میرا برانڈ پاکستان کا مقصد؟؟
اشاعت کی تاریخ: 10th, January 2025 GMT
میرا برانڈ پاکستان کا مقصد کیا ہے؟ یہ سوال لوگوں کے ذہن میں اُٹھتا ہے۔ اس کا جواب ہر ایک کے پاس کافی اور شافی ہونا چاہیے تاکہ سوال کرنے والوں کو جواب دیا جاسکے۔ بلکہ صرف سوال کرنے والوں کے جواب کے لیے نہیں بات کی جانی چاہیے بلکہ اس موضوع کو عام بات چیت کا محور بھی بنانا چاہیے۔ کیونکہ اس میں ہماری ترقی اور غلامی سے نجات کا راز چھپا ہے۔
میرا برانڈ پاکستان کا مقصد پاکستانی صنعتوں کی مہارت کو اجاگر کرنا مقامی طور پر تیار کی گئی، اشیا کو عالمی سطح پر فروغ دینا ملک کی اقتصادی ترقی کو نئی جہت نیا پلیٹ فارم مہیا کرنا ہے تا کہ پاکستانی کاروباری، سرمایہ کار اور جدت پسندوں کو اپنی مصنوعات اور خدمات کو فروغ دینے کے لیے ایک موقع ملے وہ اپنے آپس کے تعاون کو فروغ دیں، نئے نئے کاروباری خیالات (آئیڈیاز) لے کر اس میں شریک ہوں اور اپنے اپنے میدان میں آگے بڑھیں۔ عالمی منڈی میں اپنی قابلیت کو پیش کریں، میڈ اِن پاکستان کی مصنوعات کی برانڈنگ کریں، اس کو قابل فخر بنائیں، اپنی مہارت، محنت اور قابلیت کے ذریعے پاکستانی مصنوعات کو ملکی سطح پر ہی نہیں عالمی سطح پر بھی فروغ دیں۔ پاکستانی برانڈ کی مصنوعات کو فروغ دینے میں ہماری معیشت کی بقا ہے۔ ملک کو مضبوط و محفوظ بنانے اور گداگری کا کاسہ پھینکے۔ آئی ایم ایف کے در کی غلامی سے نجات کے لیے پاکستانی مصنوعات کا استعمال اور فروغ ضروری ہے۔ آسان الفاظ میں کہیں تو کسی بھی ملک کی معیشت کو مستحکم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ملک کی ایکسپورٹ یعنی برآمدات درآمدات سے زیادہ ہونی چاہیے یعنی اپنے ملک کی مصنوعات زیادہ فروخت ہونی چاہئیں اور دوسرے ملک سے خریداری کم ہونی چاہیے۔ کیونکہ اس کے لیے زرمبادلہ چاہیے ہوتا ہے جس کی ملک میں پہلے ہی کمی ہے اگر ہم اپنے ملک کی مصنوعات چھوڑ کر باہر کی مصنوعات خریدیں گے تو مزید قرضوں میں جکڑتے چلے جائیں گے۔ اس وقت تو ویسے بھی غزہ کے باعث یہودی مصنوعات کا بائیکاٹ کرنا لازم ہے۔ لیکن ساتھ ساتھ ملک کی بنی اشیا کا خریدنا بھی لازم ہے۔ تا کہ ملک کی معیشت بہتر ہو، ڈالر کی قدر میں کمی آئے، روپے کی قدر میں اضافہ ہو، زرمبادلہ کے ذخائر جتنے زیادہ ہوں گے ملک کی حالت اتنی ہی بہتر ہوگی۔
کچھ لوگ بائیکاٹ مہم کو صحیح اور اہم سمجھتے ہوئے کہتے ہیں کہ بائیکاٹ تو ممکن ہی نہیں ہے، کیوں کہ ہم ہر شے غیر ملکی استعمال کررہے ہیں اور ہمارے ملک میں بنتا ہی کیا ہے؟ اور جو بنتا بھی ہے تو اس کا معیار ٹھیک نہیں۔ یہ بات درست نہیں ماضی میں بھی استعمال کی بیش تر اشیا مثلاً صابن، سرف، شیمپو، مشروبات، دودھ، ٹوتھ پیسٹ، کپڑے، پلاسٹک اور شیشے کے برتن سب ہی پاکستان میں بنتی تھیں اور استعمال کی جاتی تھیں۔ اب تو اس کے علاوہ موبائل سے لے کر سرجیکل آلات کھیل کے سامان گاڑیاں الیکٹرونک اشیا سب ہی پاکستان میں بن رہا ہے تو پھر کیوں غیر ملکی مصنوعات کو ترجیح دی جائے۔ اصل بات یہ ہے کہ پاکستانی مصنوعات کی کمزور مارکیٹنگ اور دوسری طرف غیر ملکی مصنوعات کی برانڈنگ نے ملکی معیشت کی لٹیا ڈبوئی۔ مقامی تاجر مارکیٹنگ پر بھاری رقم خرچ نہیں کرسکتا ورنہ پاکستانی مصنوعات بہتر معیار کی ہیں۔ لیکن لوگ اشتہارات دیکھ دیکھ کر غیر ملکی مصنوعات کی طرف مائل ہوجاتے ہیں۔ پھر ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ ہماری اشرافیہ غیر ملکی برانڈ فخریہ اور شوقیہ استعمال کرتی ہے۔ ان کے شوق پورے کرنے کے لیے بیرون ملک سے مصنوعات درآمد کی جاتی ہیں پھر لوگ اپنے آپ کو اپر کلاس میں شامل کرنے کے لیے اس کا استعمال شروع کردیتے ہیں پھر تو باہر کے برانڈ کے استعمال کے لیے ایک دوڑ شروع ہوجاتی ہے۔ باہر کی مصنوعات کی ڈیمانڈ بڑھتی چلی جاتی ہے اور ملکی مصنوعات بڑے بڑے اسٹور میں منہ چھپانے لگتی ہیں۔ لوگ ان کی طرف سے منہ گھما کر پیٹھ پھیر کر گزر جاتے ہیں۔ لہٰذا بہت سنجیدگی سے اشرافیہ کو پاکستانی مصنوعات کو فخریہ استعمال کرنا ہوگا۔ ہمارے وزیراعظم، وزیر، مشیر، اسمبلیوں کے ارکان سب باہر کی مصنوعات کا استعمال ترک کریں گے اور پاکستانی مصنوعات کو ترجیح دیں گے تو ملکی معیشت کا پہیہ رواں ہوگا۔ پاکستان بزنس فورم اور تنظیم تاجران پاکستان نے تاجروں، صنعت کاروں اور سرمایہ کاروں کو یہ ایک بہترین موقع فراہم کیا ہے کہ شہر قائد میں ایکسپو سینٹر میں 18 اور 19 جنوری کو ’’میرا برانڈ پاکستان میڈ اِن پاکستان‘‘ کا انعقاد کیا ہے۔ یہ شہر کراچی کے لیے باعث فخر ہے کہ پہلا میرا برانڈ پاکستان میڈ ان پاکستان نمائش کا انعقاد یہاں کیا گیا۔ لیکن یہ ضروری ہے کہ پاکستانی مصنوعات کی تشہیر اور ملکی اور عالمی منڈیوں تک رسائی کے لیے پورے ملک میں ایسے پروگرام رکھے جائیں جہاں عوام بھرپور طریقے سے ان میں شرکت کریں، صنعت کار اور تاجر بھی عوام کی قوت خرید کو مدنظر رکھتے ہوئے قیمت اور معیار کا دھیان رکھیں اور ایماندار اور سچائی پر استقامت اختیار کریں۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: میرا برانڈ پاکستان پاکستانی مصنوعات کی مصنوعات کی مصنوعات کو کی معیشت غیر ملکی کے لیے ملک کی کیا ہے
پڑھیں:
ٹرمپ کی ٹیم نے ایران کے ساتھ مذاکرات کے آغاز کو "بہت مثبت" کیوں قرار دیا؟
اسلام ٹائمز: ایک اور مقصد جو تصور کیا جا سکتا ہے، وہ یہ ہے کہ "بہت مثبت" قرار دیکر یہ ظاہر کیا جائے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی خارجہ پالیسی کی ٹیم نے مذاکرات شروع کیے ہیں اور وہ ایرانی عوام کی مشکلات کو دور کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ اس پلاننگ کا مقصد ایران کے اندرونی، سیاسی اور اقتصادی ماحول کو متاثر کرنا ہے اور اسکے نتیجے میں ایرانی قوم میں جھوٹی امید پیدا کرنا اور عوامی خیالات کو گمراہ کرنا ہے۔ اس پروپیگنڈہ کا مقصد امریکہ کیخلاف ایران کی خارجہ پالیسی کے اسٹریٹجک حساب کتاب کو مشکوک بنانا ہے۔ تحریر: مھدی جہانتیغی
سٹیو وٹکاف نے عمان میں ایران کے ساتھ ہونے والے بالواسطہ مذاکرات کے بارے میں کہا ہے کہ "ہم نے بہت مثبت اور تعمیری بات چیت کی ہے۔" وائٹ ہاؤس نے بھی عمان میں ایرانی اور امریکی حکام کے درمیان ہونے والی بالواسطہ بات چیت کو بہت مثبت اور تعمیری قرار دیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہ "بہت زیادہ مثبت" بیان کرنے کی کیا وجہ ہوسکتی ہے۔؟
