Express News:
2025-01-18@13:22:06 GMT

امریکا پاکستان تعلقات کی تشکیل نو

اشاعت کی تاریخ: 10th, January 2025 GMT

مئی 2022 میں پاکستان میں ریاستہائے متحدہ امریکا کے سفیر کی حیثیت سے میری آمد کے ساتھ ہی، میری توجہ امریکا اور پاکستان کے درمیان تعلقات کی مضبوطی اور اْن کی ازسر نو تشکیل پر مرکوز رہی ، جن کی بنیاد باہمی دلچسپی کے حامل شعبوں اور مشترکہ بین الاقوامی مشکلات کے سلسلہ میں تعاون پر قائم رہی۔

یہ وہ دور تھا جب ہمارے باہمی تعلقات کو افغانستان، پاکستان یا بھارت اور پاکستان کے زاویوں کے بجائے امریکا اور پاکستان کے درمیان ایک گہری اور دیرپا شراکت داری کے طور پر دوبارہ تشکیل دیا جانا تھا۔ اب دیکھا جائے تو گزشتہ ڈھائی برسوں میں ہم نے اْس شراکت داری کو وسیع اور مزید گہرا کیا ہے اور پاکستانیوں کے لیے سب سے زیادہ اہمیت کے حامل شعبوں یعنی روزگار، سستی توانائی، صاف پانی، صحت اور تعلیم کی بہتری میں اہم پیشرفت کو یقینی بنایا ہے۔

تاہم یہ سب کچھ ہمیشہ اتنا آسان نہیں رہا۔ امریکا اور پاکستان نے باہمی طور پر بڑے بڑے بحرانوں کا سامنا کیا ہے ، جیسا کہ تباہ کْن سیلاب، بین الاقوامی وبا، معاشی غیر یقینی کی صورتحال اور جنگ کے بعد کے دیرپا اثرات۔ لیکن ہم میں سے جن افراد نے  امریکا اور پاکستان کے مابین تعلقات کی مضبوطی پر مِل جْل کر کام کیا ہے وہ اس بنیادی امر سے بخوبی آگاہ ہیں کہ یہ ایک طویل سفر ہے اور اس کی سمت میں اْٹھایا جانے والا ہر قدم ، تعاون کی ہر کاوش، ہمیں ہماری دونوں قوموں کی مشترکہ خوشحالی اور سلامتی کے مستقبل کے قریب لے جاتا ہے۔

امریکا اور پاکستان کے درمیان تعاون کی تاریخ کا آغاز پاکستان کے حْصولِ آزادی سے ہی ہوچْکا تھا۔  حالیہ برسوں میں ہم نے تعلقات کی تعمیر اْسی میراث کی بنیاد پر کی ہے۔ 2022 میں آنے والے تباہ کْن سیلاب کے بعد ریاستہائے متحدہ امریکا نے صرف انفرادی طور پر ردعمل کا اظہار نہیں کیا بلکہ ہم نے بین الاقوامی برادری کو لاکھوں پاکستانیوں کی بحالی اور تعمیر نو میں معاونت کی خاطر متحرک بھی کیا۔

ہم نے زندگیاں بچانے کے لیے امداد فراہم کی اور صحت کی سہولیات، پانی کی فراہمی کے نظام اور اسکولوں کی تعمیر نو میں بھرپور کردار ادا کیا۔ امریکا کی فراہم کردہ 216ملین ڈالرز کی امداد سیلاب سے تباہ حال پاکستانی برادریوں کے لیے دوبارہ اْبھرنے میں معاون ثابت ہوئی۔ لیکن ہم نے اپنا تعاون وہیں تک محدود نہیں کیا بلکہ اس بات کو بھی یقینی بنایا کہ متاثرین کی بحالی کی خاطر ہماری وہ کاوشیں مستقبل کی ترقی کا سنگ بنیاد ثابت ہوں۔

