سپریم کورٹ میں ملٹری کورٹس میں سویلینز ٹرائل سے متعلق کیس میں جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا ہے کہ آرمی ایکٹ کا اطلاق صرف فوج پر ہوتا ہے۔جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں سات رکنی آئینی بنچ نے کیس کی سماعت کی،سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے ملٹری کورٹس میں سویلینز ٹرائل سے متعلق کیس کی سماعت پیر تک ملتوی کر دی، وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث کی جانب سے دلائل دیئے گئے۔جسٹس جمال مندوخیل نے سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ ملٹری کورٹ میں ٹرائل کے طریقہ کارپرمطمئن کریں، جسٹس مسرت ہلالی نے وضاحت کرتے ہوئے کہاکہ جو افسر ٹرائل چلاتا ہے وہ کورٹ میں خود فیصلہ نہیں سناتا،ٹرائل چلانے والا دوسرے بڑے افسر کو کیس بھیجتا ہے،انہوں نے مزید کہا کہ جس افسر نے ٹرائل سنا ہی نہیں وہ کیسے فیصلہ دیتا ہوگا؟۔جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ اس شعبے میں مجھے 34 سال ہوگئے پھر بھی خود کو مکمل نہیں سمجھتا، کیا اس افسر کو اتنا تجربہ اور عبور ہوتا ہے کہ سزائے موت تک سنا دی جاتی ہے؟وکیل نے کہا کہ ملٹری ٹرائل کے طریقہ کار کو دلائل کے دوسرے حصے میں مکمل بیان کروں گا۔ جسٹس نعیم اختر افغان نے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آرٹیکل 10اے فری ٹرائل کا ہے اس میں بنیادی انسانی حقوق سے متعلق بتائیں، ملٹری کورٹس میں ٹرائل کیسے کیا جا رہا ہے اورمراحل کیا ہیں؟۔سب سمجھ رہے ہیں سویلین عدالت کی طرح ملٹری کورٹ ٹرائل نہیں ہوتا،ملٹری کورٹس کے ٹرائل کی کوئی مثال دیں۔ جسٹس نعیم اختر افغان نے کہا  کہ میں نے بلوچستان میں بہت سے کورٹ مارشل کئے ہیں۔ جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ آرمی ایکٹ اور باقی قانون میں فرق ہوتا ہے،آئین کے مطابق یہ تمام بنیادی حقوق کو تحفظ فراہم کرتا ہے،قانون میں معقول وضاحت دی گئی ۔جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ کورٹ مارشل کا طریقہ کار دیا ہوا ہے، جسٹس حسن اظہر رضوی نے ریمارکس دیئے کہ فیلڈ مارشل میں ڈیفنس وکیل ہوتا ہے وہاں جج نہیں ہوتے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ آرمی ایکٹ کا اطلاق صرف فوج پر ہوتا ہے،فوجی افسران کو بنیادی حقوق ملتے ہیں یا نہیں سب کو مدنظر رکھیں گے۔جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ فوجی عدالتوں کے فیصلے کیخلاف اپیل ایک حد تک سنی جاسکتی ہے،ملٹری کورٹس کے فیصلے کیخلاف اپیل میں صرف بدنیتی اور دائرہ اختیار دیکھا جاسکتا ہے،فوجی عدالتوں کے فیصلے کیخلاف اپیل میں میرٹس زیر بحث نہیں آسکتے، ہماری افواج شاید 7 لاکھ سے زائد افراد پر مشتمل ہیں۔