WE News:
2025-01-18@10:15:46 GMT

کیا کامیاب کیریئر کامیاب شادی کی گارنٹی ہوتا ہے؟

اشاعت کی تاریخ: 10th, January 2025 GMT

ایک دن میری بیگم نے مجھے آواز دی۔

عزیز ! گھر میں جمع کچرا باہر گلی کے کوڑا دان میں ڈال آئیں۔

میں نے جواب دیا میں نوبل انعام یافتہ ہوں۔

اس نے پھر آواز دی۔

نوبل انعام یافتہ کیمیا دان عزیز صاحب!

گھر میں جمع کچرا گلی کے کوڑا دان میں پھینک آئیں۔

یہ لطیفہ نما واقعہ 2015 میں نوبل انعام سے نوازے جانے والے ترک کیمیا دان عزیز سنجر نے سنایا۔ آپ نے ضرور سوشل میڈیا پر کہیں نہ کہیں پڑھا ہوگا۔

ہم سب اس پر ہنسے۔ کیونکہ ہم سب جانتے ہیں کہ عزیز صاحب کی بیگم نے وہی کیا جو ہر بیوی کرتی ہے، یعنی شوہر کو شوہر سمجھنا، نہ کہ اس کے نوبل انعام یافتہ ہونے کا لحاظ کرنا۔

ویسے لحاظ کرنا بنتا بھی نہیں تھا، کیونکہ ایک شوہر کے گھریلو کردار میں نوبل انعام یافتہ ہونا کچھ کام نہیں آتا۔ بلکہ دنیا کے کسی بھی شعبے کا ماہر ہونا کسی کام نہیں آتا۔ حتیٰ کہ اگر خاوند ماہر نفسیات، ماہر ازدواجیات یا ماہر سماجیات بھی ہو، تب بھی گھر کے اندر وہ ایک ایوریج شوہر ہوتا ہے۔ دنیا کی کسی بھی بیوی سے پوچھ کر دیکھیں، اس کی نظر میں شوہر یا تو انتہائی سادہ ہے، جس کو سب الو بنا جاتے ہیں، یا پھر ایسا بچہ جس کو ہر بار سبق پڑھایا جانا ضروری ہوتا ہے تا کہ وہ ٹھیک سے اپنا ہوم ورک کر سکے۔

ویسے یہ عجیب بات نہیں لگی آپ کو؟ سوچ کر دیکھیں تو عجیب لگے گی۔

مثال کے طور پر اگر کوئی شخص اپنے شعبے کا ماہر ترین بندہ ہے، تو لازمی بات ہے کہ اس کا آئی کیو اچھا خاصا ہوگا۔ اس کی عقل تیز اور دماغ روشن ہوگا۔ وہ اپنے شعبے کے مسائل انتہائی مہارت سے حل کر لیتا ہوگا۔

ایسا ماہر شخص جب اپنے گھر میں داخل ہوتا ہے تو اس کی عقل کام کرنا بند کر دیتی ہے۔ اس کی بیوی اس کو ڈانٹ رہی ہوتی ہے کہ وہ صبح اپنا ٹفن لے جانا بھول گیا تھا۔ وہ اس کو بتاتی ہے کہ ویک اینڈ پر کچھ مہمان آ رہے ہیں، آپ نے ان سے اچھے طریقے سے بات کرنا ہے، کیونکہ پچھلی بار جب وہ آئے تھے تو آپ نے ان سے ٹھیک طریقے سے بات نہیں کی تھی۔

یہ تو عام سے ویک اینڈ کی بات ہے۔ ایسے ماہرین کی بیویوں کو یہ بھی شکوہ ہوتا ہے کہ ان کے خاوند نے غلط جگہ پیسے پھنسا دیے۔ مکان خریدتے ہوئے کمیشن ایجنٹ کو زیادہ کمیشن دیدیا۔

اگر ایسا ویسا کچھ نہ بھی ہو تو دنیا کی ہر بیوی کو اپنے شوہر سے وقت کی کمی، بے توجہی، لاپروا رہنے کی شکایت ضرور ہوتی ہے۔ اور وہ دنیا کا ماہر ترین شخص اس بات پر بیوی کو اطمینان نہیں دلا سکتا کہ وہ کئی لحاظ سے ایک بہترین خاوند ہے۔ حالانکہ اسی شخص کو اگر اس کے شعبے کی مشکل ترین تھیوریز کا دفاع کرنے کے لیے کہا جائے تو وہ 3 گھنٹے کا لیکچر آسانی سے دے لے گا، اور اس شعبے کے بہترین لوگوں کو قائل بھی کر لے گا۔

