اختلافی مسائل میں اعتدال کی روش
اشاعت کی تاریخ: 10th, January 2025 GMT
ہم میں سے بہت سے لوگ اور خاص طور پر جو بنیادی طور پر دین کا حوالہ رکھتے ہیں، وہ دوسروں کے بارے میں راے دینے میں بعض اوقات جلدبازی کرتے ہیں۔ لوگوں میں طرح طرح کے عقائد موجود ہیں۔ مسلمانوں کا جو تصورِ علم ہے وہ ان کے لیے مانوس نہیں ہے، وہاں اصل بنیاد کو نظرانداز کرکے جب آپ کسی جزوی مسئلے پر راے یا رویہ اختیار کریں گے تو وہ دین سے مزید دْور ہوگا۔ ایسے بے شمار لوگ آپ کو ملیں گے جو مسلمانوں سے ہمدردی رکھتے ہیں، اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں اور بحیثیت مجموعی جب ان کو کہا جائے کہ آپ اسلام کو مانتے ہیں تو وہ کہتے ہیں کہ ہاں مانتے ہیں۔ اسلام کے خلاف کوئی بات ہو تو وہ دکھ بھی محسوس کرتے ہیں، لیکن کسی جزوی معاملے میں وہ آپ کی بات نہیں مانتے۔ دین کے نام پر ہم جو بات انھیں بتا رہے ہیں، اس میں یہ تمام چیزیں، یعنی نصوص، اجتہادات، انفرادی بزرگوں کا ذاتی ذوق اور کسی مقامی علاقے کا اسلامی رواج بھی شامل ہیں۔
اب اگر کوئی شخص کہتا ہے کہ میں اس رواج کو نہیں مانتا، یہ غلط ہے تو آپ اس کو کچھ نہیں کہہ سکتے۔ وہ اتنا ہی اچھا مسلمان ہوسکتا ہے جتنا کوئی اور۔ کوئی کہتا ہے کہ فلاں بزرگ کی پگڑی کا اسٹائل بڑا فضول ہے، میں نہیں مانتا تو کسی بزرگ کی پگڑی کے اسٹائل کو فضول کہنے سے آدمی نہ فاجر ہوجاتا ہے نہ فاسق اور نہ کچھ اور۔ اس حد تک بھی درست ہے کہ وہ کہے مَیں امام ابوحنیفہؒ کے فلاں اجتہاد کو نہیں مانتا تو آپ تھوڑی بات کریں، مگر گستاخی اور جہالت کا کوئی عنصر نہ آنے پائے کہ یہ قابلِ اعتراض بات ہے۔ لیکن اگر وہ نصوص کا انکار کرے تو وہاں مسئلہ خطرناک ہوجاتا ہے۔ وہ دیکھتا ہے کہ جو چیزیں اسے بتائی جارہی ہیں بظاہر وہ غلط محسوس ہوتی ہیں، وہ اس لیے غلط معلوم ہوتی ہیں کہ وہ شریعت کا حکم ہی نہیں ہے، وہ شریعت کے حکم کے طور پر اس کو سمجھتا ہے۔ اس لیے اس میں کسی جلدبازی کا مظاہرہ نہ کریں بلکہ یہ محسوس کریں کہ چونکہ اس کی بنیاد کمزور ہے، اس بنیاد پر جو عمارت کھڑی ہے اس کی کبھی ایک اینٹ گرتی ہے اور کبھی دوسری، کسی ایک اینٹ گرنے کی وجہ سے اس آدمی کو کچھ نہ کہیں۔ عمارت کو دیکھیں کہ اس کی بنیاد درست ہے یا نہیں، ورنہ بنیاد کو درست کرنے کی کوشش کریں۔
.ذریعہ: Jasarat News
پڑھیں:
حکومت نے معاشی استحکام حاصل کر لیا، جو منزل نہیں بلکہ ترقی کی بنیاد ہے، وزیر خزانہ
