تحریک انصاف 8 فروری سے کسی کے قبضے میں نہیں ہے عمران خان جیل سے اسے چلا رہے ہیں، علیمہ خان
اشاعت کی تاریخ: 10th, January 2025 GMT
بانی پی ٹی آئی کی ہمشیرہ علیمہ خان نے کہا ہے کہ تحریک انصاف 8 فروری سے کسی کے قبضے میں نہیں ہے، عمران خان جیل سے اسے چلا رہے ہیں، بانی پی ٹی آئی بتا کر بھیجتے ہیں کہ میرے ٹویٹر اکاونٹ پر کیا کرنا ہے۔ہم جلد بانی پی ٹی آئی کو جیل سے باہر نکالیں گے، رانا ثنا اللہ کو کیوں فکر ہو رہی ہے؟،راولپنڈی کی اڈیالہ جیل کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بانی پی ٹی آئی کی ہمشیرہ کا کہنا ہے کہ جب عمران خان نے باہر آنا ہوا تو انشاءاللہ فجر کے وقت جیل کا دروازہ کھل جائے گا۔ رانا ثنا اللہ کو بتائیں کہ پی ٹی آئی سونا نہیں ہیرا ہے۔ن لیگی رہنماء رانا ثنا اللہ کہہ رہے ہیں کہ علیمہ خان پی ٹی آئی پر قبضہ کرنے لگی ہے۔ یہ اور سٹیبلشمنٹ تو ماشا اللہ ایک پیج پر ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جب یہ کچھ کرنا چاہتے ہیں تو صبح 7 بجے جیل بھی کھل جاتی ہے اور رات کو بھی ملاقات ہو جاتی ہے۔مذاکرات اگر انہوں نے کرنے ہوتے ہیں تو یہ خود ہی صبح 7 بجے جیل کھول دیں گے اگر انہوں نے مذاکرات کرنے ہوئے تو آپ دیکھ لینا فجر کے وقت جیل کا دروازہ کھل جائے گا۔قوم نے عمران خان کا ساتھ دیا اور انھوں نے ڈیڑھ سال جیل میں بیٹھ کر مقدمات کا سامنا کیا۔ بانی پی ٹی آئی عمران خان ڈیل کے تحت نہیں سرخرو ہو کر جیل سے نکلیں گے۔میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بانی پی ٹی آئی کی ہمشیرہ علیمہ خان کا مزید کہناتھا کہ سلمان اکرم راجا کو بانی نے نامزد کیا ہے اور اپنے لوگ اس کے پیچھے لگ گئے ہیں۔ سلمان اکرم راجا وہی کرے گا جو عمران خان کہے گا۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ کیا پتا ان کو لکھائی میں مشکل پڑ رہی ہو کہ انہوں نے 190 ملین پاونڈز کے فیصلے میں کیا لکھنا ہے۔ 190 ملین پاونڈز ریفرنس جب ہائی کورٹ میں جائے گا تو دنیا کو پتا چلے گا کہ یہ کتنا بڑا مذاق ہے۔ بانی پی ٹی آئی باقی کیسز میں جیل کے اندر نہیں رہ سکے تو اس میں کیسے جیل میں رہیں گے ؟۔بانی پی ٹی آئی عمران خان ڈیل کے تحت نہیں، سرخرو ہو کر جیل سے نکلیں گے۔عمران خان کہتے کہتے تھک گئے کہ میں عدالت کے ذریعے اپنے کیسز کا سامنا کر کے باہر نکلوں گا۔ قوم نے بانی پی ٹی آئی عمران خان کا ساتھ دیا اور انہوں نے ڈیڑھ سال جیل میں بیٹھ کر ان مقدمات کا سامنا کیا۔بانی پی ٹی آئی مقدمات سے گھبرانے والے نہیں ہیں ۔
.ذریعہ: Nawaiwaqt
کلیدی لفظ: بانی پی ٹی آئی علیمہ خان انہوں نے جیل سے
پڑھیں:
عالمی عدالت انصاف میں غزہ پر کڑی اسرائیلی پابندیوں کی کھلی سماعت شروع
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 28 اپریل 2025ء) عالمی عدالت انصاف (آئی سی جے) نے غزہ اور مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں اقوام متحدہ اور دیگر امدادی اداروں کے کام پر اسرائیل کی عائد کردہ کڑی پابندیوں کے معاملے کی کھلی سماعت کا آغاز کر دیا ہے۔
عدالت اس سماعت میں 40 رکن ممالک اور چار بین الاقوامی امدادی اداروں کی آراء سننے کے بعد مقبوضہ علاقوں میں قابض طاقت کی حیثیت سے اسرائیل کی ذمہ داریوں کے بارے میں اپنی مشاورتی رائے دے گی۔
Tweet URL7 اکتوبر 2023 کے بعد غزہ میں اسرائیل کی متواتر بمباری اور انسانی امداد کی شدید قلت کے تناظر میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے گزشتہ سال دسمبر میں 'آئی سی جے' سے اپنی رائے دینے کی درخواست کی تھی۔
(جاری ہے)
عدالت سے رجوع کرنے کے لیے جنرل اسمبلی میں رائے شماری کے موقع پر اس کے حق میں 137 اور مخالفت میں 12 ووٹ آئے تھے۔اگرچہ 'آئی سی جے' کے ججوں کی مشاورتی رائے کی پابندی قانوناً لازم نہیں ہے۔ تاہم اس سے کسی معاملے پر اٹھنے والے قانونی سوالات کی وضاحت ضرور ہوتی ہے۔ جب عدالت کسی معاملے پر اپنی قانونی رائے جاری کرتی ہے تو جنرل اسمبلی دوبارہ اس معاملے کو لے کر مزید اقدامات کا فیصلہ کرتی ہے۔
