Jasarat News:
2025-04-13@15:28:30 GMT

موجودہ سیاسی صورتحال، بگاڑ اور حل کے امکانات

اشاعت کی تاریخ: 10th, January 2025 GMT

موجودہ سیاسی صورتحال، بگاڑ اور حل کے امکانات

(آخری حصہ)
2018 کے انتخابات میں عمران خان نے تبدیلی، کرپشن ختم کرنے، آئی ایم ایف کے پاس نہ جانے، کشکول توڑنے، پچاس لاکھ گھر، ایک کروڑ نوکریوں، گرین پاسپورٹ کی عزت، پاکستان میں غیر ملکیوں کی روزگار کی تلاش میں آمد جیسی سحر انگیز باتیں نعرے اور وعدے کیے، گو کہ پی ٹی آئی کو ان کا دور حکمرانی مکمل کرنے کا موقع نہیں ملا لیکن اقتدار کے پونے چار سالہ دور میں وقت کے دھارے نے کوئی قدم بھی ان کے عوام سے کیے وعدوں اور دعوؤں کی طرف بڑھتے نہیں دیکھا۔ پی ٹی آئی نے ریاست مدینہ کے دعوے بھی کیے، لیکن اس جانب کوئی عملی اقدام نظر نہیں آیا، ٹیلی وژن چینل اور میڈیا حسب سابق عریانی اور فحاشی کے ابلاغ کے مراکز بنے رہے۔

جنرل ضیا کے 90 دن میں الیکشن کرانے اور جنرل مشرف کے وردی اتارنے کے وعدوں کی بے توقیری خود ان ہی کے ہاتھوں کے ساتھ ساتھ اس ملک کی تین بڑی سیاسی جماعتیں (ن) لیگ، پی پی اور پی ٹی آئی اقتدار کی بھول بھلیوں میں ایسے گم ہوئیں کہ الیکشن سے قبل کیے گئے دعوے وعدے اور باتیں سب فراموش کر بیٹھے، غربت کے مارے اور تعلیم اور صحت جیسی بنیادی ضروریات سے محروم عوام نہ جانے کیوں اب بھی اپنے اپنے بتوں سے امیدیں وابستہ کیے ہوئے ہیں۔

بھتوں اور بوری بند لاشوں کی سیاست کی موجد ایم کیو ایم جنہیں ماضی میں عمران خان نفیس لوگوں کا لقب دے چکے ہیں اور حال ہی میں ایم کیو ایم کے سندھ کے گورنر کامران ٹسوری جنہیں مفتی تقی عثمانی نے سیدنا عمر فاروق اعظم کی روایت کو زندہ کرنے کے مماثل قرار دیا، آج وہی ایم کیو ایم کہاں اور کس کے ساتھ کھڑی ہے۔ تین کروڑ سے زائد کراچی کی آبادی کے تناظر میں زمینی حقائق کے مطابق بمشکل لاکھ سوا لاکھ ووٹ لینے والی ایم کیو ایم کو 17 قومی اسمبلی کی بخشی سیٹوں کی بات ہو یا فیصل واوڈا، محسن نقوی اور انوار الحق کاکڑ جیسے سینیٹرز کی مثلث، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب ہم اسٹیبلشمنٹ کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں تو ہم دوسرے عوامل بشمول میڈیا اور اجرت پر مامور صحافیوں کو کیوں فراموش کر جاتے ہیں چاہے وہ کسی سیاسی پارٹی کے ’’پے رول‘‘ پر ہوں یا مقتدر طبقات اور اسٹیبلشمنٹ کی ’’ترجمانی‘‘ کے فرائض کی انجام دہی پر مامور ہوں۔

