گستاخان رسول کے حقوق کی جنگ ؟
اشاعت کی تاریخ: 10th, January 2025 GMT
(گزشتہ سےپیوستہ)
اب سوال یہ ہےکہ بفرض محال اگر یہ درست ہے کہ مذکورہ مجرمان کو ٹریپ کرکے ان سے بلاسفیمی جیسے سنگین جرم کاارتکاب کروایاگیاہے،تو کیا محض اس بنیاد پر مذکورہ مجرمان کوکوئی ریلیف دیاجاسکتا ہے؟؟؟کیا محض اس بنیاد پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ مذکورہ مجرمان کے خلاف بلاسفیمی سے متعلقہ قوانین کو حرکت میں لانا غلط ہے؟ قانون کی روشنی میں مذکورہ دونوں سوالات کاجواب نفی میں ہے۔اس لئے کہ کسی بھی مجرم کے حق میں یہ دلیل نہیں مانی جاسکتی کہ اس نے کسی بھی جرم کا ارتکاب اپنی مرضی سے نہیں بلکہ ٹریپ ہو کر کیا ہے۔اگر مجرمان کےحق میں اس دلیل کو درست مان لیا جائے تو پھر کسی دہشت گرد کو کوئی سزا نہیں ہونی چاہیے۔اس لئے کہ یہ تو ریاست بھی مانتی ہے کہ ٹی ٹی پی جیسی شدت پسند تنظیمیں نوجوانوں کو ٹریپ کرکے/ان کی ذہن سازی کرکے انہیں دہشت گرد بناتی ہیں۔مگر آج تک کسی بھی دہشت گرد کو اس دلیل کی بنیاد پر کوئی ریلیف نہیں دیا گیا۔اگر مجرمان کے حق میں اس دلیل کو درست مان لیا جائے تو پھر حال ہی میں سانحہ نو مئی میں ملوث مجرمان کو ملٹری کورٹس نے کیوں سزائیں سنائی ہیں؟ جبکہ آئی ایس پی آر نے بھی ایک بار نہیں،بارہا اپنی پریس ریلیز میں واضح طور پر یہ کہا کہ جن مجرمان کو سزائیں سنائی گئی ہیں،ان کی ایک سیاسی جماعت یا ایک سیاسی جماعت کے لیڈر نے ایسی ذہن سازی کی تھی کہ جس کی وجہ سے انہوں نے نو مئی کو جرائم کا ارتکاب کیا۔اس جیسی اور کئی مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں۔ ان مثالوں سے معلوم ہوا کہ یہ دلیل مجرمان کے حق میں ایک احمقانہ دلیل ہے،جس کی کوئی قانونی حیثیت نہیں۔ مزید یہ کہ کمیشن جن مجرمان کےحق میں اپنی رپورٹ میں یہ کہہ کر انہیں تحفظ فراہم کرنے کی کوشش کررہا ہے کہ انہیں ٹریپ کیا گیا،وہ مجرمان کوئی دودھ پیتے بچے نہیں ہیں۔ وہ تمام مجرمان قانون کے مطابق عاقل،بالغ ہیں۔وہ شعور رکھتے ہیں کہ کیا اچھا ہے اور کیا برا۔ان مجرمان نے کسی معمولی جرم کا ارتکاب نہیں کیا کہ انہیں اس جیسی احمقانہ دلیلیں دیکر تحفظ فراہم کرنےکی گھنائونی کوشش کرکےکروڑوں پاکستانی مسلمانوں کے مذہبی جذبات سے کھیلا جائے۔ان تمام مجرمان نے بلاسفیمی جیسے سنگین جرم کا ارتکاب کیا ہے۔بلاسفیمی بھی ایسی کہ جس کی مثال گزشتہ ساڑھے چودہ سو سالہ اسلامی تاریخ میں کہیں نہیں ملتی۔اس قدر سنگین،غلیظ بلاسفیمی۔نقل کفر،کفر نہ باشد۔یعنی فقہی اصول ہے کہ کسی شخص کے کفر کو بیان کرنا کفر نہیں ہے۔اس اصول کو مدنظر رکھتے ہوئے لرزتے بدن کے ساتھ اللہ تعالی کے حضور توبہ و استغفار کرتے ہوئے ان مجرمان کے جرائم کی نوعیت مختصرا ًبیان کرنے پر درخواست گزارمجبورہےکہ جن کو تحفظ فراہم کرنے کےلئے قومی کمیشن برائے انسانی حقوق پاکستان نے اپنے قانونی مینڈیٹ سے تجاوز کرتے ہوئے غیر آئینی و غیر قانونی رپورٹ مرتب کی۔