ریاستہائے متحدہ امریکا کئی دہائیوں سے پاکستان اور اْس کے مستقبل میں سرمایہ کاری کرتا آ رہا ہے۔ گزشتہ ڈھائی سالوں کے عرصہ کے دوران ہم نے اْ س سرمایہ کاری کی بنیاد پر مزید تعاون بھی جاری رکھا۔  امریکا نے صرف منگلا، تربیلا، اور دیگر آبی ذخائر کی تعمیر میں معاونت نہیں کی تھی،جو لاکھوں پاکستانیوں کو صاف توانائی کی فراہمی کا وسیلہ ہیں، بلکہ اْن کی بہتری کے لیے امریکی اعانت سے حالیہ کوششیں بشمول جی ای کی نئی ٹربائنز، مزید لاکھوں پاکستانیوں کے لیے قابل بھروسہ اور سستی بجلی کی فراہمی اور اس بات کو یقینی بنایا کہ اس سے آنے والی نسلیں بھی مستفید ہو سکیں گی۔

ریاستہائے متحدہ امریکا نے 2005سے لے کر اب تک پاکستان کے بنیادی ڈھانچہ کی تعمیر میں لگ بھگ دو ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہے اور متعدد سڑکیں، پْل، اسکول ، یونیورسٹیاں، حفظانِ صحت کی سہولیات، اسپتال، شمسی، ہوائی، اور آبی توانائی کے استعمال کے وسائل،بجلی کی ترسیل کی لائنیں اور آبپاشی سے متعلق سہولیات فراہم کی ہیں۔

امریکی سرمایہ کاری پاکستانیوں کے لیے روزگار کے مواقع کی دستیابی ، تربیت، ٹیکنالوجی کی فراہمی، مہارتوں میں بہتری، مقامی برادریوں کی ترقی کی غماز بنی ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ امریکی سرمایہ کاری، درحقیقت گرانٹ اور اعانت پر مبنی ہوتی ہے قرض پر نہیں جس کو واپس کرنے کی ضرورت ہو۔ یہی وہ اشتراک کار ہے جس پر ہم یقین رکھتے ہیں۔

معیشت کی ترقی ہمارے تعلقات کا ایک بنیادی سْتون رہی ہے۔ بطور سفیر میری تعیناتی کے عرصہ کے دوران ہم نے اقتصادی اصلاحات ،امریکی تجارت اور سرمایہ کاری میں توسیع کو اپنی اولین ترجیحات میں رکھا ہے۔ کیونکہ ہم پاکستان کو محفوظ، مضبوط اور سلامت دیکھنا چاہتے ہیں، ایک ایسا پاکستان جو معاشی طور پر خود مختار ہو، جو عالمی معیشت میں واقع ہونے والی تبدیلیوں سے مستفید ہو نے کا اہل ہو اور آزاد، کْھلی، منصفانہ اور مسابقتی منڈیوں سے مستفید بھی ہوسکے۔

حالیہ برسوں میں ہم نے امریکا کے لیے پاکستان کی برآمدات میں مسلسل اضافہ دیکھا ہے ، جو کہ 2023 کے پہلے دس ماہ میں چھ ارب ڈالر سے زیادہ ہوگئی ہیں۔جب کہ امریکی کمپنیاں یہاں پر اپنا کاروبار کرنے میں دلچسپی رکھتی ہیں۔2023میں، امریکی کمپنیوں نے ایک لاکھ بیس ہزار سے زیادہ پاکستانیوں کو ملازمتیں فراہم کیں اور اْن کے وسیع تر اقتصادی ثمرات سے دس لاکھ سے زیادہ پاکستانیوں کو روزگار مِلا۔ پاکستان مزید تجارت اور سرمایہ کاری، خاص طور پر امریکی سرمایہ کاری، کو اپنی جانب متوجہ کر سکتا ہے اور قرضوں اور بین الاقوامی مالیاتی امداد کے شیطانی چکر سے نکل سکتا ہے اگر وہ معاشی اصلاحات کے عزم پر مستقل طور پر کاربند رہے، سرمایہ کاروں کے لیے یقینی اور قابل بھروسہ ماحول پیدا کرے اور جامع، مضبوط اور پائیدار ترقی کی کوششوں کو جرات مندی سے آگے بڑھائے۔ مذکورہ اقدامات معیشت کے استحکام اور پاکستانی عوام کے لیے اعلیٰ معیار زندگی کی فراہمی کے ضامن ہوں گے۔

