ادویات کی قیمتوں میں اضافہ قابل مذمت ہے ،پروفیسرمحبوب
اشاعت کی تاریخ: 10th, January 2025 GMT
فیصل آباد (وقائع نگارخصوصی)جماعت اسلامی کے رہنمائوںپروفیسرمحبوب الزماںبٹ، میاں طاہرایوب،یاسرکھاراایڈووکیٹ نے ادویات کی قیمتوں میں ایک بارپھر300 فیصد اضافہ کرنے کی شدیدمذمت کرتے ہوئے کہاہے کہ مہنگائی کم کرنے کی دعویدار حکومت نے عوام پر مہنگائی کا ایک اور تباہ کن بم گرا دیا۔مہنگائی کی شرح کئی سالوں کی کم ترین سطح پر لے آنے کے دعوے کرنے والی حکومت کے اس اقدام کی وجہ سے ملک میں ادویات کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ ہو گیا۔ادویات کے نرخ عام آدمی کی پہنچ سے دورگئے ہیں۔رہنمائوں نے کہاکہ قیمتوں میں بے پناہ اضافہ کے باوجود ادویات مارکیٹ سے غائب کی جارہی ہیں۔ ٹی بی، بلڈپریشر ،شوگر، دل کے امراض،انسولین سمیت 55 فیصد سے زائد ادویات مارکیٹ سے غائب ہو چکی ہیں جس کی وجہ سے مریضوں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔پنجاب بھر میں ادویات ساز کمپنیوں کی ملی بھگت سے بلیک مارکیٹنگ کی جارہی ہے ۔ حکومت کی مجرمانہ خاموشی قابل مذمت ہے ۔ انہوں نے کہاکہ حکومتی مجرمانہ غفلت کے باعث عوام کو ادویات ساز کمپنیوں کو رحم وکرم پر چھوڑ دیا گیا ہے جو انہیں دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہی ہیں ۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ ملک میں ادویات کا معیار بہتر بنانے کے ساتھ ساتھ ارزاں نرخوں پر دستیابی کو بھی یقینی بنایا جائے۔انہوں نے کہا کہ مہنگائی اور بے روزگاری سے ستائے عوام خودکشیاں کرنے پر مجبور ہو چکے ہیں، معاشرہ اس وقت تک ترقی کی منازل طے نہیں کرسکتا جب تک لوگوں کے بنیادی مسائل ان کی دہلیز پر حل نہیں ہو جاتے ، معاشی بد حالی نے عوام کا جینا دوبھر کردیا ہے ۔ علاج، معالجے کی سہولیات ناپید ، پینے کا پانی ناقص، اشیا خورونوش کی مناسب داموں عدم دستیابی اورامن وامان کی غیر یقینی صورتحال نے عوامی مسائل میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: قیمتوں میں
پڑھیں:
دنیا میں 30 لاکھ بچے ادویات اثر نہ کرنے کے سبب چل بسے، اصل وجہ کیا ہے؟
سنہ 2022 میں دنیا بھر میں 30 لاکھ سے زیادہ بچے اینٹی بائیوٹکس کے خلاف مزاحم انفیکشنز کے نتیجے میں جان کی بازی ہارگئے۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستان میں نومولود بچوں کی اموات میں کمی کا ’کینگرو مامتا‘ منصوبہ ہے کیا؟
بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق بچوں کی صحت کے 2 سرکردہ ماہرین کی ایک تحقیق سے پتا چلا ہے کہ افریقہ اور جنوب مشرقی ایشیا میں بچے اس مسئلے کا سب سے زیادہ شکار رہے۔
اینٹی مائکروبیل مزاحمت جسے AMR کے نام سے جانا جاتا ہے اس وقت نشوونما پاتا ہے جب انفیکشن کا سبب بننے والے جرثومے اس طرح تیار ہوتے ہیں کہ اینٹی بائیوٹک ادویات مزید کام نہیں کرتی ہیں۔
اس کی شناخت دنیا کی آبادی کو درپیش صحت عامہ کے سب سے بڑے خطرات میں سے ایک کے طور پر کی گئی ہے۔
ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (ڈبلیو ایچ او) اور ورلڈ بینک سمیت متعدد ذرائع سے ڈیٹا کا استعمال کرتے ہوئے رپورٹ کے مصنفین نے اندازہ لگایا ہے کہ سنہ 2022 میں 30 لاکھ سے زیادہ بچوں کی موت ادویات کے خلاف مزاحمت کے انفیکشن سے ہوئی تھی۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ نئی تحقیق صرف 3 سالوں میں بچوں میں AMR سے متعلق انفیکشن میں 10 گنا سے زیادہ اضافے کو نمایاں کرتی ہے۔