درخواست گزار کے پاس مزید الفاظ نہیں کہ ان کے جرائم کی مزید سنگینی کو بیان کر سکےلہٰذا یہ کہنا کہ ان مجرمان کو ٹریپ کرکے ان سے مذکورہ سنگین جرائم کا ارتکاب کروایا گیا ہے،انتہائی غیرمناسب اور احمقانہ بات ہے۔پھر بھی بفرض محال اگر کسی ایک مقدمے میں بھی ایسے کوئی شواہدموجود ہوں کہ کسی مجرم کو مذکورہ جرم کے ارتکاب پر اکسایا گیا یا کسی کو ٹریپ کرکے یا بلیک میل کرکے مذکورہ جرم کا ارتکاب کروایا گیا تو اس صورت میں بھی ایسے مجرم کو تو پھر بھی قانون کے مطابق کوئی ریلیف نہیں دیا جاسکتا،ہاں اتنا کیا جاسکتا ہے اور ایسا کیاجانا بھی چاہیے کہ ایسے شخص کےخلاف بھی قانون کے مطابق سخت کارروائی کی جائے،جس کسی نے کرنے پر اکسایا یا اسے ٹریپ کیا یا اسے بلیک میل کیا۔
تیسری گزارش یہ ہے کہ قومی کمیشن برائے انسانی حقوق پاکستان کا اپنی رپورٹ میں یہ کہنا کہ ایف آئی اے کے سائبر کرائم ونگ کے افسران و اہلکاران پرائیویٹ لوگوں کے ملی بھگت سے کام کررہے ہیں،ایک بہتان کے علاوہ کچھ نہیں۔حقائق یہ ہیں کہ2016 ء کے آخر میں جب سوشل میڈیا پر مذکورہ بدترین گستاخانہ مواد کی تشہیری مہم کا آغاز ہوا تو اس وقت بھی قانون کےمطابق درخواست گزار نے ایف آئی اے کے سائبر کرائم ونگ سے رجوع کیا تھا کہ مذکورہ بدترین گستاخانہ مواد کی تشہیری مہم میں ملوث مجرمان کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کی جائے۔ایف آئی اے کے سائبر کرائم ونگ نے اپنی قانونی ذمہ داری پوری کرنےسے گریز کیا،جس کے بعد مجبوراً درخواست گزار کو اسلام آباد ہائیکورٹ سے رجوع کرنا پڑا۔ اسلام آباد ہائیکورٹ میں دائرکی گئی رٹ پٹیشن نمبر 739/2017 بعنوان سلمان شاہد بنام وفاق پاکستان وغیرہ پر اسلام آباد ہائیکورٹ کے فیصلہ 2017 PLD Islamabad 218 کی وجہ سے ایف آئی اے کا سائبر کرائم ونگ اور پی ٹی اے پہلی دفعہ مجبور ہوا تھا کہ وہ مذکورہ جرائم میں ملوث مجرمان کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کرے۔ ایف آئی اے کے سائبر کرائم ونگ اور پی ٹی اے کی جانب سے اسلام آباد ہائیکورٹ کے مذکورہ فیصلے کی روشنی میں قانونی کارروائی کی وجہ سے سوشل میڈیا پرگستاخانہ مواد کی تشہیری مہم کا سدباب ہو گیا تھا تاہم 2020ء سےسوشل میڈیا پر مقدس ہستیوں اور شعائر اسلام کی توہین پر مبنی بدترین گستاخانہ مواد کی تشہیری مہم کا ایک دفعہ پھر آغاز ہوا۔پھر درخواست گزار کی جانب سے ایف آئی اے کے سائبر کرائم ونگ اور پی ٹی اے سے رجوع کیا گیا۔نہ تو ایف آئی اے کے سائبر کرائم ونگ نے اپنی قانونی ذمہ داری پوری کرتے ہوئے مذکورہ گستاخانہ مواد کی تشہیری مہم میں ملوث مجرمان کا سراغ لگا کر ان کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کی اور نہ ہی پی ٹی اے نے سوشل میڈیا پر موجود گستاخانہ مواد کو ہٹانے اور اسے اپلوڈ ہونے سے روکنے کے متعلق اپنی قانونی ذمہ داری پوری کی۔مجبورا ایک دفعہ پھردرخواست گزار کو اسلام آباد ہائیکورٹ میں رٹ پٹیشن نمبر 1922/2021 دائر کرنی پڑی۔