پاکستان میں سردست اصل جنگ اقتدار کی ہے۔ بظاہر ایک دوسرے کے لیے ناقابل برداشت رویوں کی حامل لیکن جنرل باجوہ کا ایکسٹینشن اور آئی ایم ایف سے معاہدوں جیسے اہم ترین اشوز پر حکومت اور اپوزیشن کی تین بڑی جماعتیں (ن) لیگ، پی پی اور پی ٹی آئی پارلیمینٹ کے اندر اور باہر ایک پیج پر اور ایک ہی موقف کی سو فی صد حامی رہیں، اگر آئی ایم ایف کی غلامی میں پی پی اور (ن) لیگ نے ملکی معیشت کو تباہ حال کیا اور اسی کی پالیسیوں پر عمل کرتے ہوئے ملک میں مہنگائی کا طوفان، بجلی کے بھاری بلوں، ٹیکسیوں کی بھرمار اور مہنگائی ان سب نے عوام کی کمر توڑ رکھی تو آئی ایم ایف ہی کی غلامی قبول کرنے والی پی ٹی آئی کیسے اس ملک کو معاشی مسائل کی دلدل اور مہنگائی کے عفریت سے نکال پائے گی؟۔ اہم اقتصادی اور معاشی مسائل کے ساتھ پاکستان کا مسئلہ نظریاتی بھی ہے، سیاسی جماعتوں سے لے کر میڈیا، وزارتوں سے اداروں اور محکموں تک ہر جگہ سیکولر، لبرل، قادیانی اور مغربی اقدار کے دلدادہ اور غلامانہ ذہنیت کے لوگ بِراجمان ہیں اور ان سب کا ایجنڈا ایک ہی ہے کہ پاکستان سب کچھ بن جائے لیکن ایک فلاحی اسلامی ریاست جو اس کا مقصد وجود ہے کے سفر کی سمت نہ اختیار کر سکے اور ایسی کوشش کرنے والی سیاسی و دینی قوتوں کو دیوار سے لگا دیا جائے۔

پاکستان میں عوامی امنگوں کے مطابق حکومتوں کی تبدیلی کا ذریعہ صرف عام انتخابات ہیں، لیکن اگر انتخابات ڈھونگ ہوں جیسا کہ فروری 2024 میں اربوں روپے لٹا کر ڈراما رچایا گیا تو موجودہ اور پیچیدہ صورتحال میں پاکستان میں غیر جانبدار صاف اور شفاف انتخابات کا انعقاد بعید از قیاس ہے جب تک فروری 2024 کے انتخابات میں فارم 47 کے ذریعہ بڑے پیمانے پر انتخابی نتائج میں رد و بدل اور کراچی میں پی پی کے دھاندلی مئیر کے الیکشن کی تحقیقات اور ذمے داران کو کیفر کردار تک نہیں پہنچایا جاتا اور نتائج کے رد وبدل کے ذریعہ اسمبلی میں آنے والے افراد کو تاحیات نا اہل قرار نہیں دیا جاتا کوئی بھی انتخاب معتبر اور قابل قبول نہیں ہوگا۔ گزشتہ انتخابات میں پی ٹی آئی ہی سب سے زیادہ متاثر فریق ہے، فارم 47 کے ذریعہ اس سے حق حکمرانی چھینا گیا ہے لہٰذا اسے ہی آگے بڑھ کر اور دیگر سیاسی پارٹیوں کو ساتھ ملا کر انتخابی دھاندلی کے حوالے سے ایک پر امن تحریک شروع کرنی چاہیے تھی جو کہ نہ ہو سکا، گو کہ اب پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی بہت چکا ہے لیکن اب بھی اگر پی ٹی آئی کم سے کم نکاتی ایجنڈے پر متاثرہ جماعتوں کو متحد کرے اور ’’لیڈ‘‘ کرے تو عوام کا ایک بپھرا ہوا سمندر فارم 47 کی متاثرہ جماعتوں کی پشت پر ہوگا جس کے مطالبات نظر انداز کرنا نہ کسی اسٹیبلشمنٹ کے بس میں ہوگا نہ کوئی حکمران ٹھیر سکے گا، آخر ماضی قریب میں بشار الا اسد اور شیخ حسینہ واجد کا حشر اور عبرت ناک انجام کس کے حافظے سے محو ہوگا؟

