میٹا کا روایتی فیکٹ چیکنگ ختم کرنے کا فیصلہ، نیا نظام کیا ہوگا؟
اشاعت کی تاریخ: 10th, January 2025 GMT
سماجی رابطے اور سیاسی ابلاگ کے لیے مشہور پلیٹ فارم ایکس یعنی سابقہ ٹوئٹر سے متاثر ہوتے ہوئے فیس بک اور انسٹا گرام کی پیرنٹ کمپنی میٹا نے بھی فیکٹ چیکنگ کے روایتی طریقے سے انحراف کا فیصلہ کیا ہے۔
میٹا کمپنی اجتماعی اطلاعات کے ذریعے غلط معلومات سے نمٹنے کے روایتی حقائق کی جانچ پڑتال کو صارف کے ذریعے فعال رکھنے والے ’کمیونٹی نوٹس‘ سسٹم سے تبدیل کر رہی ہے، جو اچھا خاصا ایکس کی پالیسی سے متاثر فیصلہ دکھائی دیتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں:میٹا واٹس ایپ کے کون سے اہم فیچر پر کام کررہی ہے؟
ڈیجیٹل منظر نامے پر میٹا کے اس اقدام کو بیشتر سر گھما کر دیکھ رہے ہیں، فیس بک اور انسٹاگرام کی پیرنٹ کمپنی میٹا نے امریکا میں اپنے تھرڈ پارٹی فیکٹ چیکنگ پروگراموں کو ختم کرنے کا اعلان کیا ہے۔
اس کے بجائے، ٹیک کمپنی میٹا صارف کے ذریعے فعال رکھے جانیوالے ’کمیونٹی نوٹس‘ سسٹم کو نافذ کرنے کا ارادہ رکھتا ہے، جو ایلون مسک کے پلیٹ فارم ایکس کے استعمال کردہ ماڈل سے مشابہت رکھتا ہے۔
مزید پڑھیں: میٹا نے واٹس ایپ، انسٹاگرام، فیس بک اور میسنجر کے لیے نیا اے آئی اسسٹنٹ متعارف کروا دیا
میٹا کے سی ای او مارک زکربرگ نے فیکٹ چیکرز سے کمیونٹی ماڈریشن کی جانب سے جھکاؤ کی اس تبدیلی کا مقصد آزادانہ اظہار کو ترجیح دینا اور حقائق کی جانچ کے روایتی طریقوں سے وابستہ سمجھے جانے والے سیاسی تعصب کو کم کرنا قرار دیا ہے۔
’حقائق کی جانچ کرنے والے سیاسی طور پر بہت زیادہ متعصب رہے ہیں اور انہوں نے جتنا اعتماد پیدا کیا ہے اس سے زیادہ تباہی پھیری ہے، نیا کمیونٹی نوٹس سسٹم صارفین کو ممکنہ طور پر گمراہ کن پوسٹس میں سیاق و سباق یا تصحیح شامل کرنے کا اختیار دے گا۔‘
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
انسٹا گرام ایکس ایلون مسک فیس بک فیکٹ چیکنگ کمیونٹی نوٹس مارک زکر برگ میٹا.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: انسٹا گرام ایکس ایلون مسک فیس بک میٹا
پڑھیں:
فیکٹ چیک: محصولات کے بارے میں صدر ٹرمپ کے جھوٹے دعوے
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 13 اپریل 2025ء) صدرڈونلڈ ٹرمپ نے نئے محصولات لگائے اور ان کو درست ثابت کرنے کے لیے جھوٹے دعوے کیے۔ ڈی ڈبلیو نے وائرل ہونے والے دو دعوؤں کی جانچ کی ہے۔
دو اپریل کو وائٹ ہاؤس کے روز گارڈن میں ایک پریس کانفرنس کے دوران امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے عالمی سطح پر محصولات کے ایک نئے دور کا اعلان کیا۔
محصولات کے حساب کتاب، اس کے جواز اور اثرات سے متعلق ان کے بیانات جھوٹے دعووں سے بھرپور تھے اور انہوں نے بہت سی معیشتوں پر ایک ہی وقت میں ضرب لگانے کا اعلان کا۔ ان اعلانات کے خلاف کچھ ممالک پہلے ہی جوابی اقدامات کا اعلان کر چکے ہیں۔ٹیرف واپس نہ لیے تو چین پر مزید محصولات، ٹرمپ
ٹرمپ کے دو دعوؤں کی حقیقت جانیے ڈی ڈبلیو کی اس فیکٹ چیک رپورٹ میں!