عام روزمرہ زندگی کو جاننے والے جانتے ہیں کہ اپنے کیریئر میں کامیاب اکثر اشخاص کی بیویاں ان سے زیادہ خوش نہیں رہتیں، بلکہ وہ عام بیویوں سے زیادہ سمجھوتے کرتی ہیں۔ حالانکہ ان کے اردگرد کے لوگ ان کو ایک کامیاب جوڑا بھی تصور کرتے ہیں۔ لیکن دراصل زیادہ تر کامیابی صرف معاشی آسودگی کی حد تک ہی ہوتی ہے۔ جذباتی اور نفسیاتی معاملات میں ایسے جوڑے زیادہ خوش نہیں ہوتے۔

اس کے برعکس عام آئی کیو والے، کم آمدن والے، یا معمولی ملازمتیں کرنے والے افراد میں سے آپ کو اکثر ایسے جوڑے مل جاتے ہیں جو ایک دوسرے کے ساتھ پُرجوش اور پُرلطف ازدواجی زندگی گزار رہے ہوتے ہیں۔ ان کی آپسی بے تکلفی، محبت اور ہم آہنگی آسانی سے محسوس کی جا سکتی ہے۔

پاکستان کی حد تک شاید آپ کو کچھ اعتراض ہو کہ بغیر پیسے کے اچھی زندگی گزارنا بہت مشکل ہے اور میں آپ کے اس خیال سے متفق ہوں۔ لیکن دنیا کے ایسے ممالک میں جہاں تقریباً تمام شہریوں کو عام بنیادی ضروریات زندگی آسانی سے دستیاب ہیں، وہاں یہ ایوریج آئی کیو والے لوگ آپس میں زیادہ خوشگوار ازدواجی تعلقات رکھتے ہیں۔ اور اکثر اچھی فیملی بھی بنا لیتے ہیں،2 سے زیادہ بچے اکثر اسی کلاس کے لوگوں میں ہوتے ہیں۔

یہ تو ہو گئی مردوں کے کیریئر کی بات۔ اب کچھ بات خواتین کے کیریئر کی کر لیتے ہیں۔ پچھلی 2-3 دہائیوں میں پاکستان میں بھی خواتین تیزی سے ملازمتوں اور کاروبار کی طرف آئی ہیں۔ کچھ معاشی حالات کی مجبوری، کچھ نئی طرز زندگی کے تقاضے خواتین کو تیزی سے گھر سے باہر کام کرنے پر مجبور کر رہے ہیں۔ اور اس وقت اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں 20 فیصد خواتین ملازمت کر رہی ہیں۔ جبکہ حقیقت میں شاید یہ تعداد اس سے بھی زیادہ ہو، کیونکہ اس میں بہت سے گھریلو شعبوں کی خواتین کو گننا ناممکن ہے۔

یہ حقیقت ہے کہ لڑکیوں کو تعلیم حاصل کرنے کے مواقعے ملے تو انہوں نے لڑکوں کو اس میدان میں پیچھے چھوڑ دیا۔ اور اکثر اسکول، کالج، یونیورسٹی کی سطح پر لڑکیاں ٹاپ کرنے لگی ہیں۔ ملازمتوں میں بھی خواتین زیادہ ذمہ دار ایمپلائی تصور کی جاتی ہیں۔ کم تنخواہ میں زیادہ گھنٹے کام کرتی ہیں اور کام میں سنجیدگی دکھاتی ہیں۔ اس لیے ہم دیکھتے ہیں کہ ہر شعبے میں خواتین تیزی سے آگے بڑھ رہی ہیں اور مردوں کو پیچھے چھوڑ رہی ہیں۔

لیکن یہی کامیاب خواتین شکوہ کرتی پائی جاتی ہیں کہ ان کو معاشرہ اچھے شوہر دینے سے قاصر ہے۔ کچھ خواتین کا شکوہ ہے کہ مرد ایک کامیاب خاتون کو بطور بیوی ہینڈل نہیں کر پاتے۔ کچھ کا اعتراض ہے کہ ان کو ان کے لیول کے مطابق رشتے نہیں ملتے، اور وہ اپنے سے کمتر شوہر کو قبول کرنے پر مجبور ہیں۔ گویا ایک کامیاب کیریئر حاصل کر لینے کے باوجود خواتین ایک کامیاب ازدواجی زندگی حاصل کرنے میں ناکام ہیں۔

یہاں ایک دلچسپ صورتحال یہ ہے کہ پاکستان میں اکثر تعلیم یافتہ خواتین بطور بیوی گھریلو کام کاج سے خود کو بری الذمہ قرار دیتی ہیں۔ اگر وہ جاب کرتی ہیں، یا کاروبار کرتی ہیں تو پھر تو قریب قریب ناممکن ہے کہ وہ اپنے کیریئر کے ساتھ گھر کے کام بھی سنبھالیں۔ پاکستان میں ابھی اچھی بات (یا شاید بری بات) یہ ہے کہ ہاتھ سے کام کرنے والے کم تنخواہ پر آسانی سے دستیاب ہیں۔ اس لیے اکثر جاب والی خواتین نے کام والی ماسیاں رکھی ہوتی ہیں۔ جبکہ مغربی ممالک میں ایسی عیاشی کا تصور تک نہیں ہے۔ وہاں ایک گھر کے کام کرنے والی کی تنخواہ بھی تقریباً ایک کمپیوٹر پروگرامر یا استانی کے برابر ہوتی ہے۔

