کراچی کی ابتر حالت پیپلز پارٹی کی 16 سالہ بدترین حکمرانی کا ثبوت ہے، منعم ظفر خان
اشاعت کی تاریخ: 10th, January 2025 GMT
کراچی:امیر جماعت اسلامی کراچی منعم ظفر خان نے کہا ہے کہ کراچی کی ابتر حالت پیپلز پارٹی کی 16 سالہ بدترین حکمرانی کا ثبوت ہے۔
ٹاؤن میونسپل کارپوریشن جناح ٹاؤن کے تحت یو سی 4 میں نیو ایم اے جناح روڈ پر میر عثمان علی پردہ پارک میں پھولوں کی 5 روزہ نمائش کے افتتاح کے موقع پر منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے امیر جماعت اسلامی کراچی منعم ظفر خان نے کہا کہ کراچی ترقی کرے گا تو ملک آگے بڑھے گا۔کراچی پورے ملک میں سب سے زیادہ ٹیکس دیتا ہے۔ اس شہر کے اندر بڑا ٹیلنٹ اور پوٹینشل موجود ہے مگر بد قسمتی سے کوئی حکومت اور حکمران پارٹی کراچی کو اون نہیں کرتی۔
انہوں نے کہا کہ عوام بجلی، پانی سڑکوں و انفرا اسٹرکچر کی تباہ حالی اور ٹرانسپورٹ سمیت بے شمار مسائل کا شکار ہیں۔ کراچی کے منصوبوں کی تکمیل کی کوئی حتمی ڈیڈ لائین مقرر نہیں، کئی کئی سال تعمیراتی کام مکمل نہیں ہوتے اور عوام مسائل میں کمی کے بجائے اذیت اور مشکلات میں پھنسے رہتے ہیں۔
منعم ظفر خان کا کہنا تھا کہ لاہور میٹرو11ماہ، ملتان میٹرو13ماہ، راولپنڈی میٹرو 20ماہ میں مکمل ہو جاتی ہے لیکن ایک ریڈ لائن پروجیکٹ کو 3 سال ہو گئے ہیں،اس کی تکمیل دُور دُور تک نظر نہیں آرہی۔کراچی کی موجودہ ابتر حالت پیپلز پارٹی کی16سالہ بدترین حکمرانی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔قابض میئر اب تک شہر میں گٹر کے ڈھکن تک نہ لگا سکے اور کراچی کے بچے گٹروں میں گر کر اپنی جان گنوا رہے ہیں۔
تقریب سے امیر ضلع قائدین انجینئر عبد العزیز، ٹاؤن چیئر مین رضوان عبد السمیع، پارکس کمیٹی کے انچارج حماس قریشی نے بھی خطاب کیا جبکہ نظامت وائس یوسی چیئر مین ضیاء نے کی۔ اس موقع پر وائس ٹاؤن چیئر مین حامد نواز، سیکرٹری ضلع نعمان حمید، ٹاؤن کوآر ڈینیٹر ولید احمد، سینئر ڈپٹی سیکرٹری صہیب احمد،یوسی چیئر مین راؤ عاطف قریشی، ٹاؤن آفیسر محمد سلیم،مرد وخواتین اور بچوں سمیت علاقہ مکینوں کی بڑی تعداد موجود تھی۔
منعم ظفر خان نے فیتہ کاٹ کر نمائش کا افتتاح کیا جب کہ پارک آمد پر ان کا شاندار استقبال کیا گیا اور پھولوں کی پتیاں نچھاور کی گئیں۔ پورے پارک کو برقی قمقموں اور دیگر رنگ برنگے غباروں سے بھی سجایا گیا تھا۔ خوبصورت پھولوں اور سجاوٹ کے ساتھ پورا پارک قابل ِ دید کا منظر پیش کر رہا تھا۔
علاقہ مکینوں نے جماعت اسلامی کے منتخب نمائندوں کی کوششوں کو سراہا اور زبردست خراج تحسین پیش کیا۔ حماس قریشی نے منعم ظفر خان، انجینئر عبد العزیز اور رضوان عبد السمیع کو گلدستہ پیش کیا۔
