سعودی وزارت خارجہ نے اسرائیل کی جانب سے اردن، لبنان اور شام کے مختلف علاقوں پر مبنی گریٹر اسرائیل منصوبے پر مبنی نقشے جاری کرنے پر مذمت کرتے ہوئے اسے مسترد کیا ہے، دوسری جانب اسرائیلی فورسز نے غزہ میں قتل عام کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے نومولود بچوں اور خواتین سمیت مزید 51 فلسطینیوں کو شہید کردیا۔ امریکی نو منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک پریس کانفرنس کے دوران کہا ہے کہ اگر میرے صدارت سنبھالنے تک اسرائیلی یرغمالی رہا نہیں کیے جاتے، تو مشرق وسطیٰ میں قیامت برپا ہوجائے گی۔
ایک ایسے وقت میں جب مشرق وسطیٰ میں لگی آگ پھیلتی جا رہی ہے، اہم ترین سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اسرائیلی وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو ’’گریٹر اسرائیل‘‘ کے خواب کی تکمیل کے لیے جلد مشرق وسطیٰ کا نقشہ بدلنے جا رہے ہیں؟ جواب یہ ہے کہ اسرائیل نے تو بیک وقت کئی جنگی محاذ کھول رکھے ہیں۔
ایسے میں مشرق وسطیٰ کی نئی صورت گری کا امکان اسرائیل کیوں نہیں دیکھنا چاہے گا؟ رواں برس میں مشرق وسطیٰ میں بہت سی چیزیں اظہر من الشمس ہیں۔ نوشتہ دیوار کی صورت موجود ان حقیقتوں کو تقریباً ہرکوئی سمجھ رہا ہے۔ ہر ملک اور علاقے میں اس کا ادراک پوری طرح موجود ہے۔
کچھ عرصہ قبل اقوام متحدہ میں اپنی تقریر کے فوراً بعد نیتن یاہو نے X ویب سائٹ پر اپنے اکاؤنٹ پر ایک ٹویٹ پوسٹ کیا اور لکھا ’’ میری زندگی کی سب سے بڑی کامیابی آپ ( اسرائیلی عوام) اور ملک کے لیے لڑنا ہے۔‘‘ نیتن یاہو نے جو نقشہ دکھایا تھا، اس میں جن ممالک کو سبز رنگ میں رکھا گیا تھا۔
ان میں مصر، سعودی عرب، اردن، امارات، بحرین، سوڈان اور مراکش تھے اور یہ ہم جانتے ہیں کہ مصر اور اردن کے اسرائیل کے ساتھ عشروں پرانے تعلقات ہیں جب کہ متحدہ عرب امارات، بحرین اور سوڈان نے حالیہ ہی غیر قانونی صیہونی ریاست کو تسلیم کیا ہے۔ اس بیان کو اگرآپ باریک بینی سے دیکھیں تو سب سمجھ آجائے گا کہ اسرائیل کے مقاصد کیا ہیں جہاں وہ بزور طاقت اپنے مقاصد کا حصول کرسکتا ہے وہ کررہا ہے اور جہاں وہ روایتی عیاری اور مکاری کا سہارا لے سکتا ہے تو وہ بھی لے رہا ہے۔
اسرائیل ایک جانب عرب ممالک کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانا چاہتا ہے تو دوسری جانب تنازع کی اصل وجہ مسئلہ فلسطین کوکوئی اہمیت ہی نہیں دی جا رہی ہے جس کی بنیاد یہ ہے کہ غیر قانونی ریاست اسرائیل مشرق وسطیٰ میں تنازعات کے جامع اور منصفانہ حل کو قبول نہیں کرنا چاہتی، جس میں فلسطینی سر زمین پر مکمل خود مختاری کے ساتھ فلسطینی ریاست کا قیام شامل ہے، جس کا دارالحکومت مقبوضہ بیت المقدس ہو۔ بربادی کی اس داستان کا آغاز پہلی عالمی جنگ کے بعد ہونے والے معاہدوں اور مشرقِ وسطیٰ کی تشکیلِ نو سے ہوا۔ فلسطین سلطنتِ عثمانیہ کا حصہ تھا۔
