سب جانتے ہیں کہ بے بنیاد باتوں کو لوگوں میں پھیلانے، جھوٹ بولنے اور افواہ کا بازار گرم کرنے سے کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوتا۔ ہاں! اتنی بات تو ضرور ہے کہ یہی جھوٹ، چاہے جان کر ہو، یا اَن جانے میں ہو، کتنے لوگوں کو ایک آدمی سے بدظن کردیتا ہے، لڑائی، جھگڑا اور خون خرابہ کا ذریعہ ہوتا ہے۔
کبھی تو بڑے فسادات کا سبب بنتا ہے اور بسا اوقات پورے معاشرے کو تباہ و برباد کرکے رکھ دیتا ہے۔ جب جھوٹ بولنے والے کی حقیقت لوگوں کے سامنے آتی ہے، تو وہ بھی لوگوں کی نظر سے گر جاتا ہے، اپنا اعتماد کھو بیٹھتا ہے اور پھر لوگوں کے درمیان اس کی کسی بات کا کوئی اعتبار نہیں ہوتا۔
جھوٹ کیا ہے؟
لفظ جھوٹ کو عربی زبان میں ’’کذب‘‘ کہتے ہیں۔ خلافِ واقعہ کسی بات کی خبر دینا، چاہے وہ خبر دینا جان بوجھ کر ہو، یا غلطی سے ہو، جھوٹ کہلاتا ہے۔(المصباح المنیر)
اگر خبر دینے والے کو اس بات کا علم ہو کہ یہ جھوٹ ہے، تو وہ گناہ گار ہوگا، پھر وہ جھوٹ اگر کسی کے لیے ضرر کا سبب بنے، تو یہ گناہِ کبیرہ میں شمار کیا جائے گا، ورنہ تو گناہِ صغیرہ ہوگا۔
قرآن کریم میں جھوٹوں کا انجام:
ارشادِ خداوندی کا مفہوم: ’’اور جس بات کی تحقیق نہ ہو اس پر عمل درآمد مت کیا کر، کان اور آنکھ اور دل ہر شخص سے اس سب کی پوچھ ہوگی۔‘‘
انسان جب بھی کچھ بولتا ہے تو اﷲ کے فرشتے اسے نوٹ کرتے رہتے ہیں، پھر اسے اس ریکارڈ کے مطابق اﷲ کے سامنے قیامت کے دن جزا و سزا دی جائے گی۔ اﷲ تعالیٰ کا فرمان ہے، مفہوم: ’’وہ کوئی لفظ منہ سے نہیں نکالنے پاتا، مگر اس کے پاس ہی ایک تاک لگانے والا تیار ہے۔‘‘ یعنی انسان کوئی کلمہ جسے اپنی زبان سے نکالتا ہے، اسے یہ نگراں فرشتے محفوظ کرلیتے ہیں۔ یہ فرشتے اس کا ہر ایک لفظ لکھتے ہیں، خواہ اس میں کوئی گناہ یا ثواب اور خیر یا شر ہو یا نہ ہو۔
رسولِ اکرم ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ’’انسان بعض اوقات کوئی کلمۂ خیر بولتا ہے، جس سے اﷲ تعالیٰ راضی ہوتا ہے، مگر یہ اس کو معمولی بات سمجھ کر بولتا ہے، اس کو پتا بھی نہیں ہوتا کہ اس کا ثواب کہاں تک پہنچا کہ اﷲ تعالیٰ اس کے لیے اپنی رضائے دائمی قیامت تک کی لکھ دیتے ہیں۔ اسی طرح انسان کوئی کلمہ اﷲ کی ناراضی کا (معمولی سمجھ کر) زبان سے نکال دیتا ہے، اس کو گمان نہیں ہوتا کہ اس کا گناہ کا وبال کہاں تک پہنچے گا؟ اﷲ تعالیٰ اس کی وجہ سے اس شخص سے اپنی دائمی ناراضی قیامت تک کے لیے لکھ دیتے ہیں۔ ‘‘ (ابن کثیر)
جھوٹ بولنا گناہِ کبیرہ ہے اور یہ ایسا گناہِ کبیرہ کہ قرآن کریم میں، جھوٹ بولنے والوں پر اﷲ کی لعنت کی گئی ہے۔ ارشادِ ربانی ہے: مفہوم: ’’لعنت کریں اﷲ کی ان پر جو کہ جھوٹے ہیں۔‘‘
حدیث شریف میں جھوٹ کی مذمت:
