گوادر (نمائندہ جسارت) ایم پی اے گوادر مولاناہدایت الرحمن نے زمین داروں کے ساتھ احتجاجاً سٹلمنٹ آفس کو تالا لگا دیا۔ انہوں نے کہا کہ ایک ادارہ آفس لوگوں کو انصاف نہ دے اس کو تالا لگنا چاہیے، سرکاری اراضیات کی بندر بانٹ کی کسی صورت اجازت نہیں دی جائے گی، اگر محکمہ سٹلمنٹ کو لینڈ مافیا کے ذریعے غریبوں، یتیموں بیواؤں، بے سہاروں کی اراضیات ہتھیانے کا عمل بند نہیں کیا تو سخت ردعمل کا اعلان کیا جائے گا،کسی بھی سرکاری ادارے کو عوام کے حقوق پر ڈاکا زنی نہیں کرنے دیں گے۔ مولانا ہدایت الرحمن نے سرکاری اراضیات کی بندر بانٹ پر شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے اس کی شدید مذمت کی ہے، صوبائی حکومت تحصیل دار محکمہ سیٹلمنٹ اور دیگر اراضیات کی ہیر پھیر میں ملوث اہلکاروں کو گوادر سے ٹرانسفر کرے۔ اس موقع پر زمین داروں کا کہنا تھا کہ کئی سال سے لینڈ مافیا نے ہمارے زمینوں پر قبضہ کیا ہوا ہے، ہمارے ساتھ ظلم وزیادتی ہوئی ہے، ایم پی اے گوادر ہمارے ساتھ ہیں، ہمیں ایک جرات مند نمائندہ ملا ہے، جب تک ہمیں انصاف نہیں ملتا ہم اپنے حق کے لیے عدالت بھی جائیں گے۔

.

ذریعہ: Jasarat News

پڑھیں:

