Jasarat News:
2025-01-18@13:20:43 GMT

کلام نبوی ﷺ کی کرنیں

اشاعت کی تاریخ: 10th, January 2025 GMT

سیدنا ابوامامہؓ سے روایت ہے کہ رسولؐ نے لوگوں کو ایک غزوے پر بھیجنے کا ارادہ فرمایا تو میں آپؐ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا: آپؐ نے لوگوں کو غزوے پر بھیجنے کا ارادہ فرمایا ہے۔ میں بھی اس غزوے میں جارہا ہوں۔ میرے لیے شہادت کی دْعا فرمائیے۔ آپؐ نے دْعا فرمائی: ’’اے اللہ! انھیں سلامتی عطا فرما اور غنیمت سے نواز‘‘۔ ہم غزوے میں گئے اور صحیح سالم، مالِ غنیمت لے کر واپس لوٹے۔ اس کے بعد پھر آپؐ نے ایک غزوے پر لوگوں کو بھیجنے کا ارادہ فرمایا تو میں پھر حاضر ہوا، اور عرض کیا کہ میرے لیے شہادت کی دْعا کیجیے۔ آپؐ نے پھر وہی دْعا دی جو پہلی مرتبہ دی تھی۔ ہم غزوے میں گئے اور بسلامت مالِ غنیمت لے کر واپس آئے۔ تیسری مرتبہ آپؐ نے ایک غزوے کا ارادہ فرمایا تو میں پھر حاضر ہوا اور شہادت کے لیے دْعا کی درخواست کی۔ آپؐ نے پھر وہی دْعا دی۔ ہم غزوے میں چلے گئے اور مالِ غنیمت لے کر بسلامت لوٹے۔

میں ایک بار پھر آپؐ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا: یارسول اللہ! میں مسلسل تین مرتبہ حاضر ہوا، شہادت کے لیے دْعا کی درخواست کی تو آپؐ نے سلامتی اور مالِ غنیمت لے کر لوٹنے کی دْعا فرمائی۔ اب مجھے کوئی ایسا حکم دیجیے جس سے اللہ تعالیٰ مجھے نفع دے۔ آپؐ نے فرمایا: ’’روزے رکھو، اس کی کوئی مثل نہیں ہے‘‘ (یعنی تزکیہ نفس کا بہترین نسخہ ہے)۔ چنانچہ ابوامامہؓ کے گھر میں دن کے وقت دھواں نہیں دیکھا جاتا تھا۔ اگر کبھی ان کے گھر میں دھواں نظر آتا تو لوگ سمجھ جاتے کہ آج ان کے ہاں مہمان ہیں۔ ابوامامہؓ اور ان کے اہلِ خانہ روزے سے رہتے تھے۔ اس لیے دن کو کھانا نہیں پکتا تھا۔ ابوامامہؓ کہتے ہیں: اس کے بعد میں پھر رسولؐ اللہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا: یارسول اللہ! آپؐ نے مجھے ایسا حکم دیا ہے مجھے امید ہے کہ میں اس پر عمل کروں گا اور اللہ تعالیٰ مجھے اس سے نفع دے گا۔ میں چاہتا ہوں کہ کوئی اور حکم بھی عنایت فرمائیں۔ اس پر آپؐ نے فرمایا: ’’نوافل پڑھا کرو۔ اس حقیقت کو جان لو کہ جتنے سجدے کرو گے ہر سجدہ ایک خطا کو مٹا دے گا اور ایک درجہ بڑھا دے گا‘‘۔ (مسند احمد)

صحابہ کرامؓ کو جامِ شہادت نوش کرنے کا شوق تھا لیکن نبیؐ نے ہر ایک صحابی کے لیے شہادت کی دْعا نہیںکی۔ بعض کے لیے شہادت کی دْعا بھی کی ہے اور انھوں نے جامِ شہادت نوش کرکے شہادت کا درجہ پایا ہے۔ نبیؐ کی نظر سارے پہلوئوں پر تھی۔ ہر ایک مجاہد کے لیے شہادت مطلوب نہیں ہے بلکہ اکثر کے لیے سلامتی اور کامیابی کے ساتھ واپسی مطلوب ہے، تاکہ اللہ تعالیٰ کا دین غالب ہو اور دین کی سربلندی کے لیے جہاد کرنے والے کامیابی کے بعد علاقے کا نظم ونسق اپنے ہاتھ میں لے کر خلقِ خدا کو قرآن و سنت کے مطابق زندگی گزارنے کے مواقع فراہم کریں۔ عدل و انصاف کا دور دورہ ہو اور خلقِ خدا کی ضروریات اور مسائل حل ہوں۔ اس لیے رسولؐ اللہ نے سیدنا ابوامامہؓ کو شہادت کے بجاے غازی ہونے کی دْعا دی۔ ابوامامہؓ نے سمجھا کہ ابھی مہلت عمل اچھی خاصی باقی ہے، اس لیے نبیؐ سے ایسا نسخہ دریافت کیا جائے جس کے نتیجے میں زندگی بارآور اور بابرکت اور درجات کی بلندی کا ذریعہ ہو۔ چنانچہ نبیؐ نے پہلے روزہ اور اس کے بعد نوافل کی تلقین فرمائی کہ روزہ اور نماز سے ایمان کو قوت اور جِلا ملتی ہے اور نیکیاں آسان اور برائیاں مشکل ہوجاتی ہیں۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: اور عرض کیا غنیمت لے کر کے بعد کے لیے