اہل وطن سوچیں اور خود فیصلہ کریں کہ اب تک پی پی، (ن) لیگ، فوجی جرنیل اور پی ٹی آئی کے دور حکومت میں نہ ملک اور نہ عوام کے حالات بدل سکے بلکہ سیکورٹی کا خطرہ بھی رہا تو پھر کون ہے جو ملک اور عوام کے حالات بدل سکتا ہے؟ مہنگائی کا خاتمہ بجلی بلوں اور ٹیکسوں میں کمی لا سکتا ہے؟، حکومتی اخراجات میں کمی، وزیروں، ارکان اسمبلی جرنیلوں اور ججوں کی ناجائز مراعات ختم کرسکتا ہے؟، مسئلہ فلسطین، مسجد اقصیٰ اور کشمیر کی آزادی کے لیے امت مسلمہ کو یکجا اور عملی قدم کی جانب بڑھ سکتا ہے؟ اسی سوال کے جواب میں پاکستان کے عوام کے مسائل کا حل مضمر ہے۔ یہی چراغ جلیں گے تو روشنی ہو گی کے مصداق پاکستان کو مسائل سے نکالنے اور عوام کو خوشحال بنانے کے لیے کرپٹ عناصر سے پاک، بے داغ ماضی اور عوامی خدمت کے جذبے سے بھر پور ایک اہل اور ایک منظم جماعت اور صالحیت اور صلاحیت سے مالا مال ایک دیانتدار قیادت ہی ملک کو دشمنوں کے ہاتھوں سے محفوظ، مسائل سے آزاد اور عوام کو خوشحال رکھ سکتی ہے۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: ا ئی ایم ایف پاکستان میں پی ٹی ا ئی اور عوام اور پی

پڑھیں:

