Daily Ausaf:
2025-01-18@11:01:20 GMT

گلگت بلتستان کی آئینی حیثیت

اشاعت کی تاریخ: 10th, January 2025 GMT

(گزشتہ سے پیوستہ)
اگرچہ معاہدہ 60 سال کے لیے کیا گیا تھا، لیکن یہ 1947 میں برطانوی حکومت کے ہندوستان سے انخلا کے ساتھ ہی ختم ہو گیا برطانوی انخلا کے بعد1947 میں برطانیہ نے گلگت ایجنسی کا کنٹرول واپس مہاراجہ ہری سنگھ کو دے دیا، کیونکہ معاہدہ ختم ہو چکا تھا۔ گلگت کے عوام اور سکاوٹس نے ڈوگرہ حکمرانوں کے خلاف بغاوت کر کے انہیں نکال دیااور 1 نومبر 1947 کو گلگت بلتستان کو آزاد کرادیا آزادی کے بعد یہ پاکستان کے زیر انتظام آ گیا۔جو پاکستان کی قدرتی طور پر ایک بڑی کامیابی تھی۔
برطانوی حکومت نےخطے کی اسٹریٹجک اہمیت کو دیکھتے ہوئے 1889 میں گلگت ایجنسی قائم کی جس کا مقصد روس کے ممکنہ اثر و رسوخ کو روکنا تھا۔
1947 میں پاکستان اور بھارت کے قیام کے بعد، گلگت بلتستان کشمیر کے ساتھ جڑا ہوا تھا۔ مقامی لوگوں نے بغاوت کر کے ڈوگرہ حکمرانوں کو نکال دیا اور پاکستان کے ساتھ الحاق کا اعلان کیا۔ گلگت بلتستان مختلف ثقافتوں، زبانوں اور مذاہب کا سنگم رہا ہے۔ یہاں کے مشہور قلعے، جیسے التت، بلتت قلعہ اور شگر قلعہ، اس کی قدیم تاریخ کے گواہ ہیں۔ خطے کی بلند و بالاچوٹیاں، جیسے کے ٹو، اور قدرتی حسن، تاریخی اہمیت کے ساتھ ساتھ سیاحت کے لیے بھی مشہور ہیں۔ گلگت بلتستان کی تاریخی حیثیت اسےنہ صرف پاکستان بلکہ عالمی سطح پر بھی ایک اہم مقام عطا کرتی ہے۔
معاہدہ کراچی 28 اپریل 1949 کوحکومتِ پاکستان، آزاد کشمیر کی حکومت، اور آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس کے درمیان طےپایا تھا۔ اس معاہدے کےتحت گلگت بلتستان (اس وقت اسے شمالی علاقہ جات کہا جاتا تھا ) کا انتظام عارضی طور پر حکومتِ پاکستان کے حوالے کیا گیا تھا۔
معاہدہ کی تفصیلات:
1.

فریقین:
حکومتِ پاکستان
آزاد کشمیر کی حکومت
آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس(آزاد کشمیر کے سیاسی نمائندے)
2. مقاصد:
معاہدے کا مقصد گلگت بلتستان کے انتظامی امور کو سنبھالنے اور ریاست جموں و کشمیر کے تنازعے کےحل تک اس علاقے کی دیکھ بھال کرنا تھا۔
3. اختیارات کی منتقلی:
آزاد کشمیر کی حکومت نے گلگت بلتستان کے انتظامی اختیارات حکومتِ پاکستان کو سونپ دیے، تاہم یہ انتظام عارضی تھا کیونکہ یہ خطہ ریاست جموں و کشمیر کا حصہ سمجھا جاتا تھا اور اس کا مستقبل اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق عوامی رائے شماری سے طے ہونا تھا۔
4. اختلافات:
اس معاہدے پر وقتا فوقتا تنقید کی گئی، خاص طور پر گلگت بلتستان کے عوام کی جانب سے، کیونکہ اس معاہدے میں انہیں شامل نہیں کیا گیاتھا۔ اس کے علاوہ یہ سوال بھی اٹھایا گیا کہ آزاد کشمیر کی حکومت کو یہ حق حاصل تھا یا نہیں کہ وہ اس علاقے کے بارے میں فیصلہ کرے۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ آزاد کشمیر کے لیڈروں نے گلگت بلتستان کے لوگوں کی محرومیوں پر کبھی کوئی آواز نہیں آٹھائی آزاد کشمیر کے لیڈروں کو یا تو گلگت بلتستان جانے ہی نہیں دیا گیا یا وہ سرے سے جانا ہی نہیں چاہتے تھےالبتہ مسلم کانفرنس کے صدر اور سابق وزیراعظم سردار عتیق احمد خان، جماعت اسلامی کے اس وقت کے امیر عبدالرشید ترابی،جے کے ایل ایف کے چیئرمین امان اللہ خان اور دیگر نے اس وقت شور مچانا شروع کیا جب پیپلز پارٹی نے گلگت بلتستان کو باقاعدہ صوبہ بنانے کا 2009 میں اعلان کیا بلکہ بعض نے پھر گلگت بلتستان کے دورے بھی شروع کردئیے۔ پیپلزپارٹی کے قمر زمان کائرہ نے پہلا گورنر گلگت بلتستان تعینات ہونے کے لئے شیروانی بھی پہن لی تھی بعد میں معاملات وہیں ٹھپ ہوکر رہ گئے۔2009 سے پہلے تو اس علاقے میں چوتھے روز ڈیلی اخبارات وہاں پہنچتے تھے ۔
مسلم کانفرنس اور پاکستان کے درمیان یہ معاہدہ گلگت بلتستان کو پاکستان کے زیرِ انتظام لانے کی بنیاد بنا، حالانکہ قانونی طور پر یہ خطہ جموں و کشمیر کے تنازعے سے جڑا ہوا ہے۔ معاہدہ کراچی کے تحت گلگت بلتستان کےانتظامات پاکستان کےکنٹرول میں آئے، لیکن یہ مسئلہ آج بھی سیاسی اور قانونی طور پر متنازعہ ہے۔
یہ معاہدہ پاکستان اور جموں و کشمیر کے تنازعے کی تاریخ میں ایک اہم موڑ سمجھا جاتا ہے، جس پر مختلف آرا اور مباحثے جاری رہتے ہیں۔ اس خطے کی اہمیت کئی اعتبار سے بہت زیادہ ہے،میری پاکستان کے طاقتور حکمرانوں سےدست بدستہ گزارش ہے اس خطے کے لوگوں کو زیادہ سے زیادہ مراعات دی جائیں اگر اس علاقے کے لوگ وفاق کی سیاسی جماعتوں کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں تو یہ نیک شگون ہے اس کی حوصلہ افزائی کی جائے حساس معاملہ ہے خالد خورشید ہو، مہدی شاہ ہویاحافظ حفیظ الرحمان ہوں ان کو کھل کر سیاست کرنے کی اجازت دی جائے۔