ت سے تختی، ت سے تعلیم… محروم معاشرہ

وہ کتنا خوبصورت منظر تھا جب سردیوں کی ٹھنڈی صبح سکول گرائونڈ میں پہلی جماعت سے دسویں جماعت تک کی کلاسز کی قطاریں لگتی تھیں اور سامنے دو یا تین بچے علامہ اقبالؒ کی مشہور زمانہ نظم ’’لب پہ آتی ہے یہ دعا بن کے تمنا میری، زندگی شمع کی صورت ہو خدایا میری‘‘… پھر اس نظام کے ساتھ تمام لائنز پریڈ کرتی ہوئیں اپنی اپنی کلاسز کی طرف روانہ ہو جاتیں پھر ایک ڈرل پیریڈ ہوتا تھا۔ ہمارے پی ٹی ماسٹر مختلف کھیلیں سکھاتے اور اساتذہ دل لگا کے پڑھاتے تھے۔ جب سے وہ ماحول ختم ہوئے ہمارا نظام تعلیم بھی ٹھس ہوگیا… ٹاٹ، دری اور چادر پر بیٹھ کر پڑھنے والے بچے تو اب بھی ہیں مگر ان کو بھی پڑھانے والا کوئی نہیں… گلی گلی سکول کھلنے سے والدین کو امیدیں تو تھیں مگر ان کی فیسیں دیکھ کر وہ مایوس ہو گئے۔ میرے نزدیک 77 سال کے اندر جس شعبہ کو تباہ کیا گیا وہ ہمارا نظام تعلیم تھا۔ حکومتی دو رخی پالیسیوں کی وجہ سے ہمارا نوجوان تباہی کے راستے پر نکلنے پر مجبور ہو گیا ہے۔ پنجابی کی ایک کہاوت ہے ’’ڈگی کھوتے توں غصہ کمہار تے‘‘ 76سال سے ہم یہی کچھ تو دیکھ رہے ہیں۔ حکمرانی کرنے والے حکمرانوں سے لے کر اداروں کو بنانے اور توڑنے والوں کے جو کھیل تماشے ان گنہگار آنکھوں اور ٹوٹے دلوں نے دیکھے اور نہ ختم ہونے والے تباہی کے سلسلے، کھنڈرات میں بدلتی تعلیم و ثقافت و تہذیب، دہشت گردی اپنی چودھراہٹ کی خاطر خواب سجائے ہمارے ہی درمیان بیٹھے میرجعفر کے کرداروں نے ملک کی مضبوط بنیادوں کو کھوکھلا کرتے ہوئے نظام تعلیم کی طرف توجہ ہی نہیں دی۔ اس سے پہلے کہ بات آگے لیکر چلوں۔ ایک نظر تعلیمی سیمینار پر جس میں نظام تعلیم پر وزیراعظم شہبازشریف نے سوالیہ نشان اٹھا دیئے۔ انہوں نے کہا کہ ’’پاکستان میں لڑکیوں کی تعلیم بہت بڑا ایشو ہے۔ اس کے لئے مسلم ممالک کو ہمارے ساتھ مل کے بڑا کردار ادا کرنا ہوگا۔ خواتین اپنی قابلیت سے قومی اور عالمی معیشت میں اہم کردار ادا کر سکتی ہیں۔ انہوں نے مسلم معاشروں میں لڑکیوں کی تعلیم اور آنے والے چیلنجز پر بھی بات کی۔ ملکی مشکلات اور گھریلو مجبوریوں کی وجہ سے بھی تعلیمی فقدان بڑھتا جا رہا ہے اور یہ سب ہمارے لئے باعث تشویش اور باعث پریشانی ہے‘‘۔ وزیراعظم نے تقریر کے دوران یہ انکشاف بھی کیا کہ 49 فیصد خواتین اور دو کروڑ بچے بھی تعلیم سے محروم ہیں۔
میرے نزدیک شہبازشریف نے اپنی تقریر کے دوران جن باتوں اور خدشات کا اظہار کیا ہے اس کا سامنا آج سے نہیں روز اوِّل ہی سے ہم کر رہے ہیں۔ آزادی پاکستان سے پہلے گورے کے دیئے تعلیمی نظام نے ہمیں برا نظام تعلیم ہی دیا۔ میں اس حکومت کی بات نہیں کر رہا۔ میں تو بات کر رہا ہوں پاکستان میں قائداعظمؒ کے بعد جو ایک سال حکمرانی کر سکے۔ کاش ہم ان کے دیئے تعلیمی ویژن اور اقوال پر ہی عملدر آمد کر لیتے تو آج ہم پڑھے لکھے ممالک میں شامل ہوتے اور ہمارا شمار بھی دنیا کی عظیم ترین قوموں میں ہو رہا ہوتا۔ کم از کم ایک اچھے نظام تعلیم سے ہمیں جاہل اور نااہل حکمرانوں سے تو واسطہ نہ پڑتا۔ وہ کہتے ہیں کہ پڑھی لکھی ماں اور پڑھا لکھا معاشرہ یہ دونوں قوموں کو بنانے اور سنوارنے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں۔ اب بدقسمتی سے نہ ہم پڑھی لکھی ماں جنم دے سکے، نہ معاشرے کی تکمیل کر پائے اور نہ سرکاری تعلیمی اداروں کی بہتری کے ساتھ ساتھ فرسودہ اور پرانے نصاب کو بدل سکے، نہ استاد کو احترام، نہ طالب علم کو تہذیب اور کتاب دوستی میں ڈھال سکے… بجائے اچھے تعلیمی ویژن کے ہمارے علمی اداروں میں بھی سیاست سیاست کھیلی گئی۔ ہر حکومت نے نیا نصاب، نئی کتاب اور استاد بدلنے کی کوششیں کیں۔ اس کے لئے بڑی تعلیمی پالیسیاں آئیں مگر ان پر عملدرآمد ہو سکا، نہ تعلیمی ویژن کی بنیادوں کو ٹھوس سیمنٹ بجری سے بھرا گیا۔
