UrduPoint:
2025-04-13@15:39:01 GMT

بچے خطرہ مول نہیں لیں گے، تو سیکھیں گے کیسے؟

اشاعت کی تاریخ: 10th, January 2025 GMT

بچے خطرہ مول نہیں لیں گے، تو سیکھیں گے کیسے؟

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 10 جنوری 2025ء) آپ نے ممکن ہے دیکھا ہو کہ کوئی بچہ کسی جھولے سے الٹا لٹک کر، کبھی کسی بلند سطح یا ٹیبل سے چھلانگ لگا کر یا سنگلاخ پتھروں والی سطح پر چڑھنے اترنے کی تگ و دو کر رہا ہو یا دوڑتے ہوئے خود کو گرا کر پھسل رہا ہو۔ بچے عموماﹰ بہ ظاہر خطرناک کھیل کھیلتے نظر آتے ہیں۔ مگر سائنسی جریدے نیچر میں شائع ہونے والی ایک تحقیقی رپورٹ میں محققین کا کہنا ہے کہ ایسے کھیل بچوں کی نشوونما کے لیے ضروری بھی ہیں۔

میلبورن کی ڈیکن یونیورسٹی میں عوامی صحت و نفسیات کی محقق ایلیتھیا جیریبین کے مطابق وہ شہر کے قریب گرم دھوپ میں ساحل پر اپنی دس اور تیرہ سال کی بیٹیوں کے ساتھ تھیں، جہاں وہ لڑکیاں پتھروں کے ایک ڈھیر پر چڑھ اتر کر کھیل رہی تھیں۔

(جاری ہے)

جیریبین کے مطابق وہ ایسے میں خود سے یہ سوال کر رہی تھیں کہ کیا ان بچیوں کو ایسا کرنا چاہیے؟ ان کا کہنا ہے کہ نوکیلے پتھر اور ان میں پڑی دراڑیں دیکھ کر وہ چکرا رہی تھیں جب کہ بچیاں خوشی سے کھیل رہی تھیں۔

جیریبین کے مطابق ایسے میں انہیں ان بچیوں کو روکنے کا خیال بھی آیا کہ انہیں کوئی چوٹ بھی لگ سکتی تھی۔

مگر جیریبین کے مطابق ان لڑکیوں کو روکنا ان کی تحقیق سے متصادم ہوتا، کیوں کہ یہ 'خطرناک کھیل‘ اور اس طرز کی دیگر سرگرمیاں ان بچوں کی بہتر نشوونما کے لیے ضروری ہیں۔

جیریبین کے مطابق والدین بچوں کو ہر طرح کے خطرات سے محفوظ رکھنے کی فکر میں ہوتے ہیں جب کہ خطرناک کھیل کے مواقع بچوں کی جسمانی، ذہنی اور جذباتی نشوونما کے لیے انتہائی ضروری بھی ہیں۔

جیریبین اس وقت ان خطرناک کھیلوں کے بچوں کی صحت پر پڑنے والے وسیع تر اثرات اور فوائد پر تحقیق کر رہی ہیں۔

رسک اور بچوں کی نشوونما

جیریبین کا کہنا ہے کہ گزشتہ دو دہائیوں میں یہ تحقیق سامنے آئی ہے کہ خطرناک کھیل کے مواقع صحت مند جسمانی، ذہنی اور جذباتی نشوونما کے لیے ضروری ہیں۔

محققین کے مطابق بچوں کو ان مواقع کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ وہ جغرافیائی آگاہی، جسمانی کوآرڈینیشن، غیر یقینی صورتحال سے نمٹنے کی استعداد اور خود اعتمادی حاصل کر سکیں۔

