Jasarat News:
2025-01-18@10:06:05 GMT

بیوروکریسی نے چھوٹے ملازمین کی زندگی اجیرن کردی ہے

اشاعت کی تاریخ: 10th, January 2025 GMT

لاڑکانہ(نمائندہ جسارت)بیورو کریسی نے چھوٹے ملازمین کی زندگی اجیرن کردی ہے اگرجائز مطالبات بھی نہ مانے گئے تو فیڈریشن کی جانب سے احتجاجی عمل شروع کریں گے پاکستان ورکرز فیڈریشن سندھ ریجن کے صوبائی صدر نور محمد ہلیو نے لاڑکانہ پریس کلب میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ ہم وزیر اعلیٰ سید مراد علی شاہ کو 31 دسمبر 2024ء کو 19 مطالبات پر مشتمل چارٹر آف ڈیمانڈ پیش کر چکے ہیں، جن میں پنشن رولز میں تبدیلی واپس لینا فوت شدہ اور ریٹائرڈ ملازمین کے لئے کوٹہ بحال کرنا یونیورسٹی ملازمین کو سنڈیکیٹ میں نمائندگی دینا ملازمین اور مزدوروں کے لئے حکومت کی جانب سے مقرر کردہ 37 ہزار 500 روپے ماہانہ تنخواہ دینا مہنگائی کے مطابق تنخواہ کا تعین، سرکاری ملازمین، مزدوروں، بھٹہ مزدوروں،سیلر مزدوروں اورکھجور منڈی کے مزدوروں کو مفت علاج کی سہولت فراہم کرنا، ای او بی آئی کے تحت رجسٹریشن کر کے انشورنس کی رقم دینا، خزانے سے بینیوولنٹ فنڈ کی فراہمی، ٹائم اسکیل اور دیگر مراعات کے لئے ڈی پی سی اجلاس بلانا، پیرا میڈیکل کا سروس اسٹرکچر جاری کر کے تمام چھوٹے اور عارضی ملازمین کو ترقی دینا، نوجوانوں کے لئے نوکری کی عمر کی حد 28 سال ختم کرنا، کنٹریکٹ اور ڈیلی ویجز ملازمین کو مستقل کرنا ہے۔انہوں نے کہا کہ حکمرانوں نے بیوروکریسی کو کھلی چھوٹ دے رکھی ہے، جس کے باعث چھوٹے ملازمین شدید مشکلات کا شکار ہیں۔ ملازم دشمن فیصلوں سے چھوٹے ملازمین اور مزدور طبقے کا معاشی قتل عام ہو رہا ہے۔ اپنے جائز حقوق کے لئے آواز اٹھانے پر ہمارے خلاف انتقامی کارروائیاں کی جا رہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سندھ میں بیوروکریسی اور کرپشن کے باعث ادارے مفلوج ہو چکے ہیں ہم چاہتے ہیں کہ چھوٹے ملازمین اور مزدور طبقے کو مراعات دی جائیں اور ان کے خلاف انتقامی کارروائیاں بند کی جائیں۔ ہم چیف جسٹس پاکستان، صدر آصف زرداری، وزیر اعظم شہباز شریف اور دیگر اعلیٰ حکام سے اپیل کرتے ہیں کہ ملازمین کے ساتھ انصاف کرتے ہوئے ان کیخلاف جاری نوٹیفکیشن واپس لیا جائے اور مذاکرات کے ذریعے مسائل حل کئے جائیں۔بصورت دیگر ہم مجبور ہو کر فیڈریشن کی 30 تنظیموں اور مختلف اداروں کے ملازم رہنماؤں کے ساتھ فیڈریشن کے پلیٹ فارم سے متحد ہو کر قومی سطح پر سڑکوں پر احتجاج کریں گے۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: کے لئے

پڑھیں:

دیو جانس کا منشور اور نئی دنیا

جون ایلیا نے دیو جانس کلبی کو اپنا مرشد کہا ہے۔ دیو جانس نے اپنے افکار اور منفرد انداز سے بہت لوگوں کو متاثر کیا۔ بے ثباتیِ کائنات کے احساس نے اس کی پوری شخصیت کو تشکیل دیا تھا۔ پھر کیایہ دنیا کیا اس کا عیش و آرام اور کیا اس کی نمائش۔ ہم اس سے مایوسی، قنوطیت سے تعبیر کر کے اتنے بڑے دبستان سے منہ نہیں موڑ سکتے۔