قابض طاقت کی ذمہ داریہالینڈ کے شہر ہیگ میں قائم عدالت میں سماعت کے پہلے روز اقوام متحدہ کی لیگل کونسل ایلینار ہیمرشولڈ نے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرش کی نمائندگی کرتے ہوئے غزہ میں جنگ بندی، انسانی امداد کی فراہمی اور تمام یرغمالیوں کی فوری رہائی کے مطالبات کو دہرایا۔
ان کا کہنا تھا کہ غزہ میں اقوام متحدہ کے 13 ادارے کام کر رہے ہیں اور جنگ کے آغاز سے اب تک علاقے میں اس کے 295 امدادی اہلکاروں کی ہلاکت ہو چکی ہے۔
ایلینا ہیمرشولڈ نے کہا کہ اقوام متحدہ کے اداروں اور ان کے اہلکاروں کو ہر طرح کے حالات میں خصوصی تحفظ اور استثنیٰ حاصل ہوتا ہے جس کی ذریعے انہیں مقبوضہ فلسطینی علاقوں سمیت دنیا بھر میں اپنی ذمہ داریوں کی انجام دہی میں مدد ملتی ہے۔ اس تحفظ اور استثنیٰ کا اطلاق مسلح تنازعات میں بھی ہوتا ہے۔
کسی علاقے پر قابض طاقت کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس جگہ رہنے والے لوگوں کا فائدہ مدنظر رکھے اور انہیں انسانی امداد کی فراہمی میں سہولت دے۔
مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں ان ذمہ داریوں کی تکمیل اقوام متحدہ کے تمام اداروں کو مقامی آبادی کے فائدے کے لیے اپنی سرگرمیاں جاری رکھنے کی اجازت دینے اور ان کے لیے سہولت فراہم کرنے کا تقاضا کرتی ہے۔'انروا' کے مسائلفلسطینی پناہ گزینوں کے لیے اقوام متحدہ کے امدادی ادارے (انروا) کے کمشنر جنرل فلپ لازارینی نے 'آئی سی جے' میں اس معاملے کی سماعت کا خیرمقدم کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ امدادی ادارے غزہ اور مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں لوگوں کی ضروریات پوری کرنے کے لیے کام کر رہے ہیں۔
اسرائیل کی پارلیمنٹ میں منظور کردہ قوانین کے تحت اسرائیلی حکام کو 'انروا' کے ساتھ رابطوں سے روک دیا گیا ہے جس سے ادارے کو ضروری امداد اور خدمات کی فراہمی میں رکاوٹوں کا سامنا ہے۔یہ اقدام اس لیے خاص تشویش کا حامل ہے کہ ا'نروا' ہی غزہ میں امداد پہنچانے والا سب سے بڑا ادارہ ہے اور اس نے دہائیوں سے فلسطینیوں کو صحت، تعلیم اور دیگر ضروری خدمات مہیا کی ہیں۔
تاہم، جنوری میں پابندیاں نافذالعمل ہونے سے 'انروا' کے بین الاقوامی عملے کو اسرائیل میں داخلے کے لیے ویزے جاری نہیں کیے گئے۔بمباری، بھوک اور موتغزہ میں اقوام متحدہ کے دفتر برائے امدادی امور (اوچا) کا کہنا ہے کہ 2 مارچ کو اسرائیل کی جانب سے غزہ کے محاصرے کا فیصلہ کیے جانے کے بعد لوگوں کو خوراک کی شدید قلت کا سامنا ہے۔ جو لوگ بموں اور گولیوں سے بچ جاتے ہیں وہ بھوک اور بیماریوں سے مر رہے ہیں۔
اسرائیل کی جانب سے امداد اور تجارتی سامان کی غزہ آمد پر عائد کی جانے والی پابندی کے بعد لوگوں کی بڑھتی ہوئی ضروریات پوری کرنا ممکن نہیں رہا۔غزہ شہر کی پناہ گاہ میں مقیم مونا کہتی ہیں کہ ان کا خاندان دن میں ایک وقت کھانا کھاتا ہے۔ وہ سونے سے پہلے یہ سوچ رہی ہوتی ہیں کہ اگلے روز انہیں کھانے کو کیا اور کیسے ملے گا۔ انہوں نے کئی روز کے لیے آٹا جمع کر رکھا ہے جسے وہ احتیاط سے استعمال کرتی ہیں۔
جب ان کے پوتے پوتیاں بھوک کی شکایت کرتے ہیں تو وہ اپنے حصے کی روٹی بھی انہیں دے دیتی ہیں۔ ان کی صحت اچھی نہیں ہے لیکن وہ ادویات نہیں لیتیں۔ ان کا کہنا ہے کہ علاج معالجہ اچھی خوراک کا تقاضا کرتا ہے جو اس وقت انہیں میسر نہیں ہے۔غزہ شہر کے ایک سکول میں قائم پناہ گاہ میں رہنے والے وفا دو بچوں کے باپ ہیں۔ انہوں ںے بتایا کہ ان کے پاس پھلیوں، چنے اور مٹر کے چند ڈبے اور چند کلو آٹا ہے۔ یہ خوراک آئندہ چار روز میں ختم ہو جائے گی۔ آٹا باسی ہو رہا ہے اور اس سے بدبو بھی آنے لگی ہے لیکن ان کے پاس اسے استعمال کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ وہ سوال کرتے ہیں کہ آخر انہیں یہ ہولناک حالات کب تک جھیلنا پڑیں گے۔