اس کے باوجود کئی ممالک میں خطرناک کھیل اب پہلے سے زیادہ محدود ہو چکے ہیں، جو ''خطرے‘‘ اور اس کے فوائد کے بارے میں غلط فہمیوں کی وجہ سے ہے۔ محققین کے مطابق بالغ افراد کے اندازوں کے برعکس بچے اپنی صلاحیتوں کے بارے میں زیادہ بہتر جانتے ہیں اور یہ بہ ظاہر خطرناک نظر آنے والے کھیل انہیں یہ تخمینہ لگانے میں معاونت دیتے ہیں کہ اس طرح کے حالات میں انہیں کیا ردعمل دکھانا ہے، اس سے ان کے دماغ اور جسمانی اعضاء کے درمیان باہمی ربط میں بھی غیرمعمولی اضافہ ہوتا ہے۔

تاہم کئی محققین کا خیال ہے کہایسے کھیلوں کے فوائد سے متعلق مزید تحقیق کی ضرورت ہے لیکن چونکہ کھیل ایک آزادانہ نوعیت کا فعل ہوتا ہے، اس لیے اس کو تجرباتی طور پر مطالعہ کرنا لاجسٹک اعتبار سے اب تک مشکل رہا ہے۔

اسی تناظر میں اب سائنسدان نئے طریقوں کا استعمال کر رہے ہیں، جن میں ورچوئل ریئلیٹی بھی شامل ہے، تاکہ خطرناک کھیل کے فوائد اور اس کو فروغ دینے کے طریقوں کا اندازہ لگایا جا سکے۔

تھوڑا رسک ضروری بھی ہے

کینیڈا کے شہر ٹورانٹو میں قائم ایک غیرمنافع بخش تنظیم پیراشوٹ کی صدر پامیلا فوسلی جو بچوں کو چوٹ لگنے سے بچانے کے شعبے میں کام کرتی ہیں، کہتی ہیں، ''زیادہ تر لوگ سمجھتے ہیں کہ میں چوں کہ بچوں کو چوٹ سے بچانے کے موضوع پر کام کرتی ہوں، اس لیے ایسے کھیلوں کے خلاف ہوں گے۔ مگر ان کھیلوں کے سماجی، جسمانی اور ذہنی نشوونما اور صحت کے لحاظ سے فوائد اتنے وسیع ہیں کہ مجھے لگتا ہے ہم ان کی اصل قدر سے واقف ہی نہیں۔

‘‘ خطرناک کھیل سے مراد کیا؟

تحقیقی جریدے نیچر کے مطابق خطرناک کھیلوں سے متعلق ابتدائی تحقیق 1996 میں ناروے میں اس ضابطے کے نفاذ کے بعد کی گئی، جس میں کھیل کے میدانوں میں بچوں کی حفاظت کے لیے ریلنگ، بچوں کے کھیل کے سامان کے کونوں کو گول بنانے اور گرنے سے چوٹ لگنے کے خطرے کو کم کرنے والی اشیاء کو بچوں کے کھیل کے مقامات کا حصہ بنایا گیا۔

تاہم ماہر نفسیات ایلن سینڈسیٹر کے مطابق ان کے لیے یہ بات پریشان کن تھی کہبچوں کو رسک لینے کے مواقع بہت کم میسر آ رہے تھے۔ ان کےمطابق ایسے نوجوان جو مثبت قسم کی سنسنی مثلاﹰ پہاڑ پر چڑھنا یا کچھ بلندی سے چھلانگ لگانا جیسے خطرات کا سامنا نہیں کرتے، وہ منفی خطرات جیسے دکانوں سے سامان چرانا جیسے افعال کی جانب مائل دیکھے گئے۔

ناروے کی کوئن ماؤڈ یونیورسٹی کے کالج آف ارلی چائلڈہڈ ایجوکیشن سے وابستہ سینڈسیٹر نے اسی تناظر میں تین سے پانچ سال کے بچوں میں خطرہ ڈھونڈنے اور سنسنی کی تلاش کی بابت تحقیق کی۔

اس وقت تک سائنسی شعبے میں 'خطرناک کھیل‘ کی کوئی باقاعدہ تعریف وضع نہیں تھی اور اسی تناظر میں انہوں نے گہرے مشاہدے اور بچوں کے ساتھ انٹرویوز کی بنیاد پر ایک تعریف وضع کی جو آج بھی بڑے پیمانے پر استعمال ہوتی ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ سنسنی خیز اور دلچسپ کھیل جو غیریقینی صورتحال اور جسمانی چوٹ یا کچھ کھو جانے کے حقیقی یا تصوراتی خطرے سے جڑے ہوں 'خطرناک کھیل‘ قرار دیے جا سکتے ہیں۔

