طارق روڈ کراچی کے لبرٹی چوک پر جیسے ہی میں بینک میں جانے کے لیے مڑی، درمیانی عمر کی ایک عورت نے میرا راستہ روک لیا، یہ عورت لمبی سی گھیردار فراک اور سوسی کی رنگین شلوار پہنے ہوئے تھی اور گود میں تقریباً سات آٹھ ماہ کا بچہ تھا، جس کا ماتھا زخمی تھا اور دائیں ہاتھ پر ٹنکچر پایوڈین میں ڈوبی پٹیاں تھیں، سر پہ بھی کوئی پیلے رنگ کی دوا لگی ہوئی تھی، بچہ بے خبر سو رہا تھا۔
میں نے اس کے بغیر مانگے سو روپے کا نوٹ اس کی طرف بڑھا دیا، چند دن بعد اپنی کولیگ کے ساتھ صدر بوہری بازار جانا ہوا، تو مجھے وہی عورت نظر آئی، بچہ اس وقت بھی سو رہا تھا اور اسی طرح اس کے سر پہ پیلی دوا سے لپی ہوئی پٹیاں بندھی تھیں، اب ٹانگ اور پیٹ بھی زخمی تھے۔ وہ تو مجھے نہیں پہچانی لیکن مجھے وہ یاد تھی۔ وہ جیسے ہی میری طرف بڑھی دکاندار نے اسے جھڑک کر پیچھے ہٹایا۔ وہ کچھ دور جا کر کھڑی ہوگئی، میں نے اپنی ساتھی سے کہا کہ جب یہ طارق روڈ پہ نظر آئی تھی تو سر پہ اور ہاتھ پہ پٹی بندھی تھی اور آج۔۔۔۔
’’باجی! یہ عورت مکار ہے، بچہ زخمی بالکل نہیں ہے۔ یہ ایسے ہی جھوٹے زخموں کی پٹیاں باندھ کر بھیک مانگتی ہے۔‘‘ دکاندار نے بتایا۔ مجھے کچھ تجسس ہوا، میں نے سو روپے کا نوٹ نکالا اور اس عورت کی طرف بڑھی اور اسے اشارے سے اپنے پاس بلایا۔ وہ تو جیسے منتظر تھی، فوراً میری طرف لپکی تو میں نے ہاتھ پیچھے کر لیا۔
’’ یہ چوٹ کیسے لگی اور تم اسے ڈاکٹر کے پاس کیوں نہیں لے کر گئیں؟‘‘’’ باجی! اس کا پیٹ اور ٹانگ بلی نے پنجہ مار کر زخمی کر دیے، ڈاکٹر روز دو سو روپے پٹی بدلنے کے لیتا ہے۔‘‘’’ذرا پٹی کھول کر تو دکھاؤ، میرے ساتھ جو باجی ہیں، وہ ڈاکٹر ہیں۔ (میں نے جان بوجھ کر جھوٹ بولا)۔ ’’تم ہمارے ساتھ کلینک چلو، ہم علاج کریں گے اور تمہیں آنے جانے کا کرایہ بھی دیں گے۔‘‘ بس اتنا سننا تھا کہ وہ یک دم وہاں سے چلی گئی اور پلٹ کر بھی نہیں دیکھا۔
ایک شخص کو سڑک کے کنارے اکڑ کر بیٹھے دیکھا اور آپ نے بھی کہیں نہ کہیں ضرور دیکھا ہوگا۔ ایک ٹانگ نارمل اور دوسری ہاتھی کی ٹانگ کی طرح موٹی تازی جس پر کوئی دوا لگی ہوئی تھی، نظر بھر دیکھنے کے بعد ہر کوئی سامنے رکھے ہوئے برتن میں نوٹ ڈالتا جا رہا تھا۔ اس بیماری کو ’’فیل پا‘‘ کہتے ہیں۔ یعنی ہاتھی کی ٹانگ۔ تحقیق پر پتا چلا کہ کچھ ادویات اور کیمیکل ایسے ہوتے ہیں جن کو لگانے سے جسم وقتی طور پر سوج جاتا ہے۔
