Jasarat News:
2025-01-18@10:00:48 GMT

اسلام میں مصالح اور علما کی آرا

اشاعت کی تاریخ: 10th, January 2025 GMT

اسلام کی مختلف خصوصیات میں سے ایک خصوصیت یہ ہے کہ یہ دین مصلحتوں اور حکمتوں پر مبنی ہے۔ اس کے لیے ’دین میں مصالح‘ کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جو احکام دیے ہیں ان میں انسانوں کے لیے بے پناہ فوائد پوشیدہ ہیں۔ اگر ان احکام پر عمل نہ کیا جائے اور دین کو ترک کردیا جائے تو ان فوائد سے محرومی کے ساتھ طرح طرح کے نقصانات لاحق ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’اور اللہ نے تمھارے لیے دین میں کوئی حرج نہیں بنایا ہے‘‘۔ (الحج: 78)

قرآن و حدیث میں ایسی بے شمار نصوص ہیں جن میں احکام میں مصالح اور حکمتوں کی وضاحت کی گئی ہے اور علما نے اس پر مستقل کتابیں تصنیف کی ہیں، جن میں اسرار شریعت اور احکام کی علتوں کو بیان کیا گیا ہے۔ علماے اہل سنت کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اللہ تعالیٰ حکیم ہے اور اس کے احکام میں حکمت و مصلحت پائی جاتی ہے۔ امام ابن تیمیہؒ لکھتے ہیں: تمام اَئمہ و فقہا احکام شرع میں حکمت و مصالح کے اثبات کے مسئلے پر متفق ہیں۔ اس سلسلے میں قیاس کو نہ ماننے والوں اور کچھ دوسرے لوگوں نے اختلاف کیا ہے۔

جو لوگ احکام میں مصالح اور حکمتوں کا انکار کرتے ہیں ان کے اعتراضات کا جواب دیتے ہوئے امام موصوف لکھتے ہیں: ’’اہل سنت اللہ تعالیٰ کے احکام میں تعلیل (علت) کے قائل ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کسی چیز کو پسند کرتا ہے اور وہ راضی ہوتا ہے، جیسا کہ قرآن و سنت سے ثابت ہے۔ ان کے نزدیک پسند کرنا اور راضی ہونا مطلق طور پر کسی چیز کا ارادہ کرنے کے مقابلے میں زیادہ خاص ہے (یعنی کسی حکم کی بجا آوری رضاے الٰہی کے لیے ہونا اس کی علت قرار دی جاسکتی ہے)۔ بے شک اللہ تعالیٰ کفر، فسق اور عصیان کو پسند نہیں کرتا، اگرچہ اللہ کی مشیّت و ارادے کے بغیر کوئی شخص ان افعال کو انجام نہیں دے سکتا‘‘۔ (منھاج السنۃ النبوی، ابن تیمیہ)

ایک اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ احکام میں علّت تسلیم کرنے کی صورت میں تسلسل اور دور لازم آئے گا اور اللہ تعالیٰ حکمت کا تابع قرار پائے گا، جس سے وہ برتر و بالا ہے۔ اس اعتراض کا جواب دیتے ہوئے امام موصوف لکھتے ہیں: ’’یہ تسلسل مستقبل میں واقع ہونے والے واقعات کے بارے میں لازم آتا ہے نہ کہ گذشتہ واقعات کے بارے میں۔ پس جب اللہ تعالیٰ نے کسی کام کو کسی حکمت کے لیے انجام دیا تو حکمت اس فعل کے بعد حاصل ہوگئی۔ اب اگر اس حکمت سے دوسری حکمت چاہی جائے تو یہ تسلسل مستقبل میں پیش آئے گا۔ اور وہ حاصل شدہ حکمت اللہ تعالیٰ کے نزدیک پسندیدہ اور ایک دوسری حکمت کا سبب ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیشہ ایسی حکمتیں پیدا کرتا رہتا ہے جن کو وہ پسند کرتا ہے اور ان کو دوسری حکمتوں کا سبب بھی بناتا رہتا ہے۔ جمہور مسلمان اور دوسرے فرقوں کے لوگ مستقبل میں تسلسل کے قائل ہیں، ان کے نزدیک جنت اور جہنم میں ثواب و عذاب ایک کے بعد ایک تسلسل کے ساتھ حاصل رہے گا‘‘۔ (ایضاً)