صدیوں سے مسلمان عیسائی اور یہودی اس خطے میں امن و سکون سے رہتے تھے،کبھی مذہبی منافرت دیکھنے میں نہیں آئی۔ پہلی عالمی جنگ کے خاتمے پر سلطنتِ عثمانیہ سکڑ کر موجودہ ترکیہ تک محدود ہوگئی۔ اردن اور سعودی عرب کے ساتھ شام اور عراق کو ایک ہی خاندان کی مختلف شاخوں میں تقسیم کر کے بادشاہتیں قائم کر دی گئیں۔
صہیونی تحریک 19 ویں صدی کے آخر میں متمول اور تعلیم یافتہ یہودیوں میں مقبول ہوئی۔ ایک منظم اور خفیہ منصوبہ بندی سے زمین اور جائیدادیں عربوں اور فلسطینیوں سے خرید کر یہودیوں کو بسایا گیا۔ فلسطین کو وقف بنا کر انتظام چلانے کے لیے برطانیہ کے حوالے کیا گیا۔ یہ معاملہ بالفور معاہدے سے شروع ہوا، جس میں یہودیوں کے لیے فلسطین میں قومی ریاست کے قیام کی حمایت کی گئی تھی۔
اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کے جنگی عزائم یہ ہیں کہ دریائے اردن کے مغربی کنارے میں آباد فلسطینیوں کو اردن میں دھکیل کر مغربی کنارے کو اسرائیل میں ضم کرلیا جائے اور غزہ کے فلسطینیوں کو مصر بھیج کر وہاں یہودی آباد کاروں کی بستیاں تعمیر کر کے ’’ گریٹر اسرائیل‘‘ کا صہیونی خواب پورا کیا جائے۔ یاہو کے اس مبینہ منصوبے کو امریکا کی مکمل حمایت حاصل ہے۔
لبنان میں اسرائیلی حملوں کے بعد سوشل میڈیا پر بھی ’گریٹر اسرائیل‘ کے تصورکی بازگشت ہے۔ غزہ کی زمینی کارروائیوں میں کچھ سوشل میڈیا پوسٹس میں یہ دعویٰ تھا کہ بعض اسرائیلی فوجی اپنے یونیفارم پر ’ گریٹر اسرائیل‘ کے نقشے کا بیج پہنے ہوئے تھے۔ ماضی میں انتہائی دائیں بازو کے اسرائیلی وزراء بھی اس کا ذکر کرتے رہے ہیں۔
’دا پرومسڈ لینڈ‘ (وعدہ شدہ زمین) کے نقشے میں فلسطین، لبنان، اردن، عراق، ایران، شام، مصر، ترکی اور سعودی عرب بھی شامل ہیں۔ بہت سے یہودی اس خطے کو ’ایرٹز اسرائیل‘ یا ’ لینڈ آف اسرائیل‘ کا نام دیتے ہیں۔
1947 میں اقوام متحدہ نے فلسطین کو دو ریاستوں میں تقسیم اور بیت المقدس کو ایک بین الاقوامی شہر قرار دیا تو اسرائیلی سابق وزیر اعظم مناہم بیگن نے کہا تھا کہ فلسطین کی یہ تقسیم غیر قانونی ہے۔ یروشلم ہمارا دارالحکومت تھا اور رہے گا اور ایرٹز اسرائیل کی سرحدوں کو بحال کیا جائے گا۔
غیر قانونی اسرائیلی آباد کار، فلسطینیوں کو بے گھرکر کے مغربی کنارے میں نئی بستیاں، اسرائیلی فوج ( آئی ڈی ایف) اور نیتن یاہو کے وزراء کی حفاظت میں قائم کر رہے ہیں۔ انھیں ’’ غیر ریاستی عناصر‘‘ کہا جاتا ہے لیکن انھیں کوئی نام بھی دیں، حقیقت یہی ہے کہ انھیں براہ راست نیتن یاہوکی حمایت حاصل ہے جنھوں نے 5300 نئی بستیوں کے قیام کی منظوری دی تھی۔
