ترکیہ شام پر قبضے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا، ھاکان فیدان
اشاعت کی تاریخ: 10th, January 2025 GMT
اپنی ایک پریس بریفنگ میں تُرک وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ سال 2025ء میں شام سے دہشتگردی کا خاتمہ ترکیہ کی او٘لین ترجیح ہے۔ اسلام ٹائمز۔ دمشق پر باغیوں کے تسلط کے بعد ترکیہ کے بعض مغربی اتحادی یہ کہنا شروع ہو گئے ہیں کہ انقرہ نے شام کا کنٹرول سنبھال لیا ہے۔ حال ہی میں امریکی صدر "ڈونلڈ ٹرامپ" نے کہا کہ ترکیہ دو ہزار سالوں سے مختلف حیلوں سے شام کے در پے تھا اور جو لوگ شام میں موجود ہیں وہ ترکیہ ہی سے آئے ہیں۔ نو منتخب امریکی صدر کہہ چکے ہیں کہ شام میں ہونے والی پیشرفت پر نگاہ کی جائے تو پتہ چلتا ہے کہ "رجب طیب اردگان" نہایت شاطر آدمی ہے۔ انہوں نے مختلف شکلوں و ناموں سے اپنے لوگوں کو شام بھیجا اور وہاں کا کنٹرول سنبھال لیا۔ جس پر تُرک وزیر خارجہ "ھاکان فیدان" نے ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ ترکیہ کا شام پر قبضے کا کوئی ارادہ نہیں۔
ھاکان فیدان نے ان خیالات کا اظہار آج صحافیوں کے ساتھ استنبول میں ایک پریس بریفنگ کے دوران کیا۔ انہوں نے کہا کہ سال 2025ء میں شام سے دہشت گردی کا خاتمہ ترکیہ کی او٘لین ترجیح ہے۔ ھاکان فیدان کی جانب سے شام پر قبضے کی نفی کے بیانات ایسے وقت میں سامنے آ رہے ہیں جب وہ "بشار الاسد" کی حکومت کے خاتمے اور باغیوں کے شام پر تسلط کے بعد 22 دسمبر 2024ء کو دمشق جا چکے ہیں۔ اس دوران وہاں ان کی ملاقات "النصرہ فرنٹ" کے سابق سربراہ "ابو محمد الجولانی" سے انجام پائی۔ یہاں یہ امر قابل غور ہے کہ ترکیہ کے حالیہ وزیر خارجہ اس منصب پر فائز ہونے سے پہلے ترکیہ کی انٹیلیجنس ایجنسی "میت" کے سربراہ رہ چکے ہیں۔
ذریعہ: Islam Times
پڑھیں:
سعودی عرب میں 10 ہزار سے زیادہ پاکستانی قید پائے گئے
اسلام آباد: وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے قومی اسمبلی کے اجلاس میں سعودی عرب میں قید پاکستانیوں کی تعداد اور ان کی حالت سے متعلق تفصیلات فراہم کیں۔ انہوں نے بتایا کہ سعودی عرب میں مختلف جرائم میں ملوث 10,279 پاکستانی قید ہیں۔
وقفہ سوالات کے دوران وزیر خارجہ نے اس بات پر روشنی ڈالی کہ سعودی عرب میں قید پاکستانیوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ ان پاکستانیوں کے جرائم کی نوعیت مختلف ہے، اور ان کی رہائی کے لیے متعلقہ حکام کی جانب سے ایمرجنسی ٹریول دستاویزات فراہم کی جاتی ہیں، خاص طور پر جب ان کی سزا مکمل ہو جاتی ہے یا ان کے پاسپورٹ کی مدت ختم ہو جاتی ہے۔ سزا مکمل کرنے والے قیدیوں کو ان کے جرمانے کی رقم پاکستانی برادری کی طرف سے ادا کی جاتی ہے۔
اسحاق ڈار نے یہ بھی بتایا کہ پاکستان میں قیدیوں کی وطن واپسی میں کسی قسم کی رکاوٹ نہیں آتی۔ سعودی عرب نے معاہدے کے تحت 570 قیدیوں کی پاکستان منتقلی کے لیے رضامندی ظاہر کی ہے۔
ان قیدیوں کو وطن واپس لانے کے لیے تمام ضروری انتظامات مکمل کیے جا رہے ہیں۔ وزیر خارجہ نے اس بات پر زور دیا کہ سعودی حکومت کے ساتھ تعلقات میں یہ نوعیت کے معاہدے پاکستان کی خارجہ پالیسی کا حصہ ہیں، جن سے پاکستانی قیدیوں کی مشکلات میں کمی آتی ہے۔