اینٹی بائیوٹکس کا زیادہ استعمالاینٹی بایوٹک کا استعمال بیکٹیریل انفیکشن کی ایک بڑی حد کے علاج یا روک تھام کے لیے کیا جاتا ہے۔
انہیں بعض اوقات انفیکشن کے علاج کے بجائے احتیاط کے طور پر بھی دیا جاتا ہے۔
اینٹی بایوٹک کا عام سردی، فلو یا کوویڈ جیسی بیماریوں کے وائرل انفیکشن پر کوئی اثر نہیں ہوتا۔
ان کے زیادہ اور غیر محتاط استعمال کے باعث کچھ بیکٹیریا اب کچھ ادویات کے خلاف مزاحمت پیدا کر چکے ہیں۔
مزید پڑھیے: دنیا بھر میں فضائی آلودگی سے روزانہ کتنے بچوں کی اموات ہوتی ہیں؟
رپورٹ کے مرکزی مصنفین آسٹریلیا میں مرڈوک چلڈرن ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے ڈاکٹر یانہونگ جیسیکا ہو اور کلنٹن ہیلتھ ایکسیس انیشی ایٹو کے پروفیسر ہرب ہارویل اینٹی بائیوٹکس کے استعمال میں نمایاں اضافہ کی طرف اشارہ کرتے ہیں جن کا مقصد صرف انتہائی سنگین انفیکشن کے لیے روکا جانا ہے۔
سنہ2019 اور سنہ 2021 کے درمیان ’واچ اینٹی بائیوٹکس‘ کے استعمال میں مزاحمت کے زیادہ خطرہ والی ادویات، جنوب مشرقی ایشیا میں 160 فی صد اور افریقہ میں 12 فی صد تک بڑھ گئیں۔
مصنفین نے خبردار کیا ہے کہ اگر بیکٹیریا ان اینٹی بائیوٹکس کے خلاف مزاحمت پیدا کرتے ہیں تو ملٹی ڈرگ مزاحم انفیکشن کے علاج کے لیے بہت کم متبادل ہوں گے۔
پروفیسر ہارویل اس ماہ کے آخر میں ویانا میں یورپی سوسائٹی آف کلینیکل مائیکروبائیولوجی اور متعدی امراض کی کانگریس میں نتائج پیش کر رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ AMR ایک عالمی مسئلہ ہے اور یہ سب کو متاثر کرتا ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ہم نے یہ کام واقعی اس غیر متناسب طریقے پر توجہ مرکوز کرنے کے لیے کیا جس میں AMR بچوں کو متاثر کرتا ہے۔
اس مسئلے کا حل کیا ہے؟ڈبلیو ایچ او اے ایم آر کو عالمی صحت کے سب سے سنگین خطرات میں سے ایک کے طور پر بیان کرتا ہے جس کا ہمیں سامنا ہے لیکن پروفیسر ہارویل نے خبردار کیا کہ کوئی آسان جواب نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ ایک کثیر الجہتی مسئلہ ہے جو طب کے تمام پہلوؤں اور واقعی انسانی زندگی تک پھیلا ہوا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اینٹی بایوٹکس ہمارے ارد گرد ہر جگہ موجود ہیں، وہ ہمارے کھانے اور ماحول میں ختم ہوتے ہیں اور اس لیے ایک ہی حل آسان نہیں ہے۔
مزید پڑھیں: امریکی امدادی پروگرامز میں تعطل سے 5 لاکھ بچوں کی زندگیاں داؤ پر لگ گئیں
انہوں نے مزید کہا کہ مزاحم انفیکشن سے بچنے کا بہترین طریقہ انفیکشن سے مکمل طور پر بچنا ہے جس کا مطلب ہے کہ حفاظتی ٹیکوں کی اعلی سطح، پانی کی صفائی اور حفظان صحت کی ضرورت ہے۔
انہوں نے بتایا کہ اینٹی بایوٹکس کا زیادہ استعمال ہونے والا ہے کیونکہ زیادہ لوگ ہیں جن کو ان کی ضرورت ہے لیکن ہمیں اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ ان کا مناسب استعمال کیا جائے اور صحیح دوائیں استعمال کی جائیں۔
کنگز کالج لندن میں مائکرو بایولوجی کے سینیئر لیکچرر ڈاکٹر لنڈسے ایڈورڈز نے کہا کہ نئی تحقیق پچھلے اعداد و شمار کے مقابلے میں ایک اہم اور تشویشناک اضافہ کی نشاندہی کرتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ نتائج صحت کے عالمی رہنماؤں کے لیے ایک ’ویک اپ کال‘ کے طور پر کام کریں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ فیصلہ کن کارروائی کے بغیر AMR بچوں کی صحت، خاص طور پر دنیا کے سب سے زیادہ کمزور خطوں میں کئی دہائیوں کی ترقی کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
بچوں کی اموات کی بڑی وجہ بے اثر ادویات دنیا میں بچوں کی اموات