اسرائیل کے قیام سے یہودیوں کو ایک مذہبی ریاست کا تصور دوبارہ سے ملا، یہیں سے اس بحث کا آغاز ہوا کہ ہم نے اپنی مذہبی ریاست قائم کر لی ہے لہٰذا ہم اسے روایتی حدود تک پہنچائیں گے۔ یہ فینٹسی خصوصاً ان طبقات میں ہے جو پوری دنیا میں یہودیوں کی نشاۃ ثانیہ کا خواب دیکھتے ہیں۔ اسی لیے با اثر اسرائیلی لیڈرزکی ایک بڑی تعداد اس خواب کی تعبیر میں لگی ہے۔ گریٹر اسرائیل ایسی فینٹیسی ہے جو مختلف شدت پسند گروہوں کے لیے ’سیاسی لائف لائن‘ ان کے نظریات کو زندہ رکھنے اور ان کے لیے معاشرے میں اپنی اہمیت دکھانے میں کارگر ہے۔ مشرق وسطیٰ کے ایک ایک ملک کی قیادت یہ سب کچھ سمجھتی ہے، مگر اس بارے میں کسر نفسی یا تجاہل عارفانہ کا شکار ہے۔
یہ شتر مرغ کی طرح سر ریت میں دبا لینے والی بات ہے۔ نو منتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی وائٹ ہاؤس میں آمد آمد ہے۔ محض دس دن بعد وہ بطور امریکی صدر حلف اٹھا کر وائٹ ہاؤس میں براجمان ہوں گے۔ ٹرمپ کی شخصیت میں غیر معمولی اعتماد انھیں دھونس اور تحکم کی طرف لے جاتا ہے، اس لیے وہ بطور امریکی صدر اپنی طاقت اور طاقتور لہجے کا بھرپور استعمال کریں گے۔
بظاہر یہ سمجھا جا رہا ہے کہ انھوں نے اپنی انتخابی مہم کے دوران جنگوں سے جس بیزاری کا اظہار کیا ہے، مشرق وسطیٰ کے لیے بھی وہ اسی انداز سے سوچیں گے۔ فطری بات ہے کہ جو اہمیت امریکا و یورپ کے لیے یوکرین کی ہے وہ مشرق وسطیٰ کے کسی بھی عرب ملک یا فلسطین کی ہرگز نہیں ہو سکتی،کیونکہ مشرق وسطیٰ میں حالات جس قدرخراب ہوں گے، اس سے اسلحے کی فروخت سے کمائی کا بھی امکان اتنا ہی بڑھتا رہے گا۔
مشرق وسطیٰ میں مسائل کی حیثیت امریکا اور یورپ کے لیے ’’آم کے آم گٹھلیوں کے دام ‘‘ والی ہے۔ اسی لیے بہت سے مبصرین کے خیال میں مشرق وسطیٰ میں امن، چین اور استحکام عالمی طاقتوں کی ضرورت نہیں ہو سکتا۔ بہرحال غزہ میں جاری اسرائیلی جنگ کے بارے میں امریکی حکمت عملی کو اس طرح بھی دیکھا جا سکتا ہے کہ اس جنگ کے خلاف سلامتی کونسل میں چار قراردادوں کو امریکا نے ویٹو کیا ہے۔ اب نو منتخب امریکی صدر نے بھی جو بات کھل کر اور بہ تکرار کہی ہے، وہ جنگ بندی کے لیے اجتماعی اپیل نہیں ہے، بلکہ حماس کے لیے دھمکی کی صورت سامنے آئی ہے کہ 20 جنوری سے پہلے پہلے اسرائیلی یرغمالیوں کو رہا کردو۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے یہ دھمکی دو مرتبہ دی ہے۔
ابھی 20 جنوری آنے میں دو ہفتے باقی ہیں۔ جنگیں روکنے کا دعویٰ اپنی جگہ مگر حقیقت اپنی جگہ۔ اپنے پہلے دور صدارت میں بھی ٹرمپ بیت المقدس کو اسرائیلی دارالحکومت تسلیم کرچکے ہیں۔ اسرائیل کی انتہا پسند حکومتی اتحادی جماعتیں ٹرمپ کے دوبارہ صدر بننے کو اسرائیل کے لیے ایک غیر معمولی موقعے کے طور پر استعمال کرنا چاہتے ہیں۔