ملیر سے نرسری آتے ہوئے ناتھا خان گوٹھ پر نو دس سالہ لڑکی ایک تیرہ سالہ لڑکے کے ساتھ بھیک مانگتی نظر آتی تھی، جیسے ہی گاڑی رکتی وہ لپک کر مانگنے کے لیے آگے بڑھتی، میں ذاتی طور پر بھیک دینے کے خلاف ہوں کہ اس طرح گداگری میں اضافہ ہوتا ہے، لیکن اس لڑکی کی ایک آنکھ باہر نکلی ہوئی تھی۔
یہ منظر بڑا تکلیف دہ لگتا تھا، اسی لیے نہ چاہتے ہوئے بھی میں اور میری دوست اسے کچھ نہ کچھ ضرور تھما دیتے۔ اس کا آدھا چہرہ جلا ہوا تھا، آنکھ باہر نکلی ہوئی تھی، چیچک نے اسے اور بھیانک بنا دیا تھا، وہ ہر گاڑی اور ہر شخص کے پیچھے دوڑتی تھی۔ تقریباً ایک سال بعد میرا ٹرانسفر دوسرے کالج میں ہو گیا، وہ راستہ ختم ہو گیا، ایک دفعہ گورنمنٹ جامعہ ملیہ ڈگری کالج کراچی میں ایک فنکشن میں شرکت کے لیے گئی تو واپسی میں مجھے بے اختیار وہ لڑکی یاد آگئی، میں نے ڈرائیور سے کہا کہ ناتھا خان پُل کے پاس گاڑی ذرا آہستہ کر دے۔
اس نے ایسا ہی کیا، میں نے نظر دوڑائی تو وہ فٹ پاتھ پہ بیٹھی تھی، میں نے اسے قریب بلایا اور اس سے پوچھا کیا تم ہمیں پہچانتی ہو؟ وہ کرب سے بولی۔ ’’نہیں جی‘‘ میں نے اسے یاد دلایا کہ ہم لوگ تمہیں پیسے بھی دیتے تھے اور ہماری ایک ساتھی تمہارے لیے چاکلیٹ اور ٹافیاں بھی لاتی تھیں۔ یہ سنتے ہی اس کے چہرے پہ مسکراہٹ پھیل گئی۔
’’باجی! آپ لوگ کدھر چلے گئے تھے؟‘‘ وہ بولی۔ میں نے اسے گاڑی میں بٹھا لیا اور اس سے پوچھا ’’تمہاری آنکھ کیسے خراب ہوئی اور کسی نے تمہارا علاج کیوں نہیں کروایا؟‘‘ میں نے پوچھا۔ پہلے تو وہ چپ ہوگئی، جب میں نے سو روپے کا نوٹ نکال کر اس کے ہاتھ میں دیا تو اس کی آنکھ سے آنسو ٹپک پڑا اور وہ بولی۔’’میرے سوتیلے باپ نے تیزاب پھینک دیا تھا سوتے میں، تاکہ مجھے بھیک زیادہ ملے۔‘‘ میں لرز گئی۔ ’’اور تمہاری ماں نے کچھ نہیں کیا؟‘‘ اس کی پلکوں پہ آنسو ٹھہر گئے۔’’میری ماں کسی دوسرے فقیر کے ساتھ چلی گئی، کیونکہ میرا سوتیلا باپ اسے مارتا بہت تھا۔‘‘ اس نے بتایا۔’’نہیں، وہ جس کے ساتھ گئی اس نے مجھے قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا۔‘‘
’’تم میرے ساتھ چلو، میں تمہارا علاج بھی کراؤں گی اور تمہیں اپنے پاس رکھوں گی بھی۔‘‘ میں نے کہا۔ یہ سنتے ہی وہ تیزی سے گاڑی سے نیچے اتر گئی۔ اترنے کے بعد اس نے ایک شخص کی طرف اشارہ کرکے بتایا کہ وہ اس کا سوتیلا باپ ہے، جو ادھر ہی دیکھ رہا ہے۔آئے دن اخبارات میں خبریں چھپ رہی ہیں کہ عمرے کے ویزے پر بھکاری بھیک مانگنے جاتے ہیں۔ ذرا غور کیجیے تو اندازہ ہوتا ہے کہ آنے جانے کا کرایہ نکال کر انھیں ٹھیک ٹھاک بھیک مل جاتی ہے۔