احتساب کو مئوثر بنانے کے تقاضے

پاکستان میں دانشوروں کاایک طبقہ ایسا پیدا ہوچکا ہے جنہیں ملک میں ہر چیز خراب نظر آتی ہے یہ سچ ہے کہ ہر ادارے میں برائیاں بھی ہوتی ہیں اور اچھائیاں بھی لیکن دیکھنے میں یہی آیا ہے کہ بڑی بڑی اچھائیوں کونظر انداز کیاجاتا ہے جبکہ معمولی برائیوں کو بڑھاچڑھا کر اجاگر کیا جاتا ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان کے بیشتر اداروں میں کرپشن ایک ناسور کی طرح پھیلتا رہا چونکہ سبھی اس سے مستفیض ہو رہے تھے اس لیے احتساب کی کوئی روایت نہ پڑسکی۔ رشوت کو کنٹرول کرنے کے لیے اینٹی کرپشن کا محکمہ قائم کیاگیاابتدائی برسوں میں اس محکمے کی کارکردگی بڑی اچھی تھی لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کچھ کالی بھیڑوں نے اس محکمے کی کارکردگی کو بری طرح سے متاثر کیایوں اس کی افادیت کم ہوتی چلی گئی۔ اور یہ کہاوت مشہور ہوگئی لے کے رشوت پھنس گیا ہے دے کے رشوت چھوٹ جا۔ جب رشوت کی بیماری اعلیٰ حکام تک پھیل گئی تو ایف آئی اے کومیدان میں اتارا گیا۔ جب کرپشن ایوانوں تک جاپہنچی اور زبان خلق بننا شروع ہوئی تو صاحب اقتدار لوگوں کو عوام کومطمئن کرنے کے لیے مجبوراً احتساب کاادارہ قائم کرنا پڑا۔ احتساب کا عمل تو شروع ہوگیا لیکن پہلے ہی دن سے اسے سیاسی دشمنی تک محدود کردیاگیا اس لیے اس پر سارے ملک میں کھل کر تنقید ہوتی رہی جب فوجی حکومت آئی تو انہوں نے قومی احتساب بیوروتشکیل دیا جسے حرف عام میں نیب کہا جاتا ہے نیب کو یہ الزام دیا جاتا رہا ہے کہ وہ بھی ایک حد تک جانبدار ہے اور ان پر بھی تنقید ہوتی رہی کیونکہ کچھ بااثر افراد جن کے خلاف نیب تحقیقات کررہاتھا وہ حکومت کا ساتھ دے کر اپنے خلاف تحقیقات رکوانے میں کامیاب ہوگئے ہیں اصل میں یہ لوگ ضمانتوں پررہا ہوئے ہیں جس طرح سے ماضی میں لوگ جیل میں بند ہونے کے باوجود الیکشن میں حصہ لے کر کامیاب ہوتے رہے ہیں اور بعض حالتوں میں وزیر بھی بنے اس کا مطلب یہ ہے کہ قانون میں سقم ہے اور کمزوری ہے یہ کام تو الیکشن کمیشن کا تھا کہ وہ ایسے لوگوں کو الیکشن کے لیے نااہل قرار دیتا اس حوالے سے نیب پر تنقید بلاجواز ہے۔
یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ نیب نے شروع میں بغیر ہوم ورک کے اندھا دھند گرفتاریاں کیں جس سے ملک میں خوف وہراس کی سی فضا پیدا ہوگئی ،مگر آج نیب صاف وشفاف ادارے میں تبدیل ہوچکاہے۔ رہا سوال نیب کے احتساب کا تو بے شمار ایسے افراد کے خلاف کارروائی کی گئی ہے جو نیب میں ہوتے ہوئے گڑبڑ کی کوشش کررہے تھے۔ نیب نے اپنے اندر کالی بھیڑوں کے خلاف کارروائی کرکے خود احتساب کی مثال قائم کی ہے جو لائق تحسین ہے۔ نیب کے حوالے سے ایک عام تاثر یہ ہے کہ سیاستدانوں نے بڑی کرپشن کی ہے۔ نیب سے جب رابطہ کیا گیاتو انہوں نے کہا یہ تاثر صحیح نہیں ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ماسوائے چند سیاست دانوں کے بیشتر کاتعلق بیوروکریسی اور دوسرے لوگوں سے ہے۔ یاد رہے 15کروڑ عوام کا رابطہ بیوروکریسی سے ہی پڑتا ہے۔ سیاستدان تووٹ لے کرگم ہوجاتے ہیں۔ ایک عام آدمی کرپشن سے نجات چاہتا ہے اسے اور کچھ نہیں چاہیے وہ کرپٹ مافیا کے درمیان چکی کی طرح پس کررہ جاتا ہے اوراس کی کوئی داد رسی نہیں ہوتی اس بات میںکوئی شک نہیں کہ اوپر کی سطح پر کرپشن کافی حد تک کنٹرول کی جاچکی ہے اس کاسہرا بھی نیب کوہی جاتا ہے کیونکہ کک بیکس لینے والوں کاحشر عوام اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں کہ کس طرح انہیں کٹہرے میں لاکر کھڑا کیا جاتا ہے لیکن یہ کافی نہیں نیب کو چاہیے کہ وہ اپنا دائر ہ کار وسیع کرکے تحصیل لیول سے شروع کرکے اوپر تک جائیں کیونکہ عام آدمی کا واسطہ اعلیٰ افسران سے کم ہی پڑتا ہے۔ جبکہ بسااوقات چھوٹے سرکاری افسران سے پڑتا ہے۔ اس حوالے سے عوام پر بھی بھاری ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ ہر سطح پرجہاں بھی ان کو کرپشن یا کرپٹ افسر نظر آئے اس کی نشاندہی کریں۔ نشاندہی کرتے وقت صرف اتنا کہہ دینا کہ فلاں شخص بڑا کرپٹ ہے اس نے بڑا مال بنایا ہے اس سے کوئی بات نہیں بنتی نشاندہی کامطلب یہ ہوتا ہے کہ کرپشن کی زیادہ سے زیادہ تفصیلات سامنے لائی جائیں ۔ پلاٹ کتنے ہیں‘ مکان کتنے ہیں‘ گاڑیاں کتنی ہیں‘ بے نام کھاتے کتنے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ نیب اس طرح کی اطلاعات دینے والوں کو تحفظ فراہم کرتا ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ احتساب کس کا ہوکیااس زمرے میں صرف وزیراعظم ‘ وزرائے اعلیٰ ‘ وفاقی وصوبائی وزرا‘ اراکین سینیٹ‘ قومی وصوبائی اسمبلی اور اعلیٰ سرکاری ونیم سرکاری عہدیدار ہی آئیں گے یابات اس سے آگے بڑھے گی کیا بدعنوانی صرف یہ ہے کہ مال بنایا جائے ۔ رشتہ داروں اور دوستوں کو نوازا جائے۔ بے شک یہ سب بدعنوانی ہے لیکن ہم یہاں انٹلکچوئل کرپشن کاذکر کرنا چاہتے ہیں جس سے جہاں ایک طرف حقداروں کاحق مارا جارہا ہے دوسری طرف نااہل لوگوں کو نوازا جارہا ہے۔ مثلاً کسی ادارے میں سینئرافسر موجود ہے لیکن کسی جونیئر کو اس پرلگادیا جائے یہ بھی کرپشن کی ہی شکل ہے اس کے علاوہ یہ کہ شخص کو ایسا عہدہ دے دیاجائے جس کاوہ مستحق نہیں۔
آپ نے دیکھا ہوگا ایک نائب قاصد بھرتی کرنا ہوتاہے تو اس کے لیے اخبار میں اشتہار دیا جاتا ہے لیکن جب کسی ریٹائرڈ افسر کوملازم رکھنا ہوتا ہے تو یہ سب کچھ بغیر اشتہار کے ہوتا ہے۔ بعض حالتوں میں ادارے کی ملازمت کا کوئی سابقہ تجربہ یا پس منظر نہ رکھنے کے باوجود باقاعدہ سروس کے بڑے بڑے قابل لوگ پوری عمر بسر کرنے کے باوجود اس منصب تک نہیں پہنچ پاتے ‘ کیا یہ ان افراد کی حق تلفی اوران سے ناانصافی نہیں اور کیا یہ اخلاقی بدیانتی اور بدعنوانی نہیں۔ نیب کو چاہیے کہ ملک کے سبھی اداروں کی چھان بین کرے ان اداروں میں جائے متاثرہ لوگوں سے ملے اور اس طرح کی بددیانتی کے مرتکب اعلیٰ عہدیداروں کے خلاف مقدمات قائم کرے اپنا دائرہ صرف کک بیکس تک محدود نہ رکھیں کک بیکس سے صرف مالی نقصان پہنچتا ہے لیکن کسی کم تر شخص کو جواس عہدے کااہل نہ ہو اس کو اعلیٰ عہدہ دے کر ادارے کو تباہ کرنے کے مترادف ہے اوراس کی اجازت نہیں ہونی چاہیے، یہ قومی نقصان ہے اس طرح کے کاموں سے ملک کوناقابل تلافی نقصان پہنچ سکتاہے۔
آخر میں یہ بتانا ضروری ہے کہ احتساب کو صرف بدعنوانی تک محدود نہیں رہنا چاہیے کرپشن کے خاتمے کے لیے ہر قسم کی بدعنوانی کا خاتمہ کرنا ہوگا جو سامنے نظر آتی ہے اور جو قدرے پوشیدہ ہے جسے عرف عام میں انٹلکچوئل بدعنوانی کہتے ہیں اس کاخاتمہ بھی ضروری ہے۔ ایک تاثر یہ بھی ہے کہ نیب کو اپنا نام تبدیل کرلینا چاہیے اس ضمن میں بعض لوگوں کاکہنا ہے کہ اسے اکائونٹ ایبیلیٹی بیورو آف پاکستان کانام بھی دیاجاسکتا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • فہرست کے علاوہ کوئی فرد عمران خان سے ملاقات نہیں کریگا، پی ٹی آئی کی سیاسی کمیٹی کا فیصلہ
  • احتساب کو مئوثر بنانے کے تقاضے
  • اس کا حل کیا ہے؟
  • شیخ رشید کا اہم بیان : مذاکرات جاری ہیں مگر تفصیلات سیاسی جماعتیں ہی بتا سکتی ہیں
  • پنجاب میں موسم گرم اور خشک؛ بارش کے امکانات کتنے ہیں؟
  • پرویز خٹک کی افغان سفیر سے ملاقات، افغان مہاجرین کی موجودہ صورتحال پر تبادلہ خیال
  • ٹریجیڈی اور کامیڈی
  • سونا 10ہزار روپے فی تولہ مہنگا ہو گیا،موجودہ قیمت جانیں
  • بلوچستان، جے یو آئی کی موجودہ صورتحال میں ثالثی کا کردار ادا کرنیکی پیشکش
  • تنہائی کا المیہ