یقیناً یہ اولین درجے میں فلسطینی علاقوں پر اسرائیلی قبضے کو مستحکم کرنے اور ثانوی درجے میں پورے مشرق وسطیٰ میں اسرائیلی اثرات یا عمل داری کا پھیلاؤ کرنا چاہیں تو یہ بات ہرگز اچنبھے کی نہیں ہو گی۔ خصوصاً ایسے ماحول میں جب آس پاس سے کوئی مزاحمت کرنے والا ملک نقشے پر موجود نہ ہو۔ امریکا اور اسرائیل کے درمیان یہ سوچ ہونا فطری ہے۔ اس لیے ’گریٹر اسرائیل‘ کا اسرائیلی خواب ہو یا ’گریٹر مشرق وسطیٰ‘ کا امریکی نقشہ، دونوں ایک ہی ہدف کے الگ الگ اظہار ہیں۔
نیتن یاہو کا خیال ہے کہ وہ طاقت کے بل پر ’’ گریٹر اسرائیل‘‘ کے خواب کو عملی جامہ پہنانے کے لیے تیار ہیں، لیکن دنیا کی نظر میں ان کا یہ عمل خطے کو تباہی اور جنگ کی طرف دھکیل رہا ہے۔ امریکا سمیت عالمی برادری نوے کی دہائی سے اوسلو معاہدے کے تحت خطے میں دو ریاستوں کے قیام کے لیے کوشاں رہی ہے، لیکن دنیا کی نظر میں نیتن یاہو کا یہ اقدام فلسطینیوں کا اپنی علیحدہ ریاست کا دیرینہ خواب چکنا چورکرنے کے مترادف ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: امریکی صدر اسرائیل کی اسرائیل کے کے قیام کے ساتھ جنگ کے کے لیے
پڑھیں:
حماس اسرائیل جنگ بندی کا معاہدہ، اثرات، مضمرات
قطر کے وزیر اعظم نے بدھ کو اعلان کیا ہے کہ حماس اور اسرائیل کے درمیان سیز فائر معاہدے پر عمل درآمد اتوار19 جنوری سے شروع ہو جائے گا۔وزیر اعظم محمد بن عبدالرحمان آل ثانی نے دوحہ میں ایک پریس کانفرنس کرتے ہوئے اعلان کیا کہ اسرائیل اور حماس کے درمیان معاہدے پر عمل درآمد کو یقینی بنانے کے لیے قطر، مصر اور امریکہ کے ساتھ مل کر کام جاری رکھے گا۔
قطر کے وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ ‘معاہدے سے اسرائیلی قیدیوں کی رہائی ہو گی اور غزہ میں انسانی بنیادوں پر امداد میں اضافہ ہو گا۔دوسری جانب امریکی صدر جو بائیڈن اور نومنتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی حماس اور اسرائیل کے درمیان معاہدے کی تصدیق کرتے ہوئے اس پر خوشی کا اظہار کیا اور ایک بیان میں کہا ہے کہ امریکہ کی جانب سے کئی ماہ کی سفارت کاری کے بعد مصر اور قطر کے ساتھ اسرائیل اور حماس کے درمیان سیز فائر اور قیدیوں کا معاہدہ طے پا گیا ہے۔
جو بائیڈن کا کہنا تھا کہ اس معاہدے سے غزہ میں لڑائی رک جائے گی، فلسطینی شہریوں کے لیے انتہائی ضروری انسانی امداد میں اضافہ ہوگا اور قیدیوں کو 15 ماہ سے زائد عرصے تک قید میں رکھنے کے بعد ان کے اہل خانہ سے ملایا جائے گا۔خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق حماس نے معاہدے کو ‘ایک عظیم کامیابی’ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ‘یہ معاہدہ اس داستان کی عکاسی کرتا ہے جو غزہ کی ثابت قدمی، اس کے عوام اور اس کی مزاحمت کی بہادری کے ذریعے حاصل کیا گیا۔
