Jasarat News:
2025-04-15@06:41:35 GMT

افکار سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ

اشاعت کی تاریخ: 10th, January 2025 GMT

اسلامی معاشرہ
اسلام یہ بھی چاہتا ہے کہ معاشرہ ایسا ہو جس کے لوگ ایک دوسرے کے ہمدرد اور غم گسار ہوں، ایک دوسرے کی مصیبت میں کام آنے والے ہوں۔ ہر شخص انصاف کا حامی اور بے انصافی کا مخالف ہو۔ ہر شخص اپنے اْوپر پیٹ بھرنا حرام سمجھے اگر اس کو معلوم ہو کہ اس کا ہمسایہ بھوکا سو رہا ہے۔ پھر اسلام ایک ایسا معاشی نظام بھی قائم کرتا ہے جس میں سو د حرام ہو، زکوٰۃ فرض ہو، حرام خوری کے دروازے بند کردیے جائیں۔ رزقِ حلال کمانے کے لیے تمام مواقع لوگوں کے لیے کھول دیے جائیں اور کوئی آدمی اپنی ضروریاتِ زندگی سے محروم نہ رہنے پائے۔ ان تدابیر کے بعد ڈنڈے کا مقام آتا ہے۔ ایمان، اخلاق، تعلیم، انصاف، اصلاح معیشت، اور ایک پاکیزہ راے عام کے دبائو سے بھی جو آدمی درست نہ ہو تو وہ ڈنڈے ہی کا مستحق ہے۔ اور ڈنڈا پھر اس پر ایسی بے رحمی کے ساتھ علی الاعلان چلایا جائے کہ ان تمام لوگوں کے دماغ کا آپریشن ہوجائے جو جرائم کے رجحانات رکھتے ہوں۔

٭…٭…٭
پہلے اِصلاح پھر سزا
لوگ بڑا غضب کرتے ہیں کہ اسلام کے پروگرام کی ساری تفصیل چھوڑ کر صرف اس کی سخت سزائوں پر گفتگو شروع کردیتے ہیں۔ اسلام پہلے عام لوگوں میں ایمان پیدا کرتا ہے۔ پھر عوام کے اخلاق کو پاکیزہ بناتا ہے۔ پھر تمام تدابیر سے ایک ایسی مضبوط راے عام تیار کرتا ہے جس میں بھلائیاں پھلیں پھولیں اور بْرائیاں پنپ نہ سکیں۔ پھر ایسا معاشرتی، معاشی اور سیاسی نظام قائم کرتا ہے جس میں بدی کرنا مشکل اور نیکی کرنا آسان ہوجائے۔ وہ ان تمام دروازوں کو بند کردیتا ہے جن سے فواحش اور جرائم نشوونما پاتے ہیں۔ اس کے بعد ڈنڈا وہ آخری چیز ہے جس سے ایک پاک معاشرے میں سر اْٹھانے والی ناپاکی کا قلع قمع کیا جاتا ہے۔ اب اس سے بڑا ظالم اور کون ہوسکتا ہے کہ ایسے برحق نظام کو بدنام کرنے کے لیے آخری چیز کو پہلی چیز قرار دیتا ہے اور بیچ کی سب چیزوں کو ایمان کی طرح نِگل جاتا ہے۔

٭…٭…٭
تبدیلی کا ذریعۂ انتخابات
[سوال یہ ہے] کہ اس مغربی اندازِ انتخابات کو کس حد تک اسلام کے شورائی نظام سے ہم آہنگ کیا جاسکتا ہے اور کس طرح؟ یہ بات ذہن نشین کرلیجیے کہ ہم اس وقت جس مقام پر کھڑے ہیں اسی مقام سے ہمیں آگے چلنا ہوگا، اور جس منزل تک ہم جانا چاہتے ہیں اس کو واضح طور پر نگاہ کے سامنے رکھنا ہوگا تاکہ ہمارا ہر قدم اسی منزل کی طرف اْٹھے، خواہ ہم پسند کریں، یا نہ کریں۔ نقطۂ آغاز تو لامحالہ یہی انتخابات ہوں گے۔ کیونکہ ہمارے ہاں اسی طریقے سے نظامِ حکومت تبدیل ہوسکتا ہے اور حکمرانوں کو بھی بدلا جاسکتا ہے۔ کوئی دوسرا ذریعہ اس وقت ایسا موجود نہیں ہے جس سے ہم پْرامن طریقے سے نظامِ حکومت بدل سکیں اور حکومت چلانے والوں کا انتخاب کرسکیں۔