اس موقع پر وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ فوجی عدالتوں کے فیصلوں کو بنیادی حقوق کے نکتے پر بھی چیلنج نہیں کیا جا سکتا، جس پر عدالت نے ریمارکس دیئے کہ اس حساب سے تو آرمی ایکٹ کا اطلاق پھیلانے کے بجائے مختصر کرنا ہوگا۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ سوال تو ان 7 آٹھ لاکھ فوجی جوانوں کے حقوق کا بھی ہے۔جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ہم شہری اور فوجی جوان سب کو انصاف دینے کیلئے بیٹھے ہیں،فوج میں جن کیخلاف فیصلہ آئے ان کو بھی دوسری عدالتوں میں اپیل کا حق ہونا چاہیے،عام فوجی کے بھی حقوق ہوتے ہیں ان کو اپیل کا حق کیوں نہیں ہوتا؟ اگر کسی کو غلط سزائے موت دی گئی ہے تو اس کو کیوں کوئی چیک نہیں کر سکتا؟ ایک انسان کا ناجائز قتل پوری انسانیت کا قتل ہے۔جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ کیا سپریم کورٹ فیصلہ ریورس کر سکتی ہے؟دوسرے ممالک میں ملٹری کورٹ کا جج کیا کوئی فوجی ہوتا ہے؟ وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ مختلف کیسز کے مختلف پروسیجر ہوتے ہیں۔عدالت نے کہا  کہ فوج پر حملہ کرنے والا زندہ پکڑا جائے تو اسے ملٹری کورٹ لے جایا جاتا ہے،جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ مارشل لا کے بعد بھی وہ ٹرائل فوجی عدالت میں نہیں چلا، طیارہ ہائی جیکنگ کیس اے ٹی سی میں چلا تھا،طیارہ ہائی جیکنگ کیس میں ملک میں مارشل لا لگا تھا۔وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ طیارہ ہائی جیکنگ آرمی ایکٹ میں درج جرم نہیں، جس پر جسٹس امین الدین نے ریمارکس دیئے کہ اس نکتے پر فرق واضح ہو گیاہے۔ جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ اگر جنگی یا فوجی طیارے کوہائی جیک کیا جائے پھر ٹرائل کہاں چلے گا؟ اگر طیارہ ہائی جیکنگ کیس اے ٹی سی کے دائرہ اختیا رمیں آتاہے تو سرکاری عمارت پرحملہ کیس بھی۔وکیل نے جواب دیا کہ آفیشل سیکریٹ ایکٹ کی خلاف ورزی کرنیوالوں پرآرمی ایکٹ لاگو ہوتا ہے،ہر دہشتگرد پر بھی آرمی ایکٹ کا اطلاق نہیں ہوتا۔عدالت کا کہنا تھا کہ کیا فوجی عدالتوں نے ٹرائل انہی مقدمات کی روشنی میں کیا جو درج ہوئی تھیں؟ تعزیرات اور اے ٹی اے کے تحت مقدمات پر کارروائی فوجی عدالت کیسے کر سکتی ہے؟ جن 3ایف آئی آرز کی کاپیاں دی گئی ہیں ان میں آفیشل سیکریٹ ایکٹ کی دفعات نہیں ہیں۔وزارت دفاع کے وکیل نے کہا کہ تفتیش کے بعد مزید دفعات شامل کی جا سکتی ہیں،جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ مزید دفعات شامل کرنے کا الگ طریقہ کار موجود ہے، کیا پولیس تفتیش پر ہی انحصار کیا گیا تھا؟۔وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ جب ملزم فوجی تحویل میں جائے تو وہاں تفتیش کا اپنا نظام ہے، ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان نے کہا کہ عدالت کو صرف تین مقدمات پیش کیے ہیں،مجموعی طور پر 9 مئی کے 35 ایف آئی آرز اور 5 ہزار ملزمان ہیں،فوجی عدالتوں میں صرف ان 105 افراد کا ٹرائل ہوا جن کی موجودگی ثابت تھی۔بعد ازاں عدالت نے سماعت پیر تک ملتوی کر دی۔