جانے والے افراد بتاتے ہیں کہ ہر مسجد کے باہر گداگر موجود ہوتے ہیں جس سے پاکستان کا امیج خراب ہو رہا ہے۔ کئی بار مسافروں میں سے ایسے لوگوں کو آف لوڈ کیا گیا جو عمرے کی آڑ میں دراصل بھیک مانگنے جا رہے تھے۔ ان گداگروں کی اکثریت سرائیکی پٹی سے جاتی ہے۔ رحیم یار خان اور دوسرے علاقوں سے اکثریت عمرے کے ویزے حاصل کرتی ہے۔
ایجنٹ ان کو ویزا دلاتے ہیں اور یہ پوری شان سے پاکستان کو بدنام کرتے ہیں۔ پاکستان میں گداگری کی لعنت اسی وقت ختم ہو سکتی ہے جب لوگ یہ تہیہ کر لیں کہ وہ اب کسی کو بھیک نہیں دیں گے۔ لوگ ثواب کمانے کی خاطر بھکاریوں کو پیسے دیتے ہیں۔
وہ یہ نہیں سوچتے کہ بھکاری کو رقم دینے کے بجائے ایسے محنت کش سے ضرور کچھ خرید لیں جو محنت سے اپنی روزی کما رہا ہے۔ مکئی اور چنے بیچنے والے، پھول اور گجرے بیچنے والے سرفہرست ہیں جو گلی گلی اور سڑک سڑک پھر کر روزی کماتے ہیں بلاشبہ یہ صحیح حق دار ہیں انھیں دیجیے نہ کہ پیشہ ور بھکاری کو۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: کے ساتھ سو روپے اور اس اور تم
پڑھیں:
81فیصد
یہ دو تین سال پہلے کی بات ہے‘ میرے موبائل فون کی بیٹری جلد ختم ہو جاتی تھی‘ میں چارج کرتا تھا اور یہ گھنٹہ بھر میں دوبارہ ختم ہو جاتی تھی اور میں اٹھ کر چارجر کی تلاش شروع کر دیتا تھا‘ میں تنگ آکر فون مکینک کے پاس چلا گیا‘ اس نے فون دیکھا اور کہا ’’سر بیٹری کیوں نہ ختم ہو آپ نے سوا سو پیجز کھولے ہوئے ہیں‘‘ میں نے حیرت سے پوچھا ’’کیا مطلب؟‘‘ اس کا جواب تھا ’’آپ ایپس اور پیجز کھولنے کے بعد انھیں بند نہیں کرتے‘ یہ چلتے رہتے ہیں اور آپ کے فون کی 81 فیصد انرجی کھا جاتے ہیں یوں آپ کے پاس صرف 19فیصد انرجی بچ جاتی ہے اور یہ تین چار کالز کے بعد ختم ہو جاتی ہے‘‘ اس نے اس کے بعد تمام غیر ضروری ایپس اور پیجز ڈیلیٹ کر دیے‘ میری بیٹری اس کے بعد کبھی ختم نہیں ہوئی‘ میں رات کو فون چارج کرتا ہوں اور یہ سارا دن چلتا رہتا ہے۔
میں نے اس کے بعد اپنی زندگی کا جائزہ لیا تو پتا چلا جاپان کے ہیرو اور مجھ میں ایپس کا فرق ہے‘ میری زندگی میں اسٹریس کی بے شمار ایپس کھلی ہوئی ہیں‘ میری توانائی کا زیادہ تر حصہ یہ کھا جاتی ہیں اور یوں میرے پاس کام کے لیے بہت معمولی انرجی بچتی ہے مثلاً میں ڈرائیو نہیں کرتا‘ کیوں؟کیوں کہ شہر کی ٹریفک بے ہنگم ہے‘ دائیں بائیں دونوں جانب سے گاڑیاں نکلتی ہیں۔
