معاشی ترقی: کیا پاکستان کو آئی ایم ایف سے نجات مل سکتی ہے؟
اشاعت کی تاریخ: 9th, January 2025 GMT
وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ ملک میں معاشی ترقی کا سفر شروع ہے اور وقت آنے پر ہم عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کو خَیرباد کہہ دیں گے اس کے لیے ہمیں ترجیحی گرؤتھ کی طرف بڑھنا ہے، شرع سود کو مزید کم کرنا ہے، قدرتی وسائل سے فائدہ اٹھانا ہے اور مختلف انڈسٹریاں لگا کر روزگار کے مواقع پیدا کرنے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں:کیا اڑان پاکستان منصوبہ پاکستان کو آئی ایم ایف سے نجات دلوا سکتا ہے؟
2 سال قبل معاشی ماہرین اور سیاسی رہنما کہہ رہے تھے کہ پاکستان کو ڈیفالٹ کے خطرات لاحق ہیں، بعد ازاں ’آئی ایم ایف‘ کے پروگرام میں شامل ہونے اور قرض کی قسط ملنے کے بعد معیشت میں کچھ بہتری آئی اور معاشی اشاریے بھی بہتر ہوئے، روپے کی قدر ایک سال سے مستحکم ہے جبکہ زرمبادلہ کے ذخائر میں بھی اضافہ ہوا ہے۔
وی نیوز نے وزیراعظم شہباز شریف کے اس بیان پر معاشی تجزیہ کاروں سے گفتگو کی اور ان سے یہ جاننے کی کوشش کی کہ کیا پاکستان کو مستقل میں ’آئی ایم ایف‘ سے نجات مل سکتی ہے۔
معاشی تجزیہ کار شہباز رانا نے وی نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وزیراعظم شہباز شریف نے یہ نہیں کہا کہ یہ آئی ایم ایف کا آخری پروگرام ہے، تو اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ پاکستان کا یہ آخری پروگرام نہیں ہے اور مستقبل میں بھی پروگرام جاری رہیں گے۔
مزید پڑھیں:آئی ایم ایف کی تجویز پر صوبوں نے زرعی ٹیکس قوانین میں ترامیم کی تیاری کرلی
’آئی ایم ایف‘ پروگرام اور اس کی شرائط وغیرہ میں کچھ ایسی خامیاں ہیں کہ آئندہ 3 سالوں میں اس پروگرام کو بھی پورا نہیں کیا جا سکے گا اور نیا پروگرام لینا ہو گا۔ وزیراعظم نے کہا ہے کہ وقت آنے پر ’آئی ایم ایف‘ کو خیرباد کہہ دیں گے تو وقت آنے کا مطلب ہے کہ ابھی وقت نہیں ہے کہ ’آئی ایم ایف‘ کے پروگرام کو چھوڑا جائے۔
شہباز رانا کا کہنا ہے کہ ’آئی ایم ایف‘ پروگرام سے نجات ایک ہی طریقے سے مل سکتی ہے کہ جن شرائط پر پاکستان عمل درآمد نہیں کر پا رہا ان پر آئی ایم ایف جھوٹ دے دے، اس صورتحال میں وزیراعظم کا بیان کافی معنی خیز ہے انہوں نے یہ نہیں کہا کہ یہ آخری پروگرام ہوگا انہوں نے یہ کہا کہ جب وقت آئے گا تو ’آئی ایم ایف‘ کو خیر بادکہہ دیں گے۔
ماہر معیشت ڈاکٹر خاقان نجیب نے وی نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت تو پاکستان کے لیے آئی ایم ایف کو خیرباد کہنا ممکن نظر نہیں آ رہا ہے، اس کے لیے پاکستان کو اگلے 2 سے 3 سالوں میں بنیادی اصلاحات کرنی ہوں گی، بنیادی اصلاحات کو ماضی میں کبھی ضروری ٹارگٹ نہیں رکھا گیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: ’ملک کو اقتصادی لانگ مارچ کی ضرورت ہے‘ وفاقی وزرا نے ’اڑان پاکستان‘ کو ملکی ترقی کے لیے ناگزیر قرار دیدیا
اداروں کی نجکاری، ملک کی پیداواری صلاحیت کو بڑھانے، زراعت سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانا اور لوگوں کو اچھا روزگار فراہم کرنا ضروری ہے، اگر یہ سب کام ہوتے ہوئے دکھائی دیں تو اُمید کی جا سکتی ہے کہ آئندہ 3 سال بعد ملکی معیشت سنبھل جائے گی اور ہو سکتا ہے کہ پھر آئی ایم ایف پروگرام کی بھی ضرورت نہ پڑے۔
