سلطان محمود غزنوی پرحکومتی حملہ
اشاعت کی تاریخ: 10th, January 2025 GMT
(گزشتہ سےپیوستہ)
عزت مآب خواجہ آصف صاحب پاکستان کے وزیردفاع ہیں اور ان کے محمود غزنوی پر الزام کے پس منظر میں اب ایک اہم ترین سوال یہ اٹھایا جا رہا ہے کہ بالفرض محمود غزنوی لٹیرا اور ڈاکو تھاتو پھر پاکستان نے اپنے میزائل کانام محمود غزنوی کے نام پر کیوں رکھا؟ سوچنے کی بات ہےخواجہ آصف چونکہ وزیردفاع ہیں تو کیا وہ غزنوی میزائل جسےحتف تھری بھی کہاجاتا ہے وہ اس کا نام تبدیل کروا دیں گے؟ اس کے علاوہ ابدالی میزائل (حتف ٹو) اور غوری میزائل (حتف فور) بھی ہیں جبکہ پاکستان کے ایک میزائل کا نام شاہین” بھی ہے جو تصور پاکستان کے خالق اور قومی شاعر علامہ محمد اقبال کی حکیمانہ شاعری کا بنیادی فلسفہ ہے اور خود علامہ اقبال نے محمود غزنوی کے بارے فرمایا تھا کہ، “ایک ہی صف میں کھڑے ہو گئے محمود و ایاز، نہ کوئی بندہ رہا اور نہ کوئی بندہ نواز۔” خواجہ آصف کہاں تک اپنے الزام کو آگے بڑھائیں گے؟ سلطان محمود غزنوی انتہائی نیک دل، صاحب کتاب اور حافظ قرآن تھے۔ آپ علامہ اقبال کی نظمیں “شکوہ” اور جواب شکوہ” ہی پڑھ لیں تو آپ کی آنکھیں کھل جائیں گی کہ محمد بن قاسم، طارق بن زیاد اور “محمود غزنوی” جیسے مسلم مشاہیر کی تاریخ اسلام میں کیا اہمیت ہے۔
ممکن ہے کہ خواجہ آصف نے محمود غزنوی پر یہ الزام سہوا یا جوش خطابت میں آ کر لگایا ہو لیکن سوال یہ ہے کہ اس پائے کے اعلی حکومتی عہدیدار کو اتنا تو سوچنا چاہیے تھا کہ ہمارے تدریسی نظام میں محمود غزنوی کو کیا اہمیت دی گئی ہے اور اگر وہ اس کے برخلاف کوئی بات کریں گے تو اس کے طلبا اور پوری قوم پر تضاد پر مبنی کیا منفی اثرات پڑیں گے۔ہمارے اکثر میزائلوں کے نام ایسے عظیم افغان جنگجووں کے ناموں پر رکھے گئے ہیں جنہوں نے پرانے زمانے میں ہندوستان کے مختلف راجائوں کو شکست دی تھی۔ پاکستانی میزائلوں کے ناموں کو افغان جنگجووں کے ناموں پر رکھنے کی ایک وجہ یہ ہے کہ بھارت کو باور کرایاجائےکہ پاکستان کا میزائل پروگرام بھارت کے مقابلے کے لئے ہے اور اسے بتایا جا سکے کہ اس نے کوئی جارحیت کی تو اسے پتہ ہو کہ اس کا پالا کس قوم سے پڑا ہے۔ اگر وفاقی وزیر دفاع کی سطح کی شخصیت کا نقطہ نظر اس کے برعکس ہو گا تو یہ نہ صرف قومی مفاد کے برعکس ہو گا بلکہ اس سے ہماری نوجوان نسل میں اپنی مسلم تاریخ کے بارے میں بھی ذہنی کشمکش اور خواہ مخواہ کی نفرت پیدا ہو گی۔ یا تو ہم اپنی تاریخ کو تبدیل کریں یا اپنے طلبا کو ایسا صحت مند نظام تعلیم دیں کہ وہ اپنی تحقیق و جستجو سے خود ہی ایسے تاریخی حقائق تک پہنچنے میں آسانی محسوس کریں۔