مذکورہ رٹ پٹیشن پر اسلام آباد ہائیکورٹ کے سخت احکامات کے بعدایک دفعہ پھر ایف آئی اے کا سائبر کرائم ونگ اور پی ٹی اے سوشل میڈیا پر جاری گستاخانہ مواد کی تشہیری مہم میں ملوث مجرمان کے خلاف جون 2021ء میں متحرک ہوا۔مذکورہ رٹ پٹیشن تاحال اسلام آباد ہائیکورٹ میں زیرالتوا ہے۔اسی دوران لاہور ہائیکورٹ راولپنڈی بینچ میں بھی اسی نوعیت کی ایک رٹ پٹیشن نمبر 2336/2022 دائر کی گئی۔مذکورہ رٹ پٹیشن بھی تاحال لاہور ہائیکورٹ راولپنڈی بینچ میں زیر التوا ہے۔اس کے علاوہ بھی متعدد پٹیشنز پر اعلیٰ عدلیہ کے فیصلے،احکامات موجود ہیں کہ جن پر عملدرآمد کرنا ایف آئی اے کے سائبر کرائم ونگ سمیت تمام حکومتی اداروں پر لازم ہے۔
تلخ حقیقت ہے کہ ایف آئی اے کا سائبر کرائم ونگ ہو یا پی ٹی اے۔مذکورہ دونوں ادارے سوشل میڈیا پر گستاخانہ مواد کی تشہیری مہم کے خلاف خوش دلی سے اپنی قانونی ذمہ داری ادا نہیں کررہےبلکہ وہ صرف اس وجہ سے سوشل میڈیا پر گستاخانہ مواد کی تشہیری مہم میں ملوث مجرمان کے خلاف قانونی کارروائی کرنے پر مجبور ہیں کہ اعلیٰ عدلیہ کے احکامات ان کے سر پرہیں۔درخواست گزار سمیت عوام پاکستان مذکورہ معاملے میں اعلی عدلیہ کے کردارکو لائق تحسین سمجھتے ہیں کہ اعلیٰ عدلیہ نے مذکورہ معاملے کی حساسیت کو سمجھا اور قانون کے مطابق فیصلے،احکامات صادر کرکے حکومتی اداروں کو مجبور کر دیا کہ وہ مذکورہ بدترین گستاخانہ مواد کی تشہیری مہم اور اس میں ملوث مجرمان کے خلاف قانون کوحرکت میں لائیں۔لہذا یہ تاثر قائم کرنا بالکل غلط ہے کہ ایف آئی اے کا سائبر کرائم ونگ کسی کی ملی بھگت سے کام کررہا ہےبلکہ حقیقت یہ ہے کہ ایف آئی اے کا سائبر کرائم ونگ سوشل میڈیا پر جاری مذکورہ بدترین گستاخانہ مواد کی تشہیری مہم میں ملوث مجرمان کےخلاف اعلی عدلیہ کے فیصلوں، احکامات کی وجہ سےقانون کے مطابق کارروائی کرنے پر مجبور ہے۔
مذکورہ بالاتمام حقائق و واقعات سےیہ ثابت ہوتا ہے کہ قومی کمیشن برائے انسانی حقوق پاکستان کی مذکورہ رپورٹ نہ صرف یہ کہ آئین و قانون کے خلاف ہے،بلکہ مذکورہ رپورٹ مرتب کرکے قومی کمیشن برائے انسانی حقوق پاکستان نے اپنے قانونی مینڈیٹ سے تجاوز کرتے ہوئے سوشل میڈیا پر گستاخانہ مواد کی تشہیری مہم میں ملوث تقریبا پانچ سو زیر حراست مجرمان کے خلاف ٹرائل کورٹس میں زیر سماعت مقدمات پر مذکورہ مجرمان کے حق میں اثر انداز ہونے کی کوشش کی ہے۔قومی کمیشن برائے انسانی حقوق پاکستان کی جانب سے مرتب کردہ مذکورہ رپورٹ کمیشن کی چیئرپرسن سمیت تمام ممبران کی اہلیت پر بھی سنگین سوالات کو جنم دے رہا ہے۔ مذکورہ بالا حقائق و واقعات کی روشنی میں استدعا ہے کہ قومی کمیشن برائے انسانی حقوق پاکستان کی جانب سے بلاسفیمی مقدمات کے متعلق مرتب کردہ تحقیقاتی رپورٹ 2024ء پر نظر ثانی کرتے ہوئےاسےبلاتاخیر کالعدم قرار دیا جائے۔یہی قرین انصاف ہے۔
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: قومی کمیشن برائے انسانی حقوق پاکستان ایف آئی اے کا سائبر کرائم ونگ قانون کے مطابق کارروائی اپنی قانونی ذمہ داری اسلام آباد ہائیکورٹ ان کے خلاف قانون مذکورہ مجرمان سوشل میڈیا پر درخواست گزار کارروائی کی کی جانب سے کرتے ہوئے کہ مذکورہ مجرمان کو کے حق میں کی وجہ سے کرکے ان ہیں کہ