منعم ظفر خان نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے مزید کہا کہ سندھ حکومت اور قابض میئر کی جانب سے اختیارات نچلی سطح تک منتقل نہ کرنے اور ٹاؤن اور یوسیز کو ترقیاتی اسکیموں میں ان کا جائز و قانونی حق اور فنڈز نہ دینے کے باوجود جماعت اسلامی نے 9ٹاؤنز میں مثالی عوامی خدمات انجام دی ہیں اور مختصر وقت میں 125پارکوں کو بحال کر کے عوام کے لیے کھولا ہے۔
انہوں نے کہا کہ 44ہزار اسٹریٹ لائٹس نصب کیں، اوپن ایئر جم اور روڈ سائیڈ اربن فارسٹ کا تصور پیش کیا اور شجر کاری کی۔ واٹر کارپوریشن اور قابض میئر کی جانب سے گٹر کے ڈھکن تک فراہم نہیں کیے گئے لیکن ہم نے اپنی مدد آپ کے تحت اپنے ٹاؤن اور یوسیز میں 15ہزار مین ہولز کور فراہم کیے۔
امیر جماعت کا کہنا تھا کہ پیور بلاکس سے سڑکیں اور گلیاں تعمیر کیں اور عوام سے وعدے کے مطابق اختیارات و وسائل سے بڑھ کر کام کیا۔ جماعت اسلامی نے مسلسل اور ہر محاذ پر اہل کراچی کا مقدمہ لڑا ہے اور مسئلے کے حل کے لیے عوام کی موثر اور توانا آواز بنی ہے۔
منعم ظفر خان نے ٹاؤن چیئر مین اور ان کی پوری ٹیم، ٹاؤن میونسپل کارپوریشن کے مختلف شعبوں، پارک ڈیپارٹمنٹ کے ذمہ داران کی کوششوں کی تعریف کی اور ان کی جانب سے عوام کے لیے ٹاؤن میں مختصر وقت میں پارکوں کی بحالی اور پھولوں کی نمائش منعقد کرانے پر مبارکباد بھی پیش کی۔
انجینئر عبد العزیز نے کہا کہ جماعت اسلامی کے جناح ٹاؤن نے عوام سے کیا گیا ایک اور وعدہ پورا کیا ہے اور ان حالات میں جب عوام بڑھتی ہوئی مہنگائی اور بجلی و پانی سمیت مختلف مسائل کا شکار ہیں، ان کے لیے پھولوں کی نمائش اور پارک میں ہرے بھرے درخت اور پودے لگا کر نیکی اور عوامی خدمت کا بہت بڑا کام کیا ہے۔ان کی کوششوں سے علاقہ مکینوں کے چہرے خوشی اور مسرت سے چمک رہے ہیں۔
رضوان عبد السمیع نے کہا کہ ہماری پوری ٹیم کی دن رات محنت اور کوششوں کے بعد اب اس پردہ پارک میں خوبصورت مناظر نظر آرہے ہیں اور پورا پارک گل ِ گلزار بنا ہوا ہے۔ہم نے عوام سے جو بھی وعدہ کیا ہے اپنے محدود وسائل و اختیارات نہ ہونے کے باوجود ان کو پورا کریں گے اور عوام کے درمیان ہمیشہ موجود رہیں گے۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: جماعت اسلامی نے کہا کہ چیئر مین اور عوام کے لیے پیش کی
پڑھیں:
سندھ میں پیپلز پارٹی کا اقتدار
2008 میں جنرل پرویزکی صدارت میں پیپلز پارٹی 2007 میں بے نظیر بھٹو کی شہادت کے نتیجے میں 1993 کے بعد اقتدار میں آئی تھی اور اس نے سندھ میں اپنی واضح اکثریت سے حکومت بنائی تھی اور پی پی نے مسلم لیگ (ن) سے مل کر حکومت بنائی تھی جو چند ماہ ہی چل سکی تھی اور آصف زرداری نے (ن) لیگ کی علیحدگی کے بعد ایم کیو ایم اور (ق) لیگ کو ملا کر گیلانی حکومت بنائی اور راجہ پرویز اشرف کی حکومتوں کی مدت پوری کرائی تھی۔