اگر ہم روز اوّل ہی سے اچھی تعلیم کے لئے اچھی درسگاہوں کو بنانے کی طرف توجہ دے پاتے تو قوم کو بہت سی تباہیوں، بربادیوں اور اندھیروں کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔ نہ میں عقل کل اور نہ میں کوئی دانشور کہ میری باتوں سے آپ اتفاق کریں مگر یہ بات طے ہے کہ اچھا تعلیمی سسٹم نہ ہونے سے ہم نے اپنے ہی ہاتھوں سے نسلوں کو برباد کیا۔ گزشتہ دنوں میں ایک سروے رپورٹ دیکھ رہا تھا اس کے مطابق پاکستان انتہائی غریب ممالک کے دسویں نمبر میں شمار ہوتا ہے اور ہر سال خطہ غربت کی لکیر کے نیچے لڑھکنے والوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔ ہماری یہ کس قدر بدقسمتی ہے کہ ہم نسلوں کو تعلیم نہ دینے سے ملک بھر میں غربت، افلاس، بدامنی، مہنگائی، رشوت ، کرپشن ، استحصال ، اغوا برائے تاوان، ڈاکے ، ڈکیتیاں اور خودکشیاں بڑھائیں۔ ان کو ختم کرنے کے اقدامات نہیں اٹھائے گئے۔ ہم نے انہیں تعلیم دینے کی بجائے بے روزگاری کے ماحول دیئے۔ کتاب اور قلم دوات کی جگہ کلاشنکوف کلچر کو فروغ دیا… نوجوانوں کو بے راہ روی کے راستوں پر ڈالا… اقتدار کی جنگ میں حکمران بچوں کو پڑھانا بھول گئے۔ یاد رکھیں مضبوط معاشرے ہی علم کی روشنی سے جگمگاتے ہیں۔ جس کا اہتمام نہ کیا جا سکا۔ دوسرے ممالک کے مقابلے میں ہمارا تعلیمی گراف کسی اعشاریہ میں بھی نہیں آتا۔ آج اگر تھوڑا بہت علم کا پرچم بلند دکھائی دے رہا ہے تو وہ پرائیویٹ سیکٹر کے تعلیمی اداروں کی وجہ سے ہے جہاں کم از کم سسٹم تو ہے جو اربوں کھربوں لگا کے بھی سرکاری اداروں میں نظر نہیں آ رہا۔
وزیراعظم شہباز شریف نے تو سرکاری اعداد و شمار کے تحت کم تعداد بتائی جبکہ ایک سروے کے مطابق ڈھائی کروڑ سے زائد بچے اور بچیاں تعلیم حاصل کرنے سے محروم ہیں کہ مہنگائی کے اس دور میں والدین کے لئے بھاری فیسیں اور کتاب بستہ دینا اب ممکن نہیں رہا۔ اس کے لئے ضروری تھا کہ حکومت جب تک سرکاری سکولز میں مفت مراعات اور پرائیویٹ اداروں کی طرح اساتذہ کو پرکشش معاوضے نہیں دیتی اور تمام سرکاری اداروں میں مفت تعلیم، مفت کتاب، مفت قلم اور کاپی نہیں دینے کا ذریعہ نہیں بنتی ہمارے ہاں ان پڑھ بچوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا رہے گا۔ اس کے ساتھ ساتھ پاکستان کے پورے نظام تعلیم کو بدلنے کے لئے سرکاری سطح پر تعلیمی ایمرجنسی لگانا ہوگی۔ یہ بڑے بڑے سیمیناروں میں جو المیے ظاہر کئے جاتے ہیں اس کے ذمہ دار بھی وہی ہیں جو وزیراعظم کو اندھیرے میں رکھ کر یہ ثابت کرتے ہیں کہ ہم اور ہمارے اچھے ہیں تو ایسا بالکل بھی نہیں ہے۔ ان کو یہ بتانا چاہئے کہ وزیراعظم صاحب ان ڈھائی کروڑ بچوں کا کیا بنے گا جنہیں حروف لکھنا اور نہ پڑھنا آتے ہیں اور وہ (ت )سے تعلیم اور (ت) سے تختی سے محروم معاشرے میں اپنی زندگی رول رہے ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • ماتلی: سٹیزن ویلفیئر فورم کا سرکاری زمین سے قبضہ ختم کرانے کا مطالبہ
  • میدانی علاقوں میں تیزہواؤں کے ساتھ بارش جبکہ پہاڑوں پر شدید برفباری کا امکان
  • ت سے تختی، ت سے تعلیم… محروم معاشرہ
  • دھوکا فضل الرحمن نہیں عمران خان کے ساتھ ہو رہا ہے‘ جے یو آئی
  • فضل الرحمن کی سیاسی حیثیت عمران کے مقابلے جتنی نہیں‘ گنڈاپور
  • حکومت پنجاب چھوٹی فیکٹریاں لگانے کے لیے لوگوں کو زمین رعایت پر دے گی، مریم نواز
  • بوڑھے ماں باپ کہاں جائیں ؟
  • سیاسی جدوجہد کو منفی ہتھکنڈوں سے روکا نہیں جاسکتا،آل پارٹیز ترجمان
  • اپنی ایک سالہ کارکردگی عوامی عدالت لیکر جائینگے،مولانا ہدایت الرحمن
  • سیاستدانوں کو جیل میں نہیں ہونا چاہئے، ملک کو دھاندلی سے پاک انتخابات کی ضرورت ہے، مولانا فضل الرحمن