امام موصوف دین میں مصالح اور حکمتوں کی موجودگی کے حوالے سے لکھتے ہیں: ’’جب فرد کو معلوم ہوگیا کہ فی الجملہ اللہ تعالیٰ کے دین (اوامر و نواہی) میں عظیم حکمتیں ہیں تو اتنی ہی بات اس کے لیے کافی ہے، پھر جوں جوں اس کے ایمان و علم میں اضافہ ہوگا اس پر حکمت اور رحمت الٰہی کے اسرار کھلتے جائیں گے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم میں ارشاد فرمایا ہے: ’’عن قریب ہم ان کو ا پنی نشانیاں آفاق میں بھی دکھائیں گے اور ان کے اپنے نفس میں بھی، یہاں تک کہ ان پر یہ بات واضح ہوجائے گی کہ یہ قرآن برحق ہے‘‘۔ (حٰم السجدہ: 53) یا جیسا کہ ایک حدیث میں اس مفہوم کو مزید واضح کیا گیا ہے: ’’اللہ بندوں کے حق میں اس سے زیادہ رحیم ہے، جتنا ماں اپنے بچے کے لیے رحم دل ہوتی ہے‘‘۔ (فتاویٰ ابن تیمیہ)
شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ نے اپنی کتاب حجۃ اللہ البالغۃ میں ان لوگوں کی پْرزور تردید کی ہے جنھوں نے احکام میں مصلحتوں کا انکار کیا ہے۔ لکھتے ہیں: ’’بعض لوگ خیال کرتے ہیں کہ احکام شرعیہ قطعاً حکمتوں اور مصلحتوں پر مشتمل نہیں ہیں۔ یہ خیال سراسر فاسد ہے اور سنت اور اجماعِ امت سے اس کی تردید ہوتی ہے‘‘۔

مصالح کے فوائد
شاہ ولی اللہؒ نے ان مصالح اور حکمتوں کو جاننے کے فوائد بھی تفصیل سے بیان کیے ہیں۔ ان میں سے بعض اہم فوائد درج ذیل ہیں:
1۔اس سے معجزۂ قرآن کی طرح (جس کے معارضے سے انسان عاجز ہوگئے) شریعت کے معجزے کا اظہار ہوتا ہے کہ سیدنا محمدؐ کی لائی ہوئی شریعت تمام شریعتوں سے کامل تر ہے، اور اس میں ایسی مصلحتیں پیش نظر رکھی گئی ہیں جن کی رعایت کسی اور طریقے پر ممکن نہیں۔ یہ کامل شریعت ایک نبی اْمی کی طرف سے پیش کی گئی ہے۔
2۔شریعت ِاسلامیہ پر کامل ایمان ویقین کے ساتھ اگر اس کی مصلحتیں بھی معلوم ہوجائیں تو اطمینانِ قلبی حاصل ہوتا ہے اور یہ طمانیت شرعاً مطلوب ہے، جیسا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ایمان کامل کے باوجود اللہ تعالیٰ سے اس کا مطالبہ کیا تھا۔ چنانچہ اس کے لیے ان کے سامنے ایک معجزہ دکھا دیا گیا۔ (البقرہ: 260)

3۔فروعی مسائل میں فقہا کے درمیان اختلافات رونما ہوئے ہیں۔ مصالح کے علم سے ان اختلافات میں کسی ایک مسئلے کو ترجیح دینے میں مدد ملتی ہے۔
4۔شریعت کے بعض مسائل میں بعض فرقوں کو شک ہے۔ وہ خیال کرتے ہیں کہ ان میں شریعت کا حکم خلافِ عقل ہے اور جو چیز عقل کے خلاف ہو، اسے رد کردینا چاہیے، جیسے عذابِ قبر کے بارے میں معتزلہ کو شک ہے۔ اسی طرح قیامت میں حساب کتاب اور اعمال کے تولے جانے کے بارے میں وہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ علیم و خبیر ہے، اسے حساب لینے اور اعمال کو تولنے کی کیا ضرورت؟ غرض کہ اس طرح کے اور دیگر مسائل کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ خلافِ عقل ہیں۔ اس کا سدّباب اس طرح کیا جاسکتا ہے کہ ان کے بارے میں مصلحتوں اور حکمتوں کو بیان کیا جائے، تاکہ شک کا ازالہ ہو۔(حجۃ اللہ البالغۃ)

