لڑکیوں کی تعلیم اور چیلنجز پر کانفرنس، او آئی سی کے سیکریٹری جنرل پاکستان پہنچ گئے
اشاعت کی تاریخ: 10th, January 2025 GMT
اسلامی تعاون تنظیم کے سیکریٹری جنرل ابراہیم حسین طہ بین الاقوامی کانفرنس میں شرکت کے لیے اسلام آباد پہنچ گئے ہیں۔اسلام آباد میں مسلم معاشروں میں لڑکیوں کی تعلیم، چیلنجز اور مواقع کے عنوان پر دو روزہ بین الاقوامی کانفرنس منعقد ہونے جا رہی ہے۔دو روزہ کانفرنس11 سے 12 جنوری تک کنونشن سینٹر اور مقامی ہوٹل میں جاری رہے گی جبکہ تربیتی ورکشاپس کا انعقاد بھی کیا جائے گا۔وزیر تعلیم خالد مقبول صدیقی نے او آئی سی کے سیکریٹری جنرل کا ایئرپورٹ پر استقبال کیا۔کانفرنس کا انعقاد رابطہ عالم اسلامی کے سیکرٹری اور مسلم علما کونسل کے چیئرمین شیخ ڈاکٹر محمد بن عبدالکریم العیسی کی تجویز پر کیا جا رہا ہے۔اس سے قبل جمعہ 10 جنوری کو ایک خصوصی سیشن ہوگا جس میں علما شرکت کریں گے، اس کا موضوع اسلامی تناظر میں خواتین کی تعلیم ہے۔کانفرنس میں شرکت کے لیے او ائی سی کے سیکرٹری جنرل ابراہیم حسین طہ کے علاوہ او آئی سی کے نمائندہ خصوصی برائے افغانستان طارق بخیت اور رابطہ عالم اسلامی کے مندوبین جمعے کو اسلام آباد پہنچ رہے ہیں۔او آئی سی کے سیکریٹری جنرل کی نائب وزیراعظم و وزیرخارجہ اسحاق ڈار اور دیگر حکام سے بھی ملاقاتیں متوقع ہیں۔رابطہ عالم اسلامی کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ وزیراعظم پاکستان کے دفتر کی شراکت، بین الاقوامی حکومتی اور کمیونٹی تنظیموں کے تاریخی اتحاد سے مسلم معاشروں میں لڑکیوں کی تعلیم کے فروغ کے لیے ایک وسیع بین الاقوامی شراکت داری کا آغاز کیا جا رہا ہے۔کانفرنس میں اسلامی ملکوں کے وزرائے تعلیم، اقوام متحدہ اور بین الاقوامی تنظیموں، سول سوسائٹی کے نمائندے، اسلامی فتاوی کونسل، بین الاقوامی اسلامی جامعات کے حکام اور نمائندے شرکت کر رہے ہیں۔کانفرنس سے وزیراعظم شہبار شریف افتتاحی خطاب کریں گے جبکہ عالمی ایجوکیشن ایکٹویسٹ ملالہ یوسفزئی کلیدی خطاب کریں گی۔کانفرنس میں تعلیمی نسواں: رکاوٹیں اور حل، انفارمیشن ٹیکنالوجی اور تعلیم نسواں: مواقع اور امکانات، امن کے قیام میں خواتین کا کردار سمیت کئی موضوعات کا احاطہ کیا جائے گا۔کامیابی کی کہانیوں کے عنوان سے ایک ورکشاپ میں لڑکیوں کی تعلیم کے کامیاب تجربات پر روشنی ڈالی جائے گی۔کانفرنس میں اسلامی ملکوں میں لڑکیوں کی تعلیم کے لیے ایک جامع حکمت عملی کی تیاری کےلیے ورکنگ گروپ، خواتین کی تعلیم سے متعلق غلط تصورات کے حوالے سے آگاہی مہم ، لڑکیوں کی تعلیم کی سپورٹ اور اقدامات، رابطہ عالمی اسلامی کی جانب سے آن لائن ایجوکیشن کے لیے پلیٹ فارم، تعلیم نسواں کے حوالے سے جامع دستاویز کا اجرا متوقع ہے۔علاوہ ازیں بین الاقوامی تنظیموں اور اداروں کے ساتھ شراکت داری کے معاہدوں پر دستخط کےلیے ایک پلیٹ فارم بھی تشکیل دیا جائے گا۔