اووراسپیڈنگ معمول ہے‘ سگنل توڑنا اور ہارن بجانا ہر شخص اپنا حق سمجھتا ہے اور کس وقت کس چوک پر ٹریفک بند ہو جائے یا کس راستے پر کس وقت کون کنٹینر لگا دے یا کون کس وقت کس شاہراہ پر لاش رکھ کر اسے بند کر دے یا پھر کون کس وقت گاڑیوں پر لاٹھیاں برسانا شروع کر دے کوئی نہیں جانتا لہٰذا میرے ذہن میں ہر وقت ٹریفک کے خوف کی ایپ کھلی رہتی ہے‘ دوسرا مجھے خطرہ ہوتا ہے میں جہاں جاؤں گا مجھے وہاں پارکنگ نہیں ملے گی اور اگر مل بھی گئی تو وہاں میری گاڑی محفوظ نہیں ہو گی‘ کوئی نہ کوئی گاڑی چوری کر لے گا یا کھڑی گاڑی کو ٹھوک جائے گا یا پھر اسے چھیل جائے گاچناں چہ میں ڈرائیور کے بغیر گھر سے نہیں نکل سکتا لیکن یہاں میرے ذہن میں ڈرائیور کی ایک ایپ بھی موجود ہے۔
میرا ڈرائیور میری گاڑی وقت پر صاف کرے گا یا نہیں‘ یہ اس کا آئل بھی ٹھیک تبدیل کرے گا یا نہیں اور یہ کہیں کھڑی گاڑی کا اے سی چلا کر تو نہیں سویا رہے گا یا یہ اسے لاوارث چھوڑ کر چائے پینے یا دہی بھلے کھانے تو نہیں چلا جائے گا‘ میرے ذہن میں ہر وقت یہ ایپ بھی کھلی رہتی ہے اور یہ میری انرجی کا بہت سا حصہ بھی ضایع کرتی رہتی ہے جب کہ میرے مقابلے میں جاپان کے ہیرو کی زندگی میں یہ ایپ نہیں ہے‘ یہ اپنے فلیٹ سے چل کر دو منٹ میں ٹرین اسٹیشن پہنچ جاتا ہے‘ فون ٹچ کر کے پلیٹ فارم پر آ جاتا ہے۔
وقت پر ٹرین آتی ہے اور یہ مزے سے اس میں سوار ہو کر وقت پر اپنی منزل پر پہنچ جاتا ہے اور اگر کبھی اسے اپنی گاڑی پر دفتر جانا پڑے تو اسے سارا راستہ رواں ٹریفک ملتی ہے‘ کوئی سڑک بند نہیں ہوتی‘ کسی چوک میں کنٹینر نہیں ہوتا‘ کوئی شخص رش ڈرائیونگ نہیں کرتا اور یہ جب دفتر پہنچتا ہے تو وہاں پارکنگ بھی ہوتی ہے اور اس پارکنگ میں اس کی گاڑی سو فیصد محفوظ ہوتی ہے‘ اس پر سکریچ پڑتے ہیں اور نہ ہی اسے کوئی ٹھوک جاتا ہے اور اگر کبھی خدانخواستہ اس کا ایکسیڈنٹ ہو جائے تو انشورنس کمپنی اسے گاڑی ٹھیک کرا دیتی ہے یا پھر اسے نئی گاڑی دے دیتی ہے اور یوں اس کا نقصان‘ نقصان نہیں رہتا چناں چہ اس کے ذہن میں ’’میری گاڑی کا کیا بنے گا؟‘‘ کی ایپ کبھی نہیں کھلتی اور یہ اپنی ساری بیٹری کام پر خرچ کرتا ہے۔