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: آزاد کشمیر کی حکومت مسلم کانفرنس پاکستان کے اس علاقے کشمیر کے نے گلگت کے ساتھ

پڑھیں:

بیرسٹر سلطان محمود چوہدری سے چوہدری انوار الحق کی ملاقات

اس موقع پر دونوں رہنمائوں کا کہنا تھا کہ بھارت مقبوضہ کشمیر میں بڑے پیمانے پر انسانی حقوق کی پامالیاں جاری رکھے ہوئے ہے اور وہاں کشمیری عوام کو بدترین صورتحال کا سامنا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ آزاد کشمیر کے صدر بیرسٹر سلطان محمود چوہدری اور وزیراعظم چوہدری انوارلحق نے مقبوضہ کشمیر میں نہتے کشمیریوں پر جاری بھارتی مظالم کی شدید مذمت کی ہے۔ ذرائع کے مطابق بیرسٹر سلطان محمود چوہدری سے چوہدری انوارلحق کی ایوان صدر مظفرآباد میں تفصیلی ملاقات ہوئی۔ اس موقع پر انہوں نے کہا کہ بھارت مقبوضہ کشمیر میں بڑے پیمانے پر انسانی حقوق کی پامالیاں جاری رکھے ہوئے ہے اور وہاں کشمیری عوام کو بدترین صورتحال کا سامنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مقبوضہ کشمیر کی بھارتی تسلط سے آزادی کیلئے اور مقبوضہ علاقے میں جاری بھارتی ظلم و بربریت کے خلاف بیس کیمپ سے اندرون و بیرون ملک بھرپور آواز اٹھائی جائے گی اور مودی حکومت کا مکروہ چہرہ عالمی برادری کے سامنے بے نقاب کیا جائے گا۔ بیرسٹر سلطان محمود چوہدری نے آزاد کشمیر میں گوڈگورننس کے قیام کی کوششیں تیز کرنے پر زور دیا تاکہ آزاد ریاست میں خوشحالی اور تعمیر و ترقی کے ایک نئے دور کا آغاز ہو اور عام آدمی کا معیار زندگی بھی بہتر بنانے میں مدد مل سکے۔ ملاقات میں باہمی دلچسپی سمیت دیگر امور پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا۔

متعلقہ مضامین

  • حریت کانفرنس آزاد کشمیر شاخ کا تعزیتی اجلاس
  • پاراچنار کی صورتحال، اتوار کے روز گللگت میں اہم فیصلے ہونگے، آغا راحت نے اعلان کر دیا
  • الیکشن کمیشن گلگت بلتستان نے ووٹرز کی شکایات کے ازالے کیلئے سوفٹ ویئر متعارف کرا دیا
  • گلگت بلتستان حکومت نے بھارتی آرمی چیف اور وزیر داخلہ کا بیان مسترد کر دیا
  • گلگت بلتستان، نیشل ہیلتھ کیئر پروگرام کے 600 ملازمین فارغ
  • بیرسٹر سلطان محمود چوہدری سے چوہدری انوار الحق کی ملاقات
  • صدر ن لیگ آزاد کشمیر شعبہ خواتین مریم کشمیری کی مریم ادریس سے ملاقات
  • گلگت بلتستان، بجلی کے منصوبوں کی منظور شدہ لاگت میں اربوں روپے کا اضافہ
  • محصولات کے ہدف کو ہر صورت یقینی بنایا جائے، وزیر اعلی گلگت بلتستان
  • دیامر: علما کے فتویٰ کے بعد امداد میں ملی انگیٹھیاں نذر آتش