اس بات کی توقع کی جار ہی ہے کہ ان اقدامات کے ذریعے خواتین کےلیے تعلیم کے حق کو منصفانہ اور مساوی بنیادوں پر یقینی بنایا جا سکے گا۔اس سے قبل پاکستان کے دفتر خارجہ کے ترجمان نے بتایا تھا کہ وزیراعظم شہباز شریف کانفرنس میں لڑکیوں کی تعلیم اور صنفی مساوات کے فروغ کے لیے قوم کے عزم کا اعادہ کریں گے۔بین الاقوامی کانفرنس میں 44 مسلم اور دوست ممالک کے وزرا، سفیروں سمیت بین الاقوامی اداروں کے نمائندے شریک ہوں گے۔ کانفرنس کا اختتام اسلام آباد اعلامیہ پر دستخط کی رسمی تقریب سے ہوگا۔
.ذریعہ: Nawaiwaqt
کلیدی لفظ: میں لڑکیوں کی تعلیم کے سیکریٹری جنرل بین الاقوامی کانفرنس میں او آئی سی کے اسلام آباد تعلیم کے کے لیے کیا جا
پڑھیں:
ہے اپنے ہاتھ میں اپنا گریباں
8اپریل2025 کی دوپہر جب اسلام آباد کے جناح کنونشن سینٹر میں وزیر اعظم شہباز شریف کی زیر صدارت Pakistan Minerals Investment Forum کے عنوان سے ایک بین الاقوامی کانفرنس ہو رہی تھی، عین اُس وقت راولپنڈی کی اڈیالہ جیل کے باہر پی ٹی آئی نے اپنا ’’ تماشہ‘‘ لگا رکھا تھا ۔ اور اُسی وقت کراچی میں ایک منفرد سیاسی ’’تماشہ‘‘ یوں لگا تھا کہ ایم کیوایم کی سینئر قیادت (جن میں ایک وفاقی وزیر بھی شامل تھے) سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت اور کراچی میئر کے خلاف سخت زبان کی حامل پریس کانفرنس کررہی تھی۔ اوراُسی وقت بلوچستان کے کوہستانی علاقوں میں سابق وزیر اعلیٰ بلوچستان، اختر مینگل، کی قیادت میں شوریدگی پر آمادہ ایک جلوس وفاقی حکومت اور بلوچستان حکومت کے خلاف نعرہ زَن تھا۔ اور عین اُسی وقت ایک پانچواں ’’تماشہ‘‘ سندھ میں یوں لگ رہاتھا کہ سندھ حکومت اور کئی سندھی قوم پرست جماعتیں مبینہ6نہروں کے بارے وفاقی حکومت کے خلاف سڑکیں گرم کررہے تھے۔ اوراِنہی ہاؤ ہُو کے مناظرمیں ایک منظر یہ بھی دکھائی دے رہا تھا کہ پاکستان بھر سے افغان مہاجرین سمیت غیر قانونی غیر ملکیوں کوبے دخل کیا جارہا تھا۔
ایسے متنوع منظر نامے اور جھگڑوں میں قومی یکجہتی اور اتفاق کا عنصر تلاش کیا جائے تو کیسے اور کیونکر؟ایسے پُر شور اور شوریدہ سر ماحول میں وفاقی حکومت نے اگر اسلام آباد میں ’’ پاکستان منرلز انویسٹمنٹ فورم‘‘ کے زیر عنوان دو روزہ (8تا9اپریل)بھرپور کانفرنس کا انعقاد کیا ہے تو اِسے غیر معمولی مثبت اقدام قرار دیا جانا چاہیے ۔ اِس کانفرنس میں 300کی تعداد میں ملکی اور غیر ملکی وفود نے شرکت بھی کی ہے اور پاکستان سے معدنیات نکالنے میں بھاری سرمایہ کاری کا اظہار بھی کیا ہے ۔ امریکیوں نے بھی اِس میں شرکت کی ہے ۔ اِس اہم کانفرنس سے و زیر اعظم شہباز شریف، نائب وزیر اعظم اسحاق ڈار اور آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے مفصّل خطاب کیا ۔ اِن خطابات کے جملہ مندرجات ہمارے میڈیا میں شائع اور نشر ہو چکے ہیں ۔
اِن مندرجات کا غائر نظر سے جائزہ لیا جائے تو ایک عنصر مشترکہ طور پر نکھر کر سامنے آتا ہے کہ اگر پاکستان کے چاروں صوبوں، آزاد کشمیر اور گلگت و بلتستان کے پہاڑوں ، میدانوں اور ریگزاروں میں چھپی قیمتی معدنیات کو نکال لیا جائے تو ہمارے سارے دلدّر دُور ہو جائیں گے۔بقول وزیر اعظم شہباز شریف، یہ معدنیات کھربوں ڈالرز مالیت کی ہیں اور اِن کی بدولت ہم اپنے تمام غیر ملکی قرضوں سے نجات بھی حاصل کر سکتے ہیں اور ہمیشہ کے لیے آئی ایم ایف کے چنگل سے بھی چھُوٹ سکتے ہیں۔آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے بھی ایک خوشنما نوید اِن الفاظ میں سنائی ہے:’’پاکستان عالمی معدنی معیشت کی قیادت کے لیے تیار ہے۔‘‘
اگر وزیر اعظم صاحب و دیگر مقررین صاحبان کے جملہ دعوے نہائت رُوح افزا، دلکش او ر دلکشا ہیں۔ لیکن اِس خواب کی تعبیر تب ہی ممکن ہے اگر وطنِ عزیز میں پائیدار امن قائم ہو۔ اگر ہمارے سیاسی استحکام میں کوئی دراڑ نہ پڑے ۔ اگر آئے روز اڈیالہ جیل کے باہر تماشے نہ لگائے جائیں ۔
یہ سوال اپنی جگہ پر ہے کہ جب8اور 9 اپریل2025 کو اسلام آباد میں محولا بالا کانفرنس ہورہی تھی، اڈیالہ جیل کے باہر بانی پی ٹی آئی کی تینوں محترم ہمشیرگان و دیگران نے جو تماشہ لگایا ، اِس کی بازگشت کانفرنس مذکور کے شرکت کنندگان کے کانوں تک نہیں پہنچی ہوگی؟مذکورہ کانفرنس کے شرکت کنندگان نے وہ شور ِ اور شوریدگی نہیں سُنی اور دیکھی ہوگی جو سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت اور سندھی قوم پرستوں نے مبینہ نہروں کی اساس پر اُٹھا رکھی ہے؟ جو بلوچستان میں اختر مینگل نے احتجاجی ڈھول بجا رکھا ہے ؟ جو ایم کیو ایم سندھ حکومت کے خلاف سراپا احتجاج ہے؟ اِس شور اور اُٹھائی گئی دھول میں معدنیات نکالنے کوئی غیر ملکی سرمایہ کار پاکستان کا رُخ کریگا تو کیونکر؟
اس تاریخ ساز کانفرنس میں پاکستان کے تینوں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ تو شریک ہُوئے مگر خیبرپختونخوا کے وزیر اعلیٰ کی عدم شرکت ایک بار پھر نئے سوالات کھڑی کر گئی ہے۔ بانی پی ٹی آئی کی ایک ہمشیرہ ، محترمہ علیمہ خان، نے تو غیر مبہم الفاظ میں اِس کانفرنس کے خلاف ایک کھلا بیان یوں دیا ہے: اگر عمران خان جیل میں بند رہے تو پھر ایسی کانفرنس میں ہماری شرکت کا فائدہ؟ پی ٹی آئی نے بلوچستان کے دہشت گردوں کے ہاتھوں جعفر ایکسپریس کے اغوا کے بعد اسلام آباد میں ہونے والی قومی کانفرنس میں بھی شرکت سے انکار کر دیا تھا۔
اور اب پی ٹی آئی نے منرلز کانفرنس میں بھی شرکت نہ کرکے اپنے مرکزِ گریز ہونے کا ثبوت فراہم کیا ہے ۔ لاریب اِس عدم شرکت سے پاکستان تحریکِ انصاف نے اپنے دامن پر ایک اور دھبہ لگا لیا ہے ۔ پی ٹی آئی کے اندرونی حلقوں اور مرکزی قیادت میں نااتفاقیوں، جھگڑوںاور سرپھٹول نے جو لاتعداد تماشے لگا رکھے ہیں، یہ مناظر اپنی جگہ حیرت انگیز ہیں ۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ بانی صاحب اِن مناظر کے سامنے بے بس ہیں ۔
