گلگت بلتستان میں لوڈشیڈنگ، 10 روز میں فنڈز جاری کرنے کی یقین دہانی
اشاعت کی تاریخ: 9th, January 2025 GMT
گلگت:
وزیراعظم کے مشیر بین الصوبائی رابطہ رانا ثنااللہ نے گلگت بلتستان میں بجلی کی لوڈ شیڈنگ کے مسئلے پر مظاہرین کے مطالبات پورنے کرنے کی یقین دہانی کراتے ہوئے کہا ہے کہ جی بی کونسل کا اجلاس طلب کرکے 10 روز میں فنڈز جاری کردیے جائیں گے۔
وزیراعظم کی خصوصی ہدایت پر گلگت بلتستان میں بجلی کی لوڈ شیڈنگ کے مسئلے کے حل کے لیے وزارت بین الصوبائی رابطہ میں وزیر اعظم کے مشیر برائے بین الصوبائی رابطہ و عوامی امور رانا ثنااللہ کی زیر صدارت ایک اہم اجلاس ہوا۔
اجلاس میں گورنر گلگت بلتستان سید مہدی شاہ، وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان گلبر خان، سابق وزیر اعلیٰ حفیظ الرحمن، چیف سیکریٹری گلگت بلتستان، وفاقی سیکریٹری برائے بین الصوبائی رابطہ، وفاقی سیکریٹری برائے وزارت خزانہ سمیت پلاننگ ڈویژن، وزارت برائے امور کشمیر اور گلگت بلتستان کے اعلیٰ حکام نے شرکت کی۔
اجلاس میں وزیراعظم کے مشیر رانا ثناءاللہ کو گلگت بلتستان میں جاری حالیہ لوڈ شیڈنگ پر تفصیلی بریفینگ دی گئی اور بتایا گیا کہ منفی درجہ حرارت کی وجہ سے گلگت بلتستان میں بجلی کی طلب میں اصافہ ہو جاتا ہے جبکہ ہائیڈرو فلو کم ہوتا ہے جس کی وجہ سے لوڈ شیڈنگ میں خطرناک حد تک اضافہ ہو جاتا ہے اور گلگت بلتستان میں لوگ بجلی نہ ملنے کی وجہ سے سراپا احتجاج ہیں۔
رانا ثنا اللہ نے اجلاس کو بتایا کہ وزیر اعظم اور وفاقی حکومت کو گلگت بلتستان کے لوگوں کی مشکلات کا ادراک ہے اور حکومت اس مشکل میں گلگت بلتستان کے عوام کے ساتھ کھڑی ہے۔
اجلاس میں اس بحرانی کیفیت سے نکلنے کے لیے گورنر، وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان، فنانس ڈویژن اور دیگر اسٹیک ہولڈرز کی مشاورت سے محتلف تجاویز کا جائزہ لیا گیا۔
وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان گلبر خان کا کہنا تھا کہ ہائیڈرو فلو کم ہونے کی وجہ سے گلگت بلتستان کے متاثرہ علاقوں کو جنوری سے مارچ 2025 تک ڈیزل جنریٹرز کے ذریعے بجلی کی فراہمی ناگزیر ہے لیکن فنڈز کی عدم دستیابی وجہ سے حکومت گلگت بلتستان یہ اقدام اٹھانے سے قاصر ہے۔
مسئلے کے حل کے لیے وزیراعظم کے مشیر رانا ثنا اللہ کا کہنا تھا کہ حکومت گلگت بلتستان وفاقی حکومت کی طرز پر اپنے حکومتی اخراجات کم کرے گی اور جی بی کونسل کا اجلاس 10 دنوں کے اندر بلا کر جی بی کے فنڈز جاری کیے جائیں گے۔
رانا ثنااللہ نے کہا کہ ڈیزل جنریٹرز چلانے کے لیے درکار باقی ماندہ فنڈز وفاقی حکومت گلگت بلتستان کے مختص کردہ بجٹ سے مہیا کرے گی۔
دھرنے کی نمائندہ قیادت نے وزیرراعظم کے مشیر رانا ثنااللہ کی یقین دہانی پر دھرنا ختم کرنے پر آمادگی ظاہر کردی۔