معاہدے کے مطابق سیز فائر کے ابتدائی 6 ہفتوں میں اسرائیلی فوج کا مرکزی غزہ سے بتدریج انخلا اور بے گھر فلسطینیوں کی شمالی غزہ میں واپسی ہو گی۔جنگ بندی کے دوران روزانہ غزہ میں 600 ٹرکوں پر مشتمل انسانی امداد کی اجازت دی جائے گی، جن میں سے 50 ٹرک ایندھن لے کر آئیں گے اور 300 ٹرک شمال کے لیے مختص ہوں گے۔حماس 33 اسرائیلی قیدیوں کو رہا کرے گی، جن میں تمام خواتین فوجی اور شہری، بچے اور 50 سال سے زیادہ عمر کے مرد شامل ہوں گے۔
حماس پہلے خواتین قیدیوں اور 19 سال سے کم عمر بچوں کو رہا کرے گا، جس کے بعد 50 سال سے زیادہ عمر کے مردوں کو رہا کیاجائے گا۔اس دوران اسرائیل اپنے ہر سویلین قیدی کے بدلے 30 فلسطینیوں اور ہر اسرائیلی خاتون فوجی کے بدلے 50 فلسطینی قیدیوں کو رہا کرے گا۔اسرائیل7 اکتوبر، 2023 کے بعد سے گرفتار تمام فلسطینی خواتین اور 19 سال سے کم عمر کے بچوں کو پہلے مرحلے کے اختتام تک رہا کرے گا۔
رہائی پانے والے فلسطینیوں کی کل تعداد اسرائیلی قیدیوں کی رہائی پر منحصر ہوگی، اور یہ تعداد 990 سے 1,650 قیدیوں تک ہو سکتی ہے، جن میں مرد، خواتین اور بچے شامل ہیں۔پہلے مرحلے کے 16ویں دن معاہدے کے دوسرے مرحلے کے لیے مذاکرات شروع ہوں گے، جس میں باقی تمام قیدیوں کی رہائی، بشمول اسرائیلی مرد فوجیوں، مستقل جنگ بندی اور اسرائیلی فوجیوں کا مکمل انخلا شامل ہوگا۔
تیسرے مرحلے میں توقع ہے کہ تمام باقی ماندہ لاشوں کی واپسی اور غزہ کی تعمیرِنو کا آغاز شامل ہوگا، جس کی نگرانی مصر، قطر اور اقوام متحدہ کریں گے۔اس سے قبل غزہ میں جاری اسرائیلی جارحیت کے خاتمے کے لیے قطر میں ہونے والے مذاکرات کے مصالحت کاروں نے بدھ کو اعلان کیا تھا کہ اسرائیل اور حماس سیز فائر معاہدے پر متفق ہو گئے ہیں۔
قطر کے دارالحکومت دوحہ میں کئی ہفتوں تک جاری رہنے والے مذاکرات کے بعد طے پانے والے اس معاہدے میں حماس کے زیر حراست قیدیوں کی مرحلہ وار رہائی، اسرائیل میں قید سینکڑوں فلسطینی قیدیوں کی رہائی اور غزہ میں بے گھر ہونے والے لاکھوں افراد کو اپنے گھروں میں واپس جانے کی اجازت دینے پر اتفاق کیا گیا ہے۔قطر اور حماس کے عہدیداروں نے معاہدے کی تصدیق کی ہے جبکہ خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق امریکہ کے نو منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی کہا کہ ‘مشرق وسطیٰ میں قیدیوں کے لیے معاہدہ ہو گیا ہے۔ انہیں جلد ہی چھوڑ دیا جائے گا۔
معاہدے کے جو نکات سامنے آئے ہیں ان کے مطابق معاہدے کے چھ ہفتوں پر مشتمل پہلے مرحلے میں 33 قیدی رہا کیے جائیں گے جبکہ معاہدے کے مطابق ‘اس دورانیے کے دوران ہر ہفتے کم از کم 3 قیدی رہا کیے جائیں گے۔تاہم ابھی اس معاہدے کی روشنائی بھی خشک نہیں ہوئی ہے کہ اسرائیل کی جانب سے شک وشبہے کا اظہار شروع کر دیا گیا ہے ۔
