پانچ سال قبل تین جنوری کوٹرمپ ہی کی صدارت کے دوران قاسم سلیمانی کوامریکی فوج نے بغدادمیں ہلاک کردیاتھا۔قاسم سلیمانی ایران کی قدس فورس کے کمانڈرتھےجو پاسداران انقلاب کی وہ شاخ ہےجوغیرملکی سرزمین پر کارروائیاں کرتی ہے۔قاسم سلیمانی خطےمیں ایرانی اثرورسوخ اورعسکری حکمت عملی کی بنیادرکھنے والوں میں شامل تھے۔3 جنوری 2020 ء کوامریکی ڈرون سے ان کونشانہ بنائےجانےسےتین ماہ قبل قاسم سلیمانی نے پاسداران انقلاب کےکمانڈرز سے ایک خفیہ خطاب میں مزاحمت کے اتحادمیں کامیاب اورناقابل شکست وسعت کی بات بھی کی تھی۔
ایسامحسوس ہوتاہےجیسے قاسم سلیمانی اپنی موت کی توقع رکھتےتھےاورقدس فورس کی سربراہی کی دودہائیوں پرایک رپورٹ پیش کرناچاہتے تھے۔انہوں نے اس خطاب میں کامیابیوں کاذکرکرتےہوئےکہاتھاکہ ’’پاسداران انقلاب نےمعیاراورمقدارکےحساب سےمزاحمت تیار کی ہے،جنوبی لبنان میں دوہزارسکوائرکلومیٹرکے علاقےسےپانچ لاکھ سکوائرکلومیٹر تک وسعت دی ہے۔ مزاحمت کے بیچ زمینی کامیاب رابطہ قائم ہوگیاہے،یعنی ایران کوعراق،عراق کوشام، اورشام کولبنان سےجوڑدیاگیا۔آج آپ تہران سے اپنی گاڑی میں روانہ ہوکربیروت کے جنوبی مضافات تک پہنچ سکتےہیں۔‘‘مزاحمت کے اس اتحادکوقاسم سلیمانی کی اہم کامیابی کےطورپر دیکھا گیالیکن گزشتہ ایک سال میں اس اتحادکوشدید دھچکہ پہنچاہےاوریہ تکبر حالات کے ہاتھوں چکناچورہوگیا۔
خطےمیں ایرانی اثرورسوخ میں وسعت 1980ء کے اوائل میں شروع ہوئی جب تہران نے لبنان میں امریکااوراسرائیل کےخلاف حزب اللہ کےقیام میں مددفراہم کی۔بعدازاں خطے میں عدم استحکام کی وجہ سے امریکانے2003میں عراق پرحملہ کیا اور2011 میں عرب دنیامیں عدم استحکام کےبعددولت اسلامیہ جیساانتہاپسندگروہ سامنے آیاتوایران کواپنااثرورسوخ بڑھانےکا موقع مل گیا۔ شام میں پاسداران انقلاب کوبھیجنا اورعراق سمیت لبنان میں عسکری گروہوں کی وجہ سےایران کی سرحد سے لبنان تک ایک زمینی اورعلاقائی رابطہ قائم ہوگیاجواسرائیل کی سرحدتک پہنچتاتھا۔
2003ء میں عراق پرامریکی حملے سے قبل ایسا علاقائی اتحادممکن نہیں تھا۔عراق جنگ نے ایران کواس قابل بنایاکہ وہ نکتوں کو جوڑسکے،عراق،شام اوروہاں سے لبنان تک راستہ بنا سکے۔یہ بہت اہم تھاکیوںکہ لبنان میں حزب اللہ خطے میں ایران کاسب سے اہم اتحادی تھا۔دوسری جانب یمن میں خانہ جنگی کی وجہ سے متعددشہر ان باغیوں کے قبضے میں چلےگئےجوایران کےقریب تھے۔حالیہ برسوں کےدوران مزاحمت کااتحادشیعہ اورچندسنی گروہوں کےدرمیان اتحادکی علامت بھی بن گیا، جیساکہ حماس اوراسلامی جہاد،جس کا مقصد مشرق وسطیٰ میں مغربی اوراسرائیلی اثرورسوخ کوروکناتھا۔ یہ اتحادجس میں حزب اللہ،عراق کےعسکری گروہ،یمن کےحوثی باغی،شام میں بشارالاسدکی حکومت شامل تھے، ایران کے ہاتھ میں ایک طاقتورہتھیاربن گیا۔اس اتحادکی غیرموجودگی میں ممکن ہے کہ بشارالاسدکی حکومت بہت پہلے ہی گرجاتی،یوں اس اتحادنےاسرائیل کےگرد’’ آتشیں گھیرا‘‘قائم کرلیا۔ادھرامریکاکی عراق اورافغانستان میں جنگوں نے تہران کی پوزیشن اورمزاحمت کے اتحادکومزید مضبوط کردیا۔
