دارالخیر میرواعظ منزل کی طرف سے آتشزدگی کے متاثرین کو امداد کی فراہمی
اشاعت کی تاریخ: 10th, January 2025 GMT
میر واعظ نے سرینگر کے علاقے بہائوالدین نوہٹہ میں آتشزدگی کے ہولناک واقعے پر گہرے دکھ اور افسوس کا اظہار کیا ہے۔ اس واقعے میں چھ مکانات مکمل طور پر تباہ اور دیگر کو نقصان پہنچا تھا۔ اسلام ٹائمز۔ دارالخیر میر واعظ منزل نے سرینگر کے علاقے بہائوالدین نوہٹہ میں آتشزدگی کے ہولناک واقعے پر گہرے دکھ اور افسوس کا اظہار کیا ہے۔ اس واقعے میں چھ مکانات مکمل طور پر تباہ اور دیگر کو نقصان پہنچا تھا۔ ذرائع کے مطابق دارالخیر نے سرینگر میں تنظیم کے چیئرمین میر واعظ عمر فاروق کی جانب سے متاثرہ خاندانوں کے ساتھ ہمدردی اور یکجہتی کا اظہار کیا ہے اور متاثرہ خاندانوں کو فوری امداد کی فراہمی اور ان کی بحالی کی ضرورت پر زور دیا ہے۔اس دوران مفتی غلام رسول سامون کی قیادت میں دارالخیر میر واعظ منزل کے ایک وفد نے بہائوالدین صاحب نوہٹہ سرینگر جا کر متاثرہ خاندانوں میں چاول، آٹا، کمبل اور کچن کٹ اور دیگر بنیادی ضرورت کا سامان تقسیم کیا اور ان کے ساتھ ہمدردی اور یکجہتی کا اظہار کیا۔ دارالخیر میر واعظ منزل نے اس بات پر زور دیا کہ اپنے قیام کے بعد سے تنظیم نے قدرتی آفات کے دوران ضرورت مند افراد کو ہر ممکن مدد کی ہے۔ تنظیم متاثرین کی بحالی کے لیے اپنی کوششوں میں ثابت ہے اور مشکل کی ہر گھڑی میں کمیونٹی کو ہر ممکن مدد فراہم کرتی ہے۔
.ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: دارالخیر میر واعظ منزل میر واعظ
پڑھیں:
بھارت کی وکلا تنظیم نے وقف ایکٹ کو متعصبانہ قانون قرار دے دیا
وکلاء تنظیم نے کہا کہ ترمیم کو ایک سوچے سمجھے ایجنڈے کاحصہ کہا جا سکتا ہے تاکہ طریقہ کار میں رکاوٹوں، جانبدارانہ تحقیقات اور اکثریتی برادری کی طرف سے زمینوں پر قبضے کو قانونی حیثیت دی جا سکے۔ اسلام ٹائمز۔ آل انڈیا لائرز ایسوسی ایشن فار جسٹس (AILAJ) نے وقف قانون میں حالیہ ترامیم کی شدید مذمت کرتے ہوئے اسے متعصبانہ قانون قرار دیا ہے۔ ذرائع کے مطابق گزشتہ ہفتے نافذ ہونے والے اس قانون سے بھارت بھر میں بالخصوص مسلمانوں کی طرف سے بڑے پیمانے پر احتجاج شروع ہوا ہے۔ وکلاء تنظیم نے ایک بیان میں حکومت کی جانب سے وقف املاک پر ممکنہ قبضے سمیت اس قانون کے کئی اہم پہلوئوں کو اجاگر کیا ہے۔ تنظیم نے کہا کہ کہ یہ قانون پانچ سال تک اسلام پر عمل کرنے والے مسلمانوں کے وقف املاک پر پابندی لگاتا ہے جسے غیر مسلموں اور اس معیار پر پورا نہ اترنے والے مسلمانوں کے خلاف امتیازی سلوک کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ تنظیم نے کہا کہ قانون ضلع کلکٹر میں اختیارات کو مرکوز کرنے کی کوشش ہے جس سے متنازعہ زمینوں پر بغیر کسی کارروائی کے ریاستی قبضے کو ممکن بنایا گیا ہے۔ نیا قانون وقف بورڈ میں غیر مسلموں کی نمائندگی کو لازمی قرار دیتا ہے جو ادارہ جاتی خودمختاری کو کمزور کرتا ہے اور جبری قبضے کی راہ ہموار کر سکتا ہے۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ اس ترمیم کے دور رس اثرات مرتب ہو سکتے ہیں اور مسلمانوں کے خلاف منظم امتیاز، ریاست کی سرپرستی میں اراضی پر قبضے اور مسلمانوں کے دعوئوں کو خارج کرنے کی راہ ہموار ہو گئی ہے۔ بیان میں کہا گیا کہ یہ قانون آئین کے آرٹیکل 25 اور 300A کی خلاف ورزی ہے جو مذہب کی آزادی اور جائیداد کے حقوق کے تحفظ کی ضمانت دیتا ہے۔ وکلاء تنظیم نے کہا کہ ترمیم کو ایک سوچے سمجھے ایجنڈے کاحصہ کہا جا سکتا ہے تاکہ طریقہ کار میں رکاوٹوں، جانبدارانہ تحقیقات اور اکثریتی برادری کی طرف سے زمینوں پر قبضے کو قانونی حیثیت دی جا سکے۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ وقف ترمیمی قانون 2025ء مسلمانوں کو ظلم و جبر کا نشانہ بنانے اور پسماندگی کی طرف دھکیلنے کی حکومت کی کوششوں کا تسلسل ہے۔