جیسا کہ مندرجہ بالا قرآنی آیات میں جھوٹ اور بلا تحقیق کسی بات کے پھیلانے کی قباحت و شناعت بیان کی گئی ہے، اسی طرح احادیثِ مبارکہ میں بھی اس بدترین گناہ کی قباحت و شناعت کھلے عام بیان کی گئی ہے۔ ایک حدیث میں یہ ہے کہ جھوٹ اور ایمان جمع نہیں ہوسکتے، لہٰذا اﷲ کے رسول ﷺ نے جھوٹ کو ایمان کا منافی عمل قرار دیا ہے۔ مفہوم: ’’حضرت صفوان بن سلیمؓ بیان کرتے ہیں: اﷲ کے رسول ﷺ سے پوچھا گیا: کیا مومن بزدل ہوسکتا ہے؟ آپ ﷺ نے جواب دیا: ’’ہاں۔‘‘ پھر سوال کیا گیا: کیا مسلمان بخیل ہوسکتا ہے؟ آپ ﷺ نے جواب دیا: ’’ہاں۔‘‘ پھر عرض کیا گیا: کیا مسلمان جھوٹا ہوسکتا ہے؟ آپ ﷺ نے جواب دیا: ’’ نہیں‘‘ (اہلِ ایمان جھوٹ نہیں بول سکتا)۔
ایک حدیث شریف میں جن چار خصلتوں کو رسول کریم ﷺ نے نفاق کی علامات قرار دیا ہے، مفہوم: ’’جس میں چار خصلتیں ہوں گی، وہ خالص منافق ہے اور جس شخص میں ان خصلتوں میں کوئی ایک خصلت پائی جائے، تو اس میں نفاق کی ایک خصلت ہے، تا آں کہ وہ اسے چھوڑ دے: جب اس کے پاس امانت رکھی جائے تو خیانت کرے، جب بات کرے تو جھوٹ بولے، جب وعدہ کرے تو دھوکا دے اور جب لڑائی جھگڑا کرے تو گالم گلوچ کرے۔‘‘
مفہوم: ’’جب آدمی جھوٹ بولتا ہے تو اس سے جو بدبو آتی ہے اس کی وجہ سے فرشتہ اس سے ایک میل دور ہوجاتا ہے۔‘‘
مفہوم: ’’یقیناً! جھوٹ بُرائی کی راہ نمائی کرتا ہے اور بُرائی جہنم میں لے جاتی ہے اور آدمی جھوٹ بولتا رہتا ہے، تا آں کہ اﷲ کے یہاں ’’کذّاب‘‘ (بہت زیادہ جھوٹ بولنے والا) لکھا جاتا ہے۔‘‘
مفہوم: ’’یہ ایک بڑی خیانت ہے کہ تم اپنے بھائی سے ایسی بات بیان کرو، جس حوالے سے وہ تجھے سچا سمجھتا ہے، حال آں کہ تم اس سے جھوٹ بول رہے ہو۔‘‘
’’حضرت ابوبکرؓ فرماتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ’’کیا میں تمہیں وہ گناہ نہ بتلاؤں جو کبیرہ گناہوں میں بھی بڑے ہیں؟ تین بار فرمایا۔ پھر صحابہ کرامؓ نے عرض کیا: ہاں! اے اﷲ کے رسول ﷺ!۔ پھر آپؐ نے ارشاد فرمایا: ’’اﷲ کے ساتھ شریک ٹھہرانا اور والدین کی نافرمانی کرنا۔ پھر آپ ﷺ بیٹھ گئے، جب کہ آپ ﷺ (تکیہ پر) ٹیک لگائے ہوئے تھے، پھر فرمایا: ’’خبردار! اور جھوٹ بولنا بھی۔‘‘ (کبیرہ گناہوں میں بڑا گناہ ہے)۔
صرف یہی نہیں کہ ایسا جھوٹ جس میں فساد و بگاڑ اور ایک آدمی پر اس جھوٹ سے ظلم ہو رہا ہو، وہی ممنوع ہے، بلکہ لطف اندوزی اور ہنسنے ہنسانے کے لیے بھی جھوٹ بولنا ممنوع ہے۔ اﷲ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا: مفہوم: ’’وہ شخص برباد ہو جو ایسی بات بیان کرتا ہے، تاکہ اس سے لوگ ہنسیں، لہٰذا وہ جھوٹ تک بول جاتا ہے، ایسے شخص کے لیے بربادی ہو، ایسے شخص کے لیے بربادی ہو۔‘‘
جھوٹ بولنا حرام ہے:
شریعتِ مطہرہ اسلامیہ میں جھوٹ بولنا اکبر کبائر (کبیرہ گناہوں میں بھی بڑا گناہ) اور حرام ہے، جیسا کہ قرآن و احادیث کی تعلیمات سے ثابت ہے۔ اﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے: مفہوم: ’’پس جھوٹ افترا کرنے والے تو یہ ہی لوگ ہیں، جو اﷲ کی آیتوں پر ایمان نہیں رکھتے اور یہ لوگ ہیں پورے جھوٹے۔‘‘