بلوچستان میں پی پی کا اور کے پی میں اے این پی کے ساتھ اتحاد سے وزیر اعلیٰ تھے جب کہ پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کی اکثریتی حکومت تھی اور پی پی کی سندھ حکومت واضح اکثریت سے مضبوط حکومت تھی، بعد کے تینوں انتخابات میں پی پی سندھ میں واضح اکثریت سے حکومتیں بناتی رہی اور موجودہ سندھ حکومت بھی واضح اکثریت کی حامل ہے جہاں 2018 میں پی ٹی آئی کا اپوزیشن لیڈر تھا اور اب ایم کیو ایم کا اپوزیشن لیڈر ہے اور سولہ برسوں میں قائم علی شاہ کی جگہ مراد علی شاہ وزیر اعلیٰ بنتے رہے اور چار حکومتوں میں وزارت اعلیٰ صرف سیدوں کو ملتی رہی جب کہ ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر دور میں سید قائم علی شاہ اور عبداللہ شاہ کے علاوہ ممتاز بھٹو، غلام مصطفیٰ جتوئی، آفتاب شعبان میرانی بھی وزیر اعلیٰ پی پی حکومتوں میں رہے مگر سیدوں کو زیادہ اہمیت بے نظیر بھٹو کے بعد آصف زرداری نے سب سے زیادہ دی اور سندھ کا زیادہ اقتدار سیدوں کے پاس رہا اور مراد علی شاہ پی پی کی حکومتوں میں تیسرے سید وزیر اعلیٰ ہیں اور سب سے زیادہ عرصہ اقتدار بھی سیدوں کا ہے جو شاید آصف زرداری کی ذاتی پسند ہیں۔
سندھ میں پیپلز پارٹی کا چوتھا اقتدار بھی بے حد مضبوط ہے اور سندھ کے ایک مضبوط سسٹم کے ساتھ چل رہا ہے اور موجودہ ایم کیو ایم کے اپوزیشن لیڈر علی خورشیدی نے سندھ سسٹم قرار دیا ہے۔
جمعہ دس جنوری کا سندھ اجلاس وہ منفرد اجلاس تھا جو میڈیا کے مطابق ایجنڈے کی کارروائی کے بغیر اسپیکر نے اس لیے ملتوی کر دیا کہ اس اجلاس میں صرف دو تین ارکان ہی موجود تھے جب کہ ایوان میں صرف پی پی ہی کے تقریباً ایک سو ارکان ہیں اور باقی ایم کیو ایم، پی ٹی آئی اور جی ڈی اے کے بھی کچھ ارکان ہیں مگر جمعہ کو بہ مشکل دو تین ارکان آئے اور کورم پورا نہ ہونے کی وجہ سے مختصر وقت میں کورم کے باعث ملتوی ہوا۔
سندھ اسمبلی کی رپورٹنگ کرنے والے ایک سینئر صحافی کے وی لاگ کے مطابق ایسا نہیں تھا اور کافی ارکان ایوان میں موجود تھے جہاں اپوزیشن لیڈر نے اسپیکر سے بات کرنے کی اجازت مانگی جو اسپیکر نے نہیں دی اور کورم نہ ہونے کے جواز پر اجلاس ملتوی کر دیا جس کے بعد ایم کیو ایم کے اپوزیشن لیڈر نے مقررہ مقام پر ارکان کے ہمراہ میڈیا ٹاک کی۔ ایم کیو ایم کے کنوینر اور وفاقی وزیر ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی سندھ اسمبلی کو وہ اسمبلی قرار دے چکے ہیں کہ جہاں اپوزیشن کو کوئی اہمیت نہیں دی جاتی نہ انھیں ایوان میں بولنے کا موقعہ دیا جاتا ہے۔