پڑھیں:

ریا کاری (دکھلاوے ) کی مذمت

مولانا قاری محمد سلمان عثمانی

٭جس میں اللہ جل شانہُ کی رضا نہ ہو اس کا کوئی فائدہ نہیں،محض دنیا کو دکھانے کیلئے کام کرنا وبال بن جا تا ہے ٭ارشاد باری تعالیٰ ہے ‘‘بے شک منافق اللہ سے دھوکا کررہے ہیں اور وہ انہیں اس دھوکے کا بدلہ دینے والا ہے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ریاکاری (دکھلاوے )ایک ایسا فعل ہے جو خالق کائنات کو کسی بھی صورت پسند نہیں،ایسا کام جس میں اللہ جل شانہُ کی رضا نہ ہو اس کا کوئی فائدہ نہیں،محض دنیا کو دکھانے کیلئے کام کرنا وبال بن جا تا ہے،جو اللہ کو نا پسند عمل ہے،اللہ تعالیٰ نے اس کی مذمت فرمائی ہے، کوئی بھی کام کیا جا ئے تواس میں اللہ کی رضا شامل ہو ریا کاری نہ ہو،دنیا کو دکھانا مقصد نہ ہو تو اس عمل کا دائمی اجر ہے،جوخالق کائنات کا وعدہ ہے،اللہ تعالیٰ اس کو ضرور اجر عطا فرماتے ہیں۔

ریاکاری ایسا مذموم وصف ہے کہ اس کی وجہ سے مسلمان کا بڑے سے بڑا نیک عمل اللہ کے ہاں رائی کے دانے کی حیثیت نہیں رکھتا، اور ریاکاری کے بغیر کیا ہوا چھوٹاعمل بھی اللہ کے ہاں پہاڑ کے برابر حیثیت رکھتا ہے، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: اے ایمان والو! اپنے صدقات احسان جتا کر اور دکھ دے کر اس شخص کی طرح برباد نہ کر لیا کرو جو مال لوگوں کے دکھانے کے لئے خرچ کرتا ہے اور نہ اللہ پر ایمان رکھتا ہے اور نہ روز قیامت پر، اس کی مثال ایک ایسے چکنے پتھر کی سی ہے جس پر تھوڑی سی مٹی پڑی ہو، پھر اس پر زوردار بارش ہو تو وہ اسے پھر وہی سخت اور صاف پتھر کر کے ہی چھوڑ دے، سو اپنی کمائی میں سے ان (ریاکاروں) کے ہاتھ کچھ بھی نہیں آئے گا، اور اللہ، کافر قوم کو ہدایت نہیں فرماتا(سورۃ البقرہ)

اس آیت میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے واضح انداز میں بیان فرمایا ہے کہ جو عمل اس کی رضا و خوشنودی اور آخرت میں ثواب کی امیدکے حصول کے بجائے، نام و نمود اور ریاکاری و دکھاوے کے جذبے سے انجام دیا جائے، تو اس عمل پر کوئی ثواب نہیں ملتا اور وہ عمل ضائع اور برباد ہو جاتا ہے۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے ‘‘بے شک منافق اللہ سے دھوکا کررہے ہیں اور وہ انہیں اس دھوکے کا بدلہ دینے والا ہے اور جب نماز کے لیے کھڑے ہوتے ہیں تو بڑی کاہلی کی حالت میں کھڑے ہوتے ہیں،صرف لوگوں کو دکھاتے ہیں اور یاد الٰہی تو یوں ہی برائے نام کرتے ہیں۔’’ (سورۃ النساء 142)

