اسلام آباد(نیوز ڈیسک) اگر عمران خان نے ’’جارحانہ‘‘ بیانات دینے کا سلسلہ بند نہ کیا تو حکومت اور پی ٹی آئی کے درمیان مذاکرات کا آگے بڑھنا مشکل ہوجائے گا۔

عمران خان کا تازہ ترین بیان، وزیراعظم اور آرمی چیف پر تنقید، پہلے ہی مذاکراتی عمل کو متاثر کر چکی ہے۔ نہ صرف حکومتی فریق بلکہ تحریک انصاف میں بھی کچھ رہنما ایسے ہیں جنہیں دو طرفہ مذاکرات کے آغاز کے بعد سے سوشل میڈیا پر سامنے آنے والے عمران خان کے بیانات پر تحفظات ہیں۔

مذاکرات کرنے والی حکومت کی ٹیم کے ترجمان سینیٹر عرفان صدیقی نے رابطہ کرنے پر کہا کہ ہم اب تک یہ بات نہیں سمجھ سکے کہ عین مذاکراتی عمل کے دوران بانی پی ٹی آئی عمران خان نے اتنا سخت اور اتنا تلخ ٹوئیٹ کیوں کیا؟

انہوں نے ایک مرتبہ پھر حمود الرحمان کمیشن یاد دلایا، ایک مرتبہ پھر یحییٰ خان کا حوالہ دیا، ایک مرتبہ پھر موجودہ صورتحال کو یحییٰ خان کے دور سے تشبیہہ دی، وزیراعظم شہباز شریف کو جنرل عاصم منیر کی کٹھ پتلی اور اردلی قرار دیا۔

سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا کہ یہ ٹوئیٹ نہ صرف مذاکراتی عمل پر مہلک حملہ ہے بلکہ اس نے حکومتی مذاکراتی ٹیم کی مخلصانہ کوششوں کو بھی شدید نقصان پہنچایا ہے، اس طرح کی بات کی کسی جماعتی رہنما یا کارکن کی طرف سے تو توقع کی جا سکتی ہے لیکن عمران خان کی طرف سے ایسی بات بہت تکلیف دہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ مذاکراتی عمل کا آغاز اُن کے اصرار پر ہوا، ان کی طرف سے 5؍ دسمبر کو کمیٹی بنی، اب اگر عمران خان خود ہی اس طرح کے ٹوئیٹ کریں گے تو اس کا کیا مطلب لیا جائے؟

عرفان صدیقی نے کہا کہ تصور کریں اگر ایسا ٹوئیٹ وزیراعظم، صدر زرداری، بلاول بھٹو یا میاں نواز شریف کی طرف سے آتا تو پی ٹی آئی کیا قیامت کھڑی کر دیتی؟ وہ ہرگز مذاکرات جاری نہ رکھتی۔

انہوں نے کہا کہ عمران خان کے ٹوئیٹس مذاکراتی عمل کیلئے بڑا خطرہ ہیں اور یہ بند نہ ہوئے تو مذاکرات جاری رکھنا مشکل ہو جائے گا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ پی ٹی آئی کے کچھ سرکردہ رہنما بھی عمران خان اور پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس کو چلائے جانے کے انداز (ہینڈلنگ) سے خوش نہیں ہیں۔

یہ رہنما عمران خان کی عسکری قیادت پر مسلسل تنقید اور پارٹی کے سوشل میڈیا کے پروپیگنڈے پر زیادہ پریشان ہیں۔ پی ٹی آئی کے ایسے رہنماؤں میں یہ احساس ہے کہ اگر عمران خان فوج کی اعلیٰ کمان پر تنقید بند نہیں کرتے تو کوئی مذاکراتی عمل کامیاب ہو سکتا ہے اور نہ پارٹی کو سیاسی جگہ ملے گی۔

پی ٹی آئی ذرائع کا کہنا ہے کہ ماضی میں کچھ رہنماؤں نے یہ مسئلہ عمران خان کے ساتھ بھی اٹھایا تھا اور انہیں مشورہ دیا تھا کہ وہ پی ٹی آئی رہنماؤں کی ایک ٹیم کو اپنے (عمران خان) اور پارٹی کے آفیشل سوشل میڈیا اکاؤنٹس کو ہینڈل کرنے دیں۔ لیکن عمران خان نے کوئی مثبت جواب نہیں دیا۔