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: میں مصالح اور کے بارے میں احکام میں جیسا کہ ہیں کہ ہے اور کے لیے

پڑھیں:

اِنَّ بَطشَ رَبِّکَ لَشَدِید

مکافات عمل ایک ایسا تصور ہے جس کا تعلق انسان کے اعمال کے نتائج سے ہے، یعنی جو شخص جو عمل کرے گا، اسے اس کے مطابق نتیجہ ملے گا۔ قرآن اور حدیث میں بھی اس بات کا ذکر ہے کہ اچھے اعمال کا اچھا اور برے اعمال کا برا نتیجہ نکلتا ہے۔ غزہ میں مسلمانوں پر میزائلوں کے ذریعے بمباری کرنے والوں کا انجام ان کی اپنی ہی کارروائیوں کا نتیجہ بن سکتا ہے۔ جب ظلم و جبر کا شکار لوگ انتقام کے بجائے اللہ کی مدد پر بھروسا کرتے ہیں، تو اللہ کی قدرت کے سامنے انسان کا کوئی زور نہیں ہوتا۔ اس حقیقت کو سمجھنا ضروری ہے کہ ظلم اور جبر کا نتیجہ ہمیشہ منفی ہوتا ہے، اور اللہ کی طرف سے آنے والا عذاب انسانوں کو ان کے کیے گئے اعمال کا بدلہ دیتا ہے۔ اس لیے اسلامی تعلیمات میں ہم یہ دیکھتے ہیں کہ ظالم حکمرانوں اور طاقتوروں کو تنبیہ کی جاتی ہے کہ وہ اللہ کے عذاب سے بچیں، کیونکہ کوئی بھی ظلم اور جبر آخرکار ان کے لیے تباہی کا باعث بنے گا۔

امریکی حکمرانوں نے غزہ کو جہنم بنانے کی دھمکی دی تھی، مگر اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان کے اپنے ہی شہر کو جہنم کا منظر بنا دیا۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے فرعونی لہجے میں حماس کو وارننگ دی تھی کہ ’’اگر یرغمالی میرے اقتدار میں آنے تک واپس نہ آئے تو مشرق وسطیٰ میں قیامت برپا ہو جائے گی۔ اور یہ حماس کے لیے اچھا نہیں ہوگا، اور یہ کسی کے لیے بھی اچھا نہیں ہوگا‘‘۔ لیکن اللہ کے حکم کے سامنے انسان کی کوئی طاقت نہیں، اور قدرت اپنے طور پر اپنا انصاف قائم کرتی ہے۔ آج وہی امریکی حکمران، جنہوں نے دوسروں کے لیے آگ بھڑکائی، خود اپنی سر زمین پر تباہی کا سامنا کر رہے ہیں۔ یہ واقعہ اس بات کا واضح اشارہ ہے کہ ہر شخص کو اپنے عمل کا حساب دینا ہوتا ہے، اور اللہ کا عدل نہ صرف دوسروں کے لیے بلکہ انسانوں کے اپنے لیے بھی برپا ہوتا ہے۔

لاس اینجلس، جو کبھی ترقی، سہولتوں اور جدید ٹیکنالوجی کی علامت سمجھا جاتا تھا، پل بھر میں قدرت کے قہر کی لپیٹ میں آگیا۔ جنگلات میں بھڑکنے والی تاریخ کی سب سے ہولناک آگ نے بڑے پیمانے پر تباہی مچائی، بے شمار املاک کو خاکستر کر دیا، اور جدید تمدن کے دعوے خاک میں ملا دیے۔ یہ آفت، جسے امریکی تاریخ کی سب سے مہنگی اور سنگین تباہی قرار دیا جا رہا ہے، اربوں ڈالر کے نقصانات کا سبب بنی ہے۔ یہ واقعہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی قدرت لامحدود ہے اور انسان کو اپنے اعمال کا انجام ضرور دیکھنا پڑتا ہے۔ جیسا کرو گے، ویسا ہی بھرو گے۔