اب ہماری کوشش یہ ہونی چاہیے کہ ہمارے ہاں انتخابات میں دھونس، دھوکے، دھاندلی، علاقائی، مذہبی یا برادری کے تعصبات، جھوٹے پروپیگنڈے، گندگی اْچھالنے، ضمیر خریدنے، جعلی ووٹ بھگتانے اور بے ایمانی سے انتخابی نتائج بدلنے کے غلط طریقے استعمال نہ ہوسکیں۔ انتخابات دیانت دارانہ ہوں، لوگوں کو اپنی آزاد مرضی سے اپنے نمایندے منتخب کرنے کا موقع دیا جائے۔ پارٹیاں اور اشخاص جو بھی انتخابات میں کھڑے ہوں، وہ معقول طریقے سے لوگوں کے سامنے اپنے اصول، مقاصد اور پروگرام پیش کریں، اور یہ بات ان کی اپنی راے پر چھوڑ دیں کہ وہ کسے پسند کرتے ہیں اور کسے پسند نہیں کرتے۔ ہوسکتا ہے کہ پہلے انتخاب میں ہم عوام کے طرزِفکر اور معیارِ انتخابات کو بدلنے میں پوری طرح کامیاب نہ ہوسکیں۔ لیکن اگر انتخابی نظام درست رکھا جائے تو ایک وقت ایسا آئے گا جب نظامِ حکومت پورے کا پورا ایمان دار لوگوں کے ہاتھ میں آجائے گا۔ اس کے بعد پھر ہم نظامِ انتخاب پر نظرثانی کرسکتے ہیں اور اس مثالی نظامِ انتخابات کو ازسرِنو قائم کرنے میں کامیاب ہوسکتے ہیں جو اسلامی طریقے کے عین مطابق ہو۔ بہرحال آپ یک لخت جست لگا کر اپنی انتہائی منزل تک نہیں پہنچ سکتے۔ (نبی اکرمؐ کا نظامِ حکومت اور پاکستان میں اس کا نفاذ، ص 25-27)

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: کرتا ہے

پڑھیں:

راشن خیال قوم اور ملاوٹی جمہوریت

ایوب خان کا مارشل لا ہو یا جنرل یحیٰ کا قلیل مدتی اقتدار، ذوالفقار علی بھٹو کا دورِ صدارت ہو یا وزارتِ عظمی کا دور، جنرل ضیا کا 90 دنوں میں انتخابات کا وعدہ کر کے ایک عشرے کا نافذ کردہ مارشل لا ہو یا 1987 سے 1999 تک اقتدار میں آنے والی بینظیر بھٹو اور نواز شریف کے درمیان کھیلی جانے والی میوزکل چیئرز کا کھیل، مشرف کا بطور سویلین صدر ختم ہونے والا آمرانہ دور ہو یا نواز شریف کی 2017 میں اور عمران خان کی 2021 میں حکومتیں ختم کرنے کے بعد آج تک جاری رہنے والا ہائیبرڈ نظام ۔۔۔۔

پاکستان کے معرضِ وجود میں آنے کے بعد ان 78 سالوں میں سب کچھ آزما لیا، نہیں آزمایا تو خالص جمہوریت کا وہ غیر آزمودہ طرزِ حکمرانی جس کے سبب پاکستان کے بعد معرضِ وجود میں آنے والے ممالک آج ترقی یافتہ ممالک کی فہرست میں شامل ہیں۔

ہمارے بڑے جب ہم جتنے بڑے تھے تو ان کا دعوی ہے کہ ایوب خان کا دورِ اقتدارسب سے سنہرہ دور تھا۔ اس دور میں نہ صرف تربیلا اور منگلہ ڈیم بنے بلکہ اشیا خورونوش کی قیمتیں انتہائی کم تھیں۔

جنرل ایوب نے 1954 میں ہونے والے سیٹو معاہدے کے نتیجے میں ملنے والے ڈالرز سے عوام کو سستے راشن کی فراہمی اور ڈیموں کی تعمیر تو یقینی بنائی، لیکن اس پاداش میں پاکستانی قوم یہ بھول گئی کہ قوموں کو روشن خیال ہونا چاہیے ناکہ راشن خیال۔

