کرم میں امن کا سفر شروع ، 40 گاڑیاں امدادی سامان کےساتھ پاراچنار پہنچ گئیں
اشاعت کی تاریخ: 9th, January 2025 GMT
جواد شنواری: ضلع کرم میں امن کا سفر شروع ہوگیااورٹل سے 40 گاڑیاں امدادی سامان کے ساتھ پاراچنار پہنچ گئیں۔
ٹل سے غذائی اشیاء کا پہلا قافلہ پاراچنار پہنچاتو عوام میں خوشی کی لہر دوڑگئی،مرغی، انڈے اور سبزیوں کی گاڑیوں کی آمد پر خریداروں کا رش لگ گیا،امدادی سامان پہنچنے پر شہری خوشی سے سرشار نظرآئے۔
عوام نے ٹل سے روکی گئی پٹرولیم مصنوعات اور گیس سیلنڈر کی فوری سپلائی کا مطالبہ کرتے ہوئےضلعی انتظامیہ کی کوششوں پر بھرپور تعریف کی ہے۔
مسائل کے حل کیلئے کاروباری برادری کے ساتھ رابطہ رکھنا ضروری ہے:گورنر سٹیٹ بینک
دوسری طرف ڈپٹی کمشنر کرم نے کہاہے کہ امن خراب کرنےوالوں کے خلاف سخت کارروائی ہوگی،عوام قیام امن کیلئے تعاون کریں۔
ذریعہ: City 42
پڑھیں:
پاراچنار کا لہو پکار رہا ہے، ریاست کی بے حسی اور شیعیانِ پاکستان کی ذمہ داری
اسلام ٹائمز: پاراچنار میں جاری بربریت اس بات کی متقاضی ہے کہ ریاست، قانون نافذ کرنیوالے ادارے اور شیعیانِ پاکستان فوری اور مشترکہ اقدامات کریں۔ مظلوم عوام کو انصاف دلانا اور انکے جان و مال کی حفاظت کرنا ایک قومی اور دینی فریضہ ہے۔ محافظوں کی موجودگی میں مظالم کا تسلسل نہ صرف اداروں کی ناکامی کو ظاہر کرتا ہے بلکہ یہ بھی ثابت کرتا ہے کہ مظلوموں کی مدد کیلئے عوام کو خود متحرک ہونا ہوگا۔ پاراچنار کے مظلوموں کی حمایت نہ صرف انسانی فریضہ ہے بلکہ اسلامی تعلیمات کی روح بھی یہی ہے۔ تحریر: تبسم نقوی
پاراچنار، جو خیبر پختونخوا کے قبائلی علاقے کرم ایجنسی کا اہم علاقہ ہے، حالیہ برسوں میں دہشت گردی، فرقہ واریت اور ظلم و ستم کا شکار رہا ہے۔ یہ علاقہ شیعہ مسلمانوں کی قابلِ ذکر تعداد کی موجودگی کے باعث کئی دہائیوں سے انتہاء پسند گروہوں کی نفرت اور حملوں کا ہدف بنا ہوا ہے۔ معصوم انسانوں کے خون سے رنگے ہوئے یہ مناظر انسانیت پر بدنما داغ اور ریاست کی کارکردگی پر ایک بڑا سوالیہ نشان ہیں۔
پاراچنار کی موجودہ صورتحال
تین ماہ سے زیادہ عرصے سے شیعیان پاراچنار محاصرہ میں ہیں، جہان ضروریات زندگی (ادویہ، خوراک) کی قلت بہت زیادہ ہے، جس کے سبب سو سے زیادہ بچے اپنی زندگی کی بازی ہار گئے ہیں۔ حالیہ دنوں میں پاراچنار میں ایک مرتبہ پھر بربریت کے نئے باب کا اضافہ ہوا ہے۔ مقامی شیعہ آبادی کے قافلوں پر مسلسل حملے ہو رہے ہیں، جن میں نہ صرف معصوم انسانوں کو بے دردی سے قتل کیا گیا بلکہ امدادی سامان کو بھی لوٹ لیا گیا۔ سب سے افسوسناک پہلو یہ ہے کہ یہ مظالم ان قافلوں پر کیے گئے، جو ریاستی محافظوں کی نگرانی میں سفر کر رہے تھے۔ یہ دوسری مرتبہ ہوا ہے کہ محافظوں کی موجودگی کے باوجود قافلوں پر حملہ کیا گیا اور حملہ آور نہ صرف معصوم لوگوں کو قتل کرنے میں کامیاب رہے بلکہ امدادی سامان بھی لوٹ کر لے گئے۔ حیران کن بات یہ ہے کہ محافظ، جنہیں عوام کی حفاظت کے لیے تعینات کیا گیا تھا، خاموش تماشائی بنے رہے اور کسی قسم کی کارروائی نہیں کی۔ یہ صورتحال ریاست اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی ناکامی کو واضح کرتی ہے۔