معیاری تعلیم اور صحت کی دیکھ بھال کی سہولیات تک رسائی کو بہتر بنانا بھی ہمارے تعاون کا مرکزی حصہ رہا ہے۔ ہم نے اسکولوں، وظائف اور یونیورسٹیوں کی شراکت داری میں سرمایہ کاری کی ہے۔گزشتہ دہائی کے دوران امریکا نے پاکستانی بچوں کے لیے سیکڑوں نئے اسکول تعمیر کیے جب کہ دیگر ہزاروں کی بحالی بھی سرانجام دی۔ ہر سال، ہم سیکڑوں پاکستانی طلباء کو ثقافتی اور تعلیمی تبادلوں پر امریکا میں خوش آمدید کہتے ہیں، اور امید رکھتے ہیں کہ وہ یہاں پاکستان میں واپس آکر اپنے وطن کو ترقی کی راہوں پر گامزن کرنے میں کردار ادا کریں گے۔ صحت کی دیکھ بھال کے شعبہ میں ہماری شراکت داری، پولیو اور تپ دق کے خاتمہ کی کوششوں سے لے کر غذائی قلت کی وجہ سے موت کے خطرات سے دوچار خواتین اور بچوں کی زندگیاں بچانے تک، پاکستانی عوام کی بہتری کے لیے ہمارے مشترکہ عزم کی عکاسی کرتی ہیں۔

مذکورہ تمام شعبوں میں ہم نے پائیدار تعمیر کی ہے۔ امریکا اور پاکستان کے درمیان جاری شراکت داری ثابت کرتی ہے کہ ہم اپنے مشترکہ مقصد کے حْصول کے لیے مِل جْل کر کام کریں تو ایسے بہترین نتائج حاصل کرسکتے ہیں۔

گوادر سے گلگت تک اور درمیان میں آنے والی ہر جگہ پر، پاکستان بھر میں سفر کرتے ہوئے میں اِس مْلک کی خوبصورتی، تنوع اور شاندار ثقافت سے بہت متاثر ہوا ہوں۔ میں نے ہمالیہ کے دامن میں پیدل سفر کیا، چائے کی پیالی پر لوگوں سے تبادلہ خیال کیا ، قوالیوں سے لطف اندوز ہوا اور ٹی ٹوئنٹی کرکٹ ورلڈ کپ کے پْر جوش لمحات کو محسوس کیا۔ میں نے پنجاب میں دیکھا کہ امریکی ٹیکنالوجی اور جدت کیسے پاکستان کی زراعت کا دل قرار دیے جانے والے اس صوبہ کو مضبوط کر رہی ہے۔

میں نے کراچی میں ملک کے معاشی مستقبل کی تشکیل میں مصروفِ عمل انٹرپرینیورز سے ملاقات کی۔ خیبر پختونخوا میں افغان پناہ گزینوں کی میزبانی کرنے والی پاکستانی برادریوں کی مہمان نوازی، سخاوت اور فراخدلی کا مشاہدہ کیا۔ میں جہاں بھی گیا وہاں نوجوان قائدین سے ملاقاتیں کیں اور اْن کو چمکتا دمکتا،عزم سے سرشار اور اپنے وطن کی ترقی میں کردار ادا کرنے کے لیے تیار پایا۔ یہ رابطوں کے لمحات مجھے یاد دہانی کرواتے ہیں کہ ہمارے لوگوں کے درمیان تعلقات کی مضبوطی بھی اتنی ہی اہمیت کی حامل ہے جتنی وہ پالیسیاں جو ہم اختیار کرتے ہیں۔