خطرہ اور خطرے کی حالت میں فرق

جرنل نیچر کے مطابق خطرے اور رسک یعنی خطرے کی حالت میں فرق ہے۔ محققین کے مطابق خطرہ وہ صورت حال ہے، جس سے بچہ نمٹنے کی صلاحیت نہ رکھتا ہو، جبکہ رسک سے مراد وہ حالت ہے جس میں کوئی شے بہ ظاہر خطرناک لگ رہی ہو، مگر بچہ اس سے نمٹ سکتا ہو۔ محققین ان دونوں حالتوں میں فرق یوں واضح کرتے ہیں کہ کسی انتہائی تیز رفتار گاڑیوں کی آمد و رفت والی سڑک کو بغیر آگہی کے عبور کرنے کی کوشش یا ٹوٹے ہوئے کانچ پر ننگے پیر چلنے کی سرگرمی خطرہ کہلاتی ہے، جب کہ کسی بچے کا پہلی بار اپنے پیروں پر کھڑا ہونا یا پہلا قدم اٹھانا رسک ہے۔

برطانیہ کی یونیورسٹی آف ایکسیٹر کے نفسیات اطفال کے شعبے کی ریسرچر ہیلن ڈوڈ کے مطابق، ''رسکی کھیل کی ترویج کا یہ مقصد ہر گز نہیں کہ کسی محتاط بچے کو سنسنی خیزی کی جانب دھکیل دیا جائے بلکہ اس سے مراد کسی بچے کو موقع فراہم کرنا ہے کہ وہ اپنے لحاظ سے رسک کا تعین کر سکے اور اس سے نمٹ سکے، کیوں کہ مختلف بچوں کے لیے رسک کی کیفیت مختلف ہو سکتی ہے۔‘‘

سینڈسیٹر کا بھی کہنا ہے کہ فطری طور پر محتاط شخصیت کے حامل بچوں کو بھی اپنے لیے رسک کے انتخاب کا موقع دستیاب ہونا چاہیے کیوں کہ بچے اپنی حدود سے بہ خوبی واقف ہوتے ہیں۔

.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: جیریبین کے مطابق کہنا ہے کہ رہی تھیں بچوں کو بچوں کی بچوں کے ہیں کہ اور اس

پڑھیں:

وجائنا کا علاج کیسے کرنا ہے؟

گزشتہ ہفتے ہم نے وجائنا کی بیماری کی بات کی ۔ وجائنا کی مشکلات میں سب سے بڑی مشکل  یہ ہے کہ اس کے آس پاس پیشاب اور پاخانے کے خروج کے راستے ہیں اور دونوں سے نکلنے والا فضلہ جرثوموں سے لدا ہوتا ہے۔

حوائج سے فراغت کے بعد اگرچہ دونوں جگہ کو دھویا جاتا ہے لیکن جرثوموں کی کچھ نہ کچھ تعداد وجائنا میں داخل ہونے میں کامیاب ہوجاتی ہے، یہ جرثومے کے حملے کی ایک وجہ ہے ، باقی ہم پچھلی بار بیان کرچکے ہیں۔

وجائنا میں موجود حفاظتی دستے جرثوموں کا راستہ روکتے ہیں اور انہیں مار بھگاتے ہیں بالکل اسی طرح جیسے انگلیوں کے ساتھ منہ میں جراثیم داخل ہوں اور منہ کا حفاظتی دستہ اپنا کام کرے۔

لیکن اگر وجائنا کی اپنی صحت ٹھیک نہ ہو اور دفاعی دستے کے کارکنوں کی تعداد میں کمی ہوچکی ہو تو جرثومے وجائنا کو بیمار کردیتے ہیں ۔ وہ مارچ کرتے ہوئے بچے دانی کی طرف بڑھتے ہیں، بچے دانی میں حمل موجود ہو یا نہ ہو ، جرثوموں کا حملہ انفیکشن کا موجب بنتا ہے اور اسی انفکشن کی وجہ سے اگر خاتون حاملہ ہو تو وقت سے پہلے درد زہ شروع ہوجاتا ہے اور پری ٹرم ڈلیوری ہوتی ہے۔