اسی طرح ایک مقام پر نماز میں سستی و غفلت کرنے والے ریا کاروں کیلئے ہلاکت کی وعید سنائی گئی ہے، اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: ‘‘ہلاکت و بربادی ہے اُن نمازیوں کے لئے جو اپنی نماز سے غافل ہیں وہ جو ریا کاری کرتے ہیں’’(سورۃ الماعون) یعنی نمازوں کا اہتمام نہیں کرتے، ان کی ادائیگی میں غفلت برتتے ہیں، نمود ونمائش اور لوگوں کو دکھانے کیلئے کبھی لوگوں کے درمیان ہوتے ہیں تو پڑھ لیتے ہیں، ورنہ ان کی زندگی میں نماز کا کوئی اہتمام اور حصہ نہیں ہوتا۔

اس طرح قرآن پاک میں ایک اورجگہ ریا کاری کو کافروں کا شیوہ قرار دیتے ہوئے اہل ایمان کو اس سے روکا گیا، ارشاد باری تعالیٰ ہے ‘‘اور ان لوگوں کی طرح نہ ہوجاؤ جو اتراتے ہوئے اور لوگوں میں خود نمائی (دکھاوا) کرتے ہوئے اپنے گھروں سے نکلے’’(سورۃ الانفال47)یہی وجہ ہے حضورﷺ کواپنی امت کے بارے میں اس بات کا بہت ڈر(اندیشہ)تھا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ میری امت اس بیماری کا شکار ہوجائے۔

اس لئے آپﷺ نے اس کی برائی اور تباہی کو اپنے ارشادات سے واضح فرمایا۔ حضرت ابوہریرہ ؓ سے مروی ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا: ‘‘قیامت کے دن تین بندے رب کی بارگاہ میں حاضر ہوں گے۔ ان میں سے پہلا شخص ایسا ہوگا جو کہ شہید ہوگا،اللہ تعالیٰ اسے دنیا میں دی جانے والی نعمتیں گنوائے گا، شہید نعمتوں کا اقرار کرے گا، پھر اللہ تعالیٰ اس سے پوچھے گا تو نے ان سب نعمتوں کے مقابل دنیا میں میرے لیے کیا کیا؟ وہ عرض کرے گا، میں نے تیری راہ میں اپنی جان قربان کردی۔رب فرمائے گا تو جھوٹا ہے، تو نے جان اس لیے قربان کی کہ لوگ تجھے بہادر اور شہید کہیں، تو شہید کہلا چکا۔ فرشتو! لے جاؤ اسے اور ڈال دو جہنم میں، فرشتے اسے گھسیٹتے ہوئے لے جائیں گے اور اسے جہنم میں ڈال دیں گے۔ پھر ایک دوسرا شخص رب کی بارگاہ میں حاضر ہوگا جو عالم و قاری ہوگا، رب تعالیٰ اسے بھی دنیا میں دی گئی نعمتیں گنوائے گا، وہ ان نعمتوں کا اقرار کرے گا۔ (صحیح مسلم)  پھر رب تعالیٰ اس سے پوچھے گا کہ تو نے ان نعمتوں کے مقابل دنیا میں میرے لیے کیا کیا؟ وہ عرض کرے گا میں نے علم سیکھا اور سکھایا، قرآن پاک پڑھا اور پڑھایا۔ رب تعالیٰ فرمائے گا تو نے علم سیکھا اور سکھایا اس غرض سے کہ عالم کہلایا جائے، قرآن پاک اس لیے پڑھا اور پڑھایا کہ قاری کہلایا جائے، تو دنیا میں تو کہلا چکا۔ فرشتو! لے جاؤ اسے اور ڈال دو جہنم میں۔ فرشتے اسے گھسیٹتے ہوئے لے جائیں گے اور اسے جہنم میں ڈال دیں گے۔پھر آخر میں ایک سخی، رب کی بارگاہ میں حاضر ہوگا۔ اللہ تعالیٰ اسے بھی دنیا میں دی جانے والی نعمتیں یاد دلوائے گا۔ وہ نعمتوں کا اقرار کرے گا، پھر رب فرمائے گا کہ تو نے ان نعمتوں کے مقابل دنیا میں میرے لیے کیا کیا؟ وہ عرض کرے گا، اے رب! میں نے اپنی ساری دولت تیری مخلوق پر لٹا دی۔ رب تعالیٰ فرمائے گا تو جھوٹا ہے، تو نے دولت اس لیے خرچ کی کہ لوگ تجھے سخی کہیں، تو دنیا میں سخی کہلا چکا۔ فرشتو لے جاؤ،اس سخی کو اور ڈال دو جہنم میں۔ فرشتے اسے گھسیٹتے ہوئے لے جائیں گے اور جہنم میں ڈال دیں گے’’۔