حال ہی میں اڈیالہ جیل میں عمران خان سے ملاقات کرنے والے فواد چوہدری نے کہا تھا کہ انہوں نے عمران خان سے کہا کہ پی ٹی آئی کو افراد کی بجائے مسائل پر توجہ دینے اور فوج اور اس کی اعلیٰ کمان کے ساتھ کشیدگی کم کرنے کی ضرورت ہے تاکہ سیاست میں منصفانہ جگہ ملے۔

فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ انہوں نے عمران خان سے پارٹی اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان کشیدگی کم کرنے کیلئے بیرون ملک سے اپنے ’’ایکس‘‘ (سابقہ ​​ٹویٹر) اکاؤنٹ کا کنٹرول پاکستان واپس لانے کو بھی کہا۔ عمران خان کا ایکس اکاؤنٹ آرمی چیف سمیت ملٹری اسٹیبلشمنٹ پر تنقید کیلئے استعمال ہو رہا ہے۔
(انصار عباسی)

.

ذریعہ: Daily Mumtaz

کلیدی لفظ: پی ٹی ا ئی کے سوشل میڈیا نے کہا کہ کی طرف سے انہوں نے خان کے

پڑھیں:

عمان میں وٹکوف کا کڑا امتحان

اسلام ٹائمز: غزہ اور یوکرین کے بارے میں مذاکرات کے دروازے بند ہو جانے کے بعد عمان کے دارالحکومت مسقط میں ایران سے بالواسطہ جوہری مذاکرات اسٹیو وٹکوف کے لیے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوانے اور وائٹ ہاوس میں مخالفین کا منہ بند کرنے کے لیے سنہری موقع ہے۔ مشرقی یورپ اور بحیرہ روم کے مشرقی ساحل پر امن کی برقرار میں ناکامی نے وٹکوف کی سفارتی صلاحیتوں کے بارے میں بہت سے سوال اٹھا دیے ہیں اور واشنگٹن میں اس کے خلاف سازشوں کا خطرہ بہت بڑھ گیا ہے۔ ٹرمپ کے ذہن میں یہ تصور ہے کہ وٹکاف مطلوبہ نتائج حاصل کر سکتا ہے لہذا اسی بنا پر انہیں مشرق وسطی کا خصوصی ایلچی مقرر کیا گیا ہے۔ البتہ یوکرین اور مشرق وسطی میں پائیدار امن کا دارومدار انصاف اور قومی حاکمیت جیسے مسائل پر ہے اور یہ ایسے مسائل ہیں جن سے وٹکوف دوری اختیار کرتے ہیں۔ تحریر: سید رضا حسینی
 
ڈونلڈ ٹرمپ حکومت کی خارجہ سیاست کے خدوخال اسی وقت واضح ہو گئے تھے جب انہوں نے حلف برداری کی تقریب میں تقریر کی تھی۔ رئیل اسٹیٹ کے تاجر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی تقریر میں کہا: "امریکہ مزید دوسری قوموں کے مالی اخراجات قبول نہیں کرے گا اور کسی کو بھی سفید چک نہیں دیں گے۔" امریکی صدر کے قریبی دوست، اسٹیو وٹکوف کو وزارت خارجہ کے عہدے پر فائز کیے جانے سے پہلے سفارتکاری کا کوئی تجربہ نہیں تھا۔ لیکن اس کے باوجود ان میں ٹرمپ کی نسبت دوسروں سے تعاون کرنے کا زیادہ جذبہ پایا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر انہیں سابق صدر جو بائیڈن کی کابینہ سے ٹرمپ کو حکومت کی منتقلی کی ذمہ داری سونپی گئی تھی۔ ایسا بھی نہیں کہ وائٹ ہاوس میں ٹرمپ کے اس قریبی دوست کا کوئی حریف موجود نہ ہو بلکہ وزیر خارجہ مارکو روبیو اور قومی سلامتی کے مشیر مائیک والٹز وٹکوف کے سفارتی طرز عمل کے مخالف ہیں۔
 
