WE News:
2025-04-15@11:45:02 GMT

کیا کامیاب کیریئر کامیاب شادی کی گارنٹی ہوتا ہے؟

اشاعت کی تاریخ: 10th, January 2025 GMT

ایک دن میری بیگم نے مجھے آواز دی۔

عزیز ! گھر میں جمع کچرا باہر گلی کے کوڑا دان میں ڈال آئیں۔

میں نے جواب دیا میں نوبل انعام یافتہ ہوں۔

اس نے پھر آواز دی۔

نوبل انعام یافتہ کیمیا دان عزیز صاحب!

گھر میں جمع کچرا گلی کے کوڑا دان میں پھینک آئیں۔

یہ لطیفہ نما واقعہ 2015 میں نوبل انعام سے نوازے جانے والے ترک کیمیا دان عزیز سنجر نے سنایا۔ آپ نے ضرور سوشل میڈیا پر کہیں نہ کہیں پڑھا ہوگا۔

ہم سب اس پر ہنسے۔ کیونکہ ہم سب جانتے ہیں کہ عزیز صاحب کی بیگم نے وہی کیا جو ہر بیوی کرتی ہے، یعنی شوہر کو شوہر سمجھنا، نہ کہ اس کے نوبل انعام یافتہ ہونے کا لحاظ کرنا۔

ویسے لحاظ کرنا بنتا بھی نہیں تھا، کیونکہ ایک شوہر کے گھریلو کردار میں نوبل انعام یافتہ ہونا کچھ کام نہیں آتا۔ بلکہ دنیا کے کسی بھی شعبے کا ماہر ہونا کسی کام نہیں آتا۔ حتیٰ کہ اگر خاوند ماہر نفسیات، ماہر ازدواجیات یا ماہر سماجیات بھی ہو، تب بھی گھر کے اندر وہ ایک ایوریج شوہر ہوتا ہے۔ دنیا کی کسی بھی بیوی سے پوچھ کر دیکھیں، اس کی نظر میں شوہر یا تو انتہائی سادہ ہے، جس کو سب الو بنا جاتے ہیں، یا پھر ایسا بچہ جس کو ہر بار سبق پڑھایا جانا ضروری ہوتا ہے تا کہ وہ ٹھیک سے اپنا ہوم ورک کر سکے۔

ویسے یہ عجیب بات نہیں لگی آپ کو؟ سوچ کر دیکھیں تو عجیب لگے گی۔

مثال کے طور پر اگر کوئی شخص اپنے شعبے کا ماہر ترین بندہ ہے، تو لازمی بات ہے کہ اس کا آئی کیو اچھا خاصا ہوگا۔ اس کی عقل تیز اور دماغ روشن ہوگا۔ وہ اپنے شعبے کے مسائل انتہائی مہارت سے حل کر لیتا ہوگا۔

ایسا ماہر شخص جب اپنے گھر میں داخل ہوتا ہے تو اس کی عقل کام کرنا بند کر دیتی ہے۔ اس کی بیوی اس کو ڈانٹ رہی ہوتی ہے کہ وہ صبح اپنا ٹفن لے جانا بھول گیا تھا۔ وہ اس کو بتاتی ہے کہ ویک اینڈ پر کچھ مہمان آ رہے ہیں، آپ نے ان سے اچھے طریقے سے بات کرنا ہے، کیونکہ پچھلی بار جب وہ آئے تھے تو آپ نے ان سے ٹھیک طریقے سے بات نہیں کی تھی۔

یہ تو عام سے ویک اینڈ کی بات ہے۔ ایسے ماہرین کی بیویوں کو یہ بھی شکوہ ہوتا ہے کہ ان کے خاوند نے غلط جگہ پیسے پھنسا دیے۔ مکان خریدتے ہوئے کمیشن ایجنٹ کو زیادہ کمیشن دیدیا۔

اگر ایسا ویسا کچھ نہ بھی ہو تو دنیا کی ہر بیوی کو اپنے شوہر سے وقت کی کمی، بے توجہی، لاپروا رہنے کی شکایت ضرور ہوتی ہے۔ اور وہ دنیا کا ماہر ترین شخص اس بات پر بیوی کو اطمینان نہیں دلا سکتا کہ وہ کئی لحاظ سے ایک بہترین خاوند ہے۔ حالانکہ اسی شخص کو اگر اس کے شعبے کی مشکل ترین تھیوریز کا دفاع کرنے کے لیے کہا جائے تو وہ 3 گھنٹے کا لیکچر آسانی سے دے لے گا، اور اس شعبے کے بہترین لوگوں کو قائل بھی کر لے گا۔