ٹرمپ کی پہلی صدارت کے دوران امریکی قومی سلامتی کے مشیرجان بولٹن کے مطابق’’ایران نے کامیابی سے اتحادکووسعت دیتے ہوئےاپنی عسکری طاقت بھی بڑھائی‘‘۔ان کےمطابق ’’ایران نےمزاحمت کےاتحادکوقائم کرتےہوئے ،جسےقاسم سلیمانی اسرائیل کے گرد ’’رنگ آف فائر‘‘کی حکمت عملی کانام دیتےتھے، بہت سنجیدہ کام تھا۔انہوں نے اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کی جس کاآغازلبنان میں حزب اللہ سے ہوا۔ ایران کاجوہری اوربیلسٹک میزائل پروگرام بھی دیکھیں توانہوں نے کافی اہم کامیابیاں حاصل کیں‘‘۔
پانچ سال قبل ٹرمپ نے قاسم سلیمانی کے قتل کا حکم دیکرایرانی مزاحمت کے اتحادکے زوال کی بنیاد ڈال دی۔اب جب ٹرمپ ایک بارپھروائٹ ہائوس میں لوٹ رہےہیں توایران دو دہائیوں میں خطےمیں سب سےکمزورحالت میں ہے۔ٹرمپ نے اپنےگزشتہ صدارتی دورمیں ایران پرکافی دبائو ڈالاجس میں سخت پابندیوں کی بحالی سمیت جوہری معاہدے سے دستبرداری بھی شامل تھی۔ گزشتہ سات سال میں ان پابندیوں نے ایران پرمعاشی دبائو میں اضافہ کیاہے۔قاسم سلیمانی کی موت اوراس دباؤکی وجہ سے ہی ایران کاکردارکمزورہوا۔
تاہم7اکتوبر2023ء کوحماس کے اسرائیل پرحملے کے بعدمزیدمسائل پیداہوگئے۔حماس کے رہنمائوں کی ہلاکت اورغزہ میں حماس کی عسکری طاقت میں کمی کے ساتھ ساتھ بیروت میں حزب اللہ سربراہ حسن نصراللہ سمیت متعددکمانڈرزکی ہلاکت نےاسرائیل کےخلاف ایرانی صلاحیتوں کوگہری چوٹ پہنچائی ہے۔خطے میں ایران کے سب سے مضبوط اور طاقتور بازوحزب اللہ کی عسکری مشینری کوچوٹ پہنچنے سےخطے میں اسرائیل کا پلڑا بھاری ہو گیا ہے۔ بہت سال تک حزب اللہ نے خود کومزاحمت کےاتحاد کے سب سے طاقتوررکن کے طور پر منوا رکھاتھا۔اب ہم ایک ایسی صورت حال دیکھ رہے ہیں جس میں اس اتحادکے باقی رہنے کی بحث ہورہی ہے جوحیران کن ہے۔
مزاحمت کے اتحادنےطاقت کاپلڑاایران کے حق میں کردیاتھالیکن اب صورتحال یکسربدل چکی ہے۔ دوسری جانب شام میں بشارالاسدکی حکومت کے خاتمے،جسے’’مزاحمت کے خیمے کااہم ستون‘‘ قراردیا جاتاتھا،نےاس ایرانی اتحادکوناقابل یقین چوٹ پہنچائی ہے۔بشارالاسد کی حکومت کاخاتمہ، جس کی کسی کوتوقع نہیں تھی، ایران کے لئے بہت بڑی چوٹ ہے،اس میں کوئی شک نہیں،حزب اللہ کوبھی اس سےنقصان ہواکیونکہ اب میزائل،اسلحہ اور دیگر سامان، جوایران سےپہنچتاتھا،نہیں پہنچ سکے گاتوحزب اللہ، جواسرائیل کی جانب سے شدید دباؤکاسامناکررہی ہے،اب رسدکے مسائل کابھی شکارہے۔