موجودہ سندھ حکومت میں یوں تو کئی سینئر وزیر ہیں مگر تمام میں صرف ایک سینئر وزیر شرجیل انعام میمن ہی میڈیا میں چھائے نظر آتے ہیں جو سندھ کے وزیر اطلاعات ہونے کے علاوہ ٹرانسپورٹ اور ایکسائز کے وزیر بھی ہیں۔ وزیر ٹرانسپورٹ کی حیثیت سے انھوں نے کراچی ہی نہیں بلکہ سندھ کے بعض دیگر بڑے شہروں میں سندھ حکومت کی طرف سے مختلف بسیں چلوائی ہیں اور اب انھوں نے کراچی میں ڈبل ڈیکر بسیں چلوانے کا بھی اعلان کیا ہے اور وہ پی ٹی آئی سے متعلق دیگر وزیروں کے مقابلے میں زیادہ بیانات دیتے ہیں جن کی یہ بھی منفرد اہمیت ہے کہ وزیر اعظم کراچی آمد پر پہلی بار سینئر وزیر شرجیل میمن کے گھر انھیں دادا بننے کی مبارکباد دینے گئے۔
سندھ حکومت میں پہلے بیرسٹر مرتضیٰ وہاب کو مشیر قانون اور حکومت سندھ کا ترجمان رکھا گیا اور انھوں نے موثر طور سندھ حکومت کی ترجمانی کی اور بلدیہ عظمیٰ کراچی کے پیپلز پارٹی کے پہلے میئر ہیں جنھیں سندھ حکومت نے اکثریت نہ ہونے کے باوجود خصوصی طور پر میئر منتخب کرایا تھا جنھیں جماعت اسلامی منتخب نہیں مانتی اور انھیں قبضہ میئر قرار دیتی ہے جن کے پاس اکثریت نہیں تھی اور پی ٹی آئی کے یوسی چیئرمین میئر الیکشن والے دن غیر حاضر ہونے کے باعث وہ میئر منتخب ہو گئے تھے اور موجودہ جمہوریت میں ایسا ہی ہوتا ہے اور اکثریت حاصل کرنے کے لیے ممبران توڑ لینا عام بات ہے۔
سندھ حکومت نے ایک خاتون کے ساتھ سکھر کے اپنے میئر کو بھی اپنا ترجمان مقرر کیا ہوا ہے ، وزیروں، مشیروں، معاونین خصوصی اور دیگر سرکاری عہدیداروں نے بھی اپنے اپنے بندے رکھے ہوئے ہیں انھیں گاڑیاں اور سہولتیں ان کے اداروں سے مل جاتی ہیں مگر تنخواہیں کہاں سے ملتی ہیں اس کا پتا نہیں مگر پیپلز پارٹی اپنی حکومتوں اور ماتحت اداروں میں ملازمتیں دینے میں ہمیشہ فراغ دل رہی ہے۔ بجٹ اور جگہیں ہوں نہ ہوں مگر پی پی اپنے لوگوں کو مایوس نہیں کرتی اور اسی لیے تمام بلدیاتی اور حکومتی اداروں میں ملازمین کی بھرمار ہے اور ہر جگہ فاضل عملہ رکھا جاتا ہے جنھیں ماضی میں (ن) لیگ کی حکومت فارغ بھی کردیتی تھی۔
ایم کیو ایم پی پی کی ملازمتیں دینے کی اس فیاضی کو جانبدارانہ اور مخصوص قرار دیتی ہے اور اپنے لوگوں کو ملازمتیں نہ دینے پر احتجاج کرتی ہے جواب میں پی پی کے وزیر یہی الزام ایم کیو ایم پر دہرا دیتے ہیں کہ ماضی میں انھوں نے بھی یہی کیا تھا اور اپنے ماتحت اداروں میں اپنے لوگ بھرے تھے۔ سندھ میں سولہ برسوں سے پیپلز پارٹی کو اقتدار ایسے ہی نہیں مل رہا وہ اپنوں کو ہمیشہ نوازتی رہی ہے یہ خوبی مسلم لیگ (ن) میں تو ہے ہی نہیں وہ اپنوں کو نوازنے پر کم اور کارکردگی پر زیادہ یقین رکھتی ہے۔ سندھ کے قوم پرست بھی پی پی کی اسی فیاضی پر خوش ہیں اور تنقید نہیں کرتے مگر پی پی حکومت کی مجموعی کارکردگی پر مطمئن نہیں اور تنقید کرتے آ رہے ہیں۔