اگر خاتون حاملہ نہ ہو تو جرثومے بچے دانی سے ہوتے ہوئے ٹیوبز میں داخل ہوکر پی آئی ڈی کرسکتے ہیں جو جاں لیوا بھی ثابت ہوسکتی ہے۔

جرثوموں سے بچنے کے کچھ طریقے ہم نے اسباب کے ساتھ بیان کردیے  تھے کہ جسم میں خون کی کمی نہ ہونے پائے ، ہیموگلوبن بارہ سے نیچے نہ ہو، فولاد کی گولیاں کھائی جائیں، ماہواری میں گندے پیڈز استعمال نہ کیے جائیں، پانی زیادہ سے زیادہ پیا جائے اور شوگر کو کنٹرول میں رکھا جائے ۔

اس کے علاوہ اگر انفکشن ہو جائے تو وجائنا کا معائنہ کر کے تشخیص کیا جائے کہ کونسی دوا استعمال کروائی جائے ؟

پاکستان میں صحت کے معاملات دگرگوں ہوچکے ہیں کہ بیشتر کو کوالیفائڈ ڈاکٹرز میسر نہیں اور اگر ہیں بھی تو جیب میں اتنے پیسے نہیں کہ ان کی خدمات حاصل کی جاسکیں، سرکاری اسپتالوں میں اس قدر ازدہام ہے کہ ایک انار ، سو بیمار والی صورت حال ہے ۔

تو پھر کیا کیا جائے؟

مسئلہ چونکہ گھمبیر ہے اس لیے ہم وہ کررہے جو آج تک ہم نے نہیں کیا۔

ہم کچھ ایسی دواؤں کا نام لکھ رہے ہیں جو حمل میں کھائی جاسکتی ہیں اور بچے کی پری ٹرم ڈلیوری کو مؤخر کیا جاسکتا ہے ۔ حمل نہ ہو تب بھی یہ دوائیں خواتین کی بہترین دوست ہیں ۔

پہلی دوا فلیجل flagyl ہے ۔ تقریباً 90 فیصد لوگ اس سے واقف ہیں ۔ یہ دوا وجائنا کو اس کا نارمل کنٹرول حاصل کرنے میں مدد دیتی ہے ۔ اسے حمل کے پہلے 3 مہینوں میں نہیں کھانا چاہیے لیکن اگلے 6 مہینوں میں جب بھی وجائنا سے بو آئے، خارش ہو، گدلا پانی خارج ہو یا درد زہ شروع ہونے کا شائبہ ہو،  فلیجل کا ایک کورس کر لینا چاہیے ۔ 500 ملی گرام کی گولی صبح دوپہر شام 5 دن کے لیے۔

دوسری دوا erythromycin ہے یہ بھی وجائنل صحت کو لوٹانے میں اکسیر کی حثیت رکھتی ہے۔ اس دوا کو حمل کے پہلے 3 مہینوں میں بھی استعمال کیا جاسکتا ہے یعنی پورے 9 مہینے ۔ بچے کو کسی بھی نقصان کا اندیشہ نہیں۔  500 ملی گرام کی ایک گولی صبح دوپہر شام 5 دن کے لیے ۔

تیسری دوا ایک کریم ہے جسے وجائنا میں استعمال کیا جاتا ہے ۔ رات کو سونے سے پہلے دوا ایک پلاسٹک کی سرنج میں بھریں اور وجائنا میں سرنج داخل کر کے دوا کو وہاں انڈیل دیں ۔ یہ کریم بھی حمل کے لحاظ سے محفوظ ہے ۔ کریم کا نام ہے Clindamycin vaginal cream اور اسے 7 راتوں کے لیے وجائنا میں استعمال کرنا ہے۔