وزیراعظم کے مشیر کا کہنا تھا کہ جی بی کے لوگوں کو اس یخ بستہ سردی میں بجلی کی فراہمی اشد ضروری ہے اور وزیر اعظم نے اس مسئلے کے حل کے لیے خصوصی تاکید کی ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: بین الصوبائی رابطہ وزیراعظم کے مشیر میں بجلی کی وزیر اعلی کی وجہ سے کے لیے
پڑھیں:
پاکستان دنیا کا سب سے بڑا سولر پینلز درآمد کرنے والا ملک بن گیا۔
ملک میں مہنگی بجلی اور بجلی مسائل کے باعث پاکستان نے سولر پینلز درآمد کرنے میں پوری دنیا کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔برطانوی توانائی تھنک ٹینک "ایمبر" کی عالمی رپورٹ میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ پاکستان دنیا کا سب سے بڑا سولر پینلز درآمد کرنے والا ملک بن گیا ہے۔ اِس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ نہ کوئی بڑی قانون سازی ہوئی، نہ عالمی سرمایہ کاری کی یلغار اور نہ ہی وزیرِاعظم نے سبز انقلاب کا اعلان کیا، اس کے باوجود 2024 کے آخر تک پاکستان نے دنیا کے تقریباً تمام ممالک سے زیادہ سولر پینلز درآمد کیے۔ پاکستان نے صرف 2024 میں ہی 17 گیگا واٹ کے سولر پینلز درآمد کیے، جس سے وہ دنیا کی صفِ اول کی سولر مارکیٹس میں شامل ہو گیا ہے، یہ اضافہ 2023 کی نسبت دوگنا ہے۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان کی سولر درآمدات کی یہ وسعت خاص طور پر اِس لیے حیران کن ہے کیونکہ یہ کسی قومی پروگرام یا بڑے پیمانے پر منظم منصوبے کے تحت نہیں ہوا بلکہ صارفین کی ذاتی کوششوں سے ہوا ہے۔ زیادہ تر مانگ گھریلو صارفین، چھوٹے کاروباروں اور تجارتی اداروں کی طرف ہے جو مہنگی اور غیر یقینی سرکاری بجلی کے مقابلے میں سستی اور قابلِ اعتماد توانائی حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق سولر پر منتقلی اُن لوگوں اور کاروباروں کی بقاء کی کوشش ہے جو غیر مؤثر منصوبہ بندی اور غیر یقینی فراہمی کے باعث قومی گرڈ سے باہر ہوتے جا رہے ہیں، یہ پاکستان میں توانائی کی سوچ میں ایک بنیادی تبدیلی کی علامت ہے۔ صرف مالی سال 2024 میں ہی پاکستان کی سولر پینلز کی درآمدات ملک بھر میں بجلی کی کُل طلب کا تقریباً نصف بنتی ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اب قومی گرڈ کو اپنی اہمیت برقرار رکھنے کے لیے خود کو ڈھالنا پڑے گا کیونکہ موجودہ انفرااسٹرکچر اس تیز رفتار تبدیلی کے ساتھ قدم نہیں ملا پا رہا، اس منتقلی کو پائیدار اور منظم بنانے کے لیے نظام کی اپڈیٹڈ منصوبہ بندی ناگزیر ہے۔ صنعتی ماہرین کا کہنا ہے کہ اگرچہ ریگولیٹرز نے نیٹ میٹرنگ کی اجازت دی ہے اور درآمدات پر کچھ نرمی بھی کی گئی ہے، لیکن پاکستان کی سرکاری گرڈ سے منسلک سولر پیداوار اب بھی بہت کم ہے، جو ظاہر کرتی ہے کہ زیادہ تر نئی تنصیبات گرڈ سے باہر کام کر رہی ہیں اور قومی بجلی کے اعدادوشمار میں شامل نہیں ہو رہیں۔