گورنر اسٹیٹ بینک نے مہنگائی کے حوالے سے خطرے کی گھنٹی بجادی
اشاعت کی تاریخ: 10th, January 2025 GMT
کراچی (نیوز ڈیسک) گورنر اسٹیٹ بینک جمیل احمد نے مہنگائی کے حوالے سے خطرے کی گھنٹی بجادی اور کہا جنوری کے بعد جون تک مہنگائی بڑھنے کا امکان ہے۔
تفصیلات کے مطابق ایف پی سی سی آئی میں تاجروں سے خطاب کرتے ہوئے گورنر اسیٹ بینک جمیل احمد نے کہا کہ مہنگائی میں مسلسل کمی ہورہی ہے جنوری میں بھی یہ مزید کم ہوگئی تاہم جنوری کے بعد مہنگائی میں اضافہ ہوگا جو جون تک جاری رہ سکتا ہے اور سال کے اخر تک مہنگائی کی شرح پانچ سے سات فیصد رہنے کا امکان ہے۔
جمیل احمد کا کہنا تھا کہ مالی سال 25ء میں ترسیلات زر 35 ارب ڈالر تک بڑھنے کا تخمینہ ہے، جون 2022ء میں ملک کا بیرونی قرضہ 100 ارب ڈالر تھا، ستمبر 2024ء میں حکومتی قرضے 100.
انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان میں تہتر فیصد بینکاری برانچوں کے ذریعے ہورہی ہے، جون دو ہزار بائیس سے پاکستان کے بیرونی قرضے میں کوئی اضافہ نہیں ہوا۔
اسٹیٹ بینک کے گورنر نے بتایا کہ ترسیلات زر اور برآمدات میں اضافے کے درمیان ملک کا کرنٹ اکاوٴنٹ بہت اچھی حالت میں ہے۔
ایف پی سی آئی کے صدر عاطف اکرام شیخ نے مہنگائی میں کمی کے بعد شرح سود میں فوری طور پر کمی کا مطالبہ کرتے ہوئے اسے سنگل ڈیجٹ میں لانے کا مطالبہ کردیا۔
مزیدپڑھیں:مہر بانو قریشی کا وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز کو کرارا جواب
ذریعہ: Daily Ausaf
پڑھیں:
امریکا میں زیر تعلیم غیر ملکی طلبا کے لیے خطرے کی گھنٹی، 122 کی امیگریشن حیثیت منسوخ
ٹیکساس: امریکا میں بین الاقوامی طلبہ کے لیے تعلیمی ویزا پر خطرے کی تلوار لٹکنے لگی، خصوصاً ریاست ٹیکساس میں، جہاں 122 سے زائد غیر ملکی طلبہ کے ویزے منسوخ یا ان کی امیگریشن حیثیت ختم کر دی گئی ہے۔
یہ تبدیلیاں امریکی نظام Student and Exchange Visitor Information System (SEVIS) میں کی گئی ہیں، جس کا مطلب ہے کہ ان طلبہ کی قانونی حیثیت اب خطرے میں ہے۔ حکام کی جانب سے اب تک کوئی واضح وجہ سامنے نہیں آئی، تاہم امیگریشن ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ اقدام سخت پالیسیوں، سوشل میڈیا مانیٹرنگ اور حالیہ سیاسی فیصلوں کا نتیجہ ہو سکتا ہے۔
ٹیکساس کی متاثرہ یونیورسٹیوں میں نمایاں تعداد یونیورسٹی آف نارتھ ٹیکساس اور یونیورسٹی آف ٹیکساس، آرلنگٹن کے طلبہ کی ہے، جن میں ہر ایک سے 27 طلبہ متاثر ہوئے ہیں۔ دیگر یونیورسٹیوں میں ڈیلس، ایل پاسو، ریو گرینڈ ویلی، اے اینڈ ایم، ویمنز یونیورسٹی، اور ٹیکساس ٹیک شامل ہیں۔
امریکی محکمہ داخلہ نے حال ہی میں اعلان کیا تھا کہ وہ طلبہ کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس کی نگرانی کرے گا تاکہ "یہودی مخالف" مواد پر نظر رکھی جا سکے۔ یہ فیصلہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ایگزیکٹو آرڈرز کے بعد سامنے آیا، جن کا تعلق فلسطین کی حمایت میں کیمپس مظاہروں سے ہے۔
امیگریشن وکیل نعیم سکھیا کے مطابق SEVIS سے نکالنا کسی بھی طالب علم کو امیگریشن نظام سے فوری طور پر باہر نکال دیتا ہے، جس سے نہ صرف ان کا تعلیمی مستقبل، بلکہ اُن کے اہل خانہ کی حیثیت بھی متاثر ہو سکتی ہے۔ انہوں نے طلبہ کو فوری طور پر اپنے DSO سے رابطہ اور Reinstatement کی درخواست دینے کا مشورہ دیا ہے۔
سوشل میڈیا پر #SaveTexasStudents کے ہیش ٹیگ کے تحت ایک مہم بھی چل رہی ہے، جس میں انصاف کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔ بعض طلبہ تنظیمیں اس فیصلے کو عدالت میں چیلنج کرنے پر غور کر رہی ہیں۔
یونیورسٹیوں کی جانب سے طلبہ کو تعاون کی یقین دہانی کرائی گئی ہے، تاہم موجودہ صورت حال نے بین الاقوامی طلبہ کے لیے امریکا میں تعلیم کا مستقبل غیر یقینی بنا دیا ہے۔