ارشادِ خداوندی کا مفہوم ہے: ’’اور جن چیزوں کے بارے میں محض تمہارا جھوٹا زبانی دعویٰ ہے، ان کی نسبت یوں مت کہہ دیا کرو کہ فلاں چیز حلال ہے اور فلاں چیز حرام ہے، جس کا حاصل یہ ہوگا کہ اﷲ پر جھوٹی تہمت لگا دو گے، بلاشبہ! جو لوگ اﷲ پر جھوٹ لگاتے ہیں، وہ فلاح نہ پائیں گے۔‘‘
چند مواقع پر جھوٹ کی اجازت:
شخ الاسلام ابو زکریا محی الدین یحییٰ بن شرف نوویؒ اپنی مشہور کتاب: ’’ریاض الصّالحین‘‘ میں ’’باب بیان ما یجوز من الکذب‘‘ کے تحت رقم طراز ہیں:
’’آپ جان لیں کہ جھوٹ اگرچہ اس کی اصل حرام ہے، مگر بعض حالات میں چند شرائط کے ساتھ جائز ہے۔ اس کا خلاصہ یہ ہے کہ بات چیت مقاصد (تک حصول) کا وسیلہ ہے، لہٰذا ہر وہ اچھا مقصد جس کا حصول بغیر جھوٹ کے ممکن ہو، وہاں جھوٹ بولنا حرام ہے۔ اگر اس کا حصول بغیر جھوٹ کے ممکن ہی نہ ہو، وہاں جھوٹ بولنا جائز ہے۔ پھر اگر اس مقصد کا حاصل کرنا ’’مباح‘‘ ہے، تو جھوٹ بولنا بھی مباح کے درجے میں ہے۔ اگر اس کا حصول واجب ہے تو جھوٹ بولنا بھی واجب کے درجے میں ہے۔
چناں چہ جب ایک مسلمان کسی ایسے ظالم سے چھپ جائے، جو اس کا قتل کرنا چاہتا ہے، یا پھر اس کا مال چھیننا چاہتا ہے اور اس نے اس مال کو چھپا کر کہیں رکھ دیا ہو، پھر ایک شخص اس حوالے سے سوال کیا جاتا ہے (کہ وہ شخص یا مال کہاں ہے؟) تو یہاں اس (شخص یا مال) کو چھپانے کے لیے جھوٹ بولنا واجب ہے۔ اسی طرح کسی کے پاس امانت رکھی ہوئی ہو، ایک ظالم شخص اس کو غصب کرنا چاہتا ہے، تو یہاں بھی اس کو چھپانے کے لیے جھوٹ بولنا واجب ہے۔
زیادہ محتاط طریقہ یہ ہے کہ ان صورتوں میں ’’توریہ ‘‘ اختیار کیا جائے۔ توریہ کا مطلب یہ ہے کہ (بولنے والا شخص) اپنے الفاظ سے ایسے درست مقصود کا ارادہ کرے، جو اس کے لحاظ سے جھوٹ نہ ہو، اگرچہ ظاہری الفاظ اور مخاطب کی سمجھ کے اعتبار سے وہ جھوٹ ہو۔ اگر وہ شخص ’’توریہ‘‘ سے کام لینے کے بہ جائے صراحتاً جھوٹ بھی بولتا ہے، تو یہ ان صورتوں میں حرام نہیں ہے۔‘‘
جھوٹ اعتماد و یقین کو ختم کردیتا ہے:
مذکورہ بالا استثنائی صورتوں کے علاوہ ہمیں جھوٹ بولنے سے گریز کرنا چاہیے۔ جھوٹ کبیرہ گناہوں میں سے ہے، لہٰذا جھوٹ بولنا دنیا و آخرت میں سخت نقصان اور محرومی کا سبب ہے۔ جھوٹ اﷲ رب العالمین اور نبی کریم ﷺ کی ناراضی کا باعث ہے۔ جھوٹ ایک ایسی بیماری ہے، جو دوسری بیماریوں کے مقابلے میں بہت عام ہے۔ لوگ چھوٹی چھوٹی باتوں کے لیے جھوٹ کا ارتکاب کرتے ہیں اور اس بات کی پروا نہیں کرتے کہ اس جھوٹ سے انھوں نے کیا پایا اور کیا کھویا ؟ جب لوگوں کو جھوٹے شخص کی پہچان ہوجاتی ہے، تو لوگ اس کو کبھی خاطر میں نہیں لاتے ہیں۔ جھوٹ بولنے والا شخص کبھی کبھار حقیقی پریشانی میں ہوتا ہے، مگر سننے والا اس کی بات پر اعتماد نہیں کرتا۔ ایسے شخص پر یقین کرنا مشکل ہوجاتا ہے، کیوں کہ وہ اپنے اعتماد و یقین کو مجروح کرچکا ہے۔
حرفِ آخر:
جھوٹ ایک ایسی بیماری ہے جو معاشرہ میں بگاڑ پیدا کرتی ہے۔ لوگوں کے درمیان لڑائی، جھگڑے کا سبب بنتی ہے۔ دو آدمیوں کے درمیان عداوت و دشمنی کو پروان چڑھاتی ہے۔ اس سے آپس میں ناچاقی بڑھتی ہے۔ اگر ہم ایک صالح معاشرہ کا فرد بننا چاہتے ہیں، تو یہ ہماری ذمے داری ہے کہ ہم لوگوں کو جھوٹ کے مفاسد سے آگاہ اور باخبر کریں، جھوٹے لوگوں کی خبر پر اعتماد نہ کریں، کسی بھی بات کی تحقیق کے بغیر اس پر ردّعمل نہ دیں۔