صہیونی قوت کی مسلسل حمایت کرنے والے جیمس ووڈ نے تباہ حال مسلمان کے گھر کے ملبے پر بیٹھی مسلم خاتون کی تصویر پوسٹ کرکے کمنٹ کیا تھا ’’شکر ہے کہ اسرائیل نے بائیڈن کے کٹھ پتلی آقاؤں کی بات نہیں مانی۔ ویسے زبردست کام کیا‘‘ اور اس سے آگے بڑھ کر اپنی متعصب بے رحمانہ ذہنیت کی عکاسی کرتے ہوئے کہا تھا ’’نہ سمجھوتا، نہ جنگ بندی، نہ معافی‘‘۔ جب کہ اس پوسٹ کے ساتھ اس نے ’سب کو مار دو‘ کا ہیش ٹیگ بھی استعمال کیا تھا۔ آج وہ ظالم انسان اپنے گھر کو تباہ ہوتا دیکھ کر زار و قطار آنسو بہا رہا ہے۔ وہ مظلوم مسلمانوں کی تکلیف پر خوشی مناتے ہوئے اسرائیل کی جارحیت کو سراہ رہا تھا، جو ایک غیر انسانی اور ظالمانہ عمل کی حمایت کے مترادف تھا۔ یہاں جیمز کو اس کے ماضی کے عمل یا موقف کی یاد دہانی کروائی جا رہی ہے، خاص طور پر اسرائیل کے غزہ میں مبینہ نسل کشی کی حمایت اور اس پر خوشی منانے کے حوالے سے۔ ایسے مواقع پر، یاد دہانی ایک اخلاقی آئینہ پیش کرنے کا کام کر سکتی ہے، تاکہ فرد کو اپنے موقف کی حقیقت اور اثرات کو سمجھنے کا موقع ملے۔

رابرٹ ڈی نیرو جو غزہ میں قتل عام پر جشن مناتا رہا، اس کی 21 ملین ڈالر کی جائداد بھی آگ کی لپیٹ میں آ کر راکھ ہو چکی ہے۔ قرآن کریم میں بارہا یہ بیان کیا گیا ہے کہ ظالموں کو ان کے اعمال کا بدلہ دنیا یا آخرت میں ضرور ملتا ہے۔ یہ واقعہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ ہمیں کسی بھی حالت میں ظلم اور ناانصافی کی حمایت نہیں کرنی چاہیے اور مظلوموں کے درد کو محسوس کرنا چاہیے، کیونکہ اللہ کی پکڑ کسی کو بھی معاف نہیں کرتی۔ ’’یقینا تیرے ربّ کی پکڑ بڑی سخت ہے‘‘۔ (سورہ البروج: 12)

اللہ کی پکڑ کا تعلق صرف انسانوں کے اعمال سے نہیں، بلکہ اس کے عدل و انصاف کی عکاسی بھی ہے جو تمام مخلوقات کے لیے ایک پیغام ہے۔ جب ظلم بڑھتا ہے اور اس کے نتیجے میں تباہی و بربادی آتی ہے، تو یہ دراصل اللہ کی طرف سے ایک تنبیہ ہوتی ہے تاکہ لوگ اپنی روش کو درست کریں اور برائیوں سے بچیں۔ ظالموں کی سزا نہ صرف آخرت میں ہوگی، بلکہ دنیا میں بھی اللہ تعالیٰ کا نظام اپنی تکمیل کرتا ہے۔ یہ ہمیں سکھاتا ہے کہ ظلم کے خلاف آواز اٹھانا، حق کا ساتھ دینا اور مظلوموں کے ساتھ کھڑا ہونا، یہ سب فرضِ عین ہیں۔ اللہ کی پکڑ کسی کو معاف نہیں کرتی، اور ہر شخص کو اپنے عمل کا نتیجہ بھگتنا پڑتا ہے۔ یہ واقعہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ ہمارے ہر عمل کا اثر ہم پر پڑتا ہے، اور ہم جب ظلم کا حصّہ بننے سے بچیں گے تو اللہ کی رضا اور انصاف ہمارے ساتھ ہوگا۔

