خیبر پختونخوا کی یونیورسٹیوں کے چانسلر، بورڈز ارکان کی تقرری پر تتنازع کھڑا ہوگیا
اشاعت کی تاریخ: 9th, January 2025 GMT
جامعہ پشاور : فوٹو فائل
خیبر پختونخوا کی یونیورسٹیوں کے چانسلر اور بورڈز کے ارکان کی تقرری پر تتنازع کھڑا ہوگیا۔
گورنر سیکریٹریٹ کی جانب سے یونیورسٹیوں کو بھیجے گئے مراسلے میں سینیٹ، سنڈیکیٹ، سلیکشن بورڈ کےلیے چانسلر کے نمائندے اور ممبرز مقرر کر دیے گئے۔
محکمۂ اینٹی کرپشن خیبر پختون خوا نے مالی بےضابطگیوں میں ملوث سابق ہیلتھ افسر کو گرفتار کر کے ایف آئی آر درج کر لی۔
وزیر ہائر ایجوکیشن خیبر پختونخوا مینا خان نے گورنر کا اقدام غیر آئینی قراردیتے ہوئے کہا کہ گورنر کے پاس اس مراسلےکا اختیار نہیں، یونیورسٹیز بل گورنر کےدستخط کیلئے بھیجا گیا ہے، گورنر کہتے ہیں یہ منی بل نہیں، حالانکہ یہ منی بل ہی ہے، مراسلے میں دیے تمام نام پیپلز پارٹی اور گورنر کے دوست احباب کے ہیں۔
گورنر خیبر پختونخوا فیصل کریم کنڈی نے کہا کہ یونیورسٹیز میں نامزدگیاں اور تقرریاں نہ غیرقانونی ہیں نہ ہی غیر آئینی، مراسلہ یونیورسٹی ترمیمی بل سے پہلے کا ہے، پبلک اب ہوا ہے، آئین کے مطابق پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والوں کو نامزد کیا گیا۔
.ذریعہ: Jang News
کلیدی لفظ: خیبر پختونخوا
پڑھیں:
خیبر پختونخوا میں گداگری کی روک تھام کیلئے سخت قانون سازی کا فیصلہ
وزیر اعلیٰ سیکرٹریٹ کی طرف سے چیف سیکرٹری خیبرپختونخوا کو باضابطہ مراسلہ ارسال کیا گیا ہے جس میں "خیبر پختونخوا ویگرنسی کنٹرول اینڈ ری ہیبیلیٹیشن ایکٹ" کا مسودہ تیار کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ اسلام ٹائمز۔ وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین خان گنڈاپور نے صوبے میں بڑھتی ہوئی پیشہ وررانہ گداگری کے مسئلے کا نوٹس لیتے ہوئے پیشہ ور گداگری کی موثر روک تھام اور شہریوں کو محفوظ ماحول کی فراہمی کے لئے باقاعدہ قانون سازی کا فیصلہ کیا ہے۔ تفصیلات کے مطابق وزیر اعلیٰ سیکرٹریٹ کی طرف سے چیف سیکرٹری خیبرپختونخوا کو باضابطہ مراسلہ ارسال کیا گیا ہے جس میں "خیبر پختونخوا ویگرنسی کنٹرول اینڈ ری ہیبیلیٹیشن ایکٹ" کا مسودہ تیار کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ قانون سازی کا مقصد بچوں اور معذور افراد سے جبراً بھیک منگوانے کے عمل اور استحصال پر مبنی مجرمانہ سرگرمیوں کو کنٹرول کرنا ہے۔
مراسلے میں مجوزہ قانون سازی اور متعلقہ امور کے لیے سیکرٹری سوشل ویلفیئر کی سربراہی میں ملٹی ڈیپارٹمنٹل کمیٹی تشکیل دینے کی ہدایت کی گئی ہے اور واضح کیا گیا ہے کہ اس کمیٹی میں قانون، بلدیات، پولیس، چائلڈ پروٹیکشن کمیشن، ادارہ برائے اعداد و شمار، کمشنر و ڈپٹی کمشنر پشاور، این جی اوز اور سول سوسائٹی کی نمائندگی یقنی بنائی جائے۔ کمیٹی تیس دنوں کے اندر قانون کا مسودہ اور آپریشنل اینڈ انفورسمنٹ فریم ورک پیش کرے گی۔
مراسلے میں مزید ہدایت کی گئی ہے کہ مجوزہ قانون میں چائلڈ اینڈ فورسڈ بیگری، پیشہ ورانہ گداگری، وگرینسی اور دیگر سرگرمیوں کی واضح درجہ بندی کی جائے، بچوں، معذور اور نشے کے عادی افراد کو بھیک مانگنے کے لیے استعمال کرنے کے خلاف سزاوں کا تعین کیا جائے، نیز پیشہ ورانہ گداگری کو فروغ دینے والے گروہوں سے تعاون کرنے یا انہیں پناہ دینے کو جرم قرار دیا جائے۔
اسی طرح شہریوں کی نقل وحرکت میں رکاوٹ بننے یا انہیں ہراساں کرنے والے پیشہ ور بھکاریوں کے لیے بھی سزا کا تعین کرنے کی ہدایت کی گئی اور کہا گیا ہے کہ قانون کی خلاف ورزی کرنے والوں کی گرفتاری اور کیسز پراسس کرنے کے لیے پولیس، سوشل ویلفیئر اور لوکل گورنمنٹ کے نامزد افسران کو اختیار دیا جائے۔