اگر ایک آدمی کوئی بات آپ سے نقل کرتا ہے تو اس سے اس بات کے ثبوت کا مطالبہ کریں۔ اگر وہ ثبوت پیش نہیں کرپاتا تو اس کی بات پر کوئی توجہ نہ دیں اور اسے دھتکار دیں۔ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں، مفہوم: ’’نبی اکرم ﷺ کو جھوٹ سے زیادہ کوئی عادت ناپسند نہیں تھی، چناں چہ آپؐ کو اگر کسی کے حوالے سے یہ معلوم ہوجاتا کہ وہ دروغ گو ہے، تو آپؐ کے دل میں کدورت بیٹھ جاتی اور اس وقت تک آپؐ کا دل صاف نہیں ہوتا، جب تک یہ معلوم نہ ہوجاتا کہ اس نے اﷲ سے اپنے گناہ کی نئے سرے سے توبہ نہیں کرلی ہے۔‘‘
(مسند احمد، بہ حوالہ احیاء العلوم)
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: اﷲ کے رسول ﷺ اﷲ تعالی حرام ہے کا سبب بات کی اور اس کے لیے ہے اور
پڑھیں:
جھوٹ اور نفرت کا کھیل
پاکستان میں سوشل میڈیا کی دنیا نے گزشتہ کچھ سالوں میں بہت تیزی سے ترقی کی ہے، اور اس نے لوگوں کو نئے مواقع فراہم کیے ہیں۔ مگر اسی پلیٹ فارم کا استعمال بعض افراد اور گروہ ایک منفی اور تخریبی مقصد کے تحت کر رہے ہیں جو نہ صرف ذاتی مفادات کو بڑھانے کی کوشش کرتے ہیں بلکہ پورے ملک کے استحکام اور اتحاد کے لیے ایک سنگین خطرہ بن چکے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سوشل میڈیا پر پھیلائے جانے والے جھوٹ، نفرت، اور پروپیگنڈے نے پورے پاکستان کو متاثر کیا ہے اور ملک کی ساکھ اور یکجہتی کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔
حال ہی میں معروف صحافی ابصار عالم نے ! جھوٹ پھیلائو ۔ ڈالر کمائو ! کے عنوان سے ثبوتوں کے ساتھ پی ٹی آئی کے حامیوں کے ذریعے سوشل میڈیا پر پھیلائے جانے والے جھوٹ کا پردہ فاش کیا جنہوں نے عوام کو گمراہ کرنے اور ریاست مخالف خیالات کو فروغ دینے کے لیے سوشل میڈیا کا سہارا لیا۔ ان میں سے کچھ افراد نے جعلی ویڈیوز، جھوٹے دعوئوں اور حقیقت کو مسخ کرنے والی معلومات کو اس انداز میں پھیلایا کہ ان کا مقصد لوگوں کے درمیان نفرت اور بدامنی پیدا کرنا تھا۔ ان کی جھوٹی مہموں کی بدولت سینکڑوں بے گناہ نوجوانوں نے ہنگاموں میں حصہ لیا اور اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے اور کئی خاندانوں کی زندگی تباہ ہو گئی۔
پاکستان میں اس وقت جو سب سے بڑا مسئلہ سامنے آ رہا ہے وہ یہ ہے کہ سوشل میڈیا پر ایک چھوٹے سے گروہ کی جانب سے پھیلائے جانے والے جھوٹے پروپیگنڈے کی حقیقت کو اتنی جلدی عوام تک پہنچا دیا جاتا ہے کہ لوگوں کو حقیقت اور جھوٹ میں فرق کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ خاص طور پر جب یہ جھوٹ سوشل میڈیا کے مشہور افراد یا یوٹیوبرز کی جانب سے پھیلایا جائے تو اس کی تاثیر اور بھی زیادہ بڑھ جاتی ہے۔ یہ گروہ انتہائی منصوبہ بندی کے تحت عوامی جذبات سے کھیل رہا ہے اور ملک کے اہم ترین مسائل پر دھوکہ دہی کے ذریعے عوام کو بیوقوف بنا رہا ہے۔