ہیرو کی زندگی بے شمار دوسری ایپس سے بھی آزاد ہے‘ مثلاً اس کے ذہن کے کسی کونے میں ذرا سا بھی یہ خیال نہیں آتا میں جو دودھ پی رہا ہوں یہ ناخالص ہو سکتا ہے‘ یہ کیمیکل سے بنا ہو گا یا اس میں جوہڑ کا گندا پانی ہوگا‘ اس کی میز پر رکھا منرل واٹر منرل نہیں ہے‘ اس کا شہد اصلی نہیں ہوگا‘ اس کی دوائیں جعلی ہوں گی یا ڈاکٹر اس کا غلط گردہ نکال دے گا یا ڈاکٹر کی ڈگری اصلی نہیں ہو گی یا یہ اسے سٹیرائیڈ دے دے گا یا بلاوجہ دس دوائیں لکھ دے گا یا کیمسٹ کی دکان سے اسے جعلی یا ایکسپائرڈ دوا ملے گی۔یہ سوچ بھی نہیں سکتا اس کی براؤن بریڈ اصل میں وائیٹ ہے اور اسے رنگ ڈال کر براؤن کیا ہو گا‘ اس کی چائے‘ چائے نہیں کیکر کی چھال کا برادہ ہے‘ اس کا بسکٹ پرانا ہے اور اس میں سے کیڑے نکل آئیں گے۔
یہ فائیو اسٹار ہوٹل میں جو آملیٹ کھا رہا ہے وہ گندے انڈے کا بنا ہوگا یا اس کی پلیٹ کا گوشت مری ہوئی مرغی یا ٹھنڈی مرغی کا ہوگا اور اس میں سے بو بھی آئے گی اور کیڑے بھی نکل آئیں گے یا اسے جس کام کے لیے ہائر کیا جائے گایہ وہ کام سرے سے نہیں جانتا ہو گا یا یہ سوچتا ہو گا میں نے اگر اے سی یا ٹی وی لگوانا ہے تو پھر مجھے لگانے والے کے سر پر کھڑا ہونا پڑے گا کیوں کہ یہ جاتے جاتے میری کوئی اور چیز توڑ جائے گا یا دیوار گندی کر جائے گا‘ اسے یہ خطرہ بھی نہیں ہوگا اس کا پلمبر اصل میں پلمبر نہیں یا اس کا الیکٹریشن‘ الیکٹریشن اور پینٹر اصل میں پینٹر نہیں یا اس کی گاڑی میںائیر بیگز نہیں ہوں گے یا گاڑی کا مکینک مکمل نالائق اور ان پڑھ ہو گا یا اس کے گھر کی بجلی اچانک چلی جائے گی یا یہ دس پندرہ بیس کے وی کے سولر پینلز لگا لے گا تو گورنمنٹ اچانک پالیسی بدل لے گی۔
حکومت اس کے اکاؤنٹس سے پیسے نکال لے گی یا اس کی نوکری اچانک چلی جائے گی یا اس کے سامنے موجود شخص کا سی وی غلط ہو گا اور یہ ایم بی اے کے باوجود بزنس سے مکمل نابلد ہو گا اور یہ کسی بھی وقت جاب چھوڑ کر چلا جائے گا یا کمپنی سے ایڈوانس لے کر غائب ہو جائے گا یا یہ دفتر کے اوقات میں سارا دن موبائل فون پر لگا رہے گا یا کوئی شخص ڈرائیونگ لائسنس کے بغیر گاڑی لے کر سڑک پر آ جائے گا یا ’’ون ویلنگ‘‘ کرے گا یا اووراسپیڈ ہو گا۔
ہیرو یہ بھی نہیں سوچ سکتا اس کے گھر کی گیس اچانک غائب ہو جائے گی یا پٹرول پمپس سے پٹرول اچانک ختم ہو جائے گا یا ملک میں اچانک چینی مہنگی ہو جائے گی یا آٹا غائب ہو جائے گا یا پولیس اسے اچانک اٹھا لے جائے گی یا یہ ایجنسیوں کے ہتھے چڑھ جائے گا اور مکمل طور پر مسنگ ہو جائے گا یا ریاست اسے سڑکوں پر ذلیل کرے گی یا اس کا ووٹ کسی دوسرے امیدوار کے باکس سے نکل آئے گا یا مالک مکان اسے