اسلام آباد: وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا ہے کہ حکومت مستقبل کی ترقی بارے حکمتِ عملی پر مکمل طور پر کاربند ہے، پالیسی کے تحت غیر ملکی سرمایہ کاریوں کو سہولت فراہم کی جا رہی، پالیسی اہم شعبوں میں برآمدی استعداد پیدا کرنے میں معاون ہوں، حکومت وفاقی بجٹ کو زمینی حقائق کے مطابق تشکیل دے گی، حکومت نے معاشی استحکام حاصل کر لیا ہے، استحکام کو ایک منزل نہیں بلکہ ایک بنیاد کے طور پر دیکھنا چاہیے۔
وفاقی حکومت نے پائیدار اقتصادی ترقی، برآمدات کے فروغ اور سرمایہ کاری میں اضافے کے لیے حقیقت پسندانہ اور جامع پالیسی سازی کے عزم کا اظہار کیا ہے۔ اس سلسلے میں وزیر خزانہ محمد اورنگزیب کی زیر صدارت ایک اعلیٰ سطحی اجلاس منعقد ہوا جس میں ترجیحی شعبہ جات میں قرضوں کی فراہمی، مالیاتی سہولیات اور پالیسی سازی پر تفصیلی غور کیا گیا۔
اجلاس میں اسٹیٹ بینک، پاکستان بینکس ایسوسی ایشن اور معروف بینکوں کے نمائندگان نے شرکت کی۔ پاکستان بینکس ایسوسی ایشن کے چیئرمین ظفر مسعود نے معاشی ٹیم کو زرعی شعبے، چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروبار، اور ڈیجیٹل و ٹیکنالوجی کے شعبے میں سہولیات اور بینکنگ سیکٹر کے کردار پر تفصیلی بریفنگ دی۔
وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے اس موقع پر زور دیا کہ چھوٹے کسانوں کو بغیر ضمانت قرضے فراہم کیے جائیں تاکہ زرعی پیداوار میں اضافہ اور دیہی معیشت کو مستحکم کیا جا سکے۔ انہوں نے بینکنگ سیکٹر کے کردار کو سراہتے ہوئے کہا کہ برآمدات کے فروغ کے لیے بینکوں، پالیسی سازوں اور سرمایہ کاروں کے درمیان مربوط کوششوں کی اشد ضرورت ہے۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ حکومت برآمدات پر مبنی اقتصادی احیاء اور مستقبل کی ترقی کے ایجنڈے پر مکمل طور پر کاربند ہے۔ پالیسی کے تحت غیر ملکی سرمایہ کاروں کو سہولت فراہم کی جا رہی ہے جبکہ اہم شعبوں میں برآمدی استعداد بڑھانے پر بھی توجہ دی جا رہی ہے۔
انہوں نے حالیہ سرمایہ کاروں کی دلچسپی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ منرلز سمٹ میں ملکی سرمایہ کاروں نے اعلیٰ قدر کے منصوبوں میں دلچسپی کا مظاہرہ کیا، جو اقتصادی اعتماد کی علامت ہے۔
وزیر خزانہ نے بتایا کہ رواں سال بجٹ سازی کا عمل قبل از وقت شروع کر دیا گیا ہے۔ انہوں نے روایتی طریقہ کار سے ہٹتے ہوئے مختلف چیمبرز آف کامرس کا دورہ کیا تاکہ شراکت داروں سے براہ راست تجاویز حاصل کی جا سکیں۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومت آئندہ وفاقی بجٹ کو زمینی حقائق اور شراکت داروں کی ضروریات کے مطابق تشکیل دے گی۔
انہوں نے کہا کہ حکومت نے معاشی استحکام حاصل کر لیا ہے، تاہم استحکام کو ایک منزل کے بجائے ایک بنیاد کے طور پر دیکھا جانا چاہیے جس پر ترقی اور خوشحالی کی عمارت تعمیر کی جائے گی۔