راشن خیالی میں قوم بھول گئی کہ دیگر ممالک میں رائج جمہوریت نے ان قوموں کو آج کی کامیاب ترین قومیں بنے میں مدد فراہم کی۔ ایوب نے صرف قوم کو سستے راشن کی ٹرک کی بتی کے پیچھے لگائے رکھا اور پاکستان کی آزادی کے بعد پہلے 20 سالوں میں جمہوریت کے ملک میں پہنپنے ہی نہ دیا جس کے سبب آج تک قوم جمہوریت کے لیے ترستی ہے۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ ایوب کی حکومت کے خاتمے کی ایک مبینہ وجہ چینی کی قیمت میں اضافہ بنی۔

ایوب کے بعد جنرل یحی کا دور ایسا دور تھا جس میں منعقد ہونے والے 1970 کے انتخابات کو پاکستان کے منصفانہ ترین انتخابات مانا جاتا ہے، لیکن اس کے بعد ہوا کیا؟ ملک ٹوٹ گیا اور اس کا ذمہ دار مجیب اور بھٹو کو ٹھرایا گیا۔ اس کے باوجود کے اقتدار جنرل یحیی کے پاس تھا جو چاہتا تو اپنے زیرِ اثر بھٹو کو قائل کرکے مجیب کی حکومت بنوا سکتا تھا لیکن۔۔۔

جنرل ضیا کے لگ بھگ ایک عشرے کے دور میں جہاں سوویت یونین کے خلاف پاکستانی فوج کی خدمات کرائے پر دینے پر ملک کو کثیر تعداد میں ڈالر ملے، وہیں دوسری طرف ملک میں انہی ڈالروں کی بدولت قدرے خوشحالی قائم رہی۔

قوم کو یہ احساس ہی نہیں ہوا کہ امریکی ڈالروں کے عوض جو طالبان پاکستان بنا رہا ہے، یہی طالبان ہمارے دشمن بنیں گے۔ قوم کو جہاد کے لیے قائل کیا گیا اور یوں جنرل ضیا کا دور ایک ایسے حادثے کی صورت میں ختم ہوا کہ انہیں دفنانے کے لیے دیگر چند اعضا سمیت سونے کے دانتوں کو دفنانا پڑا۔

بھٹو کے نام نہاد جمہوری دور کے بعد ملک میں ہونے والے 1988 کے انتخابات کے بعد بے نظیر بھٹو اور نواز شریف کے درمیان اقتدار کے لیے میوزیکل چیئرز کا کھیل شروع ہوا اور 1999 میں مشرف کے مارشل لا تک دونوں رہنماؤں نے دو دو بار اقتدار کی کرسی حاصل کی۔ لیکن انہی دونوں نے فیصلہ سازوں کی مدد سے ایک دوسرے کو اقتدار کی کرسی سے چلتا کیا۔

قدرت کا نظام کہیں یا عالمی طاقتوں کی منصوبہ بندی۔ مشرف کے اقتدار میں آنے کے دو سالوں بعد ہی نائن الیون ہو گیا۔ پھر کیا تھا۔ اندھے کو کیا چاہیے، دو روٹیاں۔ کیونکہ جب اندھے کو ڈالروں کی صورت میں روٹیاں مل جائیں تو اسے دنیا دیکھ کر کرنا کیا ہے۔

افغانستان میں مشرف دور میں ضیا دور کے دوران تیار کردہ طالبان کے خلاف فوج کرائے پر دینے کے عوض ڈالروں کی ریل پیل ہو گئی۔ سڑکوں پر چمچماتی گاڑیاں نظر آنے لگیں۔ بین الاقوامی فوڈ چینز پہنچ گئیں۔

اس سے قطع نظر کہ امریکا جب افغانستان سے نکلے گا تو طالبان، پاکستان کا کیا حال کریں گے، ڈالروں کی مسلسل فراہمی نے اس راشن خیال قوم کو کسی بھی منطقی نقطے پر سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے بانجھ کر دیا۔ نجی چینلز کے آنے سے لوگوں میں ایسا شعور آیا کہ آج پوری قوم ہی ٹک ٹاک اور انسٹا گرام پر لگی ہے۔

خیر جو بھی کہیں یا نہ بھی کہیں، کہنے سے فرق کیا پڑتا ہے۔ مشرف نے اکیسویں صدی کی شروعات 2002 میں انتخابات کروا کر کی اور اپنی صدارت میں ملکی تاریخ میں پہلی بار کسی حکومت نے 5 سال مکمل کیے۔ چاہے کچھ عرصے بعد ہی تکنیکی خرابی کی وجہ سے وزیراعظم بدلنے پڑے۔