اسرائیلی وزیر اعظم کے دفتر سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ ‘فریم ورک کی کئی شقیں ابھی تک حل نہیں ہو سکی ہیں اورمعاہدے کے کئی نکات کو حل کرنے کی ضرورت ہے تاہم اس کے ساتھ بیان میں امید ظاہرکی گئی ہے کہ انہیں جلدحتمی شکل دے دی جائے گی۔ اسرائیل کے وزیر خارجہ جدعون ساعر نے بتایا کہ وہ بدھ کو یورپ کا اپنا دورہ مختصر کر رہے ہیں تاکہ وہ قیدیوں کی رہائی اور سیز فائر معاہدے پر سیکورٹی کابینہ اور حکومت کے ووٹوں میں حصہ لے سکیں۔
اسرائیل اور حماس کے درمیان گزشتہ 15 ماہ سے جاری اس جنگ نے لاکھوں فلسطینیوں کودربدر کردیاتھا جبکہ اسرائیلی عوام اور اس کے فوجیوں کے اہل خانہ ذہنی کرب کا شکار تھے،یہی وجہ ہے کہ جنگ بندی کا معاہدہ طے پانے کی خبر آتے ہیں اسرائیل فلسطین دونوں جانب لوگ خوشی میں گھروں سے نکل آئے اور جنگ بندی پر جشن منانے لگے ۔
معاہدے کی خبریں سامنے آنے کے بعد جنوبی غزہ کے شہر خان یونس میں فلسطینی شہری سڑکوں پر نکل آئے جنہوں نے فلسطین کے پرچم اٹھا رکھے تھے یہ لوگ معاہدے کے اعلان کا جشن منا رہے تھے لوگ خوش تھے کہ انھیں اس تمام تکلیف کے بعد جو انہوں نے ایک سال سے زیادہ عرصے تک دیکھی سکھ کا سانس نصیب ہوا۔ اگرچہ پوری دنیا کو امید ہے کہ یہ معاہدہ نافذ ہو جائے گا لیکن اسرائیلی کابینہ میں موجود امن دشمن طاقتور وزرا کی موجود گی کے سبب فوری طورپر اس بارے میں کوئی حتمی بات نہیں کہی جاسکتی۔فی الوقت صورت حال یہ ہے کہ ہر کوئی معاہدے کو قریب سے دیکھ رہا ہے۔
امریکی صدر جو بائیڈن نے نائب صدر کملا ہیرس اور وزیرِ خارجہ انٹونی بلنکن کے ہمراہ ایک پریس کانفرنس میں امید ظاہر کی ہے کہ جلد ہی یرغمالی اپنے گھروں میں خاندان والوں کے ساتھ ہوں گے۔انھوں نے اس بات کی تصدیق کی کہ معاہدے میں مکمل جنگ بندی، اسرائیلی فوجوں کے غزہ سے انخلا اور حماس کی جانب سے یرغمالیوں کی رہائی شامل ہے اور معاہدے کے تحت اسرائیل اپنے فوجیوں اور یرغمالیوں کے بدلے میں فلسطینی قیدیوں کو رہا کرے گا۔
جنگ بندی معاہدے کے پہلے مرحلے میں فلسطینی اپنے علاقوں میں اپنے گھروں کو لوٹ سکیں گے اور غزہ کی پٹی پر انسانی امداد کی فراہمی بڑھائی جائے گی۔ اسرائیل اور حماس کے درمیان مذاکرات میں دوسرے مرحلے میں جنگ کے مکمل خاتمے کے حوالے سے ضروری تیاروں پر بات ہو گی۔ اگر یہ مذاکرات 6 ہفتوں سے زیادہ عرصے تک جاری رہتے ہیں تو جنگ بندی جاری رہے گی۔ تیسرے مرحلے میں بقیہ یرغمالیوں کو اپنے خاندانوں تک پہنچانا ہو گا اور غزہ میں تعمیر نو کا کام شروع ہو گا۔
