کیا فوجی افسر کو اتنا تجربہ اور عبور ہوتا ہے کہ سزائے موت تک سنا دیتا ہے؟عدالت عظمیٰ
اشاعت کی تاریخ: 11th, January 2025 GMT
اسلام آباد ( نمائندہ جسارت) سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں کے کیس کی سماعت کے دوران جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ کیا اس آرمی افسر کو اتنا تجربہ اور عبور ہوتا ہے کہ سزائے موت تک سنا دی جاتی ہے۔جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں7 رکنی آئینی بینچ نے کیس کی سماعت کی۔ وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث نے دلائل دیے۔ 7 رکنی آئینی بینچ میں جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس حسن اظہر رضوی، جسٹس مسرت ہلالی، جسٹس نعیم اختر افغان اور جسٹس شاہد بلال حسن شامل ہیں۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ملٹری کورٹس میں ٹرائل کے طریقہ کار پر مطمئن کریں۔جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیے کہ جو آفیسر ٹرائل چلاتا ہے کورٹ میں وہ خود فیصلہ نہیں سناتا، ٹرائل چلانے والا افسر دوسرے بڑے افسر کو کیس بھیجتا ہے وہ فیصلہ سناتا ہے، جس آفیسر نے ٹرائل سنا ہی نہیں وہ کیسے فیصلہ دیتا ہوگا۔جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ مجھے 34 سال اس شعبے میں ہوگئے مگر پھر بھی خود کو مکمل نہیں سمجھتا، کیا اس آرمی افسر کو اتنا تجربہ اور عبور ہوتا ہے کہ سزائے موت تک سنا دی جاتی ہے۔وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ ملٹری ٹرائل کے طریقہ کار کو دلائل کے دوسرے حصے میں مکمل بیان کروں گا۔جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ آرمی ایکٹ کا اطلاق صرف فوج پر ہوتا ہے، فوجی افسران کو بنیادی حقوق اور انصاف ملتے ہیں یا نہیں ہم سب کو مدنظر رکھیں گے۔جسٹس مسرت ہلالی نے سوال اٹھایا کہ اس نکتے پر بھی وضاحت کریں کہ فوجی عدالت میں فیصلہ کون لکھتا ہے؟ میری معلومات کے مطابق کیس کوئی اور سنتا ہے اور سزا جزا کا فیصلہ کمانڈنگ افسر کرتا ہے، جس نے مقدمہ سنا ہی نہیں وہ سزا جزا کا فیصلہ کیسے کر سکتا ہے؟وکیل وزارت دفاع نے کہا کہ فیصلہ لکھنے کے لیے جیک برانچ کی معاونت حاصل ہوتی ہے۔ جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ خواجہ صاحب آپ نے کوئی مثال دی تھی کہ امریکا میں بھی فوجی ٹرائل ہوئے، اگر کسی اور ملک میں ایسا ٹرائل ہوتا ہے تو جج کون ہوتا ہے؟ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ پوری دنیا میں کورٹ مارشل میں آفیسر ہی بیٹھتے ہیں۔ وکیل خواجہ حارث نے جواب دیا کہ کورٹ مارشل میں بیٹھنے والے افسران کو ٹرائل کا تجربہ حاصل ہوتا ہے۔ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ جج صاحبہ پوچھ رہی ہیں کیا ان افسران کی قانونی قابلیت بھی ہوتی ہے؟ جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس میں کہا کہ اگر اجازت ہو تو میں خود سوال پوچھ لوں؟ ایک آرمی چیف کے طیارے کو ائرپورٹ کی لائٹس بجھا کر کہا گیا ملک چھوڑ دو، اس واقعے میں تمام مسافروں کو خطرے میں ڈالا گیا۔ خواجہ حارث نے کہا کہ جو بندہ جہاز میں موجود نہیں تھا وہ ہائی جیک کیسے کر سکتا تھا؟ جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ اس جہاز میں تھوڑا سا ایندھن باقی تھا پھر بھی رسک پر ڈالا گیا۔ خواجہ حارث نے دلائل میں کہا کہ میں یہاں سیاسی بات نہیں کروں گا مگر بعد میں سپریم کورٹ نے جائزہ لیا تھا، سپریم کورٹ نے تسلیم کیا تھا جہاز میں کافی ایندھن باقی تھا۔ جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیے کہ اس ایک واقعے کے باعث ملک میں مارشل لا لگ گیا لیکن مارشل لا کے بعد بھی وہ ٹرائل فوجی عدالت میں نہیں چلا۔ وکیل خواجہ حارث نے بتایا کہ ہائی جیکنگ آرمی ایکٹ میں درج جرم نہیں، اسی لیے وہ ٹرائل فوجی عدالت میں نہیں چل سکتا تھا۔جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دیے کہ چلیں اس نکتے پر فرق واضح ہو گیا آگے چلیں۔ جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ ٹھہریں ایک سوال اور اس میں بنتا ہے، اگر ہائی جیک جنگی یا فوجی طیارے کو کیا جائے پھر ٹرائل کہاں چلے گا؟ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان نے کہا کہ 9 مئی واقعات میں کل ملزمان 5 ہزار کے قریب تھے، جن 105 ملزمان کو فوجی عدالتوں میں لے کر جایا گیا ان کی جائے وقوع پر موجودگی کے ٹھوس شواہد ہیں۔ وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ آرمی ایکٹ صرف ان افراد پر لاگو ہوتا ہے جو آفیشل سیکریٹ ایکٹ کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوئے ہوں، ہر دہشت گرد پر بھی آرمی ایکٹ کا اطلاق نہیں ہوتا۔جسٹس مسرت ہلالی نے استفسار کیا کہ کیا فوجی عدالتوں نے ٹرائل انہی ایف آئی آرز کی روشنی میں کیا جو تھانوں میں درج ہوئی تھیں؟ تعزیرات پاکستان اور اے ٹی اے کے تحت درج مقدمات پر کارروائی فوجی عدالت کیسے کر سکتی؟ جو تین ایف آئی آرز کی کاپی ہمیں دی گئی ہے ان میں آفیشل سیکریٹ ایکٹ کی دفعات نہیں ہیں۔ وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ تفتیش کے بعد مزید دفعات شامل کی جا سکتی ہیں۔ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ مزید دفعات شامل کرنے کا الگ سے طریقہ کار موجود ہے، کیا پولیس تفتیش پر ہی انحصار کیا گیا تھا؟ خواجہ حارث نے بتایا کہ جب ملزم فوجی تحویل میں جائے تو وہاں تفتیش کا اپنا نظام ہے۔ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ عدالت کو صرف 3 مقدمات پیش کیے ہیں، مجموعی طور پر9 مئی کے35 ایف آئی آرز اور5 ہزار ملزمان ہیں۔ فوجی عدالتوں میں صرف ان 105 افراد کا ٹرائل ہو جن کی موجودگی ثابت تھی۔ سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے ملٹری کورٹس کیس کی سماعت پیر تک ملتوی کر دی۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: جسٹس مسرت ہلالی نے جسٹس محمد علی مظہر خواجہ حارث نے کہ فوجی عدالتوں فوجی عدالت سپریم کورٹ مندوخیل نے ا رمی ایکٹ جسٹس جمال افسر کو
پڑھیں:
علیمہ خان ،عظمی خان کی عبوری ضمانتوں میں توسیع، حاضری سے استثنیٰ کی درخواست منظور
لاہور(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 12 اپریل2025ء)انسداد دہشتگردی کی خصوصی عدالت نے بانی پی ٹی آئی کی بہنوں علیمہ خان اور عظمی خان کی عبوری ضمانتوں میں توسیع کرتے ہوئے ایک روزہ حاضری سے استثنیٰ کی درخواست منظور کرلی۔لاہور کی انسداد دہشتگردی عدالت میں 5اکتوبر جلا ئوگھیرا ئومقدمات میں بانی پی ٹی آئی کی بہنوں علیمہ خان، عظمی خان اور سلمان اکرم راجہ سمیت دیگر کی عبوری ضمانتوں کی درخواست پر سماعت ہوئی۔(جاری ہے)
عدالت نے علیمہ خان اور عظمی خان کی ایک روزہ حاضری معافی کی درخواست منظور کرتے ہوئے عبوری ضمانتوں میں 17 مئی تک توسیع کردی۔وکیل نے موقف اختیار کیا کہ علیمہ خان اور عظمی خان کی اڈیالہ جیل میں بانی پی ٹی آئی سے ملاقات ہے، عدالت ایک روزہ حاضری معافی کی درخواست منظور کرے۔دوران سماعت سلمان اکرم راجہ ، ندیم بارا، ضمیر جھیڈو سمیت دیگر نے عدالت پیش میں ہوکر اپنی حاضری مکمل کروائی۔ملزمان کے خلاف تھانہ لاری اڈا، مستی گیٹ پولیس نے مقدمات درج کر رکھے ہیں۔