ماہر معیشت راجہ کامران نے کہا کہ پاکستان کی آئی ایم ایف سے قرض لینے کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ہماری برآمدات انتہائی کم ہیں جبکہ درآمدات بہت زیادہ ہیں، اس وقت پاکستان آئی ٹی ایکسپورٹ، ہیومن ریسورس ایکسپورٹ سے زیادہ کمائی کرتا ہے، جبکہ کھانے پینے سمیت بہت سی اشیا امپورٹ کی جاتی ہیں، اس لیے اس وقت تو آئی ایم ایف کو خیرباد کہنا ممکن نہیں تاہم اگر پاکستان ٹیکسٹائل انڈسٹری میں ترقی کرتا ہے اور پاکستان میں گاڑیاں بنائی جا رہی ہیں ان کی ایکسپورٹ شروع کر دی جائے اور امپورٹ کم سے کم کر دی جائے ایکسپورٹ زیادہ سے زیادہ کی جائے تو ہو سکتا ہے کہ 5 سال کے بعد آئی ایم ایف کو خیرباد کہہ دیا جائے لیکن فی الوقت ایسا ممکن نظر نہیں آ رہا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
آئی ایم ایف برآمدات پاکستان ترقی درآمدات ڈاکٹر خاقان ڈیفالٹ عالمی مالیاتی فنڈ ماہرین معیشت معاشی.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: ا ئی ایم ایف برا مدات پاکستان درا مدات ڈاکٹر خاقان ماہرین معیشت پاکستان کو کو خیرباد سے زیادہ سے نجات ہے اور کے لیے
پڑھیں:
ایران-امریکہ مذاکرات اسرائیل کے مفاد میں ہونے چاہئیں، صیہونی رژیم
عبرانی اخبار کو مطلع کرتے ہوئے صیہونی سلامتی کے ایک عہدیدار کا کہنا تھا کہ تہران کے میزائل پروگرام اور غزہ کی حمایت میں استقامتی محاذ و یمن کیجانب سے اسرائیل پر میزائل حملوں جیسے موضوعات کو مذاکرات میں نظرانداز کرنا کوئی اچھی بات نہیں۔ اسلام ٹائمز۔ نام ظاہر نہ کرتے ہوئے صیہونی سلامتی کے ایک عہدیدار نے اسرائیل کے مقامی اخبار "یدیعوت آحارانوت" کو بتایا کہ صیہونی رژیم، امریکہ و ایران کے مابین مذاکرات سے نہایت رنجیدہ ہے۔ اسرائیل اس بات پر نالاں ہے کہ ان مذاکرات میں تہران کے میزائل پروگرام اور استقامتی محاذ کے متعلق کوئی بات نہیں ہو رہی۔ اسرائیلی حکام بالخصوص وزیراعظم "نتین یاہو"، ایران-امریکہ مذاکرات کے حوالے سے صدر "ڈونلڈ ٹرامپ" کے مؤقف پر بہت زیادہ فکر مند ہیں۔ نتین یاہو نہیں جانتے کہ امریکی صدر درحقیقت کیا چاہتے ہیں؟۔ یہانتک کہ انہیں مذاکرات کی ریڈ لائنز کے متعلق بھی کوئی خبر نہیں۔ ایران کے جوہری پروگرام پر ڈونلڈ ٹرامپ کے بیان کے بعد صیہونی سلامتی کے اس عہدیدار نے کہا کہ اگر امریکہ اور ایران کسی ایسے معاہدے پر اتفاق کرتے ہیں جو اسرائیل کے مفاد میں نہ ہو تو یہ ہمارے لئے بہت بُری بات ہے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ امریکہ کے اس بُرے معاہدے کے بعد ایران کی ایٹمی تنصیبات کو نشانہ نہیں بنایا جا سکے گا۔
اسرائیلی سیکورٹی کے عہدیدار نے یدیعوت آحارانوت کو مزید بتایا کہ تل ابیب کو اس بات پر شدید تشویش ہے کہ ان مذاکرات میں امریکہ صرف اور صرف ایران کے جوہری پروگرام پر بات چیت کر رہا ہے۔ جب کہ تہران کے میزائل پروگرام اور غزہ کی حمایت میں استقامتی محاذ و یمن کی جانب سے اسرائیل پر میزائل حملوں جیسے موضوعات کو مذاکرات میں نظرانداز کرنا کوئی اچھی بات نہیں۔ انہوں نے تہران کے خلاف بے بنیاد الزامات لگاتے ہوئے کہا کہ ایران ایک چالاک اور ہوشیار ملک ہے جس پر اسرائیل کے خدشات جائز ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ایران کا ایٹمی پروگرام، مذاکرات یا امریکہ و اسرائیل کے فوجی حملے کی صورت میں ہی بند ہو سکتا ہے اس کے علاوہ تیسری کوئی صورت نہیں۔ یاد رہے کہ رواں ہفتے سنیچر کے روز امریکہ اور ایران کے درمیان عمان کی ثالثی سے مسقط میں غیر مستقم مذاکرات کا ایک دور مکمل ہوا۔ انہیں مذاکرات کا دوسرا دور آئندہ ہفتے یورپ کے کسی ملک میں شروع ہو گا۔