عام روزمرہ زندگی کو جاننے والے جانتے ہیں کہ اپنے کیریئر میں کامیاب اکثر اشخاص کی بیویاں ان سے زیادہ خوش نہیں رہتیں، بلکہ وہ عام بیویوں سے زیادہ سمجھوتے کرتی ہیں۔ حالانکہ ان کے اردگرد کے لوگ ان کو ایک کامیاب جوڑا بھی تصور کرتے ہیں۔ لیکن دراصل زیادہ تر کامیابی صرف معاشی آسودگی کی حد تک ہی ہوتی ہے۔ جذباتی اور نفسیاتی معاملات میں ایسے جوڑے زیادہ خوش نہیں ہوتے۔

اس کے برعکس عام آئی کیو والے، کم آمدن والے، یا معمولی ملازمتیں کرنے والے افراد میں سے آپ کو اکثر ایسے جوڑے مل جاتے ہیں جو ایک دوسرے کے ساتھ پُرجوش اور پُرلطف ازدواجی زندگی گزار رہے ہوتے ہیں۔ ان کی آپسی بے تکلفی، محبت اور ہم آہنگی آسانی سے محسوس کی جا سکتی ہے۔

پاکستان کی حد تک شاید آپ کو کچھ اعتراض ہو کہ بغیر پیسے کے اچھی زندگی گزارنا بہت مشکل ہے اور میں آپ کے اس خیال سے متفق ہوں۔ لیکن دنیا کے ایسے ممالک میں جہاں تقریباً تمام شہریوں کو عام بنیادی ضروریات زندگی آسانی سے دستیاب ہیں، وہاں یہ ایوریج آئی کیو والے لوگ آپس میں زیادہ خوشگوار ازدواجی تعلقات رکھتے ہیں۔ اور اکثر اچھی فیملی بھی بنا لیتے ہیں،2 سے زیادہ بچے اکثر اسی کلاس کے لوگوں میں ہوتے ہیں۔

یہ تو ہو گئی مردوں کے کیریئر کی بات۔ اب کچھ بات خواتین کے کیریئر کی کر لیتے ہیں۔ پچھلی 2-3 دہائیوں میں پاکستان میں بھی خواتین تیزی سے ملازمتوں اور کاروبار کی طرف آئی ہیں۔ کچھ معاشی حالات کی مجبوری، کچھ نئی طرز زندگی کے تقاضے خواتین کو تیزی سے گھر سے باہر کام کرنے پر مجبور کر رہے ہیں۔ اور اس وقت اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں 20 فیصد خواتین ملازمت کر رہی ہیں۔ جبکہ حقیقت میں شاید یہ تعداد اس سے بھی زیادہ ہو، کیونکہ اس میں بہت سے گھریلو شعبوں کی خواتین کو گننا ناممکن ہے۔

یہ حقیقت ہے کہ لڑکیوں کو تعلیم حاصل کرنے کے مواقعے ملے تو انہوں نے لڑکوں کو اس میدان میں پیچھے چھوڑ دیا۔ اور اکثر اسکول، کالج، یونیورسٹی کی سطح پر لڑکیاں ٹاپ کرنے لگی ہیں۔ ملازمتوں میں بھی خواتین زیادہ ذمہ دار ایمپلائی تصور کی جاتی ہیں۔ کم تنخواہ میں زیادہ گھنٹے کام کرتی ہیں اور کام میں سنجیدگی دکھاتی ہیں۔ اس لیے ہم دیکھتے ہیں کہ ہر شعبے میں خواتین تیزی سے آگے بڑھ رہی ہیں اور مردوں کو پیچھے چھوڑ رہی ہیں۔

لیکن یہی کامیاب خواتین شکوہ کرتی پائی جاتی ہیں کہ ان کو معاشرہ اچھے شوہر دینے سے قاصر ہے۔ کچھ خواتین کا شکوہ ہے کہ مرد ایک کامیاب خاتون کو بطور بیوی ہینڈل نہیں کر پاتے۔ کچھ کا اعتراض ہے کہ ان کو ان کے لیول کے مطابق رشتے نہیں ملتے، اور وہ اپنے سے کمتر شوہر کو قبول کرنے پر مجبور ہیں۔ گویا ایک کامیاب کیریئر حاصل کر لینے کے باوجود خواتین ایک کامیاب ازدواجی زندگی حاصل کرنے میں ناکام ہیں۔