اس طویل حدیث سے یہ ثابت ہوا کہ عبادت وہی قابل قبول ہے جو خالصتاً اللہ عزوجل کی خوشنودی اور اس کی رضا کے لیے کی جائے،جب کہ ایسی عبادت جو اللہ کے بجائے کسی اور کو دکھانے کے لیے کی جائے، وہ خواہ کوئی بھی کرے،جہنم کا ایندھن ثابت ہوگی۔ (مسلم شریف)رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا ‘‘میں تمہارے بارے میں سب سے زیادہ ‘‘شرک اصغر’’ سے ڈرتا ہوں۔ صحابہ کرامؓ نے دریافت کیا یا رسول اللہﷺ!شرک اصغر کیا ہے؟ آپ ﷺنے فرمایا ریا کاری’’(مسند احمد) ایک اور روایت میں رسول اللہﷺنے اپنی اُمت کے بارے میں شرک کا خوف ظاہر فرمایا۔ دریافت کیا گیا کہ کیا آپ ﷺکے بعد آپ ﷺکی اُمت شرک میں مبتلا ہوجائیگی؟ آپﷺ نے ارشاد فرمایا: ہاں! پھر یہ وضاحت فرمائی کہ وہ لوگ چاند سورج کی پتھر اور بتوں کی پرستش نہیں کریں گے، لیکن ریا کاری کریں گے اور لوگوں کو دکھانے کیلئے نیک کام کریں گے۔ (تفسیر ابن کثیر)حضرت ابو سعید خدریؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: کیا تمہیں وہ چیز نہ بتادوں جو میرے نزدیک تمہارے لئے دجال سے (یعنی دجال کے فتنے سے) بھی زیادہ خطرناک ہے؟ عرض کیاگیا، یا رسول اللہﷺ ضرور بتائیں، آپ ﷺنے ارشاد فرمایا: ‘‘شرک ِخفی (یعنی پوشیدہ شرک اس کی ایک صورت) یہ کہ آدمی کھڑا نماز پڑھ رہا ہو، پھر اس بنائپر اپنی نمازکو مزین کردے کہ کوئی آدمی اسے دیکھ رہا ہے۔’’(ابن ماجہ)رسول اللہ ﷺنے ارشاد فرمایا ‘‘جس نے دکھاوے کے لئے نماز پڑھی، اس نے شرک کیا، جس نے دکھاوے کے لئے روزہ رکھا،اس نے شرک کیا اور جس نے دکھاوے کے لئے صدقہ کیا اس نے شرک کیا’’(جامع العلوم والحکم)حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے،رسول اللہﷺکا ارشادِ گرامی ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے

‘‘میں شرک (شراکت) سے سب شرکاء سے زیادہ بے نیاز ہوں، جو کوئی ایسا عمل کرے، جس میں میرے ساتھ کسی دوسرے کو بھی شریک کرے تو میں اسے اور اس کے شرک کو چھوڑ دیتا ہوں۔’’(صحیح مسلم)کسی عمل میں دوسرے کی ذرہ برابر شرکت بھی اللہ تعالیٰ کو پسند نہیں، وہ ایسے عمل کو قبول ہی نہیں فرماتا۔کوئی نیکی خالص اللہ کیلئے کرنے کے بجائے لوگوں کو دکھانے کیلئے کی جائے، اللہ کی خوشنودی کے بجائے، لوگوں کی خوشنودی یا شہرت و نمود کا جذبہ اور لوگوں میں مقام و مرتبہ پانے یا ان کے درمیان نمایاں ہونے کا جذبہ شامل ہوجائے تو یہ ریا کاری ہے جو سخت مذموم اورناپسندیدہ عمل ہے۔

اللہ تعالیٰ ہمیں دکھاوے اور ریاکاری سے بچنے کی توفیق نصیب فرمائے۔(آمین)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

متعلقہ مضامین

  • اڈیالہ جیل میں شیخ رشید اورعمران خان بغل گیر ،بوسہ لیا
  • ولایت تکوینی
  • قرآن کریم کے حقوق
  • ریا کاری (دکھلاوے ) کی مذمت
  • اِنَّ بَطشَ رَبِّکَ لَشَدِید
  • حیا کا جامع تصور
  • عصر حاضر علم و آگہی اور شعور کا دور ہے ، تعلیم کے بغیر ترقی ہوہی نہیں سکتی ،نصیراحمد بلوچ
  • رسول کریمؐ کی عائلی زندگی کے راہ نما اصول 
  • غزہ میں 15 ماہ تک جاری جنگ میں47 ہزار فلسطینیوں کی شہادت، 85 ہزار ٹن بارود برسایا گیا
  • لاس اینجلس کی آگ! کیا واقعی اللہ کا عذاب ہے؟