ہمارے ایسے ہی غیر ذمہ دارانہ رویوں، بیانات اور تاریخی غلطیوں کے باعث محمود غزنوی سے قبل محمد بن قاسم کے سندھ پر حملے کی وجہ سے کچھ سندھی قومی پرست عظیم الشان مسلم سپہ سالار محمد بن قاسم کو بھی لٹیراقراردیتے ہیں لیکن محترم المقام خواجہ محمد آصف نے محمد بن قاسم کو لٹیرا نہیں کہا، ممکن ہے اس لئے کہ وہ عرب تھے۔ اس موضوع پر بہت کچھ کہاجا سکتا ہے لیکن مجھے افسوس اس بات کا ہے کہ ہمارے ایسے حکومتی نمائندے نوجوان نسل میں تضاد بھرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں ہمارے مستقبل کی نسل دولے شاہ کے چوہوں کی طرح اندھی اور گونگی بہری پیدا ہو ان میں سمجھنے کی صلاحیت نہ ہو اور ان میں اتنا تضاد اور کشمکش بھر دی جائے کہ بس وہ اپنی آدھی عمر روایات ہی سے جھوٹ اور سچ کو الگ کرنے میں گزار دیں تاکہ ان حکمرانوں کی جہالت اور لوٹ مار کا احتساب نہ کیا جا سکے۔ایک طرف ہمارا تعلیمی نصاب محمود غزنوی کو مسلم ہیرو قرار دیتا ہے اور یہ کیبنٹ منسٹر صاحب حکومت کا موقف پیش کرتے ہوئے اسے ڈاکو قرار دے رہے ہیں جو لوٹ مار کر کے واپس چلا جاتا تھا۔ خواجہ آصف صاحب یہ بھی تو کہہ سکتے تھے کہ ہمارے حکمران رہتے تو یورپ، امریکہ اور انگلینڈ میں ہیں اور ان کی جائیدادیں بھی انہی ملکوں میں ہیں مگر وہ اقتدار اور لوٹ مار کرنے کے لیے پاکستان آتے ہیں اور جب اس سے فارغ ہوتے ہیں وہ واپس چلے جاتے ہیں۔
ایسے افراد کو کابینہ میں بھرتی کرنے اور ان سے ایسے متضاد بیانات دلوانے کا ایک اور اہم مقصد غربت، معیشت، صحت اور تعلیم جیسے بنیادی مسائل سے عوام کی توجہ ہٹانا ہوتا ہے جو خواجہ آصف جیسےگھاگ بخوبی انجام دےسکتے ہیں ورنہ وہ وزیر دفاع ہیں اور حکومت و فوج دونوں کے نمائندے ہیں جو اس محاورے کے مصداق خود جواب دہ ہیں کہ، “چور الٹا کوتوال کو ڈانٹے۔” موصوف نے اس کا مدعی الٹا محمود غزنوی پر ڈالا ہے۔ ان کا یہ بیان تاریخ اور مطالعہ پاکستان کے حوالے سے انتہائی بودا بیان تھا جس کی حکومت یا افواج پاکستان کے شعبہ تعلقات عامہ نے ابھی تک مذمت کی ہے اور نہ ہی خواجہ آصف نے اس کی کوئی معذرت کی ہے!
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: محمود غزنوی پر پاکستان کے خواجہ آصف ہیں اور اور ان کے نام ہے اور
پڑھیں:
چیف الیکشن کمشنر کا تقرر،پی ٹی آئی رہنما عمر ایوب،شبلی فراز کا پارلیمانی کمیٹی تشکیل دینے کا مطالبہ
اسلام آباد (آن لائن) سینیٹ اور قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈرز نے چیف الیکشن کمشنر کے تقرر کے لیے پارلیمانی پارٹی تشکیل کے حوالے سے چیئرمین سینیٹ اور اسپیکرقومی اسمبلی کو الگ الگ خطوط لکھ دیے ،ذرائع نے بتایا کہ چیف الیکشن کمشنر و ارکان کے تقرر کے معاملے پر اپوزیشن لیڈر عمر ایوب نے اسپیکر قومی اسمبلی کو خط لکھا ہے کہ جس میں تقرریوں کے لیے پارلیمانی کمیٹی کی تشکیل کا مطالبہ کیا گیا ۔دوسری جانب
قائد حزب اختلاف سینیٹر شبلی فراز نے بھی چیئرمین سینیٹ کو نئے چیف الیکشن کمشنر اوررکن سندھ اور بلوچستان کے تقرر کے معاملے پر خط لکھ دیا ہے،شبلی فراز نے چیف الیکشن کمشنر کے تقررکے لیے پارلیمانی کمیٹی تشکیل دینے کا مطالبہ کیا گیا ہے،خط میں کہاگیا ہے کہ آرٹیکل215کے تحت چیف الیکشن کمشنرسکندر سلطان کی مدت ختم ہورہی ہے،سکندر سلطان راجا کی مدت 26جنوری کو ختم ہوگی،آرٹیکل213کے تحت آئینی تقاضا پورا کرنے کے لیے پارلیمانی کمیٹی تشکیل دی جائے، چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجا ،رکن سندھ اور بلوچستان26جنوری کو ریٹائرڈ ہورہے ہیں۔