کسی بھی وقت مکان سے نکال دے گا یا اس کی پراپرٹی پر کوئی دوسرا شخص قبضہ کر لے گا یا اس کا بچہ میدان میں کھیلتا ہوا اغواء ہو جائے گا اور اسے تاوان ادا کرنا پڑے گا یا پولیس اس کی عزت نفس کچل کر رکھ دے گی یا اسے عدالت سے انصاف نہیں ملے گا یا پھر حکومت عدالتوں میں اپنی مرضی کے جج تعینات کر کے مرضی کے فیصلے لے لے گی یا کوئی سیاسی جماعت کسی بھی وقت سرکاری املاک توڑ دے گی یا سوشل میڈیا پر کسی بھی وقت ہیرو کی ٹرولنگ شروع ہو جائے گی یا کسی بس‘ ٹرین یا ریستوران سے اس کا بیگ یا موبائل فون چوری ہو جائے گا یا کسی گلی میں کوئی پستول دکھا کر اس سے موبائل اور پرس چھین لے گا یا اس کے ٹیمپل یا مسجد میں بم دھماکا ہو جائے گا یا اس کا مولوی اسے کسی دوسرے فرقے کے خلاف اکسا دے گا یا اس پر گستاخی کا الزام لگا کر اسے زندہ جلا دیا جائے گا یا یہ بے گناہی کے باوجود جیلیں بھگتے گا یا اس کی گھر کی ٹونٹی سے پانی نہیں آئے گا یا اسے کسی پبلک پلیس پر واش روم نہیں ملے گا یا اس کی فلائیٹ وقت پر نہیں اڑے گی یا درزی اس کے کپڑے خراب کر دے گا یا پھر ڈرائی کلین کے دوران اس کے کپڑوں پر استری کا نشان پڑ جائے گا‘ ہیرو کے ذہن پر ٹینشن کی کوئی ایپ نہیں کھلتی‘ اس پر کوئی اسٹریس نہیں آتا‘یہ ذہنی طور پر مکمل آزاد رہتا ہے۔
فری مائینڈ‘ یہ کام کرتا ہے اور اپنی گھریلو زندگی کو انجوائے کرتا ہے جب کہ میرے ذہن میں خوف‘ غیر یقینی‘ عدم استحکام اور انہونی کے ہزاروں پیجز اور درجنوں ایپس کھلی ہوئی ہیں اور یہ دن میں میری 81 فیصد بیٹری کھا جاتی ہیں‘ میرے پاس صرف 19 فیصد توانائی بچتی ہے اور اس میں سے بھی 18 فیصد’’ میرے بچوں کا کیا بنے گا؟ ان کا مستقبل کیا ہوگا؟ میں انھیں جلد سے جلد کیسے سیٹل کر سکتا ہوں اور کیا یہ میری دکان‘ میری فیکٹری‘ میرا بزنس یا میری جائیداد سنبھال سکیں گے وغیرہ وغیرہ‘‘ جیسے خوف میں ضایع ہو جاتی ہے یوں میرے پاس باقی صرف ایک فیصد بیٹری بچتی ہے لہٰذا سوال یہ ہے میں اس ایک فیصد سے کیا اکھاڑ لوں گا‘ کیا توڑ لوں گا اور میں کیا تبدیل کر لوں گا لہٰذا اگر ریاست مجھ سے کام لینا چاہتی ہے تو اسے پہلے خوف کی یہ ساری ایپس اور غیریقینی کے یہ تمام پیجز بند کرنا ہوں گے تاکہ میرا مائینڈ فری ہو سکے اور میں جاپان کے ہیرو کی طرح پرفارم کر سکوں ورنہ میں روزانہ یہ سوچ سوچ کر مر جاؤں گا ’’میرا شہد اصلی ہے یا جعلی اور میری میز پر پڑا دودھ کیا واقعی بھینس نے دیا تھا؟‘‘۔