لیکن کام والی ماسیوں کی سہولت کے باوجود اکثر جاب اور کیریئر والی خواتین کی ازدواجی زندگی کی خوشگواریت ایک سوالیہ نشان ہی بن چکی ہے۔ یہ تو ہم سب جانتے ہیں کہ تعلیم یافتہ خواتین میں طلاق اور خلع کی شرح بھی بہت زیادہ ہو رہی ہے، اور ان کی دوبارہ شادی کے امکانات بھی ہر گزرتے سال میں کم سے کم ہوتے جا رہے ہیں۔

ان تعلیم یافتہ کیریئر اور جاب والی خواتین سے جب ان کی ناکام ازدواجی زندگی کی وجوہات پوچھی جاتی ہیں تو اکثر وہ سارا ملبہ اپنے شوہروں پر ڈالتی نظر آتی ہیں۔ جس کو بہت حد تک درست بھی کہا جا سکتا ہے، کیونکہ بہت سے معاملات میں قصور شوہر حضرات کا بھی ہوتا ہے۔ لیکن اگر ہم اس تحریر میں شروع کے لطیفے اور موضوع کے مطابق بات کریں تو ان تعلیمیافتہ خواتین کو ترک کیمیا دان کا یہ نسخہ کیمیا سمجھنے کی ضرورت ہے کہ چاہے آپ اپنے شعبے میں نوبل انعام یافتہ دنیا کے ماہر ترین فرد ہی کیوں نہ ہوں، گھریلو معاملات میں آپ کو اپنے فرائض ایک شوہر (خواتین کے کیس میں بیوی) کے طور پر ہی ادا کرنے ہوتے ہیں۔ تبھی آپ ایک خوشگوار ازدواجی زندگی کے حقدار ہو سکتے ہیں۔

 آپ مرد ہیں یا خاتون، ایک بات یاد رکھیے، آپ کے کیریئر کی کامیابی اس بات کی ہرگز گارنٹی نہیں ہے کہ آپ کی ازدواجی زندگی کامیاب گزرے گی۔ بلکہ آپ کی ازدواجی زندگی کا انحصار صرف اور صرف اس بات پر ہے کہ آپ اپنے ازدواجی رشتے کو کس قدر اہمیت اور عزت دیتے ہیں۔ ایک شاندار اور کامیاب کیریئر آپ کو ایک بہترین جیون ساتھی سے ملا تو سکتا ہے، اس کو آپ سے شادی کرنے کو بھی آمادہ کر سکتا ہے، لیکن اس کے بعد آپ کو ترک کیمیا دان جیسا بن کر چپ چاپ اپنے ساتھی کی ہدایت پر گھر کا کوڑا اٹھا کر کوڑے دان میں ڈالنا ہوگا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

محمود فیاض

ازدواجی زندگی ترک کیمیا دان عزیز سنجر جاب کیریئر ملازمت.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: ازدواجی زندگی ترک کیمیا دان عزیز سنجر کیریئر ملازمت ازدواجی زندگی ترک کیمیا دان پاکستان میں کرتی ہیں ہے کہ ا ہیں کہ

پڑھیں:

ہمارے مذاکرات کامیاب نہ ہو سکے تو احتجاج اوو سے آگے جائے گا. عمر ایوب

اسلام آباد(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔16 جنوری ۔2025 )پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی)کے رہنما عمر ایوب نے کہا ہے کہ ہمارے مذاکرات کامیاب نہ ہو سکے تو احتجاج اوو سے آگے جائے گا اسلام آباد میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اوو احتجاج کا آغاز ہے، معاملات حل نہ ہوئے تو اس سے آگے جائیں گے. عمر ایوب کا کہنا ہے کہ یہ ہے فائل جس میں ہمارے تحریری مطالبات ہیں، پہلا مطالبہ اسیران کی قانون کے مطابق رہائی ہے انہوں نے کہا کہ نہ ہمیں ڈیل چاہیے نہ ڈھیل چاہیے، اسیران کی رہائی، 26 نومبر اور 9 مئی پر جوڈیشل کمیشن ہمارے مطالبے ہیں.

