امریکی صدر جو بائیڈن پرنانا بن گئے، پڑنواسے کی ساتھ تصاویر سوشل میڈیا پر وائرل
اشاعت کی تاریخ: 10th, January 2025 GMT
اسلام آ باد:
انسداد دہشت گردی عدالت نے ڈی چوک احتجاج پر درج مقدموں میں گرفتارپی ٹی آئی کے 150 کارکنوں کی ضمانت منظورکرلیں۔
جج ابوالحسنات ذوالقرنین کے روبرو انصرکیانی ایڈووکیٹ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ تمام مقدمات کا متن ایک جیسا ہے،ہر مقدمے میں سیاسی قیادت کو نامزد کیا گیا ،کسی کارکن کو نہیں،مدعی بھی ایس ایچ اوز ہیں جو متن سے بخوبی واقف ہوتے ہیں۔
استغاثہ زاہد آصف نے موقف اپنایا تمام ملزمان کو شناخت پریڈ کے بعد گرفتار کیا گیا،ان سے برآمدگیاں کی گئیں، شہادتیں بھی ہوئیں اور پولیس والے زخمی ہوئے۔
عدالت نے دلائل سننے کے بعد فیصلہ محفوظ کر لیا بعد ازاں 10 کارکنوں کی ضمانت کی درخواستیں مسترد کردیں۔
ملزموں کے خلاف کھنہ، مارگلہ،سیکرٹریٹ، شمس کالونی، نون اور دیگر تھانوں میں مقدمے درج ہیں۔
.ذریعہ: Express News
پڑھیں:
ڈاکٹر عافیہ صدیقی جو بائیڈن سے صدارتی معافی ملنے کے لیے پرامید
ڈاکٹر عافیہ صدیقی جو بائیڈن سے صدارتی معافی ملنے کے لیے پرامید WhatsAppFacebookTwitter 0 18 January, 2025 سب نیوز
نیویارک:امریکی حراست میں قید پاکستانی نیورو سائنٹسٹ ڈاکٹر عافیہ صدیقی نے امید ظاہر کی ہے کہ ان کے خلاف مقدمے کے حوالے سے ان کے حق میں نئے شواہد سامنے آنے کے بعد انہیں رہا کر دیا جائے گا۔
برطانوی نشریاتی ادارے اسکائی نیوز کے مطابق ڈاکٹر عافیہ صدیقی نے یہ بات اپنے وکیل کے توسط سے خصوصی طور پر اسے بتائی۔
انہوں نے خود کو بے گناہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ مجھے امید ہے کہ مجھے بھلایا نہیں گیا، ایک دن جلد ہی مجھے رہا کر دیا جائے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ میں ناانصافی کا شکار ہوں، ہر دن اذیت ناک ہے، یہ آسان نہیں، انہوں نے مزید کہا کہ انشااللہ ایک دن میں اس اذیت سے آزاد ہو جاؤں گی۔”
ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے وکیل کلائیو اسٹافورڈ اسمتھ نے سبکدوش ہونے والے امریکی صدر جو بائیڈن سے اپنی مؤکلہ کو معافی دینے کا مطالبہ کیا اور انہیں 76 ہزار 500 الفاظ پر مشتمل ایک ڈوزیئر بھی پیش کیا ہے۔
صدر جو بائیڈن کے پاس خاندان کی درخواست پر غور کرنے کے لیے پیر تک کا وقت جب کہ ڈونلڈ ٹرمپ حلف اٹھائیں گے، اب تک بائیڈن 39 لوگوں صدارتی معافی دے چکے اور 3ہزار 989 افراد کی سزائیں کم کرچکے ہیں۔
عافیہ صدیقی کے وکیل نے گواہوں کی شہادتوں کا حوالہ دیتے ہوئے جو ان کے مقدمے کی سماعت کے وقت دستیاب نہیں تھیں، دعویٰ کہ انٹیلی جنس کی غلطیوں کی وجہ سے وہ ابتدائی طور پر مشتبہ قرار دی گئیں۔
انہوں نے الزام لگایا کہ جب ڈاکٹر صدیقی 2003 میں پاکستان کے دورے پر تھیں، انہیں ملک کی انٹر سروسز انٹیلی جنس ایجنسی نے تین بچوں کے ہمرا تحویل میں لیا اور سی آئی اے کے حوالے کر دیا جو انہیں افغانستان میں بگرام ایئر بیس لے گئی۔
وکیل کا کہنا تھا کہ امریکی انٹیلی جنس نے غلط اندازہ لگایا جب کہ ایجنسیوں کا خیال تھا کہ ڈاکٹر صدیقی ایک نیوکلیئر فزیکسٹ ہیں جو کہ ریڈیو ایکٹو بم بنانے کے لیے کام کر رہی ہیں جب کہ درحقیقت انہوں نے ایجوکیشن میں پی ایچ ڈی کی تھی۔
امریکی محکمہ انصاف نے ڈاکٹر صدیقی کے بارے میں تمام الزامات کے بارے میں اسکائی نیوز کو بتایا کہ وہ رد عمل دینے سے کریز کرے گا۔اس کے علاوہ سی آئی اے نے بھی تاحال رد عمل دینے کی ہماری درخواست کا جواب نہیں دیا۔