گریٹر اسرائیل کے نقشے پر سعودی مؤقف امتِ مسلمہ کی ترجمانی ہے: حافظ طاہر محمود اشرفی
اشاعت کی تاریخ: 9th, January 2025 GMT
حافظ طاہر محمود اشرفی— فائل فوٹو
چیئرمین پاکستان علماء کونسل حافظ طاہر محمود اشرفی نے کہا ہے کہ گریٹر اسرائیل کے نقشے کے معاملے پر سعودی عرب کا مؤقف امتِ مسلمہ کی ترجمانی ہے۔
اپنے ایک بیان میں حافظ طاہر محمود اشرفی نے کہا کہ اسرائیل کی جانب سے گریٹر اسرائیل کا نقشہ جاری کرنا عالمی امن کو تباہ کرنا ہے، اسلامی تعاون تنظیم گریٹر اسرائیل کا نقشہ جاری کرنے پر فوری اجلاس طلب کرے۔
انہوں نے کہا کہ امتِ مسلمہ مسئلہ فلسطین اور اسرائیل سے متعلق سعودی عرب کے مؤقف کے ساتھ ہے۔
سعودی عرب نے اسرائیلی نقشے کی سختی سے مذمت کرتے ہوئے اسے مسترد کر دیا۔
واضح رہے کہ سعودی عرب نے اسرائیلی نقشے کی سختی سے مذمت کرتے ہوئے اسے مسترد کر دیا ہے۔
اس حوالے سے سعودی وزارتِ خارجہ کی جانب سے کہا گیا ہے کہ اسرائیل نے نام نہاد گریٹر اسرائیل کے متنازع نقشے جاری کیے ہیں۔
سعودی وزارتِ خارجہ نے کہا کہ ایسے بے بنیاد اور انتہا پسند اقدامات اسرائیلی حکام کے غاصبانہ ارادوں کو ظاہر کرتے ہیں۔
سعودی وزارتِ خارجہ کے مطابق ایسے اقدامات قبضے کو مستحکم کرنے، ریاستوں کی خود مختاری پر حملے اور عالمی قوانین کی خلاف ورزی کے ارادوں کا اظہار کرتے ہیں۔
.ذریعہ: Jang News
پڑھیں:
ہماری حکومت سمیت تمام اسلامی حکومتوں پر جہاد اب فرض ہوچکا ہے، مفتی تقی عثمانی
اسلام آباد میں قومی فلسطین کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مفتی تقی عثمانی نے کہا کہ تقاضا یہ تھا کہ ہم یہاں جمع ہونے کی بجائے غزہ میں جمع ہوتے، ستم ظریفی یہ ہے کہ ہم فلسطینی مجاہدین کےلیے عملی طور پر کچھ نہیں کر پا رہے۔ اسلام ٹائمز۔ اسلام آباد میں منعقدہ قومی فلسطین کانفرنس کے اختتام پر جاری اعلامیے میں علماء نے متفقہ طور پر فلسطین کی آزادی اور غاصب صہیونی ریاست کے خلاف جہاد فرض قرار دیا ہے۔ کانفرنس میں تمام مکاتب فکر کے علما، اسلامی تحریک مزاحمت حماس کی قیادت اور شہریوں کی کثیر تعداد نے شرکت کی۔ کانفرنس سے خطاب میں معروف عالم دین مفتی تقی عثمانی کا کہنا ہے کہ ہماری حکومت سمیت تمام اسلامی حکومتوں پر جہاد اب فرض ہوچکا ہے، امت مسلمہ اسرائیل کیخلاف قرارداوں، کانفرنسوں کے بجائے جہاد کا اعلان کرے۔
اسلام آباد میں قومی فلسطین کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مفتی تقی عثمانی نے کہا کہ تقاضا یہ تھا کہ ہم یہاں جمع ہونے کی بجائے غزہ میں جمع ہوتے، ستم ظریفی یہ ہے کہ ہم فلسطینی مجاہدین کےلیے عملی طور پر کچھ نہیں کر پا رہے، اہل فلسطین کی عملی، جانی اور مالی مدد امت مسلمہ پر فرض ہے۔ مفتی تقی عثمانی نے کہا کہ 55 ہزار سے زائد کلمہ گو کو ذبح ہوتے دیکھ کر بھی کیا جہاد فرض نہیں ہوگا؟ پاکستان نے اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا، بانی پاکستان نے اس کو ناجائز بچہ قرار دیا۔
ان کا کہنا تھا کہ ہمارا موقف کسی صورت تبدیل نہیں ہوگا چاہے اسرائیل کے پاس جتنی مرضی طاقت آجائے، ہمارا اسرائیل کے ساتھ جب کوئی معاہدہ نہیں تو کوئی عذر نہیں، جب اسرائیل معاہدے توڑ چکا ہے تو پھر کون سے معاہدے کی قید ہے؟، امت مسلمہ قبلہ اوّل کی حفاظت کےلیے لڑنے والے مجاہدین کی کوئی مدد نہیں کر سکی، آج امت مسلمہ قراردادوں اور کانفرنسوں پر لگی ہوئی ہے، ہونا تو یہ چاہیے کہ امت مسلمہ جہاد کا اعلان کرتی، فلسطین میں جنگ بندی کا معاہدہ ہوا، معاہدہ کے باوجود بمباری جاری ہے، اسرائیل کو نہ اخلاقی اقدار کا پاس ہے نہ ہی عالمی قوانین کی قدر ہے۔