کہنے کو کہا تو جا سکتا ہے کہ ملک میں کسی حد تک حقیقی جمہوریت محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد 2008 میں ہونے والے انتخابات کے بعد آئی، لیکن چلتی جمہوریت میں فیصلہ سازوں نے جب اپنے فوجی صدر کی حکومت میں پنگا کرنے سے باز نہیں آئے تھے تو اب بھی باز کیسے رہتے۔

اچانک سے عدالت کو خیال آیا کہ وزیراعظم کو سوئس حکام کو خط لکھنا چاہیے، نہیں تو۔۔۔ اور یوں 5 سالہ دور بھی وزیراعظم کی تبدیلی کے بغیر مکمل نہ ہو سکا۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ اسی دور میں آرمی چیف کو ایکسٹینشن دینے کی روائت پڑی۔

2013  کے انتخابات کو آر اوز کا الیکشن تو کہا گیا، لیکن عمران خان کے علاوہ دیگر سیاسی جماعتوں نے انہیں قبول کر لیا۔ تاہم اگلے سال ہی پنگا کرنے والوں نے عمران خان اور مولانا طاہر القادری کو رشتہ احتجاج میں باندھ دیا اور یوں عمران خان 126 دنوں تک اسلام آباد میں براجمان رہے، جہاں وہ جمِ حقیر سے روزانہ خطاب کرتے اور امپائیر کی انگلی جلد اٹھنے کا اشارہ دیتے۔

خیر یہ کیسے ہو سکتا تھا کہ نواز شریف 5 سال پورے کرتے۔ آگیا پانامہ اور پھر پنگا کرنے والوں نے کر دیے لانچ اپنے پیادے۔ جس کے بعد 2017 سے ہائبرڈ نظام کی ایسی شروعات ہوئی جو آج تک جاری ہے۔

2018 کے انتخابات جس قدر متنازع تھے لیکن ان پر تنازع 7 جولائی 2024 تک ہی تھا، کیونکہ اس کے بعد 8 فروری کو ہونے والے انتخابات نے ایسے ورلڈ ریکارڈ قائم کیے جنہیں لگتا نہیں آسان ہو گا توڑنا۔

تاہم یہ پاکستان ہے جہاں خالص جمہوریت کے علاوہ تمام اقسام کے حکومتی نظام آزمائے جا چکے ہیں۔ 78 سالوں بعد ہمیں اس نتیجے پر تو پہنچ جانا چاہیے کہ ان سالوں میں جتنے بھی طریقے آزمائے گئے وہ ناکام ثابت ہوئے۔

لہذا کیوں نہ ایک بار خالص جمہوریت کو ہی موقع فراہم کر دیں۔ شائد نتائج دنیا کے دیگر ممالک کی طرح پاکستان میں بھی کامیاب ہو جائیں۔ وگرنہ یہ نظام تو پچھلے 78 سالوں سے چل ہی رہا ہے۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

نوید نسیم

متعلقہ مضامین

  • راشن خیال قوم اور ملاوٹی جمہوریت
  • غزہ: الاہلی ہسپتال پر اسرائیلی حملے سے شہر کا نظام طب بری طرح متاثر
  • ابوظہبی کی معروف شاہراہ پر کم از کم سپیڈ لمٹ کا نظام ختم
  • مولانا مودودی کے قریبی ساتھی پروفیسر خورشید احمد انتقال کرگئے
  • آئینی ادارے اپنی حدود میں کام کریں، یہی جمہوری نظام کی بقا ہے، مولانا فضل الرحمان
  • آئینی ادارے اپنی حدود میں کام کریں، یہی جمہوری نظام کی بقا ہے، مولانا فضل الرحمان
  • وزیر خزانہ نے مہنگائی میں کمی کے اثرات عوام تک نہ پہنچنے کا اعتراف کرلیا
  • ٹیکس نظام کو انتہائی سادہ بنانے جا رہے ہیں؛ محمد اورنگزیب
  • ٹیکس نظام کو انتہائی سادہ بنانے جا رہے ہیں: محمد اورنگزیب
  • راولپنڈی اسلام آباد میں زلزلے کے جھٹکے، لوگوں میں خوف و ہراس