے ارسا کو لکھے گئے خط کو مسترد کردیا
  • ارسا نے سندھ کو زیادہ پانی دینے سے متعلق پنجاب حکومت کی رپورٹ مسترد کر دی