ایرانی اتحاد کے بہت سے رہنمانہیں رہے اورزمینی رابطے بھی ٹوٹ چکے ہیں۔ ایسے میں ایران کومشکل صورت حال کاسامنا ہے۔عراق میں چندعسکری گروہوں کےعلاوہ اس وقت یمنی حوثی باغی ہی خطے میں باقی بچے ہیں لیکن وہ بھی امریکا اور اسرائیل کےحملوں کی زد میں ہیں۔ایران کی جانب سےاربوں ڈالرکی سرمایہ کاری اورلاکھوں افرادکاخون بہنے کے باوجودخطے میں ایک زمانے میں طاقتورسمجھاجانے والااتحاداب غیرمعمولی مشکلات کی زدمیں ہے۔ادھردوسری طرف ٹرمپ کی واپسی سے ایسالگتاہے کہ اگرایران اور امریکا کے درمیان کوئی معاہدہ نہیں ہواتوشاید وائٹ ہائوس اپنی توجہ چین اورعراق کی جانب کردے گا تاکہ ایران کوتیل سےحاصل ہونے والامنافع بھی نہ مل سکے۔
مشرق وسطیٰ کی صورت حال پرایران کے رہبراعلی آیت علی خامنہ ای نےدسمبرمیں کہاتھا کہ ’’مزاحمت پرجتنادباؤڈلے گا،یہ اتنا پرعزم ہوگا۔مزاحمت کااتحادپہلے سے زیادہ پھیلے گا‘‘۔ ان کابیان اس بات کاعندیہ ہے کہ ایران اس اتحادکوازسرنوبحال کرنے اور اپنے کھوئے ہوئے رابطے دوبارہ قائم کرنے میں سنجیدہ ہے۔اسرائیلی فوج کے سابق انٹیلیجنس افسر ابراہیم لیون کے مطابق “مزاحمت کے اتحادمیں بدلے کاعزم عروج پرہے۔شام کھودینے کےباوجودایران رسائی حاصل کرنےکی کوشش کرےگا،شاید موجودہ رہنما سےرابطہ قائم کرکے،شام کی زمین کو استعمال کرنے کی اجازت حاصل کرنے کی کوشش کرے گا۔ مشرق وسطیٰ میں حالیہ صورت حال سیاسی جدت کے لئے اہم ہے۔شائد اسرائیل اورفلسطین کا تنازع حل کرنےکاایک موقع ہے۔سیاست دانوں کوچاہیے اس وقت کواستعمال کریں،جنگ کے نتائج کاجائزہ لیں اورخطے میں بہترمستقبل کے لئے متبادل راستوں پرغورکریں۔
یادرہےکہ ایران اوراسرائیل دونوں ممالک نےایک دوسرے کےعسکری اہداف پرکامیاب حملوں کادعویٰ توکیامگریہ ابھی تک واضح نہیں ہوسکاکہ فریقین کے نقصان کی حدکیاہے اورکہاں کہاں ان کونشانہ بنایاگیاہے۔دونوں فریق حملوں کی تصدیق کرتےہوئے کامیابی کے ساتھ مقابلہ کابھی دعوی توکرتے ہیں لیکن عالمی میڈیاکوان علاقوں سےکوسوں دوررکھا جارہاہے اور کسی کو بھی وہاں جانے کی اجازت نہیں مل رہی کہ سچائی سامنے آسکے تاہم ایران کی فضائی دفاعی افواج نے ایک بیان میں کہاہے کہ اسرائیل نے تہران،خوزستان اورایلام صوبوں میں اس کے فوجی اڈوں پرحملے کیے ہیں جس کاکامیابی سے مقابلہ کیاگیالیکن کچھ مقامات پرمحدودنقصان ہواہے لیکن اسرائیل نے ابھی تک اپنے نقصان کی بھنک تک نہیں پڑنے دی۔
اس صورتحال میں دونوں ملک اپنی اپنی جگہ پربظاہریہ بتانے کی کوشش کررہے ہیں کہ وہ مضبوط ہیں توسوال یہ ہے کہ آخران میں سے عسکری اعتبارسے زیادہ طاقتورکون ہے؟(جاری ہے)
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: پاسداران انقلاب قاسم سلیمانی میں حزب اللہ اسرائیل کے مزاحمت کے میں ایران کی وجہ سے صورت حال ایران کے ایران کی ہے کہ ا