پاکستان میں ریاستہائے متحدہ امریکا کے سفیر کی حیثیت سے خدمات انجام دینا میرے لیے باعث اعزاز رہا ہے۔ مجھے اس پر فخر ہے جو ہم نے تعمیر کیا ہے اور جو کچھ ہم نے مل کر حاصل کیا ہے۔ لیکن میں جانتا ہوں کہ یہ ہماری مشترکہ تاریخ میں صرف ایک قدم ہے۔ جیسے جیسے ہماری شراکت داری میں وسعت پیدا ہوگی، ہم ایک ایسے مستقبل کی تعمیر کر سکیں گے جس کو پیش آنے والی مشکلات سے نہیں بلکہ مِل کر پیدا کیے گئے مواقع اور خوشحالی سے تعبیر کیا جائے گا۔

ہمارا یہ سفر جاری ہے اور میں پْراعتماد ہوں کہ ایک دوسرے کے شانہ بشانہ کام کرتے ہوئے ہماری دونوں قوموں کے درمیان تعلقات آنے والے برسوں میں مضبوط ہوتے جائیں گے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: تعلقات کی امریکا نے کی فراہمی سے زیادہ کی فراہم کی تعمیر کی ترقی کے لیے ہے اور صحت کی کیا ہے

پڑھیں:

مالٹا میں پاکستانی مصنوعات کی رسائی کیلیے ضیاء نور اعزازی سرمایہ کاری کونسلر مقرر

کراچی:

وفاقی حکومت نے غیر روایتی مارکیٹوں تک پاکستانی مصنوعات کی رسائی کے لیے مالٹا میں ضیاء نور کو پاکستان کا اعزازی سرمایہ کاری کونسلر مقرر کر دیا ہے۔

اعزازی سرمایہ کاری کونسلر ضیاء نور نے یورپی یونین کے رکن ملک مالٹا میں باہمی تجارت و سرمایہ کاری کے شعبوں میں حکمت عملی مرتب کرلی ہے۔

ایکسپریس سے خصوصی بات چیت کرتے ہوئے ضیاء نور نے کہا کہ مالٹا یورپین یونین میں چھوٹا ملک ضرور ہے لیکن یہ ایک مضبوط پوزیشن کی مارکیٹ ہے جہاں مختلف وسائل اور مصنوعات کی کھپت کا انحصار خالصتاً درآمدات پر مبنی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ پاکستان ایک مضبوط ایکسپورٹ پورٹ فولیو کے باوجود مالٹا کی مارکیٹ میں انتہائی کم حصہ رکھتا ہے اور پاکستان سے مالٹا کے لیے برآمدات کا حجم 3.85ملین ڈالر پر مشتمل ہے۔

انہوں نے بتایا کہ نئی حکمت عملی کے تحت مالٹا کے لیے رواں سال کے اختتام تک 10ملین ڈالر تک پہنچایا جائے گا۔ مالٹا میں پاکستانی چاول، ٹیکسٹائل، کھیلوں کے سازو سامان، سیمنٹ، فروٹ و سبزیاں، قالین، آئل سیڈز اور ٹائلز سمیت دیگر متعدد اشیاء کی کھپت کے وسیع امکانات موجود ہیں۔ اس تناظر میں پاکستانی نمائندے کی حیثیت سے کام کا آغاز کر دیا گیا ہے جس کے لیے ابتدائی طور پر مالٹا کے درآمد کنندگان اور پاکستانی برآمد کنندگان کے درمیان شعبہ جاتی بنیادوں پر روابط قائم کیے جائیں گے۔

ضیاء نور نے بتایا کہ فی الوقت مالٹا میں استعمال ہونے والے چاول کی ایک بڑی مقدار اٹلی سے درآمد ہو رہی ہے حالانکہ اٹلی خود یہ چاول پاکستان سمیت جنوب ایشیاء سے درآمد کرتا ہے لہٰذا مالٹا کے صارفین کو بالواسطہ طور پر پہنچنے والے پاکستانی چاول مہنگے داموں میں مل رہے ہیں۔ اگر پاکستان سے چاولوں کی براہ راست برآمدات مالٹا کی مارکیٹ میں کی جائے تو بلحاظ قیمت مالٹا کے درآمد کنندگان کو یہ چاول کم لاگت پر میسر ہو سکیں گے اور کسی یورپین ملک کے بجائے براہ راست پاکستانی ایکسپورٹرز سے چاول کے درآمدی معاہدے کر سکیں گے۔

