پی ٹی آئی کے 200 گرفتار مظاہرین کی ضمانت کی استدعا
اشاعت کی تاریخ: 9th, January 2025 GMT
---فائل فوٹو
اسلام آباد کی انسدادِ دہشت گردی کی عدالت نے ڈی چوک احتجاج کے دوران گرفتار 200 مظاہرین کی درخواستِ ضمانتوں پر سماعت کی۔
اسلام آباد کی انسدادِ دہشت گردی کی عدالت کے جج ابوالحسنات ذوالقرنین نے گرفتار مظاہرین کی درخواستوں پر سماعت کی۔
وکیلِ صفائی انصر کیانی نے عدالت میں مؤقف اختیار کیا کہ ایک مقدمے کے مطابق فائر ہوا جو پولیس اہلکار کی چھاتی پر لگا۔
جج ابو الحسنات ذوالقرنین نے استفسار کیا کہ فائر کس کو لگا؟ کس نے مارا؟
وکیلِ صفائی انصر کیانی نے عدالت کو بتایا کہ یہ نہیں بتایا گیا کہ کس نے فائر کیا، کس کو لگا، کیس کے مطابق مظاہرین نے ایک پولیس ملازم سے لاکھوں روپے چھینے، اب پولیس ملازم ڈیوٹی پر آیا تو پیسے ساتھ لے کر آیا تھا، جو مذاق ہے۔
انہوں نے اپنے دلائن میں کہا کہ تمام کیسز تقریباً ایک جیسے ہی ہیں اور کوئی بھی ملزم نامزد نہیں ہے، ہر کیس میں سیاسی قیادت کو نامزد کیا گیا، کسی کارکن کو نامزد نہیں کیا گیا، مدعیٔ مقدمہ کوئی عام آدمی نہیں بلکہ ایس ایچ اوز ہیں جو کیسز سے بخوبی واقف ہیں۔
بعد ازاں انصر کیانی نے عدالت سے استدعا کی کہ بے گناہ کارکنوں کو اٹھایا گیا ہے، ضمانتیں منظور کی جائیں۔
.ذریعہ: Jang News
پڑھیں:
کراچی، ڈمپر جلانے کے مقدمات میں گرفتار 4 ملزمان جوڈیشل ریمانڈ پر جیل روانہ
عدالت نے ریمارکس دیئے کہ ریمانڈ پیپر کے مطابق ملزمان نے پہلے پاور ہاؤس چورنگی پر ایک ڈمپر کو آگ لگائی اور پھر اسی وقت دوسرے ڈمپر کو ڈیڑھ کلو میٹر کے فاصلے پر جلایا، کیا ایسا ممکن ہے؟ ایک ہی وقت میں ملزمان 2 جگہوں پر کیسے ہو سکتے ہیں؟ کیا یہ سپر مین ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ شہر قائد کی انسداد دہشتگردی کی منتظم عدالت نے 2 ڈمپرز جلانے کے 2 مقدمات میں 4 ملزمان کو جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا۔ تفصیلات کے مطابق سینٹرل جیل کراچی میں انسداد دہشتگردی کمپلیکس میں منتظم عدالت کے روبرو نیو کراچی پولیس نے 2 ڈمپر جلانے کے مقدمات میں 4 ملزمان کو پیش کیا، جن میں سید فردین، محمد منیب، محمد فہد اور محمد معاذ صدیقی شامل ہیں۔ دورانِ سماعت تفتیشی افسر نے ملزمان کے جسمانی ریمانڈ کی استدعا کی۔ عدالت نے ریمارکس دیئے کہ ریمانڈ پیپر کے مطابق ملزمان نے پہلے پاور ہاؤس چورنگی پر ایک ڈمپر کو آگ لگائی اور پھر اسی وقت دوسرے ڈمپر کو ڈیڑھ کلو میٹر کے فاصلے پر جلایا، کیا ایسا ممکن ہے؟ ایک ہی وقت میں ملزمان 2 جگہوں پر کیسے ہو سکتے ہیں؟ کیا یہ سپر مین ہیں۔ تفتیشی افسر انسپکٹر سفیان نے کہا کہ ٹائپنگ کی غلطی ہوگئی ہے، میں ٹھیک کر دیتا ہوں۔ تفتیشی افسر کی جانب سے عدالت مطمئن نہیں ہوئی، جس پر عدالت نے تحریری حکم نامے میں کہا کہ پولیس نے ملزمان کیخلاف کوئی ٹھوس شواہد نہیں دیئے، جس کی بنیاد پر جسمانی ریمانڈ دیا جا سکے۔ عدالت نے ملزمان کو جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا۔ ملزمان کے خلاف نیو کراچی تھانے میں مقدمات درج کیے گئے ہیں۔