یہاں ایک دلچسپ صورتحال یہ ہے کہ پاکستان میں اکثر تعلیم یافتہ خواتین بطور بیوی گھریلو کام کاج سے خود کو بری الذمہ قرار دیتی ہیں۔ اگر وہ جاب کرتی ہیں، یا کاروبار کرتی ہیں تو پھر تو قریب قریب ناممکن ہے کہ وہ اپنے کیریئر کے ساتھ گھر کے کام بھی سنبھالیں۔ پاکستان میں ابھی اچھی بات (یا شاید بری بات) یہ ہے کہ ہاتھ سے کام کرنے والے کم تنخواہ پر آسانی سے دستیاب ہیں۔ اس لیے اکثر جاب والی خواتین نے کام والی ماسیاں رکھی ہوتی ہیں۔ جبکہ مغربی ممالک میں ایسی عیاشی کا تصور تک نہیں ہے۔ وہاں ایک گھر کے کام کرنے والی کی تنخواہ بھی تقریباً ایک کمپیوٹر پروگرامر یا استانی کے برابر ہوتی ہے۔

لیکن کام والی ماسیوں کی سہولت کے باوجود اکثر جاب اور کیریئر والی خواتین کی ازدواجی زندگی کی خوشگواریت ایک سوالیہ نشان ہی بن چکی ہے۔ یہ تو ہم سب جانتے ہیں کہ تعلیم یافتہ خواتین میں طلاق اور خلع کی شرح بھی بہت زیادہ ہو رہی ہے، اور ان کی دوبارہ شادی کے امکانات بھی ہر گزرتے سال میں کم سے کم ہوتے جا رہے ہیں۔

ان تعلیم یافتہ کیریئر اور جاب والی خواتین سے جب ان کی ناکام ازدواجی زندگی کی وجوہات پوچھی جاتی ہیں تو اکثر وہ سارا ملبہ اپنے شوہروں پر ڈالتی نظر آتی ہیں۔ جس کو بہت حد تک درست بھی کہا جا سکتا ہے، کیونکہ بہت سے معاملات میں قصور شوہر حضرات کا بھی ہوتا ہے۔ لیکن اگر ہم اس تحریر میں شروع کے لطیفے اور موضوع کے مطابق بات کریں تو ان تعلیمیافتہ خواتین کو ترک کیمیا دان کا یہ نسخہ کیمیا سمجھنے کی ضرورت ہے کہ چاہے آپ اپنے شعبے میں نوبل انعام یافتہ دنیا کے ماہر ترین فرد ہی کیوں نہ ہوں، گھریلو معاملات میں آپ کو اپنے فرائض ایک شوہر (خواتین کے کیس میں بیوی) کے طور پر ہی ادا کرنے ہوتے ہیں۔ تبھی آپ ایک خوشگوار ازدواجی زندگی کے حقدار ہو سکتے ہیں۔

 آپ مرد ہیں یا خاتون، ایک بات یاد رکھیے، آپ کے کیریئر کی کامیابی اس بات کی ہرگز گارنٹی نہیں ہے کہ آپ کی ازدواجی زندگی کامیاب گزرے گی۔ بلکہ آپ کی ازدواجی زندگی کا انحصار صرف اور صرف اس بات پر ہے کہ آپ اپنے ازدواجی رشتے کو کس قدر اہمیت اور عزت دیتے ہیں۔ ایک شاندار اور کامیاب کیریئر آپ کو ایک بہترین جیون ساتھی سے ملا تو سکتا ہے، اس کو آپ سے شادی کرنے کو بھی آمادہ کر سکتا ہے، لیکن اس کے بعد آپ کو ترک کیمیا دان جیسا بن کر چپ چاپ اپنے ساتھی کی ہدایت پر گھر کا کوڑا اٹھا کر کوڑے دان میں ڈالنا ہوگا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

محمود فیاض

ازدواجی زندگی ترک کیمیا دان عزیز سنجر جاب کیریئر ملازمت.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: ازدواجی زندگی ترک کیمیا دان عزیز سنجر کیریئر ملازمت ازدواجی زندگی ترک کیمیا دان پاکستان میں کرتی ہیں ہے کہ ا ہیں کہ

پڑھیں:

 وزیراعلی پنجاب خاتون ہیں، انھیں احتجاج کرنے والی خواتین کا کیوں خیال نہیں؟ حافظ نعیم الرحمن 