انہوں نے بتایا کہ دوطرفہ تعلقات کے درمیان خلا کو پر کرنے کے لیے مالٹا میں ’’پاکستان سینٹر ورکنگ کیٹالسٹ‘‘ قائم کیا گیا ہے جو پاکستانی مینوفیکچررز اور مالٹیز انٹرپرینورز کے لیے ایک موثر پلیٹ فارم ہے۔ اس پلیٹ فارم کے ذریعے دونوں ممالک کے تاجر و صنعتکار اپنی اپنی مصنوعات اور خدمات سے متعلق آگاہی کے ساتھ نیٹ ورکنگ بھی کرسکتے ہیں۔

ضیاء نور نے بتایا کہ دونوں ممالک کے فوڈ اور آٹوموٹیو سیکٹر سے وابستہ مینوفیکچررز اس پلیٹ فارم کے ذریعے ایک دوسرے کے ملکوں میں مشترکہ سرمایہ کاری اور ٹیکنالوجی کی منتقلی کے مواقع سے مستفید ہوسکتے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ پاکستان اور مالٹا کے درمیان باہمی تجارت و سرمایہ کاری انتہائی امید افزاء ہیں۔ مالٹا میں سرجیکل آلات کی کھپت کے بھی وسیع امکانات ہیں اور پاکستانی سرجیکل مینوفیکچررز مالٹا میں جوائنٹ وینچرز کے ذریعے مینوفیکچرنگ یونٹس قائم کرکے مالٹا میں کثیر زرمبادلہ کما کر پاکستان بھیج سکتے ہیں۔

ایک سوال کے جواب میں ضیاء نور نے بتایا کہ مالٹا کی مارکیٹ بھارت جارحانہ مارکیٹنگ کے ذریعے اپنی مصنوعات کی برآمدات کے حجم کو بڑھا رہا ہے اور فی الوقت مالٹا بھارت سے 600 ملین ڈالر کی متعدد اشیاء درآمد کر رہا ہے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ پالیسی ساز وزیراعظم پاکستان کے اعلان کردہ اڑان پاکستان پروگرام کے تحت یورپین یونین کے اہم ملک مالٹا کے لیے بھی حکمت عملی مرتب کرے کیونکہ بحیثیت سرمایہ کاری قونصلر ہمیں چاول ٹیکسٹائل کلاتھنگ ملبوسات اجناس سمیت دیگر شعبوں سے تعلق رکھنے والے کہنہ مشق پاکستانی برآمدکنندگان کی ضرورت ہے۔

متعلقہ مضامین

  • وزیراعظم کا ڈیجیٹل فارن ڈائریکٹ انویسٹمنٹ انیشیٹو کا حصہ بننے کا خیر مقدم
  • پاکستان ڈیجیٹل معیشت کیطرف گامزن ہے:شہباز شریف
  • چین اور ویتنام دوستانہ پڑوسی اور اسٹریٹجک ہم نصیب معاشرہ ہے، چینی صدر
  • ای او ون سیٹلائٹ کی لانچنگ ، آئی ایس پی آر  کا موقف بھی آگیا
  • پاکستان تحریک انصاف نے انسانی حقوق کمیٹی تشکیل دے دی
  • مالٹا میں پاکستانی مصنوعات کی رسائی کیلیے ضیاء نور اعزازی سرمایہ کاری کونسلر مقرر
  • امریکا؛ 13 سالہ طالبعلم کیساتھ جنسی تعلقات اور بچہ پیدا کرنے پر اسکول ٹیچر گرفتار
  • ملک کی اقتصادی صورت حال بہتر ہو رہی ہے،عالمی سرمایہ کار پاکستان کی طرف متوجہ ہیں: مریم نواز
  • پاک بنگلہ دیش بڑھتے تعلقات خطے میں امن کے لیے کتنے اہم ہیں؟
  • ورلڈ بینک کی پاکستان کے لیے 10 سال میں 20 بلین ڈالر کی فنڈنگ کا منصوبہ