کراچی میں بڑا ٹیلنٹ اور پوٹینشل ہے لیکن حکمران پارٹیاں اسے اُون نہیں کرتیں ،منعم ظفر
اشاعت کی تاریخ: 11th, January 2025 GMT
چیئرمین جناح ٹائون رضوان عبدالسمیع امیر جماعت اسلامی کراچی منعم ظفر کے ہمراہ جناح ٹائون میں منعقدہ 4روزہ پھولوںکی نمائش کاافتتاح کرتے ہوئے
کراچی(اسٹاف رپورٹر) امیر جماعت اسلامی کراچی منعم ظفر خان نے کہا کہ کراچی ترقی کرے گا تو ملک آگے بڑھے گا ، کراچی پورے ملک میں سب سے زیادہ ٹیکس دیتا ہے ، اس شہر کے اندر بڑا ٹیلنٹ اور پوٹینشل موجود ہے مگر بد قسمتی سے کوئی حکومت اور حکمران پارٹی کراچی کو اُون نہیں کرتی ، عوام بجلی ، پانی سڑکوں و انفرا اسٹرکچر کی تباہ حالی اور ٹرانسپورٹ سمیت بے شمار مسائل کا شکار ہیں ، کراچی کے منصوبوں کی تکمیل کی کوئی حتمی ڈیڈ لائین مقرر نہیں ، کئی کئی سال تعمیراتی کام مکمل نہیں ہوتے اور عوام مسائل میں کمی کے بجائے اذیت اور مشکلات میں پھنسے رہتے ہیں ۔ لاہور میٹرو 11ماہ ، ملتان میٹرو 13ماہ ، راولپنڈی میٹرو 20ماہ میں مکمل ہو جاتی ہے لیکن ایک ریڈ لائین پروجیکٹ کو 3 سال ہو گئے ہیں ،اس کی تکمیل دور دور تک نظر نہیں آرہی ، کراچی کی موجودہ ابتر حالت پیپلز پارٹی کی16سالہ بدترین حکمرانی کا منہ بولتا ثبوت ہے ، قابض میئر اب تک شہر میں گٹر کے ڈھکن تک نہ لگا سکے اور کراچی کے بچے گٹروں میں گر کر اپنی جان گنوا رہے ہیں ۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے جمعہ کو ٹائون میونسپل کارپوریشن جناح ٹائون کے تحت یوسی 4میں نیو ایم اے جناح روڈ پر ’’ میر عثمان علی پردہ پارک میں پھولوں کی 5روزہ نمائش ‘‘کے افتتاح کے موقع پر منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا ۔ تقریب سے امیر ضلع قائدین انجینئر عبد العزیز ، ٹائون چیئر مین رضوان عبد السمیع ، پارکس کمیٹی کے انچارج حماس قریشی نے بھی خطاب کیا جبکہ نظامت وائس یوسی چیئر مین ضیاء نے کی ۔ اس موقع پر وائس ٹائون چیئر مین حامد نواز، سیکرٹری ضلع نعمان حمید ، ٹائون کوآر ڈی نیٹر ولید احمد ، سینئر ڈپٹی سیکرٹری صہیب احمد ،یوسی چیئر مین رائو عاطف قریشی ، ٹائون آفیسر محمد سلیم ،مرد وخواتین اور بچوں سمیت علاقہ مکینوں کی بڑی تعداد موجود تھی ۔ منعم ظفر خان نے فیتہ کاٹ کر نمائش کا افتتاح کیا ، پارک آمد پر ان کا شاندار استقبال کیا گیا اور پھولوں کی پتیاں نچھاور کی گئیں ۔ پورے پارک کو برقی قمقموں اور دیگر رنگ برنگے غباروں سے بھی سجایا گیا تھا خوبصورت پھولوں اور سجاوٹ کے ساتھ پورا پارک قابل ِ دید کا منظر پیش کر رہا تھا ، علاقہ مکینوں نے جماعت اسلامی کے منتخب نمائندوں کی کوششوں کو سراہا اور زبردست خراج تحسین پیش کیا ۔ حماس قریشی نے منعم ظفر خان ، انجینئر عبد العزیز اور رضوان عبد السمیع کو گلدستہ پیش کیا ۔ منعم ظفر خان نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے مزید کہا کہ سندھ حکومت اور قابض میئر کی جانب سے اختیارات نچلی سطح تک منتقل نہ کرنے اور ٹائون اور یوسیز کو ترقیاتی اسکیموں میں ان کا جائز و قانونی حق اور فنڈز نہ دینے کے باوجود جماعت اسلامی نے 9ٹائونز میں مثالی عوامی خدمات انجام دی ہیں اور مختصر وقت میں 125پارکوں کو بحال کر کے عوام کے لیے کھولا ہے ، 44ہزار اسٹریٹ لائٹس نصب کیں ، اوپن ایئر جم اور روڈ سائیڈ اربن فارسٹ کا تصور پیش کیا اور شجر کاری کی ۔ واٹر کارپوریشن اور قابض میئر کی جانب سے گٹر کے ڈھکن فراہم نہیں کیے گئے لیکن ہم نے اپنی مدد آپ کے تحت اپنے ٹائون اور یوسیز میں 15ہزار مین ہولز کور فراہم کیے ۔ پیور بلاکس سے سڑکیں اور گلیاں تعمیر کیں اور عوام سے وعدے کے مطابق اختیارات و وسائل سے بڑھ کر کام کیا ۔ جماعت اسلامی نے مسلسل اور ہر محاذ پر اہل کراچی کا مقدمہ لڑا ہے اور مسئلے کے حل کے لیے عوام کی موثر اور توانا آواز بنی ہے ۔ منعم ظفر خان نے ٹائون چیئر مین اور ان کی پوری ٹیم ، ٹائون میونسپل کارپوریشن کے مختلف شعبوں ، پارک ڈیپارٹمنٹ کے ذمہ داران کی کوششوں کی تعریف کی اور ان کی جانب سے عوام کے لیے ٹائون میں مختصر وقت میں پارکوں کی بحالی اور پھولوں کی نمائش منعقد کرانے پر مبارکباد بھی پیش کی ۔ انجینئر عبد العزیز نے کہا کہ جماعت اسلامی کے جناح ٹائون نے عوام سے کیا گیا ایک اور وعدہ پورا کیا ہے اور ان حالات میں جب عوام بڑھتی ہوئی مہنگائی اور بجلی و پانی سمیت مختلف مسائل کا شکار ہیں ‘ ان کے لیے پھولوں کی نمائش اور پارک میں ہرے بھرے درخت اور پودے لگا کر نیکی اور عوامی خدمت کا بہت بڑا کام کیا ہے ، ان کی کوششوں سے علاقہ مکینوں کے چہرے خوشی اور مسرت سے چمک رہے ہیں ۔ رضوان عبد السمیع نے کہا کہ ہماری پوری ٹیم کی دن رات محنت اور کوششوں کے بعد اب اس پردہ پارک میں خوبصورت مناظر نظر آرہے ہیں اور پورا پارک گل ِ گلزار بنا ہوا ہے ، ہم نے عوام سے جو بھی وعدہ کیا ہے اپنے محدود وسائل و اختیارات نہ ہونے کے باوجود ان کو پورا کریں گے اور عوام کے درمیان ہمیشہ موجود رہیں گے ۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: جماعت اسلامی جناح ٹائون رضوان عبد چیئر مین اور عوام پیش کی کے لیے کہا کہ
پڑھیں:
احتساب کو مئوثر بنانے کے تقاضے
پاکستان میں دانشوروں کاایک طبقہ ایسا پیدا ہوچکا ہے جنہیں ملک میں ہر چیز خراب نظر آتی ہے یہ سچ ہے کہ ہر ادارے میں برائیاں بھی ہوتی ہیں اور اچھائیاں بھی لیکن دیکھنے میں یہی آیا ہے کہ بڑی بڑی اچھائیوں کونظر انداز کیاجاتا ہے جبکہ معمولی برائیوں کو بڑھاچڑھا کر اجاگر کیا جاتا ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان کے بیشتر اداروں میں کرپشن ایک ناسور کی طرح پھیلتا رہا چونکہ سبھی اس سے مستفیض ہو رہے تھے اس لیے احتساب کی کوئی روایت نہ پڑسکی۔ رشوت کو کنٹرول کرنے کے لیے اینٹی کرپشن کا محکمہ قائم کیاگیاابتدائی برسوں میں اس محکمے کی کارکردگی بڑی اچھی تھی لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کچھ کالی بھیڑوں نے اس محکمے کی کارکردگی کو بری طرح سے متاثر کیایوں اس کی افادیت کم ہوتی چلی گئی۔ اور یہ کہاوت مشہور ہوگئی لے کے رشوت پھنس گیا ہے دے کے رشوت چھوٹ جا۔ جب رشوت کی بیماری اعلیٰ حکام تک پھیل گئی تو ایف آئی اے کومیدان میں اتارا گیا۔ جب کرپشن ایوانوں تک جاپہنچی اور زبان خلق بننا شروع ہوئی تو صاحب اقتدار لوگوں کو عوام کومطمئن کرنے کے لیے مجبوراً احتساب کاادارہ قائم کرنا پڑا۔ احتساب کا عمل تو شروع ہوگیا لیکن پہلے ہی دن سے اسے سیاسی دشمنی تک محدود کردیاگیا اس لیے اس پر سارے ملک میں کھل کر تنقید ہوتی رہی جب فوجی حکومت آئی تو انہوں نے قومی احتساب بیوروتشکیل دیا جسے حرف عام میں نیب کہا جاتا ہے نیب کو یہ الزام دیا جاتا رہا ہے کہ وہ بھی ایک حد تک جانبدار ہے اور ان پر بھی تنقید ہوتی رہی کیونکہ کچھ بااثر افراد جن کے خلاف نیب تحقیقات کررہاتھا وہ حکومت کا ساتھ دے کر اپنے خلاف تحقیقات رکوانے میں کامیاب ہوگئے ہیں اصل میں یہ لوگ ضمانتوں پررہا ہوئے ہیں جس طرح سے ماضی میں لوگ جیل میں بند ہونے کے باوجود الیکشن میں حصہ لے کر کامیاب ہوتے رہے ہیں اور بعض حالتوں میں وزیر بھی بنے اس کا مطلب یہ ہے کہ قانون میں سقم ہے اور کمزوری ہے یہ کام تو الیکشن کمیشن کا تھا کہ وہ ایسے لوگوں کو الیکشن کے لیے نااہل قرار دیتا اس حوالے سے نیب پر تنقید بلاجواز ہے۔
یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ نیب نے شروع میں بغیر ہوم ورک کے اندھا دھند گرفتاریاں کیں جس سے ملک میں خوف وہراس کی سی فضا پیدا ہوگئی ،مگر آج نیب صاف وشفاف ادارے میں تبدیل ہوچکاہے۔ رہا سوال نیب کے احتساب کا تو بے شمار ایسے افراد کے خلاف کارروائی کی گئی ہے جو نیب میں ہوتے ہوئے گڑبڑ کی کوشش کررہے تھے۔ نیب نے اپنے اندر کالی بھیڑوں کے خلاف کارروائی کرکے خود احتساب کی مثال قائم کی ہے جو لائق تحسین ہے۔ نیب کے حوالے سے ایک عام تاثر یہ ہے کہ سیاستدانوں نے بڑی کرپشن کی ہے۔ نیب سے جب رابطہ کیا گیاتو انہوں نے کہا یہ تاثر صحیح نہیں ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ماسوائے چند سیاست دانوں کے بیشتر کاتعلق بیوروکریسی اور دوسرے لوگوں سے ہے۔ یاد رہے 15کروڑ عوام کا رابطہ بیوروکریسی سے ہی پڑتا ہے۔ سیاستدان تووٹ لے کرگم ہوجاتے ہیں۔ ایک عام آدمی کرپشن سے نجات چاہتا ہے اسے اور کچھ نہیں چاہیے وہ کرپٹ مافیا کے درمیان چکی کی طرح پس کررہ جاتا ہے اوراس کی کوئی داد رسی نہیں ہوتی اس بات میںکوئی شک نہیں کہ اوپر کی سطح پر کرپشن کافی حد تک کنٹرول کی جاچکی ہے اس کاسہرا بھی نیب کوہی جاتا ہے کیونکہ کک بیکس لینے والوں کاحشر عوام اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں کہ کس طرح انہیں کٹہرے میں لاکر کھڑا کیا جاتا ہے لیکن یہ کافی نہیں نیب کو چاہیے کہ وہ اپنا دائر ہ کار وسیع کرکے تحصیل لیول سے شروع کرکے اوپر تک جائیں کیونکہ عام آدمی کا واسطہ اعلیٰ افسران سے کم ہی پڑتا ہے۔ جبکہ بسااوقات چھوٹے سرکاری افسران سے پڑتا ہے۔ اس حوالے سے عوام پر بھی بھاری ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ ہر سطح پرجہاں بھی ان کو کرپشن یا کرپٹ افسر نظر آئے اس کی نشاندہی کریں۔ نشاندہی کرتے وقت صرف اتنا کہہ دینا کہ فلاں شخص بڑا کرپٹ ہے اس نے بڑا مال بنایا ہے اس سے کوئی بات نہیں بنتی نشاندہی کامطلب یہ ہوتا ہے کہ کرپشن کی زیادہ سے زیادہ تفصیلات سامنے لائی جائیں ۔ پلاٹ کتنے ہیں‘ مکان کتنے ہیں‘ گاڑیاں کتنی ہیں‘ بے نام کھاتے کتنے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ نیب اس طرح کی اطلاعات دینے والوں کو تحفظ فراہم کرتا ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ احتساب کس کا ہوکیااس زمرے میں صرف وزیراعظم ‘ وزرائے اعلیٰ ‘ وفاقی وصوبائی وزرا‘ اراکین سینیٹ‘ قومی وصوبائی اسمبلی اور اعلیٰ سرکاری ونیم سرکاری عہدیدار ہی آئیں گے یابات اس سے آگے بڑھے گی کیا بدعنوانی صرف یہ ہے کہ مال بنایا جائے ۔ رشتہ داروں اور دوستوں کو نوازا جائے۔ بے شک یہ سب بدعنوانی ہے لیکن ہم یہاں انٹلکچوئل کرپشن کاذکر کرنا چاہتے ہیں جس سے جہاں ایک طرف حقداروں کاحق مارا جارہا ہے دوسری طرف نااہل لوگوں کو نوازا جارہا ہے۔ مثلاً کسی ادارے میں سینئرافسر موجود ہے لیکن کسی جونیئر کو اس پرلگادیا جائے یہ بھی کرپشن کی ہی شکل ہے اس کے علاوہ یہ کہ شخص کو ایسا عہدہ دے دیاجائے جس کاوہ مستحق نہیں۔
آپ نے دیکھا ہوگا ایک نائب قاصد بھرتی کرنا ہوتاہے تو اس کے لیے اخبار میں اشتہار دیا جاتا ہے لیکن جب کسی ریٹائرڈ افسر کوملازم رکھنا ہوتا ہے تو یہ سب کچھ بغیر اشتہار کے ہوتا ہے۔ بعض حالتوں میں ادارے کی ملازمت کا کوئی سابقہ تجربہ یا پس منظر نہ رکھنے کے باوجود باقاعدہ سروس کے بڑے بڑے قابل لوگ پوری عمر بسر کرنے کے باوجود اس منصب تک نہیں پہنچ پاتے ‘ کیا یہ ان افراد کی حق تلفی اوران سے ناانصافی نہیں اور کیا یہ اخلاقی بدیانتی اور بدعنوانی نہیں۔ نیب کو چاہیے کہ ملک کے سبھی اداروں کی چھان بین کرے ان اداروں میں جائے متاثرہ لوگوں سے ملے اور اس طرح کی بددیانتی کے مرتکب اعلیٰ عہدیداروں کے خلاف مقدمات قائم کرے اپنا دائرہ صرف کک بیکس تک محدود نہ رکھیں کک بیکس سے صرف مالی نقصان پہنچتا ہے لیکن کسی کم تر شخص کو جواس عہدے کااہل نہ ہو اس کو اعلیٰ عہدہ دے کر ادارے کو تباہ کرنے کے مترادف ہے اوراس کی اجازت نہیں ہونی چاہیے، یہ قومی نقصان ہے اس طرح کے کاموں سے ملک کوناقابل تلافی نقصان پہنچ سکتاہے۔
آخر میں یہ بتانا ضروری ہے کہ احتساب کو صرف بدعنوانی تک محدود نہیں رہنا چاہیے کرپشن کے خاتمے کے لیے ہر قسم کی بدعنوانی کا خاتمہ کرنا ہوگا جو سامنے نظر آتی ہے اور جو قدرے پوشیدہ ہے جسے عرف عام میں انٹلکچوئل بدعنوانی کہتے ہیں اس کاخاتمہ بھی ضروری ہے۔ ایک تاثر یہ بھی ہے کہ نیب کو اپنا نام تبدیل کرلینا چاہیے اس ضمن میں بعض لوگوں کاکہنا ہے کہ اسے اکائونٹ ایبیلیٹی بیورو آف پاکستان کانام بھی دیاجاسکتا ہے۔