خواتین ان دواؤں کے نام حفظ کر لیں۔ وجائنا کے متعلق تمام وہ شکایات جو عام طور پہ ڈاکڑ سے کی جاتی ہیں، یہ ان کا علاج ہیں ۔

یہ تینوں دوائیں بچے کے لیے محفوظ ہیں ، صرف فلیجل کو حمل کے پہلے 3 ماہ استمال نہ کیا جائے تو بہتر ہے ۔

جب بھی دوائیں خریدیں ، کوشش کریں کہ کسی اچھی کمپنی کی ہوں ۔ بازار میں بے شمار دوائیں نقلی ہوتی ہیں اور اگر اصلی ہوں بھی تو اسٹوریج اس قدر نکمی ہوگی کہ دوا کے اثرات کافی حد تک ضائع ہوچکے ہوں گے۔

ان تینوں دواؤں کا نام گوگل کر کے یہ دیکھ لیں کہ انہیں اصل میں کس کمپنی نے بنایا تھا یعنی کس کمپنی کی پیٹنٹ دوا ہے؟ وہ تھوڑی سی مہنگی تو ہوگی مگر اس کے ارد گرد جو رنگ برنگی ، ہلکی کوالٹی کی دوائیں پڑی ہوں گی آپ ان سے بچ جائیں گے۔

فلیجل کا ایک سائیڈ ایفکٹ جی متلانا ہےاور کچھ لوگوں کو اس میں مسئلہ ہوتا ہے لیکن اس دوا کا کوئی متبادل نہیں، سو کڑوا گھونٹ بھر کے اسے کھا لینا چاہیے ۔

ارتھرومائیسن سے کچھ لوگوں کو اسہال شروع ہو جاتا ہے لیکن اس دوا کے بھی فوائد اس قدر زیادہ ہیں کہ یہ ہماری پسندیدہ دواؤں میں شامل ہے ۔

رہی کلنڈامائسن تو وہ تو ہے ہی جان جگر!

یہ تینوں دوائیں وہ خواتین بھی استمال کرسکتی ہیں جن کا بار بار اسقاط حمل ہوجاتا ہو ۔ گرچہ اسقاط حمل کے اور بھی بہت سے اسباب ہیں لیکن بیمار وجائنا ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔

ہم نے کوشش کی ہے کہ آپ صحت کے معاملات کو سمجھ سکیں اور کچھ نہ کچھ مسائل حل کرنے کے قابل ہوسکیں۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

ڈاکٹر طاہرہ کاظمی

we news حمل ڈاکٹر طاہرہ کاظمی صحت فلیجل وجائنا

متعلقہ مضامین

  • کراچی میں نیشنل پیڈل چیمپئن شپ کا کامیاب انعقاد، نوجوان کھلاڑیوں کی شاندار پرفارمنس
  • اسلام آباد پولیس کی بروقت کارروائی، خطرناک ڈکیت ہلاک
  • ڈمپرز کی ٹکر سے ہلاکتیں، گورنر سندھ کا لواحقین کو پلاٹ و بچوں کو اعلیٰ تعلیم دلوانے کا اعلان
  • دہلی میں قدرت کا قہر: زلزلے سے بھی خطرناک ریت کے طوفان نے تباہی مچا دی
  • دہشت گردی کا خطرہ: ڈنمارک کی طرف سے جرمنی کے ساتھ سرحدی نگرانی میں توسیع
  • ڈمپرز کی ٹکر سے ہلاکتیں؛ گورنر سندھ کا لواحقین کو پلاٹ اور بچوں کو اعلیٰ تعلیم دلوانے کا اعلان
  • دریائے سندھ میں پانی کی سطح میں خطرناک حد تک کمی ریکارڈ
  • دہرے قتل کا اشتہاری ملزم پاک ایران سرحد سے گرفتار
  • وجائنا کا علاج کیسے کرنا ہے؟
  • سوموار تک گندم کا نرخ طے نہ ہوئے تو خواتین اور بچوں سمیت احتجاج کیا جائیگا،کسان اتحاد کی حکومت کو وارننگ