لاس اینجلس کی تباہی اس بات کا مظہر ہے کہ دنیاوی ترقی، سہولتیں اور ٹیکنالوجی انسان کو قدرت کے فیصلوں سے محفوظ نہیں رکھ سکتی۔ یہ حادثہ دنیا کو پیغام دیتا ہے کہ انسان کو اپنی طاقت پر گھمنڈ نہیں کرنا چاہیے اور ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے آگے عاجزی اور شکر گزاری کے ساتھ جھکنا چاہیے۔ یہ واقعات ہمیں اپنی زندگی کا محاسبہ کرنے، اپنے اعمال کی درستی اور اللہ کے احکامات پر عمل کرنے کی دعوت دیتے ہیں۔ یہ حادثہ ہمیں یہ سمجھاتا ہے کہ حقیقی کامیابی دنیاوی مال و دولت یا طاقت میں نہیں، بلکہ اللہ کی رضا اور اس کے احکامات کی پیروی میں ہے۔

غزہ کو تباہ و برباد کرنے والے اسرائیل کے ہم نوا امریکا کو قدرت نے اپنے اعمال کا مزہ چکھا دیا ہے۔ لاس اینجلس، جو امریکا کا ایک شاندار اور ترقی یافتہ شہر تھا، آج تباہی کے مناظر پیش کر رہا ہے اور غزہ جیسا دکھائی دے رہا ہے۔ ہالی ووڈ کی چمک دمک اور امیروں کی پرتعیش رہائش گاہیں راکھ کے ڈھیر میں بدل چکی ہیں، اور وہ مشہور اداکارہ کا گھر بھی برباد ہو چکا ہے جسے 35 ملین ڈالر میں فروخت کے لیے پیش کیا گیا تھا۔ امریکی حکام کا کہنا ہے کہ ’’آگ کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے جیسے کسی نے اس علاقے پر ایٹم بم گرا دیا ہو‘‘۔ یہ منظر ایک بار پھر اللہ کے انصاف کی حقیقت کو بے نقاب کرتا ہے۔ جیسا عمل کرو گے، ویسا ہی بدلہ پاؤ گے۔

اسرائیل اور امریکا نے جس طرح غزہ کو تباہ کیا، قدرت نے لاس اینجلس میں اسی طرح کی تباہی کا منظر پیش کیا ہے۔ یہ واقعہ ایک واضح پیغام دیتا ہے کہ دنیا کی کوئی طاقت اللہ کے انصاف سے بچ نہیں سکتی، اور ہر انسان کو اپنے کیے کا بدلہ یہاں ہی ملتا ہے۔ یہ قدرت کا قانون ہے، جو کسی سے نہیں بچ سکتا، اور اس میں انسانوں کو اپنی حقیقت کا احساس دلایا جاتا ہے کہ اللہ کی رضا اور انصاف سے بڑھ کر کوئی چیز نہیں۔ لاس اینجلس کا واقعہ انسان کو عاجزی اور شکر گزاری کا سبق دیتا ہے۔ یہ واقعہ ہمیں اپنی زندگی کی حقیقت پر غور کرنے کی دعوت دیتا ہے، کہ ہم کس راستے پر جا رہے ہیں اور ہماری ترجیحات کیا ہیں۔ اللہ کے احکامات کی پیروی کرنا اور اس کی رضا کی کوشش کرنا ہماری زندگی کا مقصد ہونا چاہیے۔ قدرتی آفات، جیسے کہ یہ آگ، ہمیں یاد دلاتی ہیں کہ ہماری دنیا کا کوئی حصّہ بھی اللہ کی مرضی سے باہر نہیں ہے اور کہ ہم سب کو اپنی حقیقت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