ٹرمپ کا دعویٰ
ایکس پر ایک پوسٹ کے ساتھ شائع ہونے والی ایک ویڈیو، جس کی اشاعت کے بعد اُس پر 1.1 ملین ویوز تھے، میں ٹرمپ کا کہنا تھا،''کینیڈا ہماری بہت سی ڈیری مصنوعات پر 250 تا 300 فیصد ٹیرف لگاتا ہے، دودھ کے پہلے ڈبے، دودھ کے پہلے چھوٹے کارٹن تک قیمت بہت کم رہتی ہے اور اُس کے بعد یہ سلسلہ خراب ہوتا جاتا ہے۔
(جاری ہے)
‘‘ڈی ڈبلیو فیکٹ چیک کے مطابق ٹرمپ کا یہ دعویٰ فسق ہے۔
ڈی ڈبلیو فیکٹ چیک کیا کہتا ہے؟
کینیڈا امریکی ڈیری مصنوعات پر محصولات امریکہ، میکسیکو اور کینیڈا کے مابین طے پائے جانے والے معاہدے (USMCA) کے تحت لگاتا ہے۔ اس ٹیرف کا اطلاق دودھ، مکھن، پنیر، دہی اور آئس کریم جیسی ڈیری مصنوعات کی 14 اقسام پر ہوتا ہے۔
امریکی محصولات: پاکستان میں عام آدمی پر اثرات کیا ہوں گے؟
اس معاہدے پر ہونے والے اتفاق کے مطابق امریکی ڈیری مصنوعات کی ایک مخصوص تعداد کو کینیڈا کی مارکیٹ میں ٹیرف کے بغیر داخل ہونے کی اجازت ہے۔ جب طے شدہ یہ حد تجاوز کر جائے تو ان پر محصولات میں ان اشیا کے گھریلو پروڈیوسرز کے تحفظ کے لیے ٹیرف کا دیگر حساب کتاب شروع ہو جاتا ہے۔
یہ اضافی کوٹہ ٹیرف 200 اور 300 فیصد کے درمیان ہوتا ہے۔ تاہم، USMCA کے مطابق، کینیڈا نے ضمانت دی ہے کہ سالانہ دسیوں ہزار میٹرک ٹن درآمد شدہ امریکی دودھ پر صفر محصولات ہوں گے۔ٹرمپ کا دوسرا جھوٹا دعویٰ
اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم Truth Social پر اس پوسٹ میں، ٹرمپ نے وہی چارٹ شیئر کیا تھا، جو انہوں نے وائٹ ہاؤس میں پریس کانفرنس کے دوران ''باہمی‘‘ عالمی ٹیرف کا اعلان کرتے ہوئے کیا تھا۔
ٹرمپ کے مطابق، چارٹ میں دیگر ممالک کی جانب سے امریکہ پر لگائے جانے والے ٹیرف اور اس کے جواب میں اب امریکہ کی طرف سے ان ممالک کے خلاف محصولات عائد کرنے کی تفصیلات درج تھیں۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ چارٹ پر دوسری پوزیشن پر دکھائی دینے والی یورپی یونین امریکہ سے درآمدات پر 39 فیصد محصولات وصول کرتی ہے۔امریکی پالیسیوں سے ایشیائی ممالک کیسے متاثر ہوں گے؟
ڈی ڈبلیو فیکٹ چیک کیا کہتا ہے؟
دو اپریل کو اپنی مذکورہ تقریر میں ٹرمپ نے یہ دعویٰ کرتے ہوئے کہا کہ یورپی یونین امریکہ سے درآمدات پر 39 فیصد محصولات وصول کرتی ہے۔
ٹرمپ کا کہنا تھا،'' یہ ایک سادہ سی بات ہے، وہ جو ہمارے ساتھ کرتے ہیں، ہم بھی ان کے ساتھ وہی کریں گے۔‘‘ٹرمپ نے مزید کہا کہ اس چارٹ میں درج ممالک جتنی محصولات امریکہ سے وصول کرتے ہیں، امریکہ اُس کا آدھا ان سے وصل کرے گا۔ اس لہٰذا اس چارٹ کے مطابق یورپی یونین کے لیے امریکہ کی رعایتی ٹیرف 20 فیصد بنتا ہے۔
امریکہ: غیر ملکی کاروں پر 'مستقل' اضافی محصولات کا اعلان
تاہم ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن کے مطابق، یورپی یونین کے تجارتی حجم پر اوسط محصولات کی شرح 2.7 فیصد ہے۔
سب سے زیادہ اوسط ٹیرف کی شرح، جو یورپی یونین کچھ ممالک سے لیتی ہے، وہ ہے ڈیری مصنوعات پر 30 فیصد۔امریکی تجارتی نمائندے کے دفتر کی ایک فیکٹ شیٹ اس بات کی وضاحت کرتی ہے کہ باہمی محصولات کا تعین امریکہ اور اس کے تجارتی شراکت داروں کے درمیان تجارتی خسارے کو متوازن کرنے کے لیے کیا گیا تھا۔
متعدد ایشیائی ممالک ٹرمپ کی بھاری محصولات پالیسی کی زد میں
دستاویز کے مطابق باہمی محصولات کا شمار ''امریکہ اور اس کے ہر تجارتی شراکت دار کے درمیان دوطرفہ تجارتی خسارے کو متوازن کرنے کے لیے ضروری ٹیرف میں کیا جاتا ہے۔
اس حساب سے یہ اندازہ لگایا جاتا ہے کہ مسلسل تجارتی خسارے ٹیرف اور نان ٹیرف عوامل کے امتزاج کی وجہ سے ہیں، جو تجارتی توازن کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔ ٹیرف دراصل براہ راست برآمدات میں کمی کے ذریعے ہی کام کر سکتے ہیں۔‘‘ادارت: امتیاز احمد