غزہ کی مبہم صورتحال
امریکی صدر کے خصوصی ایلچی اسٹیو وٹکوف کا پہلا امتحان مغربی ایشیا میں اس وقت شروع ہوا جب انہوں نے مقبوضہ فلسطین کا دورہ کیا اور صیہونی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو سے بات چیت کی۔ اس ملاقات کے بعد وٹکوف نے صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے اسرائیلی یرغمالیوں کو آزاد کروانے کا وعدہ کیا تھا۔ اگرچہ اسٹیو وٹکوف نے غزہ سے فلسطینیوں کو جبری جلاوطن کرنے پر مبنی ڈونلڈ ٹرمپ کے منصوبے کی حمایت کر کے اپنی نیک نیتی مشکوک بنا لی لیکن اس سال کے آغاز سے انہوں نے اسرائیل اور حماس کے درمیان مذاکرات میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ انہوں نے جنیوا میں جنگ بندی معاہدے کے حصول میں بہت مدد کی جس کے ذریعے کافی تعداد میں اسرائیلی یرغمالی آزاد ہوئے ہیں۔ صیہونی رژیم کی جانب سے جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزی کے بعد مقبوضہ فلسطین میں وٹکوف کی کامیابیاں خطرے کا شکار ہو گئی ہیں۔
 
یوکرین میں جنگ کے شعلے
سعودی عرب کی میزبانی میں روس اور امریکہ کے درمیان یوکرین جنگ سے متعلق مذاکرات انجام پائے تھے۔ ان مذاکرات میں اسٹیو وٹکوف کے ہمراہ وزیر خارجہ اور قومی سلامتی کے مشیر بھی امریکی وفد میں موجود تھے۔ وٹکوف نے ان مذاکرات میں ہنری کیسنجر کی حکمت عملی دہرانے کی کوشش کی۔ یاد رہے ہنری کیسنجر نے 1970ء کے عشرے میں ویت نام کی دلدل سے نکلنے اور اقتصادی بحران پر قابو پانے کے لیے چین سے قربت پیدا کرنے کی حکمت عملی اختیار کی تاکہ اس طرح سابق سوویت یونین اور چین میں اختلافات ڈال کر مطلوبہ سیاسی اہداف حاصل کر سکے۔ آج وٹکوف اس کے برعکس حکمت عملی اختیار کرنے کی کوشش کر رہا ہے یعنی روس سے دوستی بڑھا کر اسے چین سے دور کرنے کی کوشش میں مصروف ہے۔ وٹکوف نے روس کا دورہ کیا اور روسی صدر ولادیمیر پیوتن سے ملاقات کی۔ لیکن ریپبلکنز کی جنگ طلب پالیسیاں وٹکوف کی راہ میں رکاوٹ بن چکی ہیں۔
 
اندرونی دشمن
امریکی صدر کے خصوصی ایلچی اسٹیو وٹکاف یوکرین اور غزہ میں سفارتکاری کے ساتھ ساتھ اندرونی دشمنوں سے بھی روبرو ہیں۔ ریپبلکن نیوکونز ایک طرف نجی محفلوں میں ایک سفارتکار کی حیثیت سے وٹکوف کی صلاحیتوں کو چیلنج کر رہے ہیں جبکہ دوسری طرف وٹکوف کے مطلوبہ تفکر ٹرمپ ازم (سازباز کو فوجی اقدام پر ترجیح حاصل ہونا) کے بھی شدید مخالف ہیں۔ اسٹیو وٹکاف جو ٹرمپ ازم کی جانب رجحان رکھتے ہیں کسی بھی فوجی اقدام سے پہلے سازباز اور معاہدہ انجام دینے کی بھرپور کوشش کے حامی ہیں۔ وہ براہ راست اور تیز سفارتکاری پر یقین رکھتے ہیں اور مذاکرات پر مبنی ہتھکنڈے استعمال کرتے ہیں جن کا تجربہ انہیں رئیل اسٹیٹ کے سودوں سے ہوا ہے۔ دوسری طرف مارکو روبیو اور مائیک والٹز روایتی ریپبلکنز کی سیاست کے حامی ہیں اور فوجی طاقت پر بہت زیادہ بھروسہ کرتے ہیں۔
 