پی ٹی آئی کے باطنی جھگڑے روز افزوں ہیں۔ یہ جھگڑے پی ٹی آئی کو روز بروز اپنے عشاق عوام سے دُور بھی کررہے ہیں اور پی ٹی آئی اپنی محوری طاقت بھی کھو رہی ہے ۔ یہ پارٹی کے لیے غیر معمولی خسارہ ہے ۔ پی ٹی آئی کے تین سینئر قائدین( سلمان اکرم راجہ، اعظم سواتی اور علی امین گنڈا پور) کی جانب سے اپنے ہی ساتھیوں پر جو تازہ الزامات سامنے آئے ہیں، اِن سے یہ خسارہ اور نقصان دو چند ہو گیا ہے۔ ایسے میں جب خیبر پختونخوا کی ’’داخلی احتساب کمیٹی‘‘ کی طرف سے تیمور سلیم جھگڑا ( کے پی میں پی ٹی آئی کے سابق وزیر خزانہ و صحت) پر جب 36ارب روپے کی مبینہ بد عنوانیوں کا الزام عائد کیا گیا تو اِس الزام کی بازگشت دُور و نزدیک صاف سنائی دی گئی ۔
پی ٹی آئی اور بانی پی ٹی آئی تو اپنے جملہ سیاسی حریفوں کو ’’چور‘‘ کہتی رہی ہے اور ستم ظریفی دیکھئے کہ اب یہی سیاہ داغ خود پی ٹی آئی پر پی ٹی آئی کی قیادت کے ہاتھوں لگ رہے ہیں ۔ تیمور جھگڑا پر کرپشن کا مبینہ الزام سب کو حیران کر گیا ہے۔ تیمور جھگڑا اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں۔وہ سابق صدرِ پاکستان، غلام اسحاق خان ، کے نواسے ہیں ۔ جنوری 2019کو ’’ایکسپریس ٹربیون‘‘ نے اپنے ایک تفصیلی آرٹیکل میں لکھا ہے کہ تیمور خان جھگڑا جب پی ٹی آئی میں شامل ہُوئے تھے، اُس وقت وہ ممتاز عالمی ادارے Mckinseyکے پارٹنر تھے اور6لاکھ ڈالرز سالانہ تنخواہ لے رہے تھے (تقریباً17کروڑ روپے سالانہ، تقریباً 56لاکھ روپے ماہانہ)۔ ایسے جنٹلمین اور خوشحال شخص پر مذکورہ بالا الزام لگا ہے تو سب ششدر رہ گئے ہیں ۔
سب حیران ہیں اور یہ سوال کررہے ہیں کہ تیمور جھگڑا پر یہ الزام عائد کیے جانے کے عقب میں کیا مقاصد کارفرما ہیں؟ بعض تجزیہ کار اِس سوال کا یہ جواب بھی دیتے ہیں کہ تیمور جھگڑا دراصل علی امین گنڈا پور کے حقیقی سیاسی حریف ہیں۔ تیمور جھگڑا میں جو اوصاف پائے جاتے ہیں، وہ اُنہیں خیبرپختونخوا کے وزیر اعلیٰ کے منصب پر فائز کرنے کے لیے کافی ہیں ۔ قیافہ لگانے والے کہتے ہیں کہ تیمور جھگڑا کے خلاف الزام کا یہ راستہ کس نے اختیار کیا ہوگا ۔
تیمور جھگڑا نے پی ٹی آئی کی ’’داخلی احتساب کمیٹی ‘‘کی طرف سے چارج شیٹ ملنے پر جو مبینہ جواب داخل کیا ہے، اِس کی شدت کا مرکزی ہدف علی امین گنڈا پور ہیں۔ اُنھوں نے علی امین کے مالی معاملات پرانگشت نمائی کی ہے ۔ شنید ہے کہ تیمور جھگڑا کے خلاف مزید انکوائری فی الحال روک دی گئی ہے۔الزام تراشی کے یہ متنوع اور متعدد مناظر دراصل اِس امر کے بھی غماز ہیں کہ پی ٹی آئی کے اندر ٹوٹ پھوٹ کا عمل تیزی سے جاری ہے ۔ پی ٹی آئی کی مرکزیت بکھر چکی ہے اور اِس کے باطن میں کئی قطب (Poles) بن چکے ہیں ۔ پی ٹی آئی کے اندر تہمت تراشی زبیر علی تابش کے اِس شعر کی تفسیر بن گئی ہے:ہے اپنے ہاتھ میں اپنا گریباں/ نجانے کس سے جھگڑا کررہا ہُوں۔