دیوجانس ، جو قدیم یونان کے فلسفیوں میں سے ایک ہے، اپنی منفرد شخصیت اور نظریات کی وجہ سے ہمیشہ ایک نمایاں مقام پر رہا ہے۔ اس کا تعلق سقراط کے فلسفیانہ مکتبہ فکر سے تھا اور وہ خود کو "سائنوک” کہلاتا تھا۔ یہ نام اس کے فلسفہ زندگی کی وضاحت کرتا ہے، جو سادگی، خود کفالت اور سماجی اصولوں سے بغاوت پر مبنی تھا۔
دیوجانس کی زندگی ایک ایسا مرقع تھی جس میں دنیاوی آسائشوں سے گریز اور فطری زندگی کی طرف واپسی کا پیغام واضح نظر آتا ہے۔ وہ ان لوگوں پر طنز کرتا تھا جو مال و دولت اور طاقت کی دوڑ میں اپنی حقیقی خوشی اور اپنا سکون کھو دیتے ہیں۔ دیو جانس کے مطابق، انسانی زندگی کا مقصد فطرت کے قریب رہنا اور بنیادی ضرورتوں کو پورا کرتے ہوئے خوش رہنا ہے، نہ کہ ان خواہشات کے پیچھے بھاگنا جو کبھی ختم نہیں ہوتیں۔

کہا جاتا ہے کہ دیوجانس کلبی کے پاس ایک لکڑی کا برتن تھا جسے وہ پانی پینے کے لیے استعمال کرتا تھا۔ ایک دن اس نے ایک بچہ دیکھا جو اپنے ہاتھوں سے پانی پی رہا تھا۔ یہ دیکھ کر دیوجانس نے اپنا برتن توڑ دیا اور کہا کہ یہ بچہ مجھ سے زیادہ عقلمند ہے کیونکہ یہ اپنی ضرورت پوری کرنے کے لیے اضافی چیزوں پر انحصار نہیں کرتا۔ یہ واقعہ دیوجانس کے فلسفہ سادگی کی عکاسی کرتا ہے۔ دیوجانس کی سب سے مشہور کہانی وہ ہے جب سکندر اعظم اس سے ملنے آیا۔ سکندر نے دیو جانس سے کہا کہ وہ اس کی کوئی خواہش پوری کر سکتا ہے دیو جانس نے چہرے پر سنجیدگی برقرار رکھی پوری شانِ بے نیازی سے کلام کیا: "ہاں، ذرا ایک طرف ہٹ جاؤ، کیونکہ تم میری دھوپ روک رہے ہو۔” یہ جواب ہر دور کے ثروت مندوں اور بادشاہوں کے نام دیو جانس کا ایسا مکتوب تھا جو ہمیشہ کے لیے محفوظ ہو گیا۔ یہ دیوجانس کی بے نیازی کو ظاہر کرتا ہے اور یہ بھی کہ وہ دنیاوی طاقت کو کتنی حقیر نظر سے دیکھتا تھا۔
دیوجانس نے اپنی زندگی کے اکثر دن ایک بڑے مٹی کے برتن میں گزارے، جو اس کی رہائش گاہ تھی۔ وہ دنیاوی مال و دولت سے بے نیاز تھا اور لوگوں کو دکھاتا تھا کہ خوشی کے لیے یہ چیزیں ضروری نہیں ہیں۔ اس کا یہ طرزِ زندگی اکثر لوگوں کے لیے ایک مذاق کا باعث بنتا تھا، لیکن دیو جانس ان کی پروا نہیں کرتا تھا۔ وہ اپنے عمل اور باتوں سے لوگوں کو ان کے دوہرے معیاروں اور سماجی رسم و رواج پر سوال اٹھانے پر مجبور کرتا تھا۔

دیو جانس کی شخصیت کا ایک اور دلچسپ پہلو اس کا طنز اور مزاح تھا۔ وہ لوگوں کی منافقت کو بے نقاب کرنے کے لیے ان پر طنز کرتا تھا، لیکن اس کا انداز ایسا تھا کہ وہ لوگوں کو ہنسا بھی دیتا تھا اور سوچنے پر بھی مجبور کرتا تھا۔ اس کی باتوں میں گہری دانشمندی چھپی ہوتی تھی، اور وہ چاہتا تھا کہ لوگ اپنے حقیقی مقصد کو پہچانیں اور ایک سادہ اور بامعنی زندگی گزاریں۔