عمان میں سنہری موقع
غزہ اور یوکرین کے بارے میں مذاکرات کے دروازے بند ہو جانے کے بعد عمان کے دارالحکومت مسقط میں ایران سے بالواسطہ جوہری مذاکرات اسٹیو وٹکوف کے لیے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوانے اور وائٹ ہاوس میں مخالفین کا منہ بند کرنے کے لیے سنہری موقع ہے۔ مشرقی یورپ اور بحیرہ روم کے مشرقی ساحل پر امن کی برقرار میں ناکامی نے وٹکوف کی سفارتی صلاحیتوں کے بارے میں بہت سے سوال اٹھا دیے ہیں اور واشنگٹن میں اس کے خلاف سازشوں کا خطرہ بہت بڑھ گیا ہے۔ ٹرمپ کے ذہن میں یہ تصور ہے کہ وٹکاف مطلوبہ نتائج حاصل کر سکتا ہے لہذا اسی بنا پر انہیں مشرق وسطی کا خصوصی ایلچی مقرر کیا گیا ہے۔ البتہ یوکرین اور مشرق وسطی میں پائیدار امن کا دارومدار انصاف اور قومی حاکمیت جیسے مسائل پر ہے اور یہ ایسے مسائل ہیں جن سے وٹکوف دوری اختیار کرتے ہیں۔
 
کیا وٹکوف اچھی پولیس کا کردار ادا کر رہا ہے؟
اسٹیو وٹکوف نے معروف امریکی اینکر ٹاکر کارلسن سے بات چیت میں کہا کہ قطر چونکہ خطے میں استحکام برقرار رکھنے کی بہت زیادہ کوشش کرتا ہے لہذا امریکی ذرائع ابلاغ میں اسے ایران کا اتحادی قرار دیا جاتا ہے جبکہ اس ملک کا مقصد خطے میں استحکام ہے۔ وٹکوف نے مزید وضاحت دیتے ہوئے کہا کہ خلیجی ریاستیں باہمی اختلافات کے باوجود اسرائیل سے وسیع تعلقات رکھتی ہیں اور ان ممالک کے درمیان اقتصادی اور فنی تعاون کے نتیجے میں مشرق وسطی میں ایک بڑی منڈی تشکیل پا سکتی ہے جو حتی یورپ کا مقابلہ کر سکتی ہے۔ وٹکوف نے علاقائی مسائل کے حل کے لیے سفارتکاری پر زور دیتے ہوئے کہا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ اگر ایران بھی تیار ہو تو سفارتی طریقے سے مناسب راہ حل تلاش کیا جا سکتا ہے۔ کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ وٹکوف کے یہ بیانات خطے میں امریکہ کے توسیع پسندانہ عزائم پر پردہ ڈالنے کی کوشش ہے۔

متعلقہ مضامین

  • پی ایس ایل: لاہور قلندرز اور کوئٹہ گلیڈی ایٹرز آج آمنے سامنے ہونگے
  • اسٹیبلشمنٹ سے مصالحت کی کوششیں، جارحانہ موقف پر پی ٹی آئی کی خارجہ امورکمیٹی تحلیل
  • نتن یاہو، اسرائیل کے وجود کو لاحق اندرونی خطرہ
  • بلوچستان میں مذاکراتی تعطل، بلوچ خواتین کی رہائی پر ڈیڈلاک برقرار
  • اسٹبلشمنٹ سے مذاکرات کا میرے علم میں نہیں، بانی سے ملاقات کے بعد حقائق سامنے آئینگے‘سلمان اکرم راجہ
  • ہم فرانسیسی صدر کے بیانات کا خیرمقدم کرتے ہیں، حماس
  • عمان میں وٹکوف کا کڑا امتحان
  • سفارت کاری کو ایک حقیقی موقع دینا چاہتے ہیں، ایران
  • اسدعمر نے عثمان بزدار کو وزیراعلیٰ پنجاب مقرر کرنے کو سنگین غلطی قرار دے دیا
  • بلوچستان کے وزرا کی اختر مینگل کے بیانات کی مذمت، دہشتگردوں کی ’’بی‘‘ ٹیم قرار دیدیا