.

ذریعہ: Nawaiwaqt

کلیدی لفظ: جسٹس مسرت ہلالی نے نے ریمارکس دیئے کہ ملٹری کورٹس میں فوجی عدالت ملٹری کورٹ ہوئے کہا ہے جسٹس فوج پر

پڑھیں:

آرمی ایکٹ کے ماتحت جرائم سویلینز کرینگے تو کیا ہوگا؟ جسٹس جمال 

اسلام آباد (خصوصی رپورٹر) سپریم کورٹ میں سویلینز کے ملٹری ٹرائل سے متعلق کیس کی سماعت میں جسٹس جمال نے ریمارکس دیے کہ مسئلہ یہ ہے کہ آرمی ایکٹ کے ماتحت جرائم اگر سویلینز کریں تو کیا ہوگا؟ وکیل حامد خان نے کہا کہ فوجی عدالتیں صرف فوج کے ممبران کے لیے قائم رہ سکتی ہیں، جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ اگر ایسا ہے تو پھر تسلیم کرنا پڑے گا کہ فوجی عدالتیں متوازی عدالتی نظام ہیں۔ حامد خان نے پاکستان میں مارشل لا اور ملٹری کورٹس کی تاریخ کا بتایا۔ پاکستان کے تاریخی تناظر میں مارشل لا اور فوجی عدالتوں کے حوالے سے دلائل دیے تھے۔ سپریم کورٹ کا راولپنڈی بار کیس کا فیصلہ عدالت کے سامنے رکھا۔ کسی بھی حالات میں سویلینز کو اتنے بڑے پیمانے پر فوجی عدالتوں میں ٹرائل نہیں کیا جاسکتا۔ فوجی عدالتیں آئینی ترمیم کے بغیر قائم نہیں ہوسکتیں۔ فوجی عدالتوں کے حوالے سے آئینی ترمیم پر بھی اصول طے شدہ ہیں۔  فوجی عدالتوں کے حوالے سے آئینی ترمیم مخصوص مدت کے لیے ہوسکتی ہے۔ اس صورت میں فوجی عدالتوں کے فیصلوں کیخلاف اپیل کا حق بھی دیا جانا ضروری ہے۔ موجودہ حالات میں ایسی کوئی صورتحال نہیں۔ جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ 26ویں ترمیم کے بعد فوجی عدالتوں کے فیصلوں کیخلاف اپیل کہاں ہوسکتی ہے؟ جس پر حامد خان نے بتایا کہ ہائیکورٹ میں رٹ دائر کی جاسکتی ہے، مگر اسکا دائرہ اختیار محدود ہوتا ہے۔ فوج ایگزیکٹو کا حصہ ہے جو عدالتی اختیارات استعمال نہیں کرسکتی۔ آرمی ایکٹ کو ایک طرف رکھیں تو آئین میں فوجی عدالتوں کی گنجائش نہیں۔ جسٹس جمال نے ریمارکس دیے کہ ایف بی علی کیس میں طے ہوا کہ آرمی ایکٹ فوج کے ممبران کے لیے بنا۔ مگر ایف بی علی میں یہ بھی کہا گیا کہ آرمی ایکٹ کا سیکشن ڈی اس مقصد کے لیے نہیں بنا۔ اب تنازعہ یہ ہے کہ وہ کہہ رہے ایف بی علی کیس میں سویلینز کے ٹرائل کی بھی اجازت تھی۔ آپ کہہ رہے ہیں کہ اجازت نہیں۔حامد خان نے کہا کہ فوجی عدالتوں کے حق میں دلائل دینے والوں کا انحصار آئین کے آرٹیکل 8(3) پر ہے۔جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ ایف بی علی میں کہا گیا کہ پارلیمان اس معاملے پر 2 سال میں ریوو کر سکتی ہے۔ مگر آج تک پارلیمان نے اس معاملے پر کچھ نہیں کیا۔جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ تنازعہ یہ نہیں کہ فوجی عدالتوں میں سویلین کا ٹرائل کیا جائے یا نہیں، مسئلہ یہ ہے کہ آرمی ایکٹ کے ماتحت جرائم اگر سویلینز کریں تو کیا ہوگا؟ آرمی ایکٹ میں درج جرائم کرنے پر اس کا دائرہ اختیار سویلینز تک بڑھایا جاسکتا ہے یا نہیں۔ جسٹس جمال نے پوچھا کہ آپ یہ بتائیں کہ عدلیہ کو ایگزیکٹو سے الگ کس نے کرنا تھا؟ آرٹیکل 175(3) کے تحت عدلیہ ایگزیکٹو سے خود بخود الگ تصور ہوگی؟ یا عدلیہ کے ایگزیکٹو سے الگ ہونے کی ڈیکلریشن عدلیہ دے گی یا پارلیمان؟حامد خان نے بتایا کہ آئین کے الفاظ واضح ہیں، پارلیمان کے ڈیکلریشن کی ضرورت نہیں۔جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ سپریم کورٹ کے اکثریتی فیصلے میں کہا گیا کہ فوجی عدالتیں آئین کے آرٹیکل 175(3) کے زمرے میں نہیں آتیں۔ سپریم کورٹ کے فیصلے میں فوجی عدالتوں کو تاریخی تناظر میں دیکھا گیا۔جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ آپ کے مطابق آرٹیکل 175(3) کے تحت عدلیہ خود بخود ایگزیکٹو سے الگ تصور ہوگی۔ تو اس کا مطلب ہے کہ اس آرٹیکل کے 14 سال بعد فوجی عدالتیں فوج کے ممبران کے لیے بھی قائم نہیں رہ سکتیں۔حامد خان نے کہا کہ فوجی عدالتیں صرف فوج کے ممبران کے لیے قائم رہ سکتی ہیں۔جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ اگر ایسا ہے تو پھر آپ کو یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ فوجی عدالتیں متوازی عدالتی نظام ہیں۔ یہ بہت اہم ہے کہ اس معاملے میں آرٹیکل 175(3) کو واضح ہونا ہوگا۔وکیل حامد خان کے دلائل مکمل ہونے پر وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث روسٹرم پر آئے اور انہوں نے جواب الجواب کا آغاز کیا۔ جسٹس امین الدین خان نے استفسار کیا کہ آپ جواب الجواب کے لیے کتنا وقت لیں گے، جس پر خواجہ حارث نے بتایا کہ بہت سے اہم نکات سامنے آئے ہیں۔ جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیے کہ لگتا ہے آپ کو جواب الجواب دلائل میں پورا ہفتہ لگ جائے گا، جس پر خواجہ حارث نے کہا کہ ہو سکتا ہے ایک ہفتہ لگ جائے۔