اسلام میں انسانی جان کی قدر و قیمت کو اوّلین ترجیح دی گئی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ انسانی زندگی اللہ تعالیٰ کی عظیم نعمتوں میں سے ایک ہے، اور کسی جان کا ضیاع پوری انسانیت کے لیے ایک نقصان سمجھا جانا چاہیے۔ البتہ، مالی نقصان بھی زندگی کا ایک حصّہ ہے اور بعض اوقات یہ انسان کو اس کے افعال پر غور و فکر کرنے اور رجوع الیٰ اللہ کی جانب مائل کرنے کا ذریعہ بنتا ہے۔ اس تنبیہ کو سمجھنا اور اپنی زندگی کو درست سمت میں لے جانا، انسان کے لیے رحمت کا سبب بن سکتا ہے۔ یہ سانحہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ ہمیں ہمیشہ شکر گزار رہنا چاہیے اور ہر نقصان یا آزمائش کو اللہ کی طرف سے تنبیہ سمجھ کر اپنی اصلاح کی کوشش کرنی چاہیے۔

آفات، مسائل اور مشکلات پر خوش ہونا مقصد نہیں ہے، مگر جو ظالم مسلمانوں پر ظلم و جبر کی آگ برسا کر خوشی کا اظہار کرتے ہیں، ان کے لیے یہ اللہ کی طرف سے ایک سخت تنبیہ ہے۔ ہم نے اپنی آنکھوں سے جبر و استہزاء کے ایسے مناظر دیکھے ہیں کہ جن کے سامنے یہ منظر محض دھندلے پڑ جاتے ہیں۔ یہ وہ وقت ہے جب اللہ کی پکڑ کا پیغام ہر ظالم کے لیے واضح ہے۔ ظالموں، اگر اب بھی تم اپنے گناہوں اور خطاؤں پر توبہ نہیں کرتے تو یاد رکھو، میرے ربّ کی پکڑ نہایت سخت اور بے رحم ہے۔ یہی وقت ہے کہ تم اپنی اصلاح کرو، ورنہ تمہارے کیے کا حساب سخت ہوگا۔

مکافاتِ عمل کا اصول یہ ہے کہ انسان جو عمل کرتا ہے، اس کا نتیجہ اْسے بھگتنا پڑتا ہے۔ اس کا چرخہ آخرکار گھوم کر انسان تک پہنچتا ہے۔ دنیا میں ہونے والی بے انصافیوں، ظلم اور بدعنوانیوں کا حساب آخرکار لیا جائے گا، اور جو لوگ حق کی خلاف ورزی کرتے ہیں، انہیں اس کا بدلہ ملنا ضروری ہے۔ یہ ایک قدرتی اصول ہے جو کسی نہ کسی صورت میں اپنے اثرات مرتب کرتا ہے۔ ظالموں کو ان کے اعمال کا بدلہ مل کر رہتا ہے، اور ہمیں بھی اپنی زندگی میں عدل، انصاف اور حق کے راستے پر چلنے کی کوشش کرنی چاہیے تاکہ ہم بھی اللہ کی پکڑ سے بچ سکیں۔ اسی لیے اس وقت ہمیں اپنے اعمال کا محاسبہ کرنے کی ضرورت ہے۔ فرداً فرداً اور اجتماعی طور پر ہمیں اللہ کے احکامات کی طرف رجوع کرنا چاہیے، کیونکہ یہ وقت دعا، استغفار اور اللہ کی طرف رجوع کا ہے۔ اللہ کی رحمت کا طلب گار ہونا ضروری ہے تاکہ وہ اپنی عنایت سے ہمیں ڈھانپ لے اور ہمیں آزمائشوں میں سرخرو کرے۔

متعلقہ مضامین

  • قال اللہ تعالیٰ وقال رسول اللہﷺ
  • پی ٹی آئی اور خود احتسابی
  • ولایت تکوینی
  • قرآن کریم کے حقوق
  • ریا کاری (دکھلاوے ) کی مذمت
  • اِنَّ بَطشَ رَبِّکَ لَشَدِید
  • قدرتی آفات سے نمٹنے کیلئے مستحکم حکمتِ عملی اپنانے کی ضرورت ہے: رومینہ خورشید
  • اسداللہ بھٹو کا علما دین کے نام خصوصی پیغام
  •  مالیاتی شمولیت کیلئے ایک مربوط حکمت عملی کی ضرورت ہے، وزیرخزانہ
  • دیامر: علما کے فتویٰ کے بعد امداد میں ملی انگیٹھیاں نذر آتش