دیو جانس کے فلسفے کی گونج آج بھی سنائی دیتی ہے۔ جدید دنیا میں جہاں انسان مادیت پرستی کی دوڑ میں الجھا ہوا ہے، دیوجانس کا پیغام ہمیں یاد دلاتا ہے کہ حقیقی خوشی سادگی اور خود کفالت میں ہے۔ اس کی زندگی اور خیالات ہمیں یہ سبق دیتے ہیں کہ ہم اپنی خواہشات کو قابو میں رکھیں، فطرت کے قریب رہیں اور اپنے اندرونی سکون کو تلاش کریں۔ دیو جانس کی کہانیاں اور اس کے فلسفہ کی سادگی ہمیشہ انسانی سوچ کو متاثر کرتی رہے گی، کیونکہ یہ ہمیں اپنی زندگی کو ایک نئے زاویے سے دیکھنے کا موقع فراہم کرتی ہیں۔اب دیو جانس کلبی کی شخصیت میں بس شانِ بے نیازی دیکھیے۔ یہ وہ خوبی ہے جو جدید دور نے کم و بیش مکمل طور پر ختم دی ہے۔ ایک شانِ بے نیازی کے ختم ہو جانے کی وجہ سے ہر نمائش کو جگہ دی اور احتیاج کو جنم دیا۔ قدم قدم پر محتاجی انسانی زندگی کا حصہ بنتی چلی گئی۔ نمائش نے زندگی کے سکون اور حقیقی خوشی کے تصور کو بے معنی کردیا۔ فی زمانہ جو حال انسان کے گھروں کا ہے اسی کا پرتو اس کی شخصیت میں نظر آتا ہے۔ بڑی بڑی عمارتیں، رنگا رنگ ڈیزائن، شیشوں سے بھری دیواریں اور گھروں کے اندر بے سکونی، انتشار اور بے چینی۔ چین کی نیند نہ خلوت۔ آپ موجودہ کلچر کا جائزہ لیجیے اس کے تمام دائرے نمائشی نظر آئیں گے۔ زندگی کے تمام وسائل، وقت اور نعمتوں کو محض نمائشی کلچر کی نذر کر دینا کہاں کی دانش مندی ہے؟؟ کیا جدیدیت کا کام بس اتنا تھا کہ یہ ہر شے کو مارکیٹ کی شے بنا کر پیش کرے اور زندگی کی ہر قدر کو کمرشلائزیشن کے احاطے میں لے آئے؟ ۔ ایسی صورت میں قناعت پسندی کو یقیناً عیب سمجھا جائے گا، صبر کو بزدلی اور کاہلی اور بدتمیزی اور بے ہودگی بہادری اور دلیری شمار ہوں گے۔ پھر شریف ہونا کسی خفیہ مرض کی طرح نا قابلِ بیان ہو گا اور بدمعاش اور بد قماش اشتہاروں کے ذریعے اپنا فاخرانہ تعارف پیش کریں گے۔ لیجیے یہ ہے نیا زمانہ اور یہ ہیں نئی اقدار۔ اب ہر در اور ہر شے کے نیاز مندوں نے اپنی تعریفوں کے ذریعے سے نئی دنیا کا جو تصور قائم کیا ہے کچھ عرصے بعد خود انھی کے لیے اس دنیا میں کوئی جگہ باقی نہیں رہے گی۔
دیو جانس کے دبستان نے جہاں قناعت اور بے نیازی کو اختیار نہیں کیا وہ علم کا میدان تھا۔ یہاں زیادہ سے زیادہ کی جستجو واجب تھی۔ اس نے آزمائش اور مسلسل سفر کو ایک رویے کی صورت میں اختیار کیا۔ فلسفہ، حکمت اور تنقید کے شعبوں میں اس کے افکار نے گہرے اثرات مرتب کیے۔ اس نے ایسی تہذیب کو جنم دیا تھا جس نے لمبے عرصے تک دنیا میں عزت اور احترام کی قدریں بدل دی تھیں۔ بادشاہوں پر عام آدمی کو فضیلت دینے والے دیو جانس نے کاٹ دار طنز سے کئی ایسی سوالات اٹھائے جن کی بازگشت آج بھی ہمارے ماحول میں سنائی دیتی ہے۔

متعلقہ مضامین

  • پنجاب سوشل سکیورٹی سے رجسٹرڈ مزدوروں کیلئے بڑی خبر
  • جامعہ کراچی سمیت سندھ کی 17 سے زائد جامعات میں آج بھی تدریس کا بائیکاٹ
  • دیو جانس کا منشور اور نئی دنیا
  • بات چیت کو سیاسی رنگ دینا افسوس ناک ہے ، سیکیورٹی ذرائع نے بیرسٹر گوہر کے بیان کی تردید کردی
  • میرپور خاص:سرکاری ملازمین کی مطالبات کے حق میں احتجاجی ریلی
  • جن کی مدت ملازمت تقریبا مکمل ہوچکی ،انہیں قبل از وقت ریٹائرمنٹ دینگے،وزیر قانون
  • ایزی پیسہ کا مزدوروں کے حفاظتی اقدامات کے لیے بیمہ شدہ بل بورڈز کا آغاز
  • بیمہ شدہ بل بورڈز او او ایچ اشتہارات کے نئے معیار قائم کرکے انقلابی اقدامات کا آغاز  
  • جن سرکاری ملازمین کے پانچ سال باقی ہیں انہیں ریٹائر کردیا جائے گا، وزیر قانون
  • جن سرکاری ملازمین کے 5 سال باقی ہیں انہیں ریٹائر کردیا جائے گا، وزیر قانون