متعلقہ مضامین

  • سویلینز کا ملٹری ٹرائل؛ پارلیمنٹ کے بجائے آئینِ پاکستان سپریم ہے، جسٹس جمال مندوخیل
  • سویلینز کا ملٹری ٹرائل؛ پارلیمنٹ کے بجائے آئینِ پاکستان سپریم ہے، جسٹس جمال مندوخیل
  • سویلینز کا ملٹری ٹرائل: قانون کے اطلاق کا معیار طے کرنا پارلیمنٹ کا کام ہے عدلیہ کا نہیں، وکیل خواجہ حارث
  • سویلینز کو فوجی عدالتوں میں کیسے ٹرائل کیا جاسکتا ہے ؟جسٹس جمال مندوخیل
  • کیا فوجی کو گالی دینے پر کسی سویلین کا ملٹری کورٹس میں ٹرائل ہوگا؟ جسٹس جمال مندوخیل
  • سویلینز کو فوجی عدالتوں میں کیسے ٹرائل کیا جاسکتا ہے؟، یہ ہی سوال میرے دماغ میں اٹکا ہوا ہے، جسٹس جمال مندوخیل
  • کلاز ڈی کے ہوتے سویلینز کا فوجی عدالتوں میں کیسے ٹرائل کیا جاسکتا ہے،جسٹس جمال مندوخیل  کا استفسار
  • سویلینز کو فوجی عدالتوں میں کیسے ٹرائل کیا جاسکتا ہے؟، یہ ہی سوال میرے دماغ میں اٹکا ہوا ہے، جسٹس جمال مندوخیل
  • سویلینز کا ملٹری ٹرائل: سپریم کورٹ کا کسی پارٹی کے دلائل پر انحصار لازمی نہیں ہوتا، جسٹس جمال مندوخیل کے ریمارکس
  • آرمی ایکٹ کے ماتحت جرائم سویلینز کرینگے تو کیا ہوگا؟ جسٹس جمال