پاکستان میں سوشل میڈیا پر پروپیگنڈے کے ذریعے پیدا ہونے والے نفرت کے اس ماحول کو ’’ڈیجیٹل دہشت گردی‘‘ کہا جا سکتا ہے۔ اس کا مقصد صرف اور صرف عوام کے درمیان اضطراب اور بدامنی پیدا کرنا ہے۔ یہ افراد اتنا جھوٹ پھیلاتے ہیں بلکہ انہوں نے ایک ایسا نیٹ ورک بھی قائم کیا ہے جو عالمی سطح پر مختلف ٹائم زونز میں چلتا رہتا ہے۔ ان کے پروپیگنڈے کا مقصد صرف پاکستان کو ایک تقسیم شدہ ملک میں تبدیل کرنا اور اس کے اداروں کے درمیان دراڑ یں ڈالنا ہے۔ اس طرح کے اقدامات نہ صرف پاکستان کے داخلی استحکام کو بھی شدید خطرات میں ڈال دیتے ہیں۔
سوشل میڈیا پر پھیلائی جانے والی نفرت صرف نظریاتی نہیں ہوتی بلکہ اس کے نتیجے میں معاشرتی تقسیم، فرقہ واریت، اور نسلی منافرت بھی بڑھتی ہے۔ اس کے علاوہ، ان جھوٹے پروپیگنڈوں کے ذریعے ریاستی اداروں کے بارے میں عوام کا اعتماد کمزور کیا جاتا ہے اور قوم کی یکجہتی کو نقصان پہنچایا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس بات کی ضرورت ہے کہ اس ڈیجیٹل دہشت گردی کا سدباب کیا جائے۔ سوشل میڈیا کے ذریعے پھیلائی جانے والی نفرت اور جھوٹ کو روکنے کے لیے ریاستی اداروں کا کردار نہایت اہم ہے۔ ایف آئی اے کے سائبر کرائم رپورٹنگ سینٹر نے معید پیرزادہ جیسے افراد کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے ایک مقدمہ درج کر لیا ہے، جنہوں نے سوشل میڈیا پر ریاست مخالف مواد پھیلایا اور عوام میں بدگمانی پیدا کی۔ معید پیرزادہ نے اپنے ٹک ٹاک اکائونٹ کے ذریعے ایسی ویڈیوز شیئر کیں جن میں فوجی قیادت کے بارے میں بے بنیاد الزامات لگائے گئے، جو کہ نہ صرف جھوٹے تھے بلکہ ان کا مقصد عوام اور فوج کے درمیان نفرت پیدا کرنا تھا۔ ایف آئی آر کے مطابق ان ویڈیوز کا مقصد ریاست کی سالمیت کو نقصان پہنچانا اور ریاستی اداروں کے خلاف دشمنی کو بڑھاوا دینا تھا۔
اسی طرح قوم کی بیٹی اور وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز کی غیر اخلاقی تصاویر اور ویڈیو بنانے والے افراد بھی قانون کے شکنجے میں آ چکے ہیں۔ایف آئی اے کی جانب سے اس معاملے پر کی جانے والی کارروائی کو اب آگے بڑھانا ہو گا اور حکومت کو ایسے عناصر کو فوری طور پر پاکستان میں واپس لا کر قانونی سزا دینا ہو گی۔ لیکن سوال یہ ہے کہ آیا اس قسم کے اقدامات کافی ہیں؟ کیا صرف چند افراد کے خلاف کارروائی کرنے سے سوشل میڈیا پر پھیلنے والی نفرت اور جھوٹ کا خاتمہ ممکن ہے؟ اس کے لیے ریاستی اداروں کو ایک جامع حکمت عملی اپنانا ہوگی۔
اگلے روز وفاقی وزیر اطلاعات عطا اللہ تارڑ نے قومی اسمبلی میں تخریبی سیاست دانوں کے لئے حبیب جالب کی مشہور نظم پڑھی اور اس سیاسی فتنہ کی حقیقت کو بے نقاب کیا۔ یہ نظم آج کے حالات کے عین مطابق ہے، منافقوں اور فتنہ گروں کے بارے میں کچھ اس طرح ہے !