پڑھیں:
عالمی برادری نظربند کشمیریوں کی رہائی کیلئے اقدامات کرے
ریاض احمدچودھری
ڈی ایف پی کے ترجمان ایڈووکیٹ ارشد اقبال نے سرینگر میں جاری ایک بیان میں نامساعد موسم ، بنیادی سہولیات کی عدم فراہمی اور اپنے گھروں سے دور بھارتی جیلوں میں نظربندسینکڑوں کشمیریوں کو درپیش سنگین صورتحال کو اجاگرکرتے ہوئے کہاکہ کشمیری نظربندوں کو پینے کے صاف پانی، صحت بخش خوراک اور مناسب طبی دیکھ بھال جیسی بنیادی ضروریات سے محروم رکھا گیا ہے جس سے انہیں صحت کے سنگین مسائل کا سامنا ہے۔ بہت سے نظربند بے چینی، ڈپریشن اورذہنی تنائو سمیت صحت کے مختلف مسائل سے دوچار ہیں جو سورج کی روشنی، مناسب غذائیت اور علاج ومعالجے کے فقدان کی وجہ سے سنگین رخ اختیارکررہے ہیں۔ڈی ایف پی نے انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیموں سے مطالبہ کیاکہ وہ کشمیری نظربندوں کو خاص طور پر تہاڑ جیل میںجہاں نظربندوں کو ان کے اہل خانہ سے ہزاروں کلومیٹر دور رکھا جارہا ہے، درپیش صورتحال کی تحقیقات کریں۔ انسانی حقوق کے اداروں کو موثر کارروائی کرنی چاہیے اور موقع پر جاکرجائزہ لینا چاہیے۔ مسئلہ کشمیر حل نہ ہونے کی وجہ سے خطے میں بڑے پیمانے پرانسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ہورہی ہیں۔
گزشتہ برس جنیوا میں کمیشن برائے انسانی حقوق کے ہیڈ کوارٹر کے سامنے مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالیوں،حریت قیادت کو مسلسل جیلوں میں بند رکھنے، کشمیریوں کی جائیدادوں پر بھارتی فوج کا قبضہ، غیر کشمیری باشندوں کو آباد کرنے پر تحریک کشمیر یورپ کے زیر اہتمام احتجاجی مظاہرہ کیا گیا۔ مظاہرین نے مختلف بینرز اور کتبے اٹھا رکھے تھے اور وہ مطالبہ کر رہے تھے کہ کمیشن برائے انسانی حقوق کشمیریوں کا قتل عام بند کرائے، حریت کانفرنس کے چیئرمین مسرت عالم، یاسین ملک، شبیر شاہ،نعیم خان، ڈاکٹر قاسم فکٹو،آسیہ اندرابی، ایاز اکبر، نہیدا نسرین، پیر سیف الدین، فہمیدہ صوفی اور دیگر رہنماؤں کی رہائی کیلئے ٹھوس اقدامات کرے ۔انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں، میڈیا پر مقبوضہ کشمیر میں داخلے پر عائد پابندیاں ختم کی جائیں۔
حریت رہنماؤں نے خطاب کرتے ہوئے کہا بھارت نے مقبوضہ کشمیر کو جیل خانے میں تبدیل کر رکھا ہے، حریت قیادت سمیت 10لاکھ کشمیری غیر قانونی طور پر جیلوں میں بند ہیں، کشمیریوں کے ساتھ انتہائی ظالمانہ سلوک کیا جارہا ہے، عالمی برادری اپنی خاموشی توڑے، کشمیر یوں کی نسل کشی اور قتل عام بند کرایا جائے۔ بھارت کا اصل روپ دنیا کے سامنے بے نقاب ہوچکا، مودی انسانیت کا دشمن اور قاتل ہے، بھارت نام نہاد جمہوریت کے لبادے میں دنیا کو دھوکہ دے رہا ہے، کشمیری اپنے حق خودارادیت کیلئے جدوجہد کررہے ہیں، یہ حق انہیں عالمی امن کے علمبرداروں اور اقوام متحدہ نے دیا ہے، بھارت کے ناپاک عزائم اور سازشوں کو نہ روکا گیا تو خطے میں تباہی اور بربادی کی ذمہ داری اقوام متحدہ پر ہوگی۔