(جاری ہے)

قومی اسمبلی میں قائدحزب اختلاف کا کہنا ہے کہ عمران خان اور شاہ محمود قریشی کی رہائی بھی مطالبہ ہے، ہمارے تمام اراکین کی رہائی آئین اور قانون کے مطابق کی جائے عمر ایوب نے یہ بھی کہا کہ ایگزیکٹیو آرڈر سے یہ معاملات حل ہو نہیں سکتے، امپائر صحیح ہونا چاہیے، حکومت کمیشن بنائے دودھ کا دودھ پانی کا پانی ہو جائے گا. وزیراعلی کے پی علی امین گنڈاپور نے صحافیوں سے گفتگو میں کہا کہ اگرمیرے ذہن میں کوئی شبہ ہوتاتومذاکراتی کمیٹی کا حصہ کبھی نہ بنتا،میرا ایمان بہت مضبوط ہے علی امین گنڈاپور نے کہاکہ جوکچھ ہوگامذاکراتی کمیٹی کے ذریعے سب کے سامنے ہوگا،میری آرمی چیف سے ملاقات ہوئی تھی،اسکے بعد دیگر جماعتوں کے ہمراہ بھی ملے، ملاقات میں چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر بھی موجود تھے.

مذاکرات سے قبل پی ٹی آئی رہنما اسد قیصر نے کہا کہ حکومت اور پی ٹی آئی کے آج مذاکرات ہوں گے ہم آج اپنا تحریری موقف حکومت کو دیں گے، اب آگے حکومت کا ردعمل دیکھنا ہے کہ حکومت کتنی سنجیدگی دکھاتی ہے. اسد قیصر نے کہا کہ ہم نے حکومت کو مذاکرات کے نتائج نکالنے کا موقع دیا ہے، اب یہ دیکھنا ہے کہ حکومت ملک کو سیاسی بحران سے نکالنے کیلئے کیا کرتی ہے انہوں نے کہا کہ فارم 47 کے حوالے سے ہمارا موقف وہی ہے، موجودہ ملکی سیاسی صورتحال کو دیکھتے ہوئے ہم مذاکرات کر رہے ہیں.

ادھرپی ٹی آئی راہنما بیرسٹر علی ظفر کا کہنا ہے کہ عمران خان نے دوٹوک ہدایت دی ہیں اور کہا ہے کہ اگر حکومت نہیں مانتی تو پھر آئندہ بیٹھک نہیں ہوگی اگر آج ہمارے دو مطالبات نہ مانے گئے تو پھر دوبارہ مذاکرات نہیں ہوں گے انہوں نے کہا کہ آج حکومت نے معاملے کو آگے بڑھایا تو مذاکرات آگے چلیں گے اگر حکومت نے معاملات درست نہ کیے تو یہ آخری بیٹھک ہے.

اپوزیشن کی مذاکراتی کمیٹی کے رکن صاحبزادہ حامد رضا نے کہا کہ آج تمام مطالبات تحریری طور پر دے دیں گے جوڈیشل کمیشن کے حوالے سے تمام تحریری مطالبات حکومت کو دیں گے صاحبزادہ حامد رضا نے کہا کہ جوڈیشل کمیشن پر حکومت رضا مند نہیں ہوتی تو آئندہ سیشن نہیں ہوگا کمیشن اور اسیران کی رہائی دو مطالبات ہیں. تحریک انصاف کے سیکرٹری جنرلسلمان اکرم راجہ نے کہا کہ جوڈیشل کمیشن کیلئے حکومت چاہے تو کل کرسکتی ہے قانون کے مطابق ضمانت اور سزا معطلی حکومت کے اختیار میں ہے سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ ہم این آر او نہیں مانگ رہے، حق مانگ رہے ہیں دوسری جانب حکومتی مذاکراتی کمیٹی کے ترجمان سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا کہ حکومت پی ٹی آئی کے مطالبات پر 31 جنوری سے پہلے اپنا جواب دے دے گی.

متعلقہ مضامین

  • بھارت میں معیارِ زندگی پاکستان سے بہتر ہے، وہاں خوشی زیادہ ہے: دیپک پروانی
  • تنہا زندگی کے مثبت و منفی پہلو
  • معروف موسیقار انتقال کر گئے
  • چین کی جانب سے پاکستانی سیٹلائٹ سمیت تین مصنوعی سیاروں کی کامیاب لانچنگ
  • ہمارے مذاکرات کامیاب نہ ہو سکے تو احتجاج اوو سے آگے جائے گا. عمر ایوب
  • اگر عمران خان نے این آر او مانگنا ہوتا تو 2 سال پہلے مانگتے: شبلی فراز
  • ہائے موت،تجھے موت ہی آئے
  • کامیاب مذاکرات سے سیاسی استحکام آجائیگا، شرمیلا فاروقی
  • ایک چہرے پر…
  • بلوچستان دور ہوتا جا رہا ہے: کامران مرتضیٰ