امریکی صدر جوبائیڈن کا کہناہے کہ اس معاہدے تک پہنچنا ‘آسان نہیں تھا اور ان کے تجربے کے مطابق یہ سب سے مشکل مذاکرات میں سے ایک تھے۔اسرائیل کے ساتھ جنگ میں اگرچہ حماس اور حزب اللہ کو اپنے کئی نڈر اور دلیر کلیدی عہدیداروں سے محروم ہونا پڑا لیکن وہ پوری دنیا پر اسرائیل کی اصلیت اور اس کی فوجی قوت کی اصلیت بے نقاب کرنے میں کامیاب ہوگئے، جبکہ اس جنگ کو وسعت دینے اور غزہ کے شہریوں پرلاکھوں ٹن گولہ بارود برسانے کے باوجود اسرائیل نہتے اور بے وسیلہ حماس اورحزب اللہ سے کوئی بات منوانے میں کامیاب نہیں ہوسکا اور حماس کو ختم کرنے کی خواہش نیتن یاہو کے دل میں دم توڑ گئی۔جبکہ امریکہ کے صدر جوبائیڈن اس معاہدے کو اپنی کامیابی ظاہر کرنے میں بھی بری طرح ناکام ہو اور انھیں یہ کہنا پڑا کہ ان کی اور صدر ٹرمپ کی ٹیم نے ‘ایک ٹیم’ کے طور پر ان مذاکرات میں کردار ادا کیا ہے۔
اس تمام تگ ودو اور بظاہر حاصل ہونے والی کامیابیوں کے باوجود ابھی تک یہ بات وثوق سے نہیں کہی جاسکتی کہ اس پر عمل درآمد ممکن ہو گا یا نہیں کیونکہ اسرائیل میں نیتن یاہو کی کابینہ میں بعض ایسے شدت پسنداور امن دشمن وزرا موجود ہیں جو حماس اور فلسطینیوں کے ساتھ کسی معاہدے کے کٹر مخالف ہیں، ان لوگوں کی موجودگی میں اس معاہدے پر اس وقت شکوک وشبہات کے بادل منڈلاتے رہیں گے جب تک ان پرپوری طرح عملدرآمد نہ ہو جائے، اسرائیل اور حماس کے درمیان یہ معاہدہ طے پا جانے کے باوجود یہ سب سے زیادہ اہم سوال ابھی موجودہے کہ جنگ بندی کے بعد غزہ کے انتظامی امور کس کے ہاتھ میں ہوں گے؟اب تک کی اطلاعات کے مطابق اسرائیل غزہ کا انتظام حماس کو دینے کے حق میں نہیں ہے اور اس نے اس کے اتنظامی امور فلسطینی اتھارٹی کے حوالے کرنے سے بھی انکار کر دیا ہے جو کہ غربِ اردن میں اسرائیل کے قبضے میں موجود متعدد علاقوں کا انتظام سنبھالتی ہے۔
اسرائیل موجودہ تنازع کے اختتام کے بعد بھی غزہ کی سکیورٹی کنٹرول اپنے ہاتھ میں چاہتا ہے جبکہ حماس بجاطورپر غزہ کا انتظام سنبھالنے پر اصرار کرے گا۔ یہ ایسا مسئلہ ہے جس پر اختلافات طے نہ ہوئے اور اس کا کوئی قابل قبول حل نہ نکالا جاسکا تو یہ خدشہ برقرار رہے گا کہ کہیں جنگ بندی کا پہلا فیز مکمل ہونے کے بعد اسرائیل کسی مستقل معاہدے سے انکار ہی نہ کر دے۔ اگر اسرائیلی وزیر اعظم حماس کے ساتھ کسی امن عمل کے لیے راضی بھی ہو جاتے ہیں تب بھی ہو سکتا ہے کہ شاید وہ اپنی کابینہ کو اس بات پر راضی نہ کر سکیں۔
اسرائیلی وزیرِ خزانہ بتسلئیل سموتریش اور قومی سلامتی کے وزیر إیتمار بن غفیر ایسے کسی بھی معاہدے کے مخالف ہیں۔ سموتریش نے سوشل میڈیا پر لکھا تھاکہ ایسا کوئی بھی معاہدہ اسرائیل کی قومی سلامتی کے لیے ‘قیامت خیز’ ثابت ہوگا اور وہ اس کی حمایت نہیں کریں گے۔