مال روڈ پر گرینڈ ہیلتھ الائنس پنجاب کے زیراہتمام احتجاجی دھرنے سے خطاب کرتے ہوئے جماعت اسلامی کے امیر کا کہنا تھا کہ اس بادشاہانہ طرز عمل سے مریم نواز حکومت چلا رہی ہے، صوبہ میں یہی وطیرہ ان سے قبل ان کے والد اور چچا نے اپنایا ہوا تھا، انھیں صرف اداروں کو اپنا نام دینے اور ان پر تختیاں لگانے کا شوق ہے۔  اسلام ٹائمز۔ امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمن نے کہا ہے کہ بنیادی اور دیہی مراکز صحت کو آوٹ سورس نہیں کرنے دیں گے۔ ڈاکٹرز، نرسز اور پیرامیڈیکل سٹاف میں سے ایک کو بھی نوکری سے نکالا گیا تو پنجاب حکومت کا تعاقب کیا جائے گا، گرینڈ ہیلتھ الائنس پنجاب کے ساتھ ہیں۔ وزیراعلی پنجاب خاتون ہیں، انھیں احتجاج کرنے والی خواتین کا کیوں خیال نہیں؟ سب کو معلوم ہے موجودہ حکومت کیسے معرضِ وجود میں آئی، خود ٹھیکے پر چلنے والی حکومت تمام بنیادی عوامی ضروریات کو بھی ٹھیکے پر دینا چاہتی ہے، اہل اقتدار پنجاب سمیت پورے پاکستان میں مسترد شدہ لوگ ہیں، عوام نے انھیں ٹھکرا دیا، یہ اسٹیبلشمنٹ اور فارم 47کے سہارے اقتدار میں آئے۔ اداروں کی لوٹ سیل کرنے والوں کا راستہ روکیں گے، عوام دشمن اقدامات بند کیے جائیں۔ ان خیالات کا اظہار انھوں نے مال روڈ پر گرینڈ ہیلتھ الائنس پنجاب کے زیراہتمام ڈاکٹرز، نرسز اور پیرامیڈیکس کے احتجاجی دھرنے میں شرکت کے موقع خطاب کرتے ہوئے کیا۔ سیکرٹری اطلاعات قیصر شریف، امیر پنجاب وسطی جاوید قصوری اور امیر لاہور ضیا الدین انصاری ایڈووکیٹ بھی اس موقع پر موجود تھے۔

امیر جماعت نے کہا کہ جس بادشاہانہ طرز عمل سے مریم نواز حکومت چلا رہی ہے، صوبہ میں یہی وطیرہ ان سے قبل ان کے والد اور چچا نے اپنایا ہوا تھا، انھیں صرف اداروں کو اپنا نام دینے اور ان پر تختیاں لگانے کا شوق ہے، پنجاب پر مسلط شریف خاندان بتائے کہ کیا حکومتیں صحت اور تعلیم کو آوٹ سورس کرتی ہیں؟ حکومت اور ریاست کی ذمہ داری ہے کہ عوام کو سستی معیاری تعلیم اور صحت کی سہولیات یقینی بنائے۔ شہریوں کی عزت، جان و مال اور آبرو کی حفاظت اور امن کا قیام بھی حکومت اور ریاست کی بنیادی ذمہ داری ہے، حکمرانوں نے عوام سے سب کچھ چھین لیا۔ انھوں نے کہا کہ وہ کل کراچی میں غزہ ملین مارچ میں شرکت کے لیے جا رہے تھے، تاہم انھوں نے یہ ضروری سمجھا کہ اپنے حق کے لیے آواز بلند کرنے والوں کے ساتھ بھی اظہار یکجہتی کریں۔ انھوں نے مظاہرین کو یقین دلایا کہ جماعت اسلامی ان کے ساتھ کھڑی ہے، حکومت کو ادارے آٹ سورس نہیں کرنے دیں گے۔


 

متعلقہ مضامین

  • پی ایس ایل 10: لاہور قلندرز کے آصف آفریدی نے منفرد ریکارڈ پر نظریں جما لیں
  • شادی کا جھانسہ دے کر خاتون سے جنسی زیادتی کرکے بلیک میل کرنے والا ملزم گرفتار
  • 13 شادیاں کرنے والی فرضی دلہنوں کا گینگ بے نقاب، 3 خواتین گرفتار
  • ریٹائرمنٹ کی منصوبہ بندی
  • انمول بلوچ کا فلمی دنیا میں قدم رکھنے کا عندیہ شادی کی افواہوں کی بھی وضاحت کر دی
  • ستاروں کی روشنی میں آج بروزاتوار ،13اپریل 2025 آپ کا کیرئر،صحت، دن کیسا رہے گا ؟
  • مطالعہ کیوں اورکیسے کریں؟
  • وقت گزر جاتا ہے
  • ہے زندگی کا مقصد اوروں کے کام آنا (آخری حصہ)
  •  وزیراعلی پنجاب خاتون ہیں، انھیں احتجاج کرنے والی خواتین کا کیوں خیال نہیں؟ حافظ نعیم الرحمن