پڑھیں:
ریا کاری (دکھلاوے ) کی مذمت
مولانا قاری محمد سلمان عثمانی
٭جس میں اللہ جل شانہُ کی رضا نہ ہو اس کا کوئی فائدہ نہیں،محض دنیا کو دکھانے کیلئے کام کرنا وبال بن جا تا ہے ٭ارشاد باری تعالیٰ ہے ‘‘بے شک منافق اللہ سے دھوکا کررہے ہیں اور وہ انہیں اس دھوکے کا بدلہ دینے والا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ریاکاری (دکھلاوے )ایک ایسا فعل ہے جو خالق کائنات کو کسی بھی صورت پسند نہیں،ایسا کام جس میں اللہ جل شانہُ کی رضا نہ ہو اس کا کوئی فائدہ نہیں،محض دنیا کو دکھانے کیلئے کام کرنا وبال بن جا تا ہے،جو اللہ کو نا پسند عمل ہے،اللہ تعالیٰ نے اس کی مذمت فرمائی ہے، کوئی بھی کام کیا جا ئے تواس میں اللہ کی رضا شامل ہو ریا کاری نہ ہو،دنیا کو دکھانا مقصد نہ ہو تو اس عمل کا دائمی اجر ہے،جوخالق کائنات کا وعدہ ہے،اللہ تعالیٰ اس کو ضرور اجر عطا فرماتے ہیں۔
ریاکاری ایسا مذموم وصف ہے کہ اس کی وجہ سے مسلمان کا بڑے سے بڑا نیک عمل اللہ کے ہاں رائی کے دانے کی حیثیت نہیں رکھتا، اور ریاکاری کے بغیر کیا ہوا چھوٹاعمل بھی اللہ کے ہاں پہاڑ کے برابر حیثیت رکھتا ہے، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: اے ایمان والو! اپنے صدقات احسان جتا کر اور دکھ دے کر اس شخص کی طرح برباد نہ کر لیا کرو جو مال لوگوں کے دکھانے کے لئے خرچ کرتا ہے اور نہ اللہ پر ایمان رکھتا ہے اور نہ روز قیامت پر، اس کی مثال ایک ایسے چکنے پتھر کی سی ہے جس پر تھوڑی سی مٹی پڑی ہو، پھر اس پر زوردار بارش ہو تو وہ اسے پھر وہی سخت اور صاف پتھر کر کے ہی چھوڑ دے، سو اپنی کمائی میں سے ان (ریاکاروں) کے ہاتھ کچھ بھی نہیں آئے گا، اور اللہ، کافر قوم کو ہدایت نہیں فرماتا(سورۃ البقرہ)
اس آیت میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے واضح انداز میں بیان فرمایا ہے کہ جو عمل اس کی رضا و خوشنودی اور آخرت میں ثواب کی امیدکے حصول کے بجائے، نام و نمود اور ریاکاری و دکھاوے کے جذبے سے انجام دیا جائے، تو اس عمل پر کوئی ثواب نہیں ملتا اور وہ عمل ضائع اور برباد ہو جاتا ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے ‘‘بے شک منافق اللہ سے دھوکا کررہے ہیں اور وہ انہیں اس دھوکے کا بدلہ دینے والا ہے اور جب نماز کے لیے کھڑے ہوتے ہیں تو بڑی کاہلی کی حالت میں کھڑے ہوتے ہیں،صرف لوگوں کو دکھاتے ہیں اور یاد الٰہی تو یوں ہی برائے نام کرتے ہیں۔’’ (سورۃ النساء 142)