اقوام متحدہ کے کمیشن برائے انسانی حقوق کشمیر پر اپنی رپورٹوں پر عمل درآمد کرائے، اپنے وفد کو مقبوضہ کشمیر بھیج کر حالات کا خود مشاہدہ کرے اور بھارت کے ظلم کا سختی سے نوٹس لیا جائے۔دہلی پولیس کے خصوصی سیل نے 14/ستمبر 2020ء کو جواہر لال نہرو یونیورسٹی کے سابق طالب علم عمر خالد کو فروری 2020ء میں شمالـمشرقی دہلی میں ہوئے فسادات میں ان کے مبینہ کردار کے لیے سخت غیر قانونی سرگرمیاں (روک تھام) ایکٹ (UAPA) کے تحت گرفتار کیا تھا۔ پولیس کا دعویٰ تھا کہ وہ ان فسادات کے اہم سازشی ہیں۔ چار سال مکمل ہونے کے بعد بھی وہ کسی ضمانت یا ٹرائل کے بغیر تہاڑ جیل کی انتہائی سیکیورٹی کی حامل قید میں ہیں۔ ان چار سالوں میں عمر خالد نے ضمانت کی خاطر مختلف عدالتوں سے رجوع کیا۔ (واضح رہے کہ) سپریم کورٹ نے متعدد مواقع پر (ضمانت کو ) ایک ”قاعدے” کے طور پر بیان ہے، ایک ایسا قاعدہ جو یو اے پی اے جیسے خصوصی قوانین کے لیے بھی لائق اطلاق ہے۔ 36 سالہ جہد کار، جو ہنوزمجرم قرار نہیں دیے گئے ہیں بلکہ صرف ایک ملزم ہیں، کہتے ہیں کہ انہوں نے صرف ایک پرامن احتجاج میں حصہ لیا تھا۔
فسادات کے بعد مختلف کیسوں کے تحت دہلی پولیس نے چند مہینوں کے اندرون 2500 افراد کو گرفتار کیا۔ ان مقدمات کی سماعت کرتے ہوئے گذشتہ چار سالوں میں نچلی عدالتوں نے اکثر مواقع پر پولیس کو ناقص تفتیش پر ڈانٹ لگاتے ہوئے 2000 سے زائد افراد کو ضمانت دے دی ہے۔ 2020ء کے فسادات سے متعلق مقدمات میں ایک بڑا سازشی مقدمہ وہ ہے جس میں پولیس نے مسٹر خالد کو دیگر 17 افراد کے ساتھ ملزم قرار دیا ہے، جن میں سے کئی ضمانت پر رِہا ہیں۔قید کے تقریباً ڈیڑھ سال بعد پہلی مرتبہ انہیں مارچ 2022ء میں کارکاردوما عدالت کی جانب سے ضمانت دینے سے منع کر دیا گیا تھا۔ بعدازاں انہوں نے دہلی ہائی کورٹ کا رخ کیا۔ ہائی کورٹ نے بھی اکتوبر 2022ء میں انہیں اس حوالے سے کسی بھی قسم کی راحت فراہم کرنے سے انکار کر دیا۔ اس کے بعد خالد نے ضمانت کی عرضی سپریم کورٹ میں داخل کی۔ فروری 2024ء تک سپریم کورٹ میں ان کی درخواست سماعت سے پہلے ہی 11 مہینوں میں 14 دفعہ ملتوی کی جا چکی تھی۔ یہ التوا کبھی فریقین میں سے کسی وکیل کی غیر حاضری کے باعث ہوا تو کبھی استغاثہ کی درخواست پر۔
اگست 2023ء میں جسٹس اے ایس بوپنا اور پی کے مشرا کی ایک بینچ نے عمرخالد کی سماعت کو یہ کہتے ہوئے ملتوی کر دیا کہ ”(ججوں کے) اس مجموعے میں سماعت نہیں کی جاسکتی”۔ بعد ازاں 5 ستمبر 2023ء کو مقدمہ ایک بینچ کو منتقل کر دیا گیا جس کی قیادت جسٹس بیلا. آم. ترویدی کر رہے تھے جسے خالد کے وکیل کی درخواست پر ملتوی کر دیا گیا۔ اگلے موقع پر 12/ اکتوبر کو بینچ نے ”وقت کی کمی” کا حوالہ دیتے ہوئے معاملے کو ملتوی کر دیا۔ نومبر میں ”متعلقہ سینئر وکلاء کی عدم دستیابی” کے باعث ضمانت کی عرضی کو دوبارہ ملتوی کر دیا گیا۔