اٹھا رہا ہے جو فتنے مری زمینوں میں
وہ سانپ ہم نے ہی پالا ہے آستینوں میں
کہیں سے زہر کا تریاق ڈھونڈنا ہوگا
جو پھیلتا ہی چلا جا رہا ہے، سینوں میں
کسی کو فکر نہیں قوم کے مسائل کی
ریا کی جنگ ہے بس حاشیہ نشینوں میں
قصور وار سمجھتا نہیں کوئی خود کو
چھڑی ہوئی ہے لڑائی منافقینوں میں
یہ لوگ اس کو ہی جمہوریت سمجھتے ہیں
کہ اقتدار رہے ان کے جانشینوں میں
یہی تو وقت ہے آگے بڑھو خدا کے لیے
کھڑے رہو گے کہاں تک تماش بینوں میں
اس نظم میں جو پیغام چھپا ہے وہ یہی ہے کہ اس وقت ملک میں جو سیاسی جنگ کی جا رہی ہے وہ صرف اور صرف اقتدار کی جنگ ہے۔ ان جھوٹے پروپیگنڈوں اور فتنوں کے ذریعے عوام کو تقسیم کیا جا رہا ہے اور اس کا نتیجہ صرف انتشار کی صورت میں نکل رہا ہے۔ پاکستان میں موجود اس سنگین صورتحال کے تناظر میں، میں ایک خاص اپیل کرنا چاہوں گا۔ یہ اپیل خاص طور پر ہماری با شعور ماں، بہنوں اور بیٹیوں کے لیے ہے جو اپنے خاندانوں کی حفاظت اور روشن مستقبل کی خواہش رکھتی ہیں۔ پاکستانی معاشرے میں ماں کا کردار نہایت اہمیت کا حامل ہے۔ ایک ماں اپنے بچے کی پرورش میں نہ صرف جسمانی دیکھ بھال کرتی ہے بلکہ وہ اپنے بچے کے ذہنی اور جذباتی استحکام کی بھی نگہداشت کرتی ہے۔ وہ انہیں اس بات کی اہمیت سمجھائیں کہ سچ اور جھوٹ میں فرق کیسے کرنا ہے، اور کس طرح سوشل میڈیا پر پھیلائے جانے والے منفی مواد سے بچنا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ انہیں اپنے ملک کے آئین اور قوانین کا احترام سکھائیں تاکہ وہ کبھی کسی فتنے کا شکار نہ ہوں اور ان کی گودیں اجڑنے کی بجائے وہ اپنی نسلوں کو امن اور ترقی کی راہ پر گامزن کر سکیں۔ہم اپنے بچوں کی تربیت میں اس بات کو یقینی بنائیں کہ وہ نہ صرف تعلیمی میدان میں کامیاب ہوں، بلکہ ایک پختہ اخلاقی سوچ بھی رکھتے ہوں۔ اگر ہم اپنے بچوں کو اس فتنے سے بچا لیں گے تو یہ ہمارے ملک کی بہت بڑی خدمت ہو گی اور ہماری قوم کو ایک روشن اور پائیدار مستقبل کی طرف گامزن کر سکے گی۔