ریاستی اداروں کی بے حسی
حکومتی ادارے نہ صرف ان مسائل کو حل کرنے میں ناکام رہے ہیں بلکہ ان کی موجودگی میں یہ مظالم جاری ہیں۔ پاراچنار کی عوام بارہا اپیل کرچکی ہے کہ انہیں تحفظ فراہم کیا جائے، مگر بدقسمتی سے ان کی آواز صدا بہ صحرا ثابت ہو رہی ہے۔ محافظوں کی موجودگی کے باوجود حملوں کا تسلسل اس بات کا ثبوت ہے کہ یا تو ریاست ان عناصر کے خلاف کارروائی کرنے سے قاصر ہے یا پھر دانستہ طور پر اس معاملے کو نظرانداز کیا جا رہا ہے۔
شیعیانِ پاکستان کا وظیفہ
ان حالات میں شیعیانِ پاکستان پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ ان مظلوموں کی آواز بنیں اور اپنے حق کے لیے ہر ممکن قدم اٹھائیں۔ ان کے وظیفے کے چند اہم پہلو درج ذیل ہیں:
1۔ اجتماعی اتحاد اور یکجہتی:
شیعہ قوم کو چاہیئے کہ وہ اپنی صفوں میں اتحاد کو مضبوط کریں۔ آپسی اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر ایک مشترکہ مقصد کے لیے متحد ہوں اور مظلوموں کے حق میں مضبوط آواز اٹھائیں۔
2. مؤثر آواز اٹھانا:
ملکی اور بین الاقوامی سطح پر پاراچنار کے مظلوموں کے لیے آواز بلند کی جائے۔ میڈیا، سوشل میڈیا اور دیگر پلیٹ فارمز پر ان مظالم کو اجاگر کیا جائے، تاکہ دنیا کو اس حقیقت سے آگاہ کیا جاسکے کہ ریاستی محافظوں کی موجودگی میں یہ مظالم کیسے ہو رہے ہیں۔
3. قانونی اور سیاسی جدوجہد:
شیعہ قیادت کو چاہیئے کہ وہ قانونی اور سیاسی پلیٹ فارمز پر اس مسئلے کو اجاگر کریں۔ پارلیمنٹ میں اس معاملے پر زور دیا جائے اور حکومت کو مجبور کیا جائے کہ وہ مؤثر حکمت عملی اپنائے۔
4. عملی امداد:
پاراچنار کے مظلوم عوام کو مالی اور عملی امداد فراہم کی جائے۔ زخمیوں کا علاج، متاثرہ خاندانوں کی کفالت اور لوٹے گئے وسائل کی بحالی کے لیے اقدامات کیے جائیں۔
ریاست کی ذمہ داری
ریاست پاکستان پر یہ لازم ہے کہ وہ اپنی ذمہ داریوں کو سمجھے۔ پاراچنار جیسے حساس علاقے میں سکیورٹی کے سخت اقدامات کیے جائیں اور دہشت گردوں کے خلاف فوری اور مؤثر کارروائی کی جائے۔ یہ سمجھنا ضروری ہے کہ پاراچنار میں جاری ظلم و ستم نہ صرف مقامی عوام بلکہ پوری قوم کی یکجہتی اور سلامتی کے لیے خطرہ ہے۔
نتیجہ
پاراچنار میں جاری بربریت اس بات کی متقاضی ہے کہ ریاست، قانون نافذ کرنے والے ادارے اور شیعیانِ پاکستان فوری اور مشترکہ اقدامات کریں۔ مظلوم عوام کو انصاف دلانا اور ان کے جان و مال کی حفاظت کرنا ایک قومی اور دینی فریضہ ہے۔ محافظوں کی موجودگی میں مظالم کا تسلسل نہ صرف اداروں کی ناکامی کو ظاہر کرتا ہے بلکہ یہ بھی ثابت کرتا ہے کہ مظلوموں کی مدد کے لیے عوام کو خود متحرک ہونا ہوگا۔ پاراچنار کے مظلوموں کی حمایت نہ صرف انسانی فریضہ ہے بلکہ اسلامی تعلیمات کی روح بھی یہی ہے۔