ایک: پہلی بات تو یہ ہے کہ بالواسطہ مذاکرات کے آغاز میں ابتدائی مباحثے کو مثبت قرار دینا صرف اسی مرحلے تک مثبت سمجھنا چاہیئے، کیونکہ یہ ضروری نہیں ہے کہ یہ موقف مذاکرات کے بعد کے مراحل کے لئے ایک مطلق اور عمومی بیان ہو اور صورت جوں کی توں رہے۔ ابھی اہم متنازعہ اور پیچیدہ مرحلے باقی ہیں اور بعد میں میٹنگ کے حالات مختلف بھی ہوسکتے ہیں۔
دوئم: مذاکرات کے "بہت مثبت" بیان سے کئی دوسرے مقاصد بھی حاصل ہوسکتے ہیں۔ اس کا ایک مقصد یہ بھی ہوسکتا ہے کہ امریکی فریق اپنے آپ کو مذاکرات کے لیے پرعزم، سنجیدہ اور پرامید ظاہر کرے اور بعد میں کسی وجہ سے انہیں اگر مذاکرات کی میز کو چھوڑنا پڑے تو ایران پر مذاکرات کو ناکام بنانے کا الزام لگا سکیں اور اپنے آپ کو اس الزام سے بچا سکیں کہ انہوں نے مذاکرات کو سبوتاز نہیں کیا ہے۔
تیسرا: ایک اور مقصد جو کہ ٹرمپ اور ان کے ساتھیوں کی انتخابی مہم میں حالیہ ہفتوں میں اور یہاں تک کہ ٹرمپ کی پہلی انتظامیہ کے چار سال میں بھی عام طور پر دیکھا گیا ہے، وہ یہ ہے کہ مذاکرات کو پہلے مثبت قرار دیکر اس سے تشہیراتی فوائد حاصل کئے جائیں، بعد میں کیا ہوتا ہے، اسے مستقبل پر چھوڑ دیا جائے۔ گویا یہ ایک قسم کا پروپیگنڈا بھی ہوسکتا ہے اور اس سے داخلی اور بین الاقوامی سطح پر یہ تاثر دیا جاسکتا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ کی پالیسیاں جلد عملی جامہ پہن رہی ہیں۔
چوتھا: ایک اور مقصد جو تصور کیا جا سکتا ہے، وہ یہ ہے کہ "بہت مثبت" قرار دیکر یہ ظاہر کیا جائے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی خارجہ پالیسی کی ٹیم نے مذاکرات شروع کیے ہیں اور وہ ایرانی عوام کی مشکلات کو دور کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ اس پلاننگ کا مقصد ایران کے اندرونی، سیاسی اور اقتصادی ماحول کو متاثر کرنا ہے اور اس کے نتیجے میں ایرانی قوم میں جھوٹی امید پیدا کرنا اور عوامی خیالات کو گمراہ کرنا ہے۔ اس پروپیگنڈہ کا مقصد امریکہ کے خلاف ایران کی خارجہ پالیسی کے اسٹریٹجک حساب کتاب کو مشکوک بنانا ہے۔ مذاکرات کی ناکامی کی صورت میں معاشرتی اور معاشی نقصان کا ماحول پیدا کرکے ایرانی حکام کے بارے میں عوام کو گمراہ کرنا ہے۔ مذاکرات میں مبینہ رکاوٹ ڈال کر یا بے جا مطالبات کرکے مذاکرات کی ناکامی کا ذمہ دار ایران کو ٹھہرانے کے لیے ماحول تیار کرنا ہے۔
پانچ: عام طور پر بات چیت کے عمل سے کسی ملک کی خارجہ پالیسی کی ٹیم کے نقطہ نظر پر اعتماد کیا جا سکتا ہے، لیکن امریکی حکومتوں کے بیان کردہ شرائط اور ماضی کا بدنام زمانہ ریکارڈ اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ کی طرف سے مذاکرات کی امید افزائی کو شکوک و شبہات کے ساتھ دیکھا جائے اور اسے ممکنہ طور پر پروپیگنڈا اور ممکنہ طور پر ایک سوچی سمجھی سازش کر طور پر دیکھا جائے۔ یاد رہے کہ امریکہ کے ساتھ متعدد مذاکرات کے عملی تجربات کے نتائج کی روشنی میں جب تک پابندیوں کے خاتمے اور ملکی معیشت پر ان مذاکرات کے حقیقی اثرات سامنے نہيں آجاتے آخری لمحے تک صبر اور محتاط رہنے کی ضرورت ہے اور کسی پروپیگنڈے، مسکراہٹ اور مذاکرات کو بہت مثبت اور تعمیری قرار دینے جیسے دعووں کے فریب اور دام سے بچنے کی ضرورت ہے۔