اسی طرح ایک مقام پر نماز میں سستی و غفلت کرنے والے ریا کاروں کیلئے ہلاکت کی وعید سنائی گئی ہے، اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: ‘‘ہلاکت و بربادی ہے اُن نمازیوں کے لئے جو اپنی نماز سے غافل ہیں وہ جو ریا کاری کرتے ہیں’’(سورۃ الماعون) یعنی نمازوں کا اہتمام نہیں کرتے، ان کی ادائیگی میں غفلت برتتے ہیں، نمود ونمائش اور لوگوں کو دکھانے کیلئے کبھی لوگوں کے درمیان ہوتے ہیں تو پڑھ لیتے ہیں، ورنہ ان کی زندگی میں نماز کا کوئی اہتمام اور حصہ نہیں ہوتا۔
اس طرح قرآن پاک میں ایک اورجگہ ریا کاری کو کافروں کا شیوہ قرار دیتے ہوئے اہل ایمان کو اس سے روکا گیا، ارشاد باری تعالیٰ ہے ‘‘اور ان لوگوں کی طرح نہ ہوجاؤ جو اتراتے ہوئے اور لوگوں میں خود نمائی (دکھاوا) کرتے ہوئے اپنے گھروں سے نکلے’’(سورۃ الانفال47)یہی وجہ ہے حضورﷺ کواپنی امت کے بارے میں اس بات کا بہت ڈر(اندیشہ)تھا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ میری امت اس بیماری کا شکار ہوجائے۔
اس لئے آپﷺ نے اس کی برائی اور تباہی کو اپنے ارشادات سے واضح فرمایا۔ حضرت ابوہریرہ ؓ سے مروی ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا: ‘‘قیامت کے دن تین بندے رب کی بارگاہ میں حاضر ہوں گے۔ ان میں سے پہلا شخص ایسا ہوگا جو کہ شہید ہوگا،اللہ تعالیٰ اسے دنیا میں دی جانے والی نعمتیں گنوائے گا، شہید نعمتوں کا اقرار کرے گا، پھر اللہ تعالیٰ اس سے پوچھے گا تو نے ان سب نعمتوں کے مقابل دنیا میں میرے لیے کیا کیا؟ وہ عرض کرے گا، میں نے تیری راہ میں اپنی جان قربان کردی۔رب فرمائے گا تو جھوٹا ہے، تو نے جان اس لیے قربان کی کہ لوگ تجھے بہادر اور شہید کہیں، تو شہید کہلا چکا۔ فرشتو! لے جاؤ اسے اور ڈال دو جہنم میں، فرشتے اسے گھسیٹتے ہوئے لے جائیں گے اور اسے جہنم میں ڈال دیں گے۔ پھر ایک دوسرا شخص رب کی بارگاہ میں حاضر ہوگا جو عالم و قاری ہوگا، رب تعالیٰ اسے بھی دنیا میں دی گئی نعمتیں گنوائے گا، وہ ان نعمتوں کا اقرار کرے گا۔ (صحیح مسلم) پھر رب تعالیٰ اس سے پوچھے گا کہ تو نے ان نعمتوں کے مقابل دنیا میں میرے لیے کیا کیا؟ وہ عرض کرے گا میں نے علم سیکھا اور سکھایا، قرآن پاک پڑھا اور پڑھایا۔ رب تعالیٰ فرمائے گا تو نے علم سیکھا اور سکھایا اس غرض سے کہ عالم کہلایا جائے، قرآن پاک اس لیے پڑھا اور پڑھایا کہ قاری کہلایا جائے، تو دنیا میں تو کہلا چکا۔ فرشتو! لے جاؤ اسے اور ڈال دو جہنم میں۔ فرشتے اسے گھسیٹتے ہوئے لے جائیں گے اور اسے جہنم میں ڈال دیں گے۔پھر آخر میں ایک سخی، رب کی بارگاہ میں حاضر ہوگا۔ اللہ تعالیٰ اسے بھی دنیا میں دی جانے والی نعمتیں یاد دلوائے گا۔ وہ نعمتوں کا اقرار کرے گا، پھر رب فرمائے گا کہ تو نے ان نعمتوں کے مقابل دنیا میں میرے لیے کیا کیا؟ وہ عرض کرے گا، اے رب! میں نے اپنی ساری دولت تیری مخلوق پر لٹا دی۔ رب تعالیٰ فرمائے گا تو جھوٹا ہے، تو نے دولت اس لیے خرچ کی کہ لوگ تجھے سخی کہیں، تو دنیا میں سخی کہلا چکا۔ فرشتو لے جاؤ،اس سخی کو اور ڈال دو جہنم میں۔ فرشتے اسے گھسیٹتے ہوئے لے جائیں گے اور جہنم میں ڈال دیں گے’’۔
اس طویل حدیث سے یہ ثابت ہوا کہ عبادت وہی قابل قبول ہے جو خالصتاً اللہ عزوجل کی خوشنودی اور اس کی رضا کے لیے کی جائے،جب کہ ایسی عبادت جو اللہ کے بجائے کسی اور کو دکھانے کے لیے کی جائے، وہ خواہ کوئی بھی کرے،جہنم کا ایندھن ثابت ہوگی۔ (مسلم شریف)رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا ‘‘میں تمہارے بارے میں سب سے زیادہ ‘‘شرک اصغر’’ سے ڈرتا ہوں۔ صحابہ کرامؓ نے دریافت کیا یا رسول اللہﷺ!شرک اصغر کیا ہے؟ آپ ﷺنے فرمایا ریا کاری’’(مسند احمد) ایک اور روایت میں رسول اللہﷺنے اپنی اُمت کے بارے میں شرک کا خوف ظاہر فرمایا۔ دریافت کیا گیا کہ کیا آپ ﷺکے بعد آپ ﷺکی اُمت شرک میں مبتلا ہوجائیگی؟ آپﷺ نے ارشاد فرمایا: ہاں! پھر یہ وضاحت فرمائی کہ وہ لوگ چاند سورج کی پتھر اور بتوں کی پرستش نہیں کریں گے، لیکن ریا کاری کریں گے اور لوگوں کو دکھانے کیلئے نیک کام کریں گے۔ (تفسیر ابن کثیر)حضرت ابو سعید خدریؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: کیا تمہیں وہ چیز نہ بتادوں جو میرے نزدیک تمہارے لئے دجال سے (یعنی دجال کے فتنے سے) بھی زیادہ خطرناک ہے؟ عرض کیاگیا، یا رسول اللہﷺ ضرور بتائیں، آپ ﷺنے ارشاد فرمایا: ‘‘شرک ِخفی (یعنی پوشیدہ شرک اس کی ایک صورت) یہ کہ آدمی کھڑا نماز پڑھ رہا ہو، پھر اس بنائپر اپنی نمازکو مزین کردے کہ کوئی آدمی اسے دیکھ رہا ہے۔’’(ابن ماجہ)رسول اللہ ﷺنے ارشاد فرمایا ‘‘جس نے دکھاوے کے لئے نماز پڑھی، اس نے شرک کیا، جس نے دکھاوے کے لئے روزہ رکھا،اس نے شرک کیا اور جس نے دکھاوے کے لئے صدقہ کیا اس نے شرک کیا’’(جامع العلوم والحکم)حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے،رسول اللہﷺکا ارشادِ گرامی ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے
‘‘میں شرک (شراکت) سے سب شرکاء سے زیادہ بے نیاز ہوں، جو کوئی ایسا عمل کرے، جس میں میرے ساتھ کسی دوسرے کو بھی شریک کرے تو میں اسے اور اس کے شرک کو چھوڑ دیتا ہوں۔’’(صحیح مسلم)کسی عمل میں دوسرے کی ذرہ برابر شرکت بھی اللہ تعالیٰ کو پسند نہیں، وہ ایسے عمل کو قبول ہی نہیں فرماتا۔کوئی نیکی خالص اللہ کیلئے کرنے کے بجائے لوگوں کو دکھانے کیلئے کی جائے، اللہ کی خوشنودی کے بجائے، لوگوں کی خوشنودی یا شہرت و نمود کا جذبہ اور لوگوں میں مقام و مرتبہ پانے یا ان کے درمیان نمایاں ہونے کا جذبہ شامل ہوجائے تو یہ ریا کاری ہے جو سخت مذموم اورناپسندیدہ عمل ہے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں دکھاوے اور